سیاسی لڑائی سے نظریاتی جنگ تک

ڈاکٹر سلیم خان
ڈر نظر نہیں آتا اس لیے اسے ناپا یا تولا نہیں جاسکتا لیکن قول و عمل سے پتہ چل جاتا ہے کہ خوفزدہ یا نڈر کون ہے؟راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ تمام تر نظریاتی اختلاف کے باوجود یہ کہنا پڑے گا کہ ایک زمانے تک وہ قدرے سنجیدہ تنظیم تھی ۔ اس کی رہنماوں میں چونکہ شہرت کی ہوس نہیں تھی اس لیے وہ ہیجان انگیز بیانات سے پرہیز کرتے تھے ۔ آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کی کیفیت استثنائی ہے۔ وہ ہر دوچار ہفتوں میں کوئی نہ کوئی متنازع بیان دوہرا کر سرخیوں میں آجاتے ہیں۔ اپنی عادت کے مطابق یکم ستمبر کو انہوں نے مہاراشٹر کے ناگپور میں ایک اخبار ی کمپنی کی نئی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے اور نظریاتی طور پر تمام ہندوستانی ہندو ہیں۔ وہ مزید وضاحت کرتےہوئے بولے ’ہندو کا مطلب تمام ہندوستانی‘ ہے۔ ہندو اور ہندوراشٹر کا مطلب اب پورا ملک جان چکا ہے اس لیے موہن بھاگوت کو تذکیرفرمانے کی ضرورت نہیں۔
موہن بھاگوت کے مطابق جو لوگ آج ہندوستان میں ہیں ان کا تعلق ہندو ثقافت، ہندو آباؤ اجداد اور ہندو سرزمین سے ہے۔‘‘ بھاگوت کے دعویٰ میں زمانے کا فرق ہے۔ وہ اگر حال کے بجائے ماضی کا صیغہ استعمال کرتے تو یہ بات کسی حد تک درست ہوسکتی تھی مگر حال یا مستقبل پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ مثلاً برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک کواگر موہن بھاگوت کہیں کہ ’تمہارا تعلق ہندو ثقافت، ہندو آباؤ اجداد اور ہندو سرزمین سے تھا ‘ تب تو وہ اتفاق کرلیں گے لیکن اگر وہ بولیں تم ہندوستانی ہو تو وہ کہیں گے معاف کرو بابا میں برطانوی ہوں ، فی الحال میرا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سارےلوگ جو برطانیہ میں ہندوستانی پاسپورٹ کے ساتھ رہتے ہیں ان کا تعلق وطن عزیز سے ہے۔ بھاگوت کو اگر اتنی موٹا فرق بھی سمجھ میں نہیں آتا تو انہیں سمجھنے سمجھانے زحمت نہیں کرنی چاہیے ۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے آگے کہا ’’کچھ لوگ اسے سمجھ چکے ہیں، جب کہ کچھ اپنی عادت اور خود غرضی کی وجہ سے سمجھنے کے بعد بھی اس پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ اسے یا تو ابھی تک سمجھ نہیں پائے یا بھول گئے ہیں۔‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ اب بھی وہی لوگ ہندو دھرم کے چکر میں پھنسے ہوئے جنہوں نے ابھی تک اس کے ذات پات کے نظام کو نہیں سمجھا یا جو لوگ توحید اور شرک کے درمیان فرق نہیں کرسکے ۔ الہامی تعلیمات سے بہرہ مند لوگوں نے یہ طوق اپنی گردن سے نکال پھینک دیا ہےاور وہ اب آزاد ہوچکے ہیں ۔ یہ آفاقی حقائق جب بھاگوت جی کی سمجھ میں آجائیں گے توبعید نہیں کہ وہ بھی ان زنجیروں کو توڑ آزاد ہونے کی کوشش کریں جیسا کہ سابق سرسنگھ چالک سدرشن نے کی تھی مگر ان کی جرأت رندانہ کو دبا دیا گیا ۔ عوام کی توقعات کا ذکر کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ سنگھ کو سب کی فکر کرنی چاہیے اس کے جواب میں ملک کی اقلیتیں ان سے مؤدبانہ استدعا کرتی ہیں کہ وہ اپنی خیر منائیں اور دوسروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ اس فسطائیوں پر غالب کایہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
