تھوڑی سی گستاخی : چند طالب علمانہ گزارشات

الطاف جمیل شاہ ندوی
سید مودودی عصر حاضر کے وہ صاحب قلم گزرے ہیں جن کی رشحات قلمی نے پوری دنیا میں سیکولر ازم کمیونزم کے تار و پور اس درجہ بکھیر دیے کہ اسے سنبھلنے میں بڑا وقت درکار ہے انہوں نے قرآن و سنت کو اس خوش اسلوبی سے بیان کیا کہ نسل نو اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان کے قلم کی سحر انگیزی کا اثیر ہوکر رہ گیا اور جدید تعلیمی منشاء کے عین مطابق جو ان کے دل و دماغ میں دسیوں سوالات اٹھ رہے تھے سید مودودی کی تحریر میں اس بارے تشفی بخش جوابات دیتے رہے ہم سید کے کئی افکار و نظریات سے اختلاف کرسکتے ہیں پر یہ کسی صورت مناسب نہیں کہ ان کی بقیہ خدمات جلیلہ کو یکسر فراموش کرتے ہوئے انہیں الحاد و دہریت کی صف میں زبردستی کھڑا کیا جائے جس الحاد و دہریت کی انہوں نے تار و پور بکھیر دیے ہیں سید مودودی کے قلم کا سحر آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے اور اللہ کرے بولتا ہی رہے ان کا امتیازی وصف یہ بھی رہا جس چیز کو پیش کیا پوری قوت سے بیان کیا بنا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کئے۔ کبھی کسی تنقید و تحقیر کو آڑے نہ آنے دیا اپنے کام میں بس کام اور کام
۔۔۔۔۔۔۔سید مودودی کے بارے میں مجھے جو بات سب سے اچھی لگی ان کی قوت برداشت۔ تحمل ۔ مخالفین کے لئے نرم گوشہ اور ان کی شگفتہ مزاجی یہ ان کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ سخت سے سخت مخالفین کے لئے بھی غیر اخلاقی زبان استعمال نہیں کی بلکہ اختلاف کو بھی گر کیا تو اس میں بھی ایک احترام اور ادب کا عنصر غالب ہی رہا فی زمانہ ان کے ماننے والے بھی رہے اور ان کے مخالفین بھی اور یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہے گا یہی تو علم و تحقیق کا حسن ہے کہ اختلاف رہے آداب کے حدود میں اب گر ہم انہیں سنیت سے خارج کریں یا انہیں گمراہ کہیں یہ سراسر زیادتی ہے آپ خوب اختلاف کریں پر ایک ایسے شخص کو جس کی زندگی قرآن و سنت کی آبیاری میں صرف ہوئی ہو یکسر گمراہی کی دلدل میں دھکیل دیں یہ غلط ہے ہاں غلطیاں ۔ خطائیں۔ کمیاں ۔ کوتاہیاں۔ انسانوں سے ہی ہوتی ہیں خواہ آپ کسی بھی مکتب فکر کے امام کو اٹھا کر دیکھ لیں مخالف فکر کا پڑھا لکھا طبقہ کوئی نہ کوئی غلطی نکال ہی لے گا پر جب حالات و حوادث کی مار پڑھ رہی ہو اس وقت ایسے مباحث بالکل عجیب سے لگتے ہیں جن کی فی الوقت کوئی حاجت نہیں
دوسری بات
دارالعلوم دیوبند کے شعبہ مناظرہ جہاں مختلف موضوعات پر مباحث کا انعقاد ہوتا رہتا ہے جنہیں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اس شعبہ کے منتظمین کی طرف سے منتخب کئے گئے موضوع اچانک سے سوشل میڈیا پر نشر ہوئے جنہیں دیکھ کر اک آہ بلند ہوئی کہ کاش ایسا نہ ہوتا یا گر یہ علمی مباحث طلبہ کے لئے ہی خاص تھے تو کاش سوشل میڈیا کی زینت نہ بنتے اور آپس میں ہی دست گریبان دیکھ کر ہمیں کوئی مسکراتے ہوئے خوشی نہ مناتا امت اس وقت ٹکڑیوں میں منقسم ہے اس کے انگ انگ سے کرب و اذیت کے درد ناک زخم رس رہے ہیں الحاد و دہریت کیا کیا وہ ستم ہیں جو اس پر روا نہیں ایسے میں اسے یوں الجھا دینا اہل دل کی نیندیں حرام کر دیتا ہے ۔۔
پر
اس اشتہار کے ساتھ ہی ایک گرم مزاج جوشیلا طبقہ میدان کار زار میں کود پڑا حق یہ کہ ان میں نہ تو سید مودودی جیسی علمی صلاحیت اور نہ ہی سنجیدہ مزاجی ہے اور نہ ہی خیر خواہی کا جذبہ ۔۔ بس انہیں بہانا چاہئے علماء کی تذلیل و تحقیر کرنے کا جو انہیں اس اشتہار سے میسر آیا اور وہ مولانا قاسم شاہ نانوتوی سے لیکر شیخ تھانوی مولانا مدنی علامہ کشمیری تک کی آرام گاہوں سے مٹی اٹھا اٹھا کر یوں پھینکنے لگے کہ جیسے یہ ایسا کام ہو جسے انجام دینا سب سے بڑا فریضہ ہو گر ادارے کے منتظمین نے غلطی کی کہ اس قسم کا مباحثہ رکھا تو آپ سب نے بھی تو یہی کیا کہ علماء کی مٹی پلید کرنے پر تل گئے
