Baseerat Online News Portal

وسطی افریقہ کے ایک سر سبزو شاداب ملک زامبیا میں چند دن (1)

 

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

ایشیاء کے بعد دنیا کا سب سے بڑا براعظم افریقہ ہے، جو ۵۴؍ ملکوں پر مشتمل ہے، افریقہ کے وسطی علاقہ کا ایک ملک ’’ زامبیا‘‘ ہے، جو چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے، زامبیا اور اس کے پڑوسی ملکوں کو موسم کے اعتبار سے دنیا کے معتدل ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے، یہ ساڑھے سات لاکھ مربع کیلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے اور آبادی تقریباََ دو کروڑ ہے، رقبہ کے اعتبار آبادی کم ہے، اور فی کیلو میٹر بارہ تیرہ افراد کا اوسط ہوتا ہے، ملک میں ۹۸؍ فیصد عیسائی ہیں، اور تقریباََ ۱؍ فیصد سے کچھ کم مسلمان ہیں، بہت ہرا بھرا اور سر سبزوشاداب خطہ ہے، جس میں مکئی، گنا اور گیہوں کی کھیتی کثرت سے ہوتی ہے، چاول بھی ہوتا ہے؛ لیکن کم، مقامی لوگوں کی خوراک عام طور پر مکئی اور اس کی بنائی ہوئی اشیاء ہیں ، قدرتی وسائل تانبہ، کوبیلٹ نامی دھات، اسٹیل اور کسی قدر سونا ہے، صابن اور کھانے کی اشیاء یہاں کی خصوصی مصنوعات میں ہیں، ویسے ہندوستان کی مصنوعات خاص کر کپڑے اور دوا وغیرہ یہاں مقبول ہیں، ملک کی راجدھانی لوساکا ہے، جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، لوکاسا اور اس کے قرب وجوار میں ہی آبادی کا زیادہ تر حصہ بستا ہے۔

اس ملک پر بہت سے ایشیائی وافریقی ملکوں کی طرح برطانیہ کا قبضہ تھا، ۱۹۶۴ء میں ملک کو آزادی حاصل ہوئی، سرکاری زبان انگریزی ہے؛ لیکن مقامی طور پر بعض اور افریقی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں، یوں تو یہاں عرب مسلمان اٹھارہویں صدی عیسوی میں آگئے تھے؛ لیکن اب ان کی کہیں کہیں کچھ باقیات ہی رہ گئی ہیں، موجودہ مسلم آبادی کا سلسلہ گجرات سے جانے والے مسلمان مہاجرین سے شروع ہوا، جو بیسویں صدی کے آغاز میں یہاں پہنچے، ۱۹۳۰ء میں ملک کی راجدھانی لوکاسا میں مسلمانوں کی آمد ہوئی، گجرات کے مسلمان بھائیوں کی یہ بڑی خصوصیت ہے کہ وہ جہاں گئے اپنی دینی شناخت ساتھ لے گئے، انھوں نے وہاں مسجدیں بھی بنائیں، مکاتب بھی قائم کئے، لوگوں کے دینی استفادہ کے لئے بر صغیر سے علماء کو بھی مدعو کیا، تبلیغی جماعت کا نظام بھی جاری کیا، اور اس کو تقویت بخشی، اگر زامبیا کی راجدھانی لوکاسا میں مسلمانوں کی دینی تاریخ کو دیکھا جائے تو ۱۹۶۲ء میں گجرات کے شہر ترکیسر سے قاری نورگت صاحب وہاں تشریف لے گئے، جو ایک بافیض استاذ تھے، اور انھوں نے وہاں دینی فضا بنانے میں اہم کردار ادا کیا، ۶۵- ۱۹۶۴ء میں وہاں تبلیغی جماعت کی آمد ورفت شروع ہوئی، اور پہلی جماعت مولانا موسیٰ سامرودی کی قیادت میں یہاں پہنچی، جب حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ جماعت کے امیر تھے،۶۷- ۱۹۶۶ء میں وہاں کثرت سے پاکستان کے مشہور واعظ مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے اسفار ہوئے، اور لوگوں نے ان کے مواعظ سے بھر پور استفادہ کیا، ۱۹۸۱ء میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ اپنے بہت سے تلامذہ اور مریدین کے ساتھ یہاں تشریف لائے، کئی دنوں قیام فرمایا، لوگوں کی خواہش پر بعض دینی اداروں کی بنیاد رکھی ، ان کی یہ تشریف آوری بہت مبارک ثابت ہوئی، اور اس کے بعد وہاں کی دینی چہل پہل میں خاصا اضافہ ہوا، ان کوششوں کا نتیجہ ہے کہ وہاں ہندو پاک اور خاص کر گجرات سے بڑے بڑے علماء کی آمدورفت ہوتی رہی ہے، جن میں مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا عبدالجبار اعظمیؒ، مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادیؒ، مولانا محمد سالم قاسمیؒؒ، مولانا ابرارالحق ہردوئیؒ، مولانا سید اسعد مدنیؒ، حکیم اختر صاحبؒ، مولانا قمرا لزماں الہ آبادی اور گجرات سے مولانا عبداللہ کاپودرویؒ ، مفتی سعید احمد پالنپوریؒ، مفتی احمد خانپوری، مولانا محمد ابرار دھولیویؒ اور مولانا اشرف راندیریؒ وغیرہ کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