موہن بھاگوت نے اپنی خوش فہمی کا اظہار اس طرح کیا کہ ’’ہمارے نظریہ کی پوری دنیا میں بہت مانگ ہے۔ ہر کوئی اسے سمجھ گیا ہے۔ کچھ اسے قبول کرتے ہیں، کچھ نہیں کرتے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ نادانی میں تو کوئی بھولا بھٹکا اسے قبول کرسکتا ہے مگر جو اسے سمجھ جاتے ہیں وہ تو اس کو ترک کردیتے ہیں۔ ماضی میں ایسا ہوا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کی خاطر سخت سے سخت قوانین بنائے جاتے ہیں ۔ مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم کو ہراساں کرنے کی خاطر اوٹ پٹانگ الزامات لگاکر گرفتار کیا جاتا ہے۔ مساجد، مزاروں اور گرجاگھروں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اڑیسہ کے اندر پادری گرہیم سٹینز اور ان کے دو بیٹوں کو بجرنگ دل کا دارا سنگھ زندہ جلا دیتا ہےاور اپنے ساتھی مہندر سمیت پھانسی کے پھندے کا انتظار کرتا ہے۔ ایسی سفاکی کا مظاہرہ وہی لوگ کرتے ہیں جن کے قدموں تلے سے زمین کھسکتی ہے۔ جن ادیان کو شرف قبولیت ملتا ہے انہیں ایسی ظالمانہ حرکات کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
پہلے زمانے میں سنگھ کی باتوں پر میڈیا توجہ نہیں دیتا تھا اس لیے عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کنوئیں کے اندر یہ مینڈک کیا بولتے ہیں۔حصولِ اقتدار کے بعدجب میڈیا کو خریدلیا گیا تویہ لوگ چھپنے اور نظر آنے لگے ۔ ابتداء میں توایسی دہشت پیدا کردی گئی تھی کہ کوئی ان کو چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ اس وقت یا توتشدد کا خوف ہوتا تھا یا رائے دہندگان کی ناراضی کے ڈر سے لوگ خاموش رہتے تھےلیکن اب زمانہ بدل رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت اس وقت سامنے آیا کہ جب سماجوادی پارٹی کے قائد سوامی پرساد موریہ نے یوگی کی ڈبل انجن سرکار کی پروا کیے بغیر موہن بھاگوت کے ہندو راشٹر سے متعلق متنازعہ بیان پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان، ہندو ملک نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں کبھی ہندو ملک تھا۔سوامی پرساد نے کہا کہ ہم ایک خودمختار قوم ہیں اور ہمارا آئین سیکولر تصور پر مبنی ہے۔ ہندوستان کے تمام لوگ ہندوستانی ہیں۔ ملکی آئین تمام مذاہب، فرقوں، ذاتوں اور ثقافتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ سوامی پرساد موریہ کا یہ منہ توڑ جواب قابلِ تعریف ہے۔
سوامی پرساد موریہ نے اس سے قبل رام چرت مانس پر تنقید کی تھی تو اس وقت بھی ان کی خوب مخالفت ہوئی تھی ۔ ایک مجلس میں توان پرکسی نے جوتا بھی اچھال دیا۔ یہ اور بات ہے موریہ کے ساتھیوں نے اس حملہ آور کو پکڑ کر اس کی خوب دھنائی کی۔ اس بار بھاگوت کا جواب دینے پر بھی سوامی پرساد موریہ کا پتلہ جلایا گیا لیکن یوگی کی انتظامیہ کو اس حرکت کا ارتکاب کرنے والوں پر کارروائی کرنی پڑی ۔ سماج وادی پارٹی لیڈر کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں پر امتناعی احکام کی خلاف ورزی کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ یوپی پولیس اس کے لیےایک ہندو تنظیم بنام ہندو کرانتی سینا کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس کے زائد از 30 کارکنوں کے خلاف کیس درج کرلیا۔ کرانتی سینا کے جنرل سکریٹری منوج سمیت 8؍افراد کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کے تحت بھی کیس درج کیاگیاہے۔ اترپردیش میں جہاں فرقہ واریت اپنے شباب پر ہے موریہ بھاگوت کو چیلنج کرکے بڑی دلیری کا ثبوت دیا ۔