جیسے کہ
چند باتیں آپ کی نظر
۱۔ ایک صاحب یوں رقمطراز ہیں کہ دنیا میں ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں سوائے دیوبند کے انہیں کون جانتا ہے جبکہ سید مودودی سے پورا عالم واقف ہے
۲ رہنے دیں گر میں نے آپ کے اکابر کی باتیں لکھنا شروع کر دیں تو بہت کچھ باہر آجائے گا پھر منہ دکھانے کے قابل نہ رہو گئے ۔۔
۳۔ معاشرے کے انتہائی درجے کے غبی کند ذہن بچے ہی ایسے اداروں میں جاتے ہیں اور مولوی بن کر ہماری گردنوں پر سوار ہوجاتے ہیں
۴۔ دیوبند۔ دیوگند ۔ اشرف علی کو رسول کہنے والے کانگریس کے پچاری اسلام دشمن اسلام دشمنوں کے آلہ کار ان کی اسلام کے تئیں کوئی خدمت ہی نہیں یہ قرآن و سنت کے دشمن ہیں۔ اپنے اسلاف کے پچاری ۔ قرآنی علوم و معارف سے نابلد مولوی چندہ خور ۔ جاہل مولوی ۔ میں نے کئی تحریریں پڑھیں جذباتیت کے سوا کچھ نہ تھا اور کچھ تو دل کہ بھڑاس نکال رہے تھے ایسا لگ رہا تھا ک۔۔ جس کا سید مودودی کی فکر و خیال سے دور کا بھی واسطہ نہیں خیر چند نامی گرامی حضرات نے خیر خواہی پر مشتمل تحریریں بھی لکھیں تھیں جنہیں پڑھ کر احساس ہوا کہ ابھی مٹی زرخیز ہے ساقی
یہ چند باتیں ہیں ورنہ کئی لوگ تو گالیوں کی گلی میں بھی کود گئے اور غوطے پر غوطے لگا کر اپنی علمی استعداد کا لوہا منوایا خیر ہم سب واقف ہیں کہ ہم کیا ہیں اور علمی لیاقت کیا ہے ایک صاحب نے کمال کردیا کہ اردو کی کچو مر نکالتے ہوئے فرمایا کہ مولوی اشرف تھانویؒ کو اسلام کی الف با بھی نہیں آتی تھی ۔۔ ایک صاحب نے تو ان کا موازنہ غلام قادیانی سے بھی کیا تھا۔۔ وائے حسرتا ۔
کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ گر موجودہ منتظمین نے یہ مباحثہ رکھا تو ان علماء کی کردار کشی کیوں جنہیں پچاس پچاس سال ہوئے سو سال ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے اور جن کا ایک بھی مضمون یا کتاب سید مودودی کی مخالفت میں نہیں ہے کچھ تو ایسے ہیں جو سید مودودی کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے کیا اس کا کوئی جواب دے سکتا ہے تو احسان رہے گا
خیر
آپ صرف ایک احسان کریں کہ مثبت سوچیں اور دوسروں کے لئے درد سر نہ بنیں باقی رہا دارالعلوم کا مباحثہ کاش کوئی طالب علم یا ہمدرد اٹھ کر ان تمام سوالات کا تشفی بخش جواب لکھ دیتا اور دارالعلوم کو بھیج دیتا یا لوگوں میں متذکرہ اشتہار میں اٹھائے گئے سوالات یا عنوانات پر علمی کام کرکے احسان کر دیتا بجائے اس کے کہ اپنی زبان استعمال کرکے اپنی اوقات بتاتا پھرتا اور مزید دوریوں کا سبب بن جاتا
مناظرہ بازی
مناظرہ بازی کوئی مستقل حل ہے ہی کہا ہمارے ہاں جو کام شیخ حمزہ رحمہ اللہ نے منکرات کے خلاف کیا وہ قابل تحسین ہے سید مودودی نے کبھی مناظرہ بازی کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور نہ ہی اپنے متبعین کو اس کی ترغیب تو کیا اجازت بھی نہیں دی شیخ تھانویؒ کو دعوت مناظرہ ملی تو فرمایا میں اس فن کا ماہر نہیں گر میں آؤں گا بھی تو میں ہار تسلیم پہلے ہی کرتا ہوں کسی نے کہا سنا ہے آپ کافر ہیں تو فرمایا لو میں کلمہ پڑھ لیتا ہوں آپ گواہ رہیں میں نے ایمان قبول کیا ہے استاد شیخ البناء کو کئی بار تنگ کیا گیا مناظرہ بازی کے شوقین کی طرف سے تو استاد البناء نے ہمیشہ اس سے پرہیز ہی کی آپ پورے عالم میں دیکھ لیں اکثر کامیاب داعی آپ کو ملیں گئے جو اس سے بچنا ہی پسند کرتے ہیں پر ہمارا کیا ہمیں شوق ہے کہ تماشہ بن کر جیتے رہیں جہاں میں
فی امان اللہ
سلامت رہیں
Comments are closed.