جو دل سے دل جلاتے ہیں وہی استاد ہوتے ہیں

ایس ملکہ بصری
متعلمہ نتیشور کالج مظفرپور
مختلف ممالک میں یوم اساتذہ مختلف ایام میں منایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں یوم اساتذہ پانچ ستمبر کو ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشن کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی میں استاد کا کردار بہت ہی اہم ہوتا ہے. جرمنی میں اساتذہ کو سب سے زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے اس پر جب اعلی عہدوں پر فائز افسران نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا تو جرمنی کے چانسلر نے جواب دیا کہ میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کروں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔
والدین اپنے بچوں کی معیاری پرورش کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں جبکہ ایک استاد زندگی کی روشنی بن کر نئی راہ دکھاتا ہیں۔ اساتذہ کے قدر و قیمت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین تو تھے مگر کوئی استاد نہیں تھا۔ استاد کا مقام بعض اعتبار سے والدین سے بھی بلند ہے.
استاد کی عزت اور ان کا احترام ہم اپنا فریضہ سمجھ کر کریں۔ اج استاد اور طالب علم کا رشتہ اتنا پختہ نہیں ہے جتنا ہونا چاہیے استاد سے رشتہ ڈر اور خوف کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے اگر اس رشتہ میں ڈر اور خوف حائل ہو جائے تو ہم تعلیم تو حاصل کر لیں گے مگر تعلیم کے اصل مقاصد سے سرفراز نہیں ہو پائیں گے۔ میں استاد بنا کر بھیجا گیا ہوں. یہ الفاظ دنیا کے اس عظیم ترین شخصیت کے ہیں جس نے انسانیت کی تعلیم دی ہے. بلا شبہ سب سے عظیم استاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کے اس فرمان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استاد اور علم کی کتنی اہمیت ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام تعلیم کے ساتھ زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں پوچھتے اور اس پر عمل کرتے۔ استاد طلبہ کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہوتے ہیں جو انہیں اگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے میں تعاون فراہم کرتے ہیں. استاد طلبہ کو بہت حوصلہ مند بناتے ہیں اور انہیں اعتماد اور عزم کے ساتھ اپنی زندگی کے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ استاد اپنے طلبہ کے نشونما میں نمایا کردار ادا کرتے ہیں. اساتذہ کی بنائے ہوئے راہ پر چلنے سے ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں. استاد کی تعظیم و احترام شاگرد پر لازم ہے کہ استاد کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے اور ادب کے بغیر علم تو شاید حاصل ہو جائے مگر فیضان علم سے یقینا محرومی ہوتی ہے اسے یوں سمجھنا چاہیے ”با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب”
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگر ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں
ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن اور پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے. آج اکثر و بیشتر لوگ مایوسی کے شکار ہیں اگر استاد مایوس رہیں گے تو وہ اپنے طلبہ میں بھی وہی چیز ڈالیں گے. استاد جیسی زندگی گزارتے ہیں وہی زندگی اپنے طلبہ کو دیں گے. ایک استاد کو صالح خیالات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ہمارے نبی کو کتنی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا. آپ سب کچھ فراخ دلی کے ساتھ برداشت کرتے رہے. جو ہم سب کے لیے رحمت اللعالمین ہیں۔ ایک استاد کو بھی بہت ساری مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے مسلسل جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہمارے استاد اپنی مشکل بتاتے اور کہتے ہیں کل کو اپ پر بھی یہ مشکلات آسکتی ہے کہیں اپ بھی استاد بنیے گا تو اپ کو مایوس نہیں ہونا ہے اپنا راستہ خود نکالنا ہے استاد صرف علم ہی نہیں سکھاتے زندگی سے بھی ہم اہنگ کرتے ہیں۔ جسے بہتر استاد مل گیا اس نے زندگی کو پا لیا استاد زندگی کا زیور ہے انے والے وقت کا آئینہ ہے طلبہ کو تیار کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لینے کا جزبہ استاد ہے۔ آج چندر ریان پر اگر کسی نے کامیابی حاصل کی ہے تو یہ دراصل اساتذہ کی ہی محنت کا نتیجہ ہے. استاد ہماری زندگی میں اتنے ہی ضروری ہیں جتنا سانس لینا ہمارے لیے ضروری ہے استاد کے بغیر ہماری زندگی تاریکیوں میں ہے۔۔

سبق پڑھ کر پڑھا دینا ہنر ہے عام لوگوں کا
جو دل سے دل جلاتے ہیں وہی استاد ہوتے ہیں

1۔ استاد بنیاد کی وہ اینٹ ہے جو پوری عمارت کا بوجھ اٹھاتی ہے مگر کسی کو نظر نہیں آتی۔
2۔ استاد معاشرے کا نمک ہے جو تھوڑی مقدار میں ہونے کے باوجود ذائقہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے
3۔ استاد وہ شمع ہے جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتی ہے ۔۔۔
4۔ استاد شعور ذات کے سفر میں رہنمائی کرنے والا اور علم و دانش کا رکھوالا ہے ۔
ایک اچھے استاد کی دلی خواہش طلبہ کی کامیابی ہوتی ہے اس لئے طلبہ کو چاہئے کہ محنت و لگن کے ساتھ اپنی منازل طے کریں ۔ یوم اساتذہ کو استاد کی باتوں پر کئے گئے عمل کا احساس دلا کر خلوص محبت کے ساتھ یہ تحفہ دیا جا سکتا ہے
استاد۔۔۔۔۔ محبت و ایثار کا جزبہ ہے

Comments are closed.