جل رہا ہے جالنہ: یہ آگ نہیں بجھے گی

ڈاکٹر سلیم خان
جالنہ کے ایک معمولی نے ارتعاش نے مہاراشٹر کی سیاست میں زبرست زلزلہ برپا کردیا ۔یہ چنگاری اگر شعلہ بن جائے تو ریاست میں بی جے پی کو خاکستر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہوایہ کہ ضلع جالنہ کے موضع انترولی سارتی میں29؍گست سے مراٹھا مورچہ کے رابطہ کار منوج جارنگے اور ان کے دس ساتھیوں نے مراٹھا ریزرویشن کیلئے بھوک ہڑتال شروع کی۔ اس احتجاج کو نظر انداز کردیا جاتا تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا ۔ مظاہرین کو ان کے خیر خواہ سمجھا بجھا کر مرنے سے روک دیتے یا اسپتال میں لے جاتے اور معاملہ رفع دفع ہوجاتا مگر درمیان میں وزیر اعلیٰ کا دورہ آگیا ۔ ایکناتھ شندے فی الحال عوامی رابطے کی خاطر’آپ کی سرکار آپ کے دروازے پر‘ نامی مہم چلا رہے ہیں اور اس کے تحت ان کو جالنہ جانا تھا۔ وہ اگر اپنے دورے کے دوران منوج سے ملاقات کرتے تو مراٹھا سماج میں ایک اچھا پیغام جاتا۔ وہ اس سے مل کر بھوک ہڑتال ختم کروانے میں کامیاب ہوجاتے تو ان کی خوب پذیرائی ہوتی مگر انہوں نے اس احتجاج کووقار کا مسئلہ بنا لیا اپنے پہنچنے سے قبل اسے ختم کروانے میں جٹ گئے۔
وزیر اعلیٰ نے پہلے تو منوج کو اپنے پاس بلوایا مگر وہ راضی نہیں ہوا تو پھر ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی ۔ اس سے بھی بات نہیں بنی تو یکم ستمبر کو پولیس کے مظاہرین کو بزور قوت منتشر کرکے منوج کو زبردستی اسپتال لے کر جانے کی سعی کی لیکن احتجاجیوں نے اسے ایساکرنے سے روک دیا اور مجمع تشدد پر آمادہ ہوگیا۔ اب ہجوم کو منتشرکرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا نیز آنسو گیس کے شیل برسائے گئے بلکہ ہوائی فائر بھی کیا گیا۔ پولیس ایکشن میں تقریباً اسیّ مظاہرین اور 40 پولیس والے زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد بے قابو ہجوم نے مہاراشٹرا آر ٹی سی کی 15 سے زائد بسوں کو آگ لگادی۔ پولیس نے اپنے بچاو کے لیے 350 سے زیادہ لوگوں کے خلاف کیس درج کردیا مگر ا س سے ڈرے بغیر مراٹھا رہنماوں کی بڑی تعداد نے سراٹی گاؤں کے اندر جمع ہوکرریاستی حکومت کو مراٹھا ریزرویشن دینے کا الٹی میٹم دینے کے بعد ٹھوس فیصلہ ہونے تک بھوک ہڑتال جاری رکھنے کا عزم کیا ۔
پولیس کے معاندانہ رویہ کی خلاف مراٹھا برادری نے اگلے دن ریاست بھر میں احتجاج کرنے کا جواعلان کیا اس کا پہلا اثر دھولیہ-شولاپور ہائی وے پر نظر آیا ۔وڈی گودری ہائی وے پر مظاہرین کی جانب سے2؍ بسوں کو نذر آتش کیا گیا اور 2؍بسوں پر پتھراؤ کیا گیانیز ایک ٹرک بھی جلایا گیا۔ اورنگ آباد- شولاپور ہائی وے پر بھی تین سے چار بسوں کو نذر آتش کیا گیا اور تمام بڑے شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ انتخابات کی چہل پہل کے دوران حزب اختلاف اس سے کیسے غافل رہ سکتا تھا اس لیے ایم وی اے کی ساری جماعتیں مظاہرین کی حمایت میں لنگوٹ کس کر کود پڑیں ۔ پولیس لاٹھی چارج کے خلاف ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر وجے وڈیٹیوار نے محض تفتیش پر اکفتا کرنے کے بجائے خاطیوں پر کارروائی کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے شندے-فڈنویس-اجیت پوار حکومت پر مراٹھا برادری کے ساتھ دھوکہ دہی کا الزام لگا یا۔ اسی طرح کانگریس کے ریاستی صدرناناپٹولے اوراین سی پی کے ترجمان امیش پٹیل نے بھی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
