مکتبہ جامعہ اور ای ڈی

شکیل رشید
( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیواز )
تعلیم اور ادب اطفال پر کتابوں کی اشاعت ، اور اشاعت کے ذریعے اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترویج کے لیے بزرگوں نے مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کے نام سے جس ادارے کی بنیاد رکھی تھی ، آج وہ ادارہ لبِ گور ہے ۔ ایک ہفتہ ہوئے پرانی دہلی کی مکتبہ جامعہ کی شاخ پر تالا لگ گیا ہے ، کیونکہ اس شاخ کے انچارج خسرو علی زیدی کو ، جو ریٹائرمنٹ کے بعد اس شاخ کی نگرانی پر مامور کیے گئے تھے ، چلتا کر دیا گیا ہے ۔ وہ عرصہ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کی تنخواہیں ، جو رکی ہوئی ہیں ، دے دی جائیں تاکہ وہ اپنا گھر چلا سکیں ، لیکن یہ مطالبہ شاید مکتبہ جامعہ کے ارباب حل و عقد کو اپنی توہینِ لگا ، لہذا خسرو علی زیدی کے ساتھ – ایک رپورٹ کے مطابق – توہینِ آمیز رویہ اپنا کر انہیں باہر کا دروازہ دکھا دیا گیا ۔ اب مکتبہ جامعہ کے دروازے پر تالا پڑا ہوا ہے ، اور سامنے کچھ پھل فروش اور چاٹ فروش دوکانیں سجا کر بیٹھ گئے ہیں ۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح اس سڑک کی ، جسے اردو بازار کہا جاتا ہے ، کتابوں کی متعدد دوکانیں بند ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ کباب فروشوں کی دوکانیں کھل گئی ہیں ، اسی طرح مکتبہ جامعہ کی یہ شاخ بھی کتابوں سے خالی اور کبابوں سے بھری نظر آئے گی ۔ ظاہر ہے کہ جب اردو والے کتابوں کے بجائے کبابوں سے جی لگانے لگیں گے تو ایسا ہی ہوگا ۔ ہندوستان میں اردو زبان ، اور اردو تہذیب کا یہ زوال کن وجوہ سے ہے ، اس سوال کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے ۔ ایک وجہ تو مکتبہ جامعہ کی شاخ پر تالا پڑنے کی خبر کے عام ہونے کے بعد اردو داں طبقے یا حلقے کی مجرمانہ خاموشی ہے ۔ گزشتہ دنوں جب سینئیر اردو صحافی معصوم مرادآبادی نے مکتبہ جامعہ کی شاخ پر تالا لگی تصویر اور اس پر اپنا ردعمل سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تو کسی معروف اردو شخصیت کا یا پروفیسر صاحبان و اساتذہ کرام اور ادباء و شعرا کا کوئی احتجاجی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ اردو کے نام پر کھانے والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ! یہ شرم ناک بے حسی آج کا ہی المیہ نہیں ہے ، یہ عرصہ ہوا اردو والوں کی روح میں گھر بنا چکی ہے ۔ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ حق بات کرکے صاحبانِ اقتدار کو ناراض کرے ۔ یہی وہ شرم ناک بے حسی ہے جس نے اردو زبان کا اور اردو کے اداروں کا بیڑا غرق کیا ہے ۔ یہی وہ بے حسی ہے جس کی وجہ سے اترپردیش سے اردو زبان کھدیڑ دی گئی ہے اور اُن ریاستوں میں بھی جہاں اردو کو سیاسی مفاد کے حصول کے لیے دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے ، اس کی حالت اچھی نہیں ہے ۔ چند سال قبل سُننے میں آیا تھا کہ ممبئی میں مکتبہ جامعہ کی شاخ بند کی جانے والی ہے ، تب ممبئی کے اردو والوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تھا ، کیا دہلی کے اردو والے اسی طرح کا کوئی احتجاج نہیں کر سکتے یا کیا اُن کا کوئی وفد جاکر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر سے نہیں مل سکتا تاکہ انہیں مکتبہ جامعہ کی تاریخ بتا سکے ! ڈاکٹر ذاکر حسین اور اُن کے احباب نے ۱۹۲۲ء میں مکتبہ جامعہ کی بنیاد اس لیے نہیں ڈالی تھی کہ یہ آگے جاکر لوٹ پاٹ کا مرکز بن جائے اور سسک سسک کر دم توڑ دے ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین ، جو صدر جمہوریہ ہند بنے تھے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان میں سے ہیں ، انہوں نے اور ان کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں بزرگوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو بھی اور مکتبہ جامعہ کو بھی اپنے خون پسینہ سے اس لیے نہیں سینچا تھا کہ یہ ادارے بے شرم بے حسوں کی بدعنوانیوں کے سبب دم توڑ دیں ۔ مکتبہ جامعہ نام کے اس ادارے نے کئی ہزار کتابیں شائع کی ہیں اور بچوں و نوجوانوں کی ہر لحاظ سے ذہنی آبیاری کی ہے ، انہیں تعلیم کے حصول کے لیے تیار کیا اور ان کی اخلاقی و ادبی اور دینی تربیت کی ہے ۔ یہیں سے ’ کتاب نما ‘ ( ۱۹۲۴ء ) اور ’ پیام تعلیم ‘ ( ۱۹۲۶ء ) نکلا کرتے تھے ، یہ دونوں ہی ماہنامے دَم توڑ گئے ہیں ۔ بلکہ اب تو پورا ادارہ خاتمہ کے قریب ہے ، علی گڑھ اور ممبئی کی شاخوں پر بھی کسی بھی وقت تالا لگا دیا جائے تو حیرت نہیں ہوگی ۔ اور اردو والے ہی اس کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں ۔ ایک وجہ اور ہے ؛ مکتبہ جامعہ کے ذمے داروں نے مکتبہ جامعہ کا آہستہ آہستہ گلا گھونٹا ہے ۔ مالی لوٹ کھسوٹ کی کئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں ۔ گھپلے اور گھوٹالے کی بات کی جا رہی ہے ۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اس ادارے میں عرصہ دراز سے کوئی آڈٹ نہیں ہوا ہے ، اگر یہ سچ ہے تو کیوں نہ یہ مطالبہ کیا جائے کہ مکتبہ جامعہ کے ذمے داروں کی اور اس کے عملے کی ای ڈی انکوائری کروائی جائے ؟ تفتیش اب ضروری ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ اردو کے ایک فعال ادارے کو کس نے یا کن افراد نے لبِ گور پہنچایا ہے اور اس کارِ بد سے انہوں نے کیا حاصل کیا ہے اور کیسے حاصل کیا ہے!
Comments are closed.