ضمنی انتخاب  : یوگی سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم

 

ڈاکٹر سلیم خان

امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ضمنی انتخابات کے نتائج بھی آئے اور انہوں نے جی ٹوینٹی کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ ان انتخابات کو متاثر کرنے کی خاطر مودی جی نے کیا نہیں کیا۔وہ چندرایان کی آڑ میں چاند سے ہو آئے اور انڈیا کو بھارت سے بد ل دیا اس کے باوجود این ڈی اے کی  پٹخنی نہیں ٹال سکے۔ سات میچوں کی اس سیریز میں انڈیا اتحاد کو چار اور این ڈی اے کو تین نشستوں پر کامیابی ملی ۔اترپردیش کے  گھوسی میں تو گویا بھارت پاکستان کا میچ تھا وہ بھی  امپائر کی چیٹنگ اور موسم کی خرابی کے باوجود بی جے پی  بری طرح ہار گئی۔  سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟  اس کی بنیادی وجہ مودی جی کی  غریب دشمنی اور ان کو لگنے والی غریبوں کی  ہائے ہے۔اس جملۂ معترضہ کے بعد انتخابی نتائج کو دیکھیں  تو پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اور حزب اختلاف  نے اپنی ایک پرانی نشست گنواکر  ایک نئی حاصل کی  اس طرح ماضی کے مقابلے کوئی خاص فرق نہیں پڑا لیکن اہم بات یہ ہے کہ  جن  بڑی  ریاستوں  میں  آئندہ انتخاب  کے اندر  ملک کی قسمت کا فیصلہ ہونے والاہے و ہاں  بی جے پی شکست و ریخت کا شکار ہوگئی گئی۔

حالیہ  ضمنی انتخابات میں   تریپورہ اور اتراکھنڈ جیسے چھوٹے چھوٹے صوبوں کے اندر تو  بی جے پی  نے جیت درج کرائی ،اس کے برعکس حزب اختلاف نے اترپردیش جیسی بڑی   ریاست میں ایک بہت بڑے فرق کے ساتھ کامیابی درج کرا کے دکھا دیا کہ اتحاد کے آگے مودی اور یوگی کا جادو بے اثر ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال ، جھارکھنڈ  اور کیرالا میں بھی اپنی فتح کا پرچم لہرایا جو نسبتاً بڑے صوبے ہیں ۔  ان انتخابات میں اترپردیش کے سوا کسی بھی ریاست میں انڈیا کا مشترکہ امیدوار نہیں تھا  اس کے باوجود بی جے پی کا اپنے مقصد میں ناکام ہوجانا اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ اگر اس کا مقابلہ متحدہ اپوزیشن سے ہوجائے تو اسے ناکوں چنے چبانے  پڑیں گے۔  اس  ضمنی الیکشن میں چار مقامات  پر کمیونسٹ پارٹی کے امیدواروں کی ہار جواشتراکیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے  ۔ان میں سے  دو حلقہ ہائے انتخاب میں بی جے پی  جیتی  اور ایک ایک میں کانگریس اور ٹی ایم سی نے کامیابی حاصل کی ۔

 ان انتخابی نتائج کا سب سے شرمناک پہلو تریپورہ   کے بکس نگرسے مسلمان بی جے پی امیدوار تفضل حسین کی کامیابی ہے۔ پڑوس کے صوبے  منی پور میں ہونے والے بھیانک فسادات کے بعد مسلمان اکثریتی حلقۂ انتخاب میں  بی جے پی کی ضمانت ضبط ہوجانی چاہیے تھی لیکن مسلمان رائے دہندگان  نے کمال غیر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ نشست سی پی ایم سے چھین کر بی جے پی کی جھولی میں ڈال دی ۔ تریپورہ ایک زمانے تک سی پی ایم کا مضبوط قلعہ تھا مگر پچھلے دو مرتبہ سے وہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ بکس  نگر میں 2003 سے سی پی ایم کے  شمس الحق جیت رہےتھے   لیکن  گزشتہ  اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کے تفضل حسین ان کے بالکل قریب آگئے ۔  اور انہیں پانچ ہزار سے بھی کم ووٹ سے شکست ہوئی۔ اس وقت  بھی شمس الحق کو پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ  ملے تھے اور تفضل حسین  کے ووٹ کا تناسب صرف سینتیس فیصد تھا۔  سی پی ایم نے شمس الحق کی موت  کے بعد ان  کے بیٹے اور پارٹی کی یوتھ ونگ کے رہنما میزان حسین کو میدان میں اتارا۔ بی جے پی نے پھر سے تفضل حسین پر بازی لگا کر چار ہزار کے فرق سے اسے الٹ دیا۔