شیوسینا (ادھو) کےرہنما سنجے راؤت نے سخت ناراضی جتاتے ہوئے اسے امن و امان پر حملہ قرار دے کر اس کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ عوام کو احتجاج کا حق ہے اورفڈنویس ناکام ہوچکے ہیں اس لیے اپنی مایوسی کا نزلا عوام پر نہیں اتارنا چاہیے ۔ شیو سینا (یو بی ٹی) کے صدر ادھو ٹھاکرے نے مظاہرین پر پولیس کے لاٹھی چارج کی مذمت کرتے ہوئے اسے’حکومت کا ظلم‘ قرار دیا۔ انہوں نے پوچھاکہ ’’پولیس کسی کی ہدایت کے بغیر اس طرح کا برتاؤ کیسے کر سکتی ہے؟‘‘ اگلے دن دیگر سیاسی رہنماوں کے ساتھ ٹھاکرے جالنا پہنچ گئے۔ ادھو ٹھاکرے نے مطالبہ کیا کہ مرکزی حکومت پارلیمنٹ کے آئندہ خصوصی اجلاس میں مراٹھا اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کو ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے ایک بل پاس کرے۔انہوں نے نیشنل کیپیٹل ٹیریٹری آف دہلی (ترمیمی) ایکٹ 2023 کا حوالہ دے کر کہا کہ سپریم کورٹ کے خلاف اگر پارلیمنٹ میں نیا قانون پاس ہوسکتا ہےتو آئندہ خصوصی اجلاس میں مراٹھا، دھنگر (چرواہا برادری) اور او بی سی کے لیے ریزرویشن دینے کا قانون کیوں نہیں بن سکتا۔ ٹھاکرے نے گنیش اتسو کے دوران پارلیمانی اجلاس کے انعقاد کو مرکز کا ‘ہندو مخالف’ا قدام بتا یا ۔ ادھو ٹھاکرے نے کسی سرکاری نمائندے کے جالنہ جا کر مظاہرین سے نہیں ملنے کی بھی تنقید کی ۔
مہاراشٹر کی حکومت پر اس لعنت ملامت کا یہ اثر ہوا اس نے جالنہ ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ تشار دوشی کو چھٹی پر بھیج کر ان کی جگہ شیلیش بلکواڑے کی تعیناتی کر دی۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شنڈے نے اس سانحہ پر کہا کہ کمیٹی قائم کی گئی ہےجو ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرکے بتائے گی کہ مرٹھواڑہ کے مراٹھوں کو کنبی کاسٹ سرٹیفکیٹ کیسے جاری کیا جائے؟ یہ چور دروازہ اس لیے کھولا جارہا ہے کیونکہ زراعت سے وابستہ کنبی برادری مہاراشٹرا میں او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات) کے زمرہ میں آتی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے عہدیداروں سے کہا ہے کہ وہ مراٹھا کوٹہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا مطالعہ کرکے حل تجویز کریں۔انہوں نے بتایا یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ مراٹھا برادری پسماندہ ہے۔ وزیر اعلیٰ کی اس یقین دہانی کا ضلع جالنہ میں بھوک ہڑتال پر بیٹھے منوج جرنگے پاٹل پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ انہوں نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ وہ گورنمنٹ آرڈر(جی آر) جاری ہونے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔
مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ سے آگاہ کیا جس میں سنبھاجی راجے، اودین راجے اور مراٹھا تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔ نائب وزیر اعلیٰ نے جالنہ میں پولیس کی طرف سے کیے گئے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغنے کی کارروائی پر افسوس ظاہر کیا ۔ نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ گزشتہ حکومت کے مدت کار میں ریاستی وزیر داخلہ تھے۔ اس دوران مراٹھا تنظیموں کی طرف سے 2000 سے زائد احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔ وہ اب جالنہ میں ہونے والے واقعات پر بطور وزیر داخلہ معافی مانگتے ہیں۔ سوال یہ ہے اس معاملے میں نہ تو وزیر اعلیٰ نے معافی مانگی اور نہ ان کےدوسرے نائب اجیت پوار نے معذرت کی۔ اس طرح گویا مہاراشٹر کے پہلے نائب وزیر اعلیٰ نے معافی مانگ کر تسلیم کرلیا کہ ان کی حالت پتلی ہے اور اب ان کے پاس معافی تلافی کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