ٍٍ راقم الحروف کو کورونا کی صورت حال سے پہلے بعض احباب نے زامبیا اور ملاوی کے لئے سفر کی دعوت دی تھی؛ لیکن اس وقت کی مشغولیات کی وجہ سے اس کا موقع نہیں ہو سکا تھا، ادھر میرے بہت ہی مخلص دوست مولانا محمد اسماعیل کاپودروی— جو اصل میں گجرات کے رہنے والے ہیں؛ لیکن اب برطانیہ کے شہری ہیں— کا اصرار ہوا کہ میں زامبیا کا سفر کروں، ان کی اس دعوت میں زامبیا کے ایک صاحب خیر جناب شبیر احمد صاحب بھی شامل تھے، جو بہت معمر بزرگ ہیں، بڑے بزرگوں کو انھوں نے دیکھا ہے اور ان کے داعی اور میزبان بھی رہے ہیں، نیز جواں سال فاضل مولانا طلحہ متالا بھی اس دعوت میں پیش پیش تھے، جو جامعہ زینب کے ذمہ داروں میں ہیں؛ چنانچہ راقم الحروف نے فرزند عزیز مولانا محمد عمر عابدین قاسمی مدنی سلمہ کے ساتھ سفر کا ارادہ کر لیا، ہم لوگ امارات کی فلائٹ سے ۱۹؍ جولائی کی شام حیدرآباد سے دبئی کے لئے نکلے، اور دبئی میں کئی گھنٹوں کے وقفہ کے بعد ۱۹؍ جولائی کو صبح ساڑھے ۹؍ بجے لوکاسا کے لئے روانہ ہوئے، اور سات گھنٹے سے زیادہ بلا وقفہ سفر کر کے ہم لوگ اپنی منزل پر پہنچے، جہاز کا اتنا طویل سفر میری عمر اور صحت کے لحاظ سے بہت ہی تھکا دینے والا تھا، جب لوکاسا انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اترے ، جو متوسط درجہ کا ائیرپورٹ ہے، تو ایک قدم چلنا بھی دشوار محسوس ہو رہا تھا، متعدد رفقاء دو گاڑیوں کے ساتھ یہاں موجود تھے، جن میں بیشتر علماء تھے، جو ہندوستان ، پاکستان، جنوبی افریقہ وغیرہ کے فاضل تھے، مولانا طلحہ متالا ہی کا مکان ہم لوگوں کے قیام کے لئے طے کیا گیا تھا، وہ ایک سمجھدار ، بااخلاق، با شعور فاضل ہیں، ۲۰۱۱ء میں انھوں نے مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی کے زیر اہتمام چلنے والے ادارہ ’’معہد الفقیر جھنگ ‘‘ سے فراغت حاصل کی ہے، استقبال کے لئے ائیرپورٹ آنے والے بزرگوں میں سنیئر عالم دین مولا نا عبدالرشید فلاحی بھی تھے، جو ۱۹۹۵ء میں جامعہ فلاح دارین ترکیسر گجرات سے فارغ ہوئے، وہ بڑے بااخلاق، مزاج شناس اور ملک کے اکثر ملی ودینی اداروں اور تنظیموں میں شامل ہیں، مولانا محمد علی صاحب مہتمم جامعہ زینب اور جامعہ اسلامیہ کے معاون مہتمم مولانا ادریس ، جامعہ اسلامیہ کے ناظم تعلیمات مولانا محمد ایوب صاحب (جو جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فضلاء میں ہیں) اور مولانا مفتی عبدالجبار صاحب (نگراں شعبۂ تربیت افتاء)بھی استقبال کرنے والوں میں شامل تھے، ان دوستوں کی پزیرائی اور حسن اخلاق نے سفر کی آدھی تھکان دور کر دی، ہم لوگ ائیرپورٹ سے سیدھے ایک فارم ہاؤس لائے گئے، جو ڈیگام فیملی کی ملکیت ہے، یہ بہت خوبصورت اور ہرا بھرا فارم ہے، بڑی تعداد میں آم اور مختلف پھلوں کے درخت بھی ہیں اور سبزہ زار بھی ، اسی کے وسط میں ایک چھوٹی سی عمارت ہے، جس میں نماز کے لئے ایک مصلیٰ بھی بنا ہوا ہے، چوں کہ عصر کا وقت ختم ہونے کو تھا؛ اس لئے یہیں ہم لوگوں نے ظہر و عصر کی نماز پڑھی، نماز اور چائے کے بعد ہم لوگ لوکاسا کی بڑی مسلم آبادی کے محلہ ’’ مکینی‘‘ پہنچے، اسی محلہ میں جامعہ زینب بھی ہے، جامعہ اسلامیہ بھی اور مسلمانوں کے کئی دوسرے ادارے بھی، قیام گاہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی گئی، دوستوں نے عشاء کے بعد ایک پروگرام رکھا تھا؛ لیکن میں بالکل اس لائق نہیں تھا کہ اس میں شریک ہو سکوں، میں نے ائیرپورٹ ہی پر معذرت کر دی تھی؛ چنانچہ یہ پروگرام ملتوی کر دیا گیا ، معمول کے خلاف بستر پر دراز ہوتے ہی مجھے گہری نیند آگئی، جب فجر سے کچھ پہلے آنکھ کھلی تو نیند نے سفر کی تھکان کا اثر کافی کم کر دیا تھا۔

