مودی، جن پنگ بائی بائی : ہندی، چینی کھائی کھائی

ڈاکٹر سلیم خان
ایوانِ پارلیمان میں رکنیت کی بحالی کے بعد خود کو عام آدمی ثابت کےلیے راہل گاندھی کھیت اور کارخانوں کے چکر لگانےلگے۔عصرِ حاضر میں اس طرح خبریں بنتی ہیں اور تصویروں کے چھپنے سے شہرت ملتی ہے۔ اس لیے مختلف ویڈیوز میں وہ کسانوں اوررکشا چلانے والوں کے من کی بات سنتے نظر آتے رہے ۔ موجودہ سیاست میں اس طرح کی ڈرامہ بازی لازمی ہوگئی ہے۔ اس مشق کے بعد نہ جانے کیوں راہل گاندھی لداخ کی جانب نکل گئے اور وہاں موٹر سائیکل پر سیر وسیاحت کرنے لگے۔لداخ کے اندر بھی مختلف مقامات پر رک کر وہ عام لوگوں سے بات چیت کرتے اور ان کے سوالات کا جواب دیتے نظر آئے۔سیاسی مبصرین پریشان تھے کہ ملک پانچ صوبوں میں انتخاب ہونے والے ہیں۔ ان میں سے دو میں کانگریس کی حکومت ہے جن کو بچانا راہل کی ذمہ داری ہے ۔ دو ریاستوں میں وہ اقتدار میں آسکتی ہے۔ وہاں پارٹی کو کامیاب کرنا ان کا فرض منصبی ہے۔ اسے چھوڑ کر وہ لداخ میں کیوں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں؟ وہاں پر چین کے قبضے کی بات کرکے ملک کو بدنام کرنے سے کیا حاصل ؟
راہل گاندھی جس وقت لداخ میں تھے اسی زمانے میں وزیر اعظم نریندر مودی برکس کی کانفرنس میں شریک ہونے کی خاطر جوہانسبرگ گئے ہوئے تھے۔ وہاں پر اس بات کا امکان تھا کہ مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات ہوگی اور وہ ایسا ہوا لیکن اس تعلق سے متضاد خبریں آئیں۔ اس نشست کا انکشاف پہلے چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمس نےکیا اور اس کے بعد ہندوستان کے وزیر خارجہ جئے شنکر نے اس کی تائید کی لیکن دونوں بیانات میں ایک واضح فرق تھا ۔ گلوبل ٹائمس کے مطابق مذکورہ میٹنگ کی درخواست ہندوستان کی جانب سے کی گئی تھی جبکہ جئے شنکر کے مطابق اس کی استدعا چین نے کی تھی۔ اب اس معاملہ میں وضاحت تو وزیر اعظم مودی کی جانب سے آنی چاہیے لیکن وہ تو ایک ’پتی ورتا بھارتیہ ناری ‘(سعادتمند ہندوستانی زوجہ) کی مانند چین کا نام اپنی زبان پر لانے کو مہا پاپ سمجھتے ہیں ۔ اس لیے گلوان پر وضاحت کے لیے وزیر دفاع کو لایا جاتا ہے تو وہ بھی کانپ رہے ہوتے ہیں ۔ آگے چل کر مودی جی اعلان فرما دیتے ہیں کہ ’نہ کوئی آیا تھا نہ آیا ہے اور نہ آئے گا‘ ۔وزیر اعظم کی کذب گوئی تو چین کے ساتھ سرحدی تنازع پر گفتگو سے سامنے آجاتی ہے جس میں ہندوستان کی جانب سے اپنا علاقہ خالی کرانے کی بات ہوتی اور انیس نشستوں کے بعد ہمارے فوجی سربراہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہ گفت و شنید کے ذریعہ اپنا دوہزار کلومیٹر کا علاقہ خالی کرانے میں ناکام رہے ۔ یہی بات راہل گاندھی لداخ دورے پر کہتے رہے۔
مودی اور جن پنگ میٹنگ میں ’پہلے وہ پہلےوہ ‘ تنازع کے بعد ایک تصویر نے ہنگامہ کھڑا کردیا کہ جس میں پنگ بیٹھے ہوئے ہیں اور مودی جی کھڑے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ پورے ملک کی توہین تھی کہ ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے اور وہ اسے برداشت کرکے خاموش رہیں یعنی لال آنکھیں نہیں دکھائیں۔ اس کے بعد یہ خبر بھی آئی کہ وزیر اعظم مودی کے خطاب سے قبل جن پنگ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے گویا بائیکاٹ کردیا ۔ یہ عجب چوری اور سینہ زوری ہے کہ ایک تو چین ہماری زمین ہتھیا لیتا ہے۔ حکومت ہند اس پر اُف تک نہیں کہتی اس کے باوجود ایسی بدسلوکی کی جاتی ہے ۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے اور ہم سے کیا چاہتا ہے؟ اب تو یہ خبر بھی آگئی ہے جن پنگ جی ٹوینٹی میں نہیں آرہے ہیں۔ پوتن نے بھی آنے سے انکار کردیا ہے حالانکہ جنوبی افریقہ کی مانند ہندوستان میں انہیں گرفتاری کا خطرہ بھی نہیں ہے۔ صحت کی دقت بھی نہیں ہے کیونکہ وہ چین جارہے ہیں۔ ایسے مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
چین کے ذریعہ ہندوستان کی توہین کا تازہ شوشا اس کی جانب شائع کیا جانے والا نقشہ ہے۔ اس نقشے کے اندر اروناچل پردیش کے ساتھ ساتھ اکسائی چین بھی موجود ہوگا۔چین نے اسی اکسائی چین پر اپنا دعوی پیش کیا ہے جس کے لیے وزیر داخلہ نے ایوان پارلیمان کے اندر جان لڑانے کی بات کہی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ نئے نئے وزیر داخلہ بنے تھے ۔ دنیا کو یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ ولبھ بھائی پٹیل اور لال کرشن اڈوانی سے زیادہ دلیر وزیر داخلہ ہیں۔ اس چکر میں انہوں نے ایک بہت بڑا دعویٰ تو ٹھونک دیا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جان لڑانے والے جملہ بازی نہیں کرتے۔ فی الحال چینی نقشے کی بابت جان لڑانا تو دور وہ ایک ٹویٹ کرنے کی جرأت بھی نہیں کرپارہے ہیں۔کل یگ دھرت راشٹر وزیر اعظم بھی اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ نہ تو چین کے نقشے میں اروناچل پردیش شامل ہوا تھا ، نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا کیونکہ وہ نقشہ انٹر نیٹ پر موجود ہے ۔ ہاں اگر کوئی آنکھ موند لے تو اور بات ہے۔ مودی جی چین کے صدرکواپنی سرخ آنکھیں دکھانے کے بجائے چینی سفیر کو ہی بلا کر استفسار فرمالیں یا احتجاجاًاس کا بوریا بستر گول کردیں تو یہ کافی ہے لیکن مودی جی سے یہ نہیں ہوگا ۔ کوئی سربراہِ مملکت اگرا س کام کو نہ کرسکے جس کی وہ تنخواہ لیتا ہو تو ایسے لوگوں کے لیے مرحوم ارتضیٰ نشاط نے کیا خوب کہا ہے؎
کرسی ہے کوئی جنازہ تو نہیں ہے کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
چین کے اس اقدام نے نادانستہ طور پر راہل گاندھی کی من مراد پوری کردی اور ان کے لداخ کے دورے کو کامیاب کردیا ۔ ویسے جموں کشمیر کے مسئلہ پر عدالت عظمیٰ آئے دن حکومتِ ہند سے سخت سوالات کررہی ہے۔ وہ جاننا چاہتی ہے کہ جموں کشمیر کا صوبائی رتبہ کب بحال ہوگا؟ وہاں انتخابات کب تک ہوجائیں گے؟ اور شمال مشرقی صوبوں کو حاصل خصوصی حیثیت کا کیا ہوگا ؟ اس طرح مودی سرکار کے آگے چین ، پیچھے منی پور، دائیں طرف بیروزگاری اور بائیں جانب مہنگائی ہے۔ ان سے پریشان ہوکر مودی سرکار نے گیس سلنڈر کی قیمت کم کردی تو اس کا کریڈٹ بھی انڈیا نامی وفاق کو چلا گیا۔ لوگ کہنے لگے چونکہ بی جے پی کے ووٹ گھٹنے لگے اس لیے اسے مہنگائی کو گھٹانے کا خیال آیا۔ اس طرح چہار جانب سے گھری ہوئی سرکار کے سر پر جب عین ’انڈیا‘ کے اجلاس سے قبل اڈانی کی مصیبت ٹوٹی تو اس کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی۔ راہل گاندھی اپنی پریس کانفرنس میں سارے مدعوں کو چھوڑ چھاڑ کر اڈانی پر پل پڑے اور مودی جی ایسے تیکھے سوالاے کرڈالے جن کا جواب ان کے فرشتوں کے پاس بھی نہیں ہے۔