دیویندرفڈنویس کی معافی بظاہر تو اس وجہ سے ہے کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سےپولیس ان کے تحت کام کرتی ہے لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ سازشی سنگھ پریوار نے مراٹھوں کو پسماندہ طبقات کے ساتھ لڑاکر اس آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی خاطر ریزرویشن کی لڑائی لگائی ۔ دیویندر فڈنویس کے دور میں پوری ریاست کے اندر عظیم مراٹھا ریلیاں نکلیں جن میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے ۔ وہ لو گ مختلف شہروں میں خاموش جلو س نکالتے اور تعلیم وسرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کی مانگ کرکے چپ چاپ منتشر ہوجاتے ۔ اس طرح حکومت تو تنقید کا نشانہ بننے سے بچ جاتی مگر پسماندہ طبقات میں عدم تحفظ کا احساس پیداہوجاتا ۔مراٹھا ریزرویشن تحریک جب بامِ عروج پر پہنچی تو حکومت مہاراشٹر نے مطالبات کو تسلیم کرکے انہیں ایک لالی پاپ پکڑا دیا ۔ اس طرح بی جے پی نے بیک وقت پسماندہ اور مراٹھا سماج دونوں کو خوش کرنے کی سعی کی مگر اس کا کوئی خاص سیاسی فائدہ نہیں ہواکیونکہ مراٹھا سماج کو ریزرویشن ملا نہیں اور پسماندہ طبقات کے سر پر خطرے کی تلوار لٹکتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی انتخاب میں بی جے پی کی نشستیں بڑھنے کے بجائے الٹا کم ہوگئیں۔
2018 میں حکومت ِ مہاراشٹرنے مراٹھا برادری کو تعلیم اور روزگار میں ریزرویشن سماجی و تعلیمی پسماندہ زمرہ کے تحت جو ریزرویشن دیا اس پر مئی 2021 میں سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر روک لگادی کہ وہ ریزرویشن کے 50 فیصدکی حد کو تجاوز زکرتا ہے۔ ایوان اسمبلی میں دئیے جانے والے اس ریزرویشن کو قابلِ عمل بنانے کی خاطر فڈنویس نے اپنی ہی پارٹی کی مرکزی حکومت سے قانون میں ترمیم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا ۔ اس بار جب پھر سے یہ معاملہ اٹھا تو مہاراشٹر کی آٹو رکشا سرکار کے دو پہیے مراٹھا اور ایک برہمن ہے۔ بی جے پی نے مراٹھا سماج میں سیندھ ماری کی خاطر سب سے زیادہ نشستوں کے باوجود اپنے برہمنی پہیے پیچھے لگایا اور ایکناتھ شندے کو آگے کیا۔ ان سے بات نہیں بنی تو ایک اور مراٹھا پہیے (اجیت پوار) کو لے آئے لیکن پھر بھی غوطہ کھا گئے۔ مراٹھوں کا غصہ فی الحال اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے والے مراٹھا رہنما شندے یا پوار پر نہیں بلکہ فڈنویس پر ہےکیونکہ برہمنوں کو مراٹھا اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس ناراضی کو کم کرنے کی خاطر اگر بی جے پی نے دیویندر فڈنویس سے استعفیٰ لے لیا تو ان کے ساتھ برہمن نواز سنگھ کی بھی بہت بڑی رسوائی ہوگی ۔ اجیت پوار کو بھی اس کے بہانے بی جے پی سے پلہّ جھاڑنے کا نادر موقع مل جائے گا اورایکناتھ شندے خود اپنے ہی سماج میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ اونٹ بالآخر کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت بتائے گا مگر یہ بات طے ہے کہ جالنہ کی آگ آسانی سے نہیں بجھے گی اور اپنےساتھ کس کس کو بھسم کردے گی یہ کوئی نہیں جانتا ۔
Comments are closed.