معمار قوم اساتذہ کے نام!

 

مفتی اسجد الله قاسمي

 

ہماری درس گاہ میں جو یہ استاد ہوتے ہیں

حقیقت میں یہی تو قوم کی بنیاد ہوتے ہیں

 

انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گذارتا ہے وہ نت نئے رشتوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خونی ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روحانی، اخاقی اور معاشرتی طور پر بنتے ہیں۔ انہی میں سے ایک روحانی رشته استاد وشاگرد کا ہے۔ استاد کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے۔ اسلام میں استاد کا درجہ والدین کے برابر قرار دیا گیا ہے۔کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہی ہے۔ کیونکہ استاد ہی وہ شخصیت ہے جو ہمیں دنیا کے نشیب وفراز سے آگاہ کرتے ہیں اور قدم بقدم پر کرہ ارض پر جینے اور زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔

 

معلّم انسانیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استاد اور صحابہ کرام شاگرد ہیں۔صحابہ جو کچھ حضور اکرم سے حاصل کیا اسے تمام تر جدوجہد کے ساتھ دوسروں تک پہنچا دیا۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے” پیغمبر تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور تمہیں وہ سب کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے”

 

“احادیث نبویہ میں استاد کو ایک اعلیٰ وارفع مقام دیا گیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”

 

ہمارا معاشرہ سال کے جن ایام کو خصوصی اہمیت دیتاہے ان میں سےایک یومِ اساتذہ بھی ہے، جو 5 ستمبر کو ہر سال پورے ملک میں بہت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایاجاتاہے۔ اس موقع پر جلسے، مذاکرے اور اس نوعیت کے مختلف رنگا رنگ پروگراموں کا انعقاد کرکے ایک قابل احترام اور مقدس پیشہ میں مصروف اساتذہ کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتاہے۔

 

ہم سب جانتے ہیں کہ یہ یادگار دن یعنی ٹیچرس ڈے ہندوستان کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے یوم ِ پیدا ئش پر منایا جاتاہے۔ آپ ایک استاذ کی حیثیت سے ترقی کرکے صدر جمہوریہ کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ خود کو استاد کہلانا پسند کرتے تھے۔ وہ نہایت منکسر المزاج تھے۔ ان کا لباس سفید کوٹ، پگڑی اور دھوتی ہوا کرتاتھا۔ وہ اپنے طلبا میں اتنے مقبول تھے کہ یونیورسٹی سے رخصت ہونے پر طلبا ایک گھوڑا گاڑی کو سجا کر لائے، اس میں انہیں سوار کرکے گھوڑوں کے بجائے اپنے کاندھوں پر کھینچ کر اسٹیشن لے گئے اور نمناک آنکھوں کے ساتھ عزت و احترام سے رخصت کیا۔

 

آج ہم یقیناً یوم ِاساتذہ تزک و احتشام کے ساتھ مناتے ہیں، اساتذہ کی حالت ضرور بہتر ہوئی ہے، ان کی ہر طرح مادی ترقی بھی ہوئی ہے مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے، اس کا دوسرا پہلو اتنا ہی دھندلا اور قابل غور ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ استاد و شاگرد کا مستحکم رشتہ جو پہلے تھا وہ اب کافی کمزور ہوچکاہے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب استاد کو شخصیت ساز اور معمارِ قوم تصور کیا جاتاتھا اور حاکم ِ وقت بھی اپنے استاد کے احترام میں سرجھکا دیتے تھے۔ سکندر ِ اعظم کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر کررہے تھے، راستے میں ایک دریا آیا تو دونوں میں یہ مشورہ ہوا کہ پہلے پانی میں اتر کر کون اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے۔ سکندر اعظم کی ضد تھی کہ دریا کی گہرائی ناپنے کا اسے موقع دیا جائے۔ ارسطو نے سکندر کو اس سے باز رکھتے ہوئے کہاکہ میں تمہار ا استاد ہوں، تمہیں میری بات ماننی ہوگی۔ پانی میں پہلے میں اتروں گا۔ سکندر نے برجستہ جواب دیا کہ استاذ محترم اس عمل میں آپ کی جان بھی جاسکتی ہے۔ لہذا میں ہرگز یہ گوارہ نہیں کروں گا کہ دنیا آپ جیسے لائق و فائق استاد سے محروم ہوجائے۔ کیوں کہ سیکڑوں سکندر مل کر بھی ایک ارسطو پیدا نہیں کرسکتے، جب کہ ایک ارسطو سیکڑوں کیا ہزاروں سکندر پیدا کرسکتاہے۔ سکندر کا یہ قول بھی بہت مشہور ہے کہ میرے والدین نےمجھے آسمان سے زمین پر اتارا جب کہ میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا۔