فی الحال چارمسائل بہت ابھر کر سامنے آگئے ہیں ۔ ان میں سب سے اہم مہنگائی ہے۔ مودی سرکار نے اس خوف سے کہ لوگ سڑے ہوئےٹماٹروں سے اس کا استقبال نہ کریں ٹماٹر کی قیمت ڈھائی سو روپئے تک پہنچا دی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غصے سے لال ٹماٹر عوام نے اس سبزی کے بجائے مرغ و ماہی کا رخ کر لیا ۔ اب ٹماٹر بکنا بند ہوئے تو سڑنے لگے۔ ان کو پھینکا گیا تو لوگوں نے اپنے پاس جمع کرکے رکھ لیا اور انتظار کررہے ہیں کہ جب ’بہت ہوئی مہنگائی کی مار ، اب کی بار مودی سرکار‘ کا نعرہ لگانے والے آئیں گے تو ان کاخیر مقدم انہیں ٹماٹروں سے کیا جائے گا اور ایسی مار ماری جائے گی کہ وہ چاند پر جانے کے لیے چندرایان کی تلاش میں نکل پڑیں گے کیونکہ مودی جی تو فرما ہی چکے ہیں اب چندا ماما دور کے نہیں بلکہ بس ایک ٹور ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ ٹور پر جانے والے کو لوٹ کر اپنےگھر آنا پڑتا ہے۔ مہنگائی کا احساس تو مودی سرکار کو ہوگیا اس نے گیس کا بھاو تو کم کردیا مگر چولہے پر پکانے کے لیے اناج ابھی سستا نہیں ہوا اس لیے سستے گیس سے کیا وہ پتھر ابال کر کھائیں گے ۔ لوگ یہ توقع کررہے ہیں کہ جب بی جے پی پر ’انڈیا‘ کا دباو مزید بڑھے گا تو دوسری چیزیں اور بھی سستی ہوں گی ۔ اس لیے وہ ’انڈیا‘ کو طاقتور کرنا چاہتے ہیں ۔ یعنی مودی جی کے مجبوری میں کیے جانے والے اقدامات کا فائدہ ان کے مخالفین کو ہونے لگا ہے۔
دوسرا اہم ترین مسئلہ چین اور منی پور کا ہے اور آخری اڈانی کی بدعنوانی بھی سنگین معاملہ ہے۔ اب میڈیا کو چاہیئے کہ وہ ’انڈیا‘ الائنس سے یہ پوچھے کہ کہ اس کے پاس مہنگائی اور بیروزگاری کو دور کرنے کا طریقہ ہےیعنی وہ اس کام کو کیسے کرے گا؟ اسی طرح انڈیا کے رہنماوں سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ منی پور کے تشدد کو چار ماہ ہوچکے ہیں ۔ وہاں اب بھی قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے۔ ان کو اگر اقتدار مل جائے تو وہ امن و امان قائم کرنے کے لیے کیا اقدامات کریں گے؟ میڈیا کا تیسرا سوال یہ ہونا چاہیے کہ مودی تو چین کو آنکھیں دکھانے سے قاصر ہیں ،اگر وہ لوگ سرکار بنالیں گے تو اس خطرناک پڑوسی سے کیسے نمٹیں گے ؟ نیز یہ استفسار بھی ہونا چاہیے کہ آخر اڈانی کی لوٹ مار کو کیسے بند کیا جائے گا؟ لیکن ان سوالات سے مودی سرکارکی ناکامی کھل کر سامنے آجاتی ہے اس لیے پوچھا جارہا ہے ’انڈیا ‘ کا چہرا کون ہے؟ نشستوں کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے سوالات کرکے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بی جے پی کا این ڈی اے بھی پینتیس جماعتوں پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں نے مودی کو اپنا چہرا کیسے بنایا اور وہ نشستیں کیسے تقسیم کریں گے؟ یہ سوال کوئی نہیں کرتا کیونکہ اس سے ملازمت سے ہاتھ دھونے کا خطرہ ہے مگر سچائی تو یہ ہے عوام نے این ڈی اے سمیت اس میڈیا سے چھٹکارہ پانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور الیکشن کےانتظار میںآنکھ دکھانے والی بی جے پی کہہ رہے ہیں ؎
ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا ہوا سے پوچھ کے کوئی دیئے جلاتا ہے کیا
Comments are closed.