یوم اساتذہ پر چند باتیں

الطاف جمیل شاہ

اسلامی تعلیمات کا کمال یہی ہے کہ وہ معاشرے کے مختلف حصوں اور ان میں کام کر رہے افراد کی ترقیات عزت وقار کا داعی ہے معاشرے کے تمام افراد کی یکساں عزت نفس کا خیال رکھا گیا ہے پر چند شعبے ایسے ہیں جن کی موازنہ بقیہ شعبہ جات میں منہمک افراد سے نہیں کی جاسکتی اور اس میں جو سب سے بلند شعبہ ہے وہ ہے معلم کا جسے ہم استاد کے نام سے پکارتے ہیں اسلامی تعلیمات میں دسیوں مثالیں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام معلم (استاد ) بہت اونچا ہے یہ کیا کم ہے کہ خاتم النبین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے معلم بنا کر مبعوث کیا گیا ہے اساتذہ کی قدر و منزلت سمجھنے کے لئے یہ کافی ہے خیر اب معلم دو قسم کے ہیں یا تو معلم الخیر ہوں گئے جن کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اور جنہیں ہر معاشرے میں قابل احترام لائق تحسین مانا جاتا ہے اور طلبہ ان کے سامنے ہر صورت سرجھکائے رکھنے کو باعث افتخار سمجھتے ہیں ان معلمین کے پاس سوائے خیر و فلاح کے کچھ بھی نہیں ہوتا

دوسرا ہوتا ہے معلم الشر یہ ہم سب سمجھ سکتے ہیں کہ شر کو عام کرنے والے کس قدر بد مزاج اور دماغی امراض میں مبتلاء ہوتے ہیں یہ ہرکسی سماج سوسائٹی کے لئے سم قاتل سے کم کسی صورت نہیں ہوتے یہ اب ہمیں طے کرنا ہے ہم کیا ہیں

بچپن سے دیکھتا آیا ہوں

استاد باوقار۔ صالح مزاج۔ نسل نو معمار۔ اخلاقی اقدار کا پاسباں ۔ ہمارے بچپن میں جو اساتذہ تھے وہ۔ مسلم سکھ۔ پنڈت تھے مذہب کے لحاظ سے پر بحیثیت استاد وہ اعلی اخلاقی قدروں کے پاسباں ۔۔ علم کے داعی ۔۔ بچوں کے مستقبل کے تئیں حساس ۔۔ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں محتاط۔

خیر اب ترقی ہر چیز میں ہوئی ہے تو اساتذہ کرام کے ایک بڑے طبقے نے بھی ترقی کا سفر شروع کیا ہے

 

آیے گرامی قدر اساتذہ

آپ مستقبل کے معمار ہیں ہزاروں لاکھوں لوگ آپ کی طرف محبت۔۔ عقیدت احترام ۔۔ امید سے دیکھتے ہیں آپ کوشش کریں کہ ان کی امیدیں پوری ہوں تو آپ جہاں میں خود بہ خود کامیاب استاد اور قابل احترام بن جائیں گئے بس یہ مستقبل کے معمار اہل علم و ادب ہوں بقیہ اصناف جیسے ناچ گانا ڈانس یا کھیل کود وہاں تو ممکن ہے انپڑ پڑھے لکھوں سے آگئے نِکل جائیں پر علم و ادب کے دبستان میں یہ کوئی معیار ہی نہیں ہے آپ اس دابستان کے معمار ہیں سو تعمیر کئے جارہے اس دبستان کو سنواریں اور عزت و تکریم کی بلندیوں پر متمکن ہوجائیں

حق یہی ہے کہ میں جو کچھ بھی ہوں یا اہل جہاں کے لوگ جتنے بھی اونچے مناسب ترقیات پر براجمان ہیں یہ ان اساتذہ کی محنت لگن کا ثمر ہے جنہوں نے بچپن سے جوانی تک کے سفر ۔میں معاونت کی کامیابی کے سفر کی منزل کے لئے جن بھی طلبہ نے اپنے اساتذہ سے مل رہی نصیحت علم کو لیا وہ کامیابی کے سفر کی انتہا کی اور نکل گئے اور جو طلبہ اٹکے شرارتیں کیں وہ تا ہنوز اداسیوں کے سفر پر چل رہے ہیں ہم بحیثیت طلبہ آج جو کچھ دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں وہ انتہائی درد ناک ہے کہ ہماری نسل نو کی ایک بڑی تعداد ایسی راہ پر چل نکلی ہے جہاں سے واپسی صرف خواب ہی میں ممکن ہوسکتی ہے تو اس وقت معلمین اساتذہ کا جو فرض منصبی ہے وہ وہ مجھ سے بہتر سمجھ سکتے ہیں ہم تو دھول ہیں اساتذہ کے قدموں کی بس آپ ہمارے تابناک اور شاندار مستقبل کے امین و داعی ہیں سو لللہ ہمیں کسی صورت مایوس کبھی نہ کرنا

 

سلامت رہیں ہمارے اساتذہ

ہر غم سے اللہ بچائے رکھے

 

طلبہ کے لئے

استاد کی بد دعا

ہماری تعلیم جہاں ہوئی جہاں ہزار کہانیاں ہیں جنہیں یاد کر کر کے میں اکثر سوچتا رہتا ہوں اپنی حیثیت اور اپنے بارے میں جہاں سے بہت ہی خوبصورت یادیں بھی ہیں اور آزردہ کرنے والی یادیں بھی

ایک یاد آپ کی نظر

تکمیل حفظ کے نزدیک ایک طالب علم تھے

آواز میں خوب ٹھراؤ تھا

پھر

یوں ہوا کہ سب کی واہ واہی کے سبب اس کا دماغ

آسمان تک چلا گیا

اور

قاری صاحب نامی اپنے ایک استاد کو اپنی قابلیت کے زعم میں پریشان کرنا شروع کیا

بات بڑھتی گی

پر یہ طالب اپنی ضد

انا کی تسکین کے لئے

اس سادہ لوح استاد کو

ہر بار کسی نہ کسی انداز سے

پریشان کرتا رہا

پھر اچانک آٹھائسواں پارہ تک حفظ کرتے ہوئے اچانک مدرسہ سے بھاگ گیا

اس دوران ایک بار قاری صاحب کی آنکھوں میں

آنسو آئے تھے اور

کہا

اللہ تجھے بھی یوں ہی خون کے آنسو رلائے جیسے مجھے رلاتے ہو

اور

پھٹ جب میں نے اس طالب علم کو پانچ چھ سال بعد دیکھا

وہ اپنی بستی کا سب سے غلیظ انسان شمار کیا جاتا تھا اور

پوچھنے پر بتایا میں قرآن بھول گیا ہوں پورا

بس پانچ چھ سورتیں یاد ہیں

اور یہ کہتے ہوئے وہ بے ساختہ رو پڑا کہ اب کیا کروں

کیوں کہ قاری صاحب کا تو انتقال ہوچکا تھا

اپنے اساتذہ کی عزت کرنا سیکھو

اس سے آپ کے علم میں آپ کے ہنر میں ترقیوں کی راہیں گہری ہوجائیں گئیں

میں نے استاد کی جوتے سیدھے کرنے میں جو سکون محسوس کیا ہے وہ سکوں کہیں میسر کہاں

بس کوشش کریں

کسی طرح آپ اپنے استاد

کے چہرے پر مسکان لائیں

تو خوشیاں آپ کی ہوں گئی

اللہ حفاظت فرمائے

فی امان اللہ

Comments are closed.