 

اساتذہ کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب نے اللہ کے حقوق کے ساتھ والدین اور استاد کے حقوق واحترام ادا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ایک بچہ کی تربیت میں جو حصہ ماں ادا کرتی ہے ، وہی بعد میں ایک استاد نبھاتاہے۔ استاد صرف نصاب تعلیم نہیں پڑھاتا وہ شخصیت سازی (Personality Development)کاکام بھی کرتاہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت (Training) بھی دیتاہے۔ آج کا بچہ کل کا مثالی شہری (Ideal Citizen) بنے گا۔ اسے پہلا سبق اپنے اساتذہ سے ہی لینا پڑتاہےاور ان کی نگرانی میں ہی بچہ جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتاہے۔ اُسے اپنے اساتذہ سے صرف نصابی علم نہیں ملتا بلکہ اخلاق، تہذیب و ثقافت کابھی درس ملتاہے۔ استاد کے بغیر تعلیم کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ وہ زندگی کے تمام معاملات میں ایک بہتر گائیڈ کا کام کرتے ہیں اور زندگی کے ہر موڑ پر امید کی کرن ثابت ہوتے ہیں۔

 

اسی لئے آج کا ہمارا تعلیمی نظام چار عناصر پر قائم ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارہ میں ان چار عناصر کی بہتر ترتیب اور خوبصورت تال میل سے ہی اچھے اور خاطرخواہ نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ چار عناصر اساتذہ، طلبا، گارجین اور انتظامیہ ہوتے ہیں، یعنی ایک استاد کا اپنے شاگردوں، ان کے سرپرستوں اور اراکین انتظامیہ تینوں سے تعلق اور عمدہ رابطہ رہنا چاہئے۔ خاص طورسے استاد اور شاگرد، معلم اور متعلم یعنی ٹیچر اور اسٹوڈنٹ کے رشتے كو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ افسوس یہ ہے کہ دورِ جدید میں اس پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ نظامِ تعلیم میں کسی اصلاح سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ استاد اور شاگرد کے رشتے میں آج بگاڑ کیوں پیدا ہواہے، گرہیں کہاں پڑگئی ہیں؟ الجھاؤ کہاں ہے اور عقدہ کشائی کی صورت کیا ہوگی۔ ماضی میں یعنی قدیم تعلیمی نظام میں استاد و شاگرد کا رشتہ کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا۔ چاہے رشی منیوں کی پاٹھ شالائیں ہوں یا صوفی سنتوں کی خانقاہیں اور دینی درس گاہیں ہوں۔ ان کا روحانی و اخلاقی نظام ہی تعلیم و تدریس کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ تجربہ تو جدید تعلیمی اداروں میں نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ وقت اور حالات کے ساتھ اب ماحول میں بہت فرق آگیا ہے۔

جدید تعلیمی نظام اور نظرئیے پر غور وفکر سے قبل ان پر اثر انداز ہونے والے سیاسی، سماجی اور معاشی محرکات پر بھی نگاہ ڈالنی ضروری ہے۔

 

انیسویں صدی کے اواخر میں یورپ میں ایک صنعتی انقلاب آیا جو ساری دنیا پر اثر انداز ہوا۔ اس انقلاب کے نتیجہ میں مادیت اور لادینیت کا وہ سیلاب آیا کہ ہماری بہت سی اخلاقی و روحانی قدریں برباد ہوگئیں۔ قدیم تہذیبی بساط ہی الٹ گئی ۔ ظاہر ہے کہ ہمارا قدیم تعلیمی نظام بھی بدلا اور اسی کے ساتھ استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی متاثر ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ جو محبت اور تعظیم کا رشتہ تھا جو خلوص وايثار اور بنیادی تعلق پر مبنی تھا، وہ کاروباری سطح پر آگیا۔ جب ساراماحول مادیت سے متاثر ہوا تو متعلم بھی یعنی ایک طالب علم کی سوچ یہ ہوئی کہ میں نے اسکول کالج میں داخلہ لیا ہے، فیس اداکرتاہوں۔ اس لئے مجھے حق ہے کہ میں کلاس روم میں بیٹھوں اور لکچر سنوں۔ میں کسی استاد کا مرہون منت اور احسان مند نہیں ہوں اور دوسری طرف معلم یعنی استاد بھی اسی ماحول کی پیداوار ہیں۔