اگلے دن ۲۰؍ جولائی جمعرات کو ظہر سے پہلے جامعہ زینب میں حدیث کا خصوصی پروگرام تھا، جس میں پہلے مولانا عمر عابدین قاسمی مدنی نے ’’حدیث کی روایت اور نشرواشاعت میں خواتین کا حصہ ‘‘ پر مختصر اور پُر اثر خطاب کیا، اس کے بعد حدیث کی ایک طالبہ نے پردہ سے حدیث پڑھی، راقم نے اس حدیث کی تشریح کی اور موجودہ وقت میں خواتین کی نسبت سے اسلام پر جو اعتراضات کئے جا رہے ہیں، ان کا جواب دینے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں عورتیں کیا کردار ادا کر سکتی ہیں؟ اس پر روشنی ڈالی، اور اخیر میں اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے حدیث کی جو اجازت مجھے حاصل ہے، وہ پیش کی، بالخصوص وہ مختصر سند جو حضرت مولانا عبدالرشید نعمانیؒ اور حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ سے مجھے حاصل ہے، یہ عجیب بات ہے کہ یہاں بر صغیر سے آئے ہوئے مسلمان عام طور پر اردو اور گجراتی ہی میں بات چیت کرتے ہیں، اسی زبان میں مسجدوں میں خطاب بھی ہوتا ہے، اور زیادہ تر مدرسوں میں تعلیم بھی ہوتی ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ دین کی صحیح فکر اور مسلم تہذیب وثقافت سے ان کا گہرا رشتہ ہے، آج ہی عشاء کے بعد اسی محلہ کی ایک مسجد ’’ مسجد الدعوۃ‘‘ میں علماء اور تجار سے خطاب رکھا گیا تھا، ماشاء اللہ یہ وسیع مسجد ہے اور نمازیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی، اس حقیر نے حاضرین کو خاص طور سے دو باتوں کی طرف توجہ دلائی، اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کے ساتھ جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دو خصوصی کام انجام دئیے، ایک انصار مدینہ جو مسلمان ہو چکے تھے ، ان کے ساتھ مواخات اور نسبی قرابت داروں کی طرح قرابت، ان سے شادی بیاہ کا تعلق وغیرہ، دوسرے جو یہود قبائل آباد تھے، ان کے ساتھ موالات یعنی دوستی، اس اصول پر کہ ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو؛ لیکن اگر کوئی بیرونی دشمن مدینہ پر حملہ کرے تو سب مل کر دفاع کریں اور مشترکہ اقدار کے لئے مل جل کر کوشش کریں ، میں نے عرض کیا کہ یہاں بھی آپ حضرات کا عمل ان ہی دو اصولوں پر ہونا چاہئے، مسلمانوں کی جو سیاہ فام آبادیاں ہیں، ان کے ساتھ مواخات، بھائی چارہ اور حسن سلوک تاکہ فاصلے ختم ہو جائیں، ایک دوسرے کے قریب آئیں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہی چیز مستقبل میں باہمی نفرت کو جنم دے گی، دوسرے غیر مسلموں کے ساتھ موالات؛ تاکہ وہ مسلمانوں سے قریب ہوں اور اس قربت کو ان کے درمیان اسلام کی دعوت کا ذریعہ بنایا جائے؛ کیوں کہ زیادہ تر سیاہ فام سادہ لوح ہیں، اور بہت آسانی سے ان کو اسلام کی دعوت دی جا سکتی ہے۔