یہ تنازع ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ تمل ناڈو کے وزیرکھیل اور وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کےبیٹے نے سناتن دھرم کا تقابل کوروناوائرس یا ملیریا پھیلانے والے ڈینگووائرس اور مچھروں سے پھیلتا ہے۔ا دھیاندھی نے تمل ناڈوپروگریسیورائٹرس فورم کی میٹنگ سے خطاب میں کہاکہ مچھر اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ اسے ختم کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ سناتن دھرم مساوات اور سماجی انصاف کے خلاف ہے۔ اس لیے اس کا خاتمہ کردیاجاناچاہیے۔ ایسی چیزوں کی صرف مخالفت نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کا صفایاکردیناچاہیے۔ بات دراصل یہ ہے کہ سناتن دھرم وہ تالاب ہے جس سے ذات پات کی تفریق کے مچھر نکل کر آتے ہیں اور اونچ نیچ یا چھوت چھات کا زہر پھیلاتے ہیں اس لیے جب تک یہ تالاب نہیں سوکھتا اس وقت تک معاشرہ بدسلوکی اور ظلم و جبر کی آگ میں جلتا رہے گا۔ اس بیان کی آڑ میں امیت شاہ سے لےکر امیت مالویہ تک پوری بی جے پی ’انڈیا‘ الائنس کے خلاف شور مچانے لگی مگر اب ڈرنے کے دن لد گئے۔
کانگریس نے بظاہر اپنے آپ کو اس سے الگ تو کیا مگر اس کے رکن پارلیمنٹ کارتک چدمبرم نے ایکس پر لکھا کہ سناتن دھرم ذات پات پر مبنی معاشرہ کے نظام کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ذات پات ہندوستان کے لئے لعنت ہے۔ اسی طرح کانگریسی صدر کے بیٹے اور کرناٹک سرکار میں وزیر پرینک کھرگے نے کہا کہ کوئی بھی مذہب جو مساوی حقوق نہیں دیتا یا آپ کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کرتا وہ ایک بیماری کی طرح ہے۔جو مذہب مساوات کو فروغ نہیں دیتا یا اس بات کو یقینی نہیں بناتا کہ آپ کو ایک انسان ہونے کا احترام ملے وہ مذہب نہیں ہے۔ کانگریس کی جانب سے اس طرح کی دلیری کا مظاہرہ خوش آئند ہے۔ یہی بات ایم کے اسٹالن نے’اسپیکنگ فار انڈیا’ پوڈ کاسٹ سیریز کے پہلے ایپی سوڈ میں کہہ دی ۔ ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ انڈیا الائنس سماجی انصاف، سماجی ہم آہنگی، وفاقیت، سیکولر سیاست اور سوشلزم کی بحالی کے لیے بنایا گیا ہے -بی جے پی کی بابت انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسے ابھی نہیں روکا گیا تو ہندوستان کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ 2002 میں گجرات کے اندر بوئی گئی نفرت کے سبب منی پور اور ہریانہ میں فرقہ وارانہ جھڑپیں ہورہی ہیں۔ اسٹالن کے مطابق پورے ہندوستان کو منی پور اور ہریانہ بننے سے روکنے کے لیے انڈیا الائنس کو جیتنا ہو گا۔ اس طرح ایک سیاسی لڑائی اب نظریاتی جنگ میں تبدیل ہورہی ہے اور اس سے موہن بھاگوت سمیت آر ایس ایس کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ان شاء اللہ۔
Comments are closed.