 ملک میں یہ مسلمانوں کی  ٹیکٹیکل ووٹنگ اور   بی جے پی کے مایا جال میں نہیں پھنسنامشہور ہے   ۔ یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں امت  ہمیشہ فسطائیت اور ظلم و جبر کے خلاف ووٹ دیتی ہے مگر بکس نگر کے  رائے دہندگان اس  مفروضے پر پانی پھیر دیا ۔ ایک طرف ملک پر مسلط فسطائیت کے خلاف فیصلہ کن  جنگ چل رہی ہے دوسری جانب منی پور اب بھی جل رہا ہے ایسے میں بکس نگر کا یہ فیصلہ مسلم ووٹر س کے لیے باعثِ شرم ہے۔  تریپورہ کی دھن پور سیٹ  بی جے پی کی رکن اسمبلی پرتما بھومک کے استعفیٰ کی وجہ سےخالی ہوئی۔ وہ فی الحال مرکزی وزیر ہیں انہوں نے سی پی ایم کے کوشک چندا کو 3,500 ووٹ سے ہرایا تھا۔1998 سے 2023 تک اس حلقۂ انتخاب سے سی پی ایم کے مانک سرکار منتخب ہوکر ایک چوتھائی صدی تک  وزیر اعلیٰ رہے ۔ پچھلی بار انہوں نے نئی نسل کو آگے بڑھانے کےلیے کنارہ کشی اختیار کی  تو بی جے پی نے یہ سیٹ چھین لی اور پھر ایک باراس کے امیدوار بندو دیب ناتھ نے 30017 ووٹ حاصل  کرکے  صرف  11146 ووٹ پانے والے سی پی آئی کے کوشک نندا کو ہرایا ۔   اس حلقۂ انتخاب میں 28% رائے دہندگان قبائلی ہیں ۔یہ ایک حیرت انگیز انکشاف  ہے  منی پور کے تشدد کا ان پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا ۔

اتراکھنڈ کی باگیشور اسمبلی سیٹ پر 2007 سے بی جے پی کا قبضہ ہے۔ وہاں پرچار مرتبہ کامیاب ہونے والے بی جے پی امیدوار چندن رام داس کے انتقال کی وجہ سے انتخاب کی ضرورت پیش آئی جو وزیر بھی تھے۔  پچھلی سال  انہوں نے12,000 کے فرق سے الیکشن جیتا تھا۔ بی جے پی نے اس بار ان کی اہلیہ پاروتی داس کو ٹکٹ دے دیا ۔  یہاں سے ہارنے والے کانگریسی امیدوار رنجیت داس بی جے پی میں چلے گئے اس لیے کانگریس نے عآپ کے سابق امیدوار بسنت کمار   کو میدان میں اتار دیا ۔ سماجوادی پارٹی کو پچھلی مرتبہ یہاںپر صرف 0.68% ووٹ ملے تھے اس کے باوجود اس نے بھگوتی پرساد کو ٹکٹ دیا  اور وہ 580 ووٹ حاصل کرسکے ۔ اس طرح   بی جے پی کی  پاروتی داس  نے  33 ہزار 247 ووٹ  حاصل کرکے   کانگریس کے   30 ہزار 842 ووٹ پانے والے بسنت کمار کو ہرا دیا ۔ کانگریس کے لیے خوشی کی بات  ہارجیت کا فرق  کا بارہ ہزار سے کم ہوکر تین ہزارپر آجانا  ہے۔

کیرالا میں پتھوپلی اسمبلی حلقہ  میں کانگریس کے دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے اومن چنڈی کی موت کے سبب انتخاب ہوا ۔ یہاں پر صرف  1967میں سی پی ایم کا امیدوار جیتا  تھا اس کے بعد بارہ مرتبہ اومن چنڈی نے کامیابی حاصل کی۔اس حلقۂ انتخاب میں  40% عیسائی رائے دہندگان کے علاوہ  باقی لوگ مختلف جماعتوں میں منتشر ہیں ۔