جمعہ نامہ: بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے:’’ لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ بنی نوع انسان کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ یاد رکھو پوری نسلِ انسانی کا آغاز آدم اور حوا سے ہی ہوا ہے۔ اس لیے تخلیق کے اعتبار سے سب لوگ یکساں ہیں اور کوئی کسی سے برتر وبالا نہیں ہے۔ آگے فرمایا : ’’اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں‘‘۔برادری و خاندان ، شکل وصورت اور رنگ و نسل میں فرق تحقیر و تضحیک کی خاطر نہیں بلکہ محض اس لیے ہے :’’تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘ اور باہم صلہ رحمی کا سلوک کرو۔ دنیا کے مختلف لوگوں کا مختلف قوموں اور برادریوں میں منقسم ہونا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے مگر کسی خاص خاندان ، قوم ، نسل یا خطے میں پیدا ہونا انسان کے انتخاب، ارادہ اور کوشش پر منحصر نہیں ہے۔ ان بنیادوں پرتفریق و امتیا ز، محبت وانسیت یا نفرت و عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم خلافِ فطرت ہے۔اس کے باوجود وطن عزیز میں ذات پات کی بنیاد پر ورن آشرم کی آڑ میں برہمنوں کی برتری قائم کی گئی۔ نام نہاد اعلیٰ ذات کے مقابلے شودروں کو نیچ اور ناپاک ٹھہراکر صدیوں تک انتہائی ذلت کے گڑھے میں ڈھکیل دیا گیا اور ہنوز وہ اس سے باہر آنے کی خاطر کشمکش کررہے ہیں ۔
ملک کےمختلف مقامات سے فی الحال اس ظالمانہ نظام کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے۔ ادھیاندی اسٹالن اسے ڈینگو مچھر کہہ کر اس کے خاتمہ کی بات کررہے ہیں ۔ پرینک کھڑگے غیر انسانی سلوک کے سبب اسے مذہب ہی نہیں مانتے اور سوامی پرساد موریہ اس کو ساڑھے تین ہزار سال سے جاری دھوکہ اور فریب قرار دے رہے ہیں۔کرناٹک کے وزیر داخلہ پرمیشورا اس کی ابتداء پر سوالیہ نشان لگا رہےہیں ۔ وزیر اعظم اس آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتے ہیں لیکن اس طرح تو حالات اور بھی بگڑ جائیں گے۔ اس مسئلہ کا حل کچھ لوگوں کے نزدیک مغرب کے لادینی نظریات میں ہے مگروہ بھول جاتے ہیں کہ مغربی تہذیب وثقافت کے حاملین نے یورپ سے نکل کر امریکہ ،ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیےمقامی لوگوں کی جان و مال اورعزت و آبرو کو تاراج کیابلکہ بوقتِ ضرورت نسل کشی تک کرڈالی ۔ اس کا زور ٹوٹا تو ہے مگر اب بھی امریکہ جیسے ملک میں ’بلیک لائف میٹر ‘ کے نام سے تحریک چلانے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
مذکورہ بالا مسئلہ کا دائمی حل اس حقیقت ک اعتراف میں ہے کہ :’’ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے‘‘۔ صحتمند مسابقت کے ذریعہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا داعیہ فطرت ِ انسانی میں موجود ہے۔ اس کے حصول کی خاطر دوسروں کی تحقیر و تذلیل کرنے کے بجائے اپنے آپ کو تقویٰ کی صفت عالیہ سے آراستہ کرنے کی سعی کی جانی چاہیے۔ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اللہ کی محبت اورنافرمانی کے ڈرکو پروان چڑھانا چاہیے۔ برائیوں سے بچ کر نیکی و پاکیزگی اختیار کرنی چاہیے۔ان صفات کا حامل بلا تفریق نسل، قوم اور ملک اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔ اس کے برعکس دوسروں کو حقیر سمجھ کر ان کی تضحیک کرنے والا، ان کے حقوق کو پامال کرکے ظلم و ستم کا ارتکاب کرنے والا کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ سیاہ فام ہو یا گورا، برہمن ہو یا شودر اور افریقی ہو امریکی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے قول و عمل سے انسانی مساوات کو قائم و مستحکم فرمایا ۔
فتح مکہ کے موقع پر کفار قریش کی برتری کا طلسم پاش پاش کردینے کے بعد اس پر اظہار تفاخر کرنے کے بجائے نبی پاک ﷺ نے کمال فروتنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا :’’ شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کردیا۔ لوگو، تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک، نیک اور پرہیزگار، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے۔ دوسرا فاجر اور شقی، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے یہ تاکید بھی فرمائی کہ :’’تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دو ورنہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوو گے‘‘۔ آپ ﷺ نے یہ تعلیم بھی دی کہ :’’ اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔ ایک اور حدیث میں یوں وضاحت کی گئی کہ :’’ اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے‘‘
دین اسلام کے مخالفین بھی نظامِ اسلامی کے تحت انسانی مساوات اور وحدت بنی آدم کے نفاذ کو بے نظیر مانتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بےشمار نسلوں اور قوموں کو ملا کرکلمۂ توحید کی بنیاد پر ایک امت بنادیا۔ اس کا مظاہرہ انحطاط کے عالم میں بھی یوروپ و امریکہ کے اندر ہوتا ہے جہاں دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے مسلمان نہ صرف آپس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی تفریق و امتیاز نہیں کرتے ۔ حج کے موقع پر اس عالمی مساوات کا نمونہ ساری دنیا دیکھتی ہے ۔ نبیٔ رحمت ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں اونچ نیچ کے سارے بتوں کو پامال کرکے فرمایا : ’’ لوگو، خبردار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘۔ اس تلقین کے بعد آپؐ نے سوال کیا :’’ بتاؤ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ‘‘۔ اس گواہی کے بعد آپ ﷺ نے حکم دیا :’’ اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اس فرمانِ نبیﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Comments are closed.