 

ہم سب علم محض اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ کسبِ معاش کرسکیں۔ جس کی وجہ سے علم کے لئے جو ایک لگن اور پیاس ہونی چاہئے وہ باقی نہیں رہی۔ نتیجہ میں کسی بھی متعلم کو مضمون پر کامل دسترس نہیں ہوتی اور نہ ہی اسکے تئیں فکر کی جاتی ہے اور ایسے میں استاد اپنے عیوب چھپانے کے لئے علم وفضلیت کے لبادے اوڑھے اپنے شاگردوں کو ایک فاصلے پر رکھتاہے۔ طلباء سوال پوچھتے ہیں تو وہ انہیں دباتاہے اور رعب جماتاہے۔ ایسی صورت میں تو شاگردوں کی زبانیں چپ ہوجاتی ہیں مگر ان کے چہرے صاف بول رہے ہوتے ہیں کہ یہ آپکی شخصیت کے لئے زیبا نہ تھا۔ پھر ان کے دل میں استاد کے لئے محبت و تعظیم باقی نہیں رہتی ۔ چنانچہ شاگرد یہ سمجھتا ہے کہ میں نے فیس ادا کی ہے اور میں پڑھتا ہوں، استاد کا مرہون منت نہیں ہوں دوسری طرف استاد بھی پیشہ ور ہوگیا ہے ، وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے اتنی تنخواہ کے عوض اتنے گھنٹے کام کرنا ہے اور اس مقررہ مدت کے بعد طلبا ء کا مجھ پر کوئی حق باقی نہیں رہتاہے۔

 

چاہت اور اپنائیت کے اس اٹوٹ رشتے کو پھر سے قائم کرنے کی ضرورت ہے معلم انسانیت، رحمت عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور بڑوں کااحترام نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔

 

طلبا کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ اساتذہ سے فیض حاصل کرتے ہیں، اساتذہ ان کی ذہنی پرورش کرتے ہیں، وہ ان کے محسن ومربي ہیں اور شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے محسن ومربي کے سامنے انسان کی نگاہیں جھکی رہیں۔ دوسری طرف استاد کو یہ سمجھنا کہ ان معین گھنٹوں کے بعد شاگرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ میرے دروازے پر دستک دے، صریحاً غیر اخلاقی ہے۔ شاگرد ان کی معنوی اولا دہیں۔ وہ اپنی طالب علمانہ زندگی ہی میں نہیں بلکہ عمر بھر یہ حق رکھتاہے کہ جب بھی اسے کوئی الجھن پیش آئے تو وہ استاد کے دروازے پر دستک دے اور اس کا مشورہ چاہے تو استاد بطبیب خاطر اسکو اُسکی راہنمائی کرے۔

 

استاد اور شاگرد کے رشتے کی بنیادی کڑی شفقت و تعظیم ہے۔ مگر یہ جاننا چاہئے کہ شفقت و تعظیم لازم وملزوم ہیں ۔ کبھی تعظیم سے شفقت پیدا ہوتی ہے اور کبھی شفقت تعظیم کو جنم دیتی ہے ۔ شفقت ومحبت وہ چیز ہے کہ اس سے برف کے سلوں اور پتھر کی چٹانوں کو پگھلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ خلوص ومحبت ہمیشہ دلوں کو فتح کرتے ہیں اور جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح ِ زمانہ كهلاتے هين ۔ استاد وشاگرد کے رشتوں کی تمام پیچیدگیاں شفقت و تعظیم کے آزمودہ نسخے سے ہی دور ہوسکتی ہیں۔

یہی استاد ہیں جو قوم کے معمار ہوتے ہیں ۔

انہی کے دم سے ہم تم صاحب دستار ہوتے ہیں ۔

Comments are closed.