اگلا دن جمعہ کا دن تھا، جمعہ سے پہلے اسی مسجد میں مولانا عمر عابدین قاسمی مدنی کا بیان تھا، جو اردو انگریزی کا ملا جلا خطاب تھا، جس جگہ ان کا بیان تھا، وہاں مسلمانوں کا سب سے بڑا اسکول ہے، جس میں پندرہ سو طلبہ پڑھتے ہیں، یہ تعداد وہاں کے لحاظ سے بہت بڑی ہے، آج ہی شہر کے ایک اہم محلہ ایمس ڈیل کی مسجد نور میں جمعہ سے پہلے راقم الحروف کا بیان رکھا گیا، جس میں نمازیوں کی بڑی تعداد تھی، بیشتر تو نسلی طور پر بر صغیر سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن بعض کا تعلق سیاہ فام حضرات سے بھی تھا، خود مسجد کے مؤذن صاحب بھی سیاہ فام مسلمان نوجوان تھے، اس حقیر نے اپنے خطاب میں جمعہ کے خطبہ میں پڑھی جانے والی آیت کے حوالہ سے عرض کیا کہ اسلام میں زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں: عدل اور احسان، یعنی انصاف اور انصاف سے بڑھ کر حسن سلوک ، اس کا تعلق اپنے رشتہ داروں سے بھی ہے، اہل وطن اور ہمسایوں سے بھی ہے، مسلمانوں اور غیر مسلموں سے بھی ہے؛ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اس ملک میں آپ حضرات برادران وطن کے ساتھ تعلقات میں اس پہلو کو ملحوظ رکھیں، چوں کہ حاضرین میں بڑی تعداد تاجروں کی تھی اور ماشاء اللہ وہاں مسلمان تجارت اور معیشت میں بڑے اچھے موقف میں ہیں، اور ان کے یہاں کام کرنے والے زیادہ تر سیاہ فام حضرات ہیں، اس پس منظر میں میں نے عرض کیا کہ اپنے ملازمین اور ورکروں کے ساتھ ہمارا سلوک عدل واحسان کا ہونا چاہئے، یہ ایک شرعی فریضہ بھی ہے اور ملکی اور سماجی مصلحت بھی۔ (جاری)

Comments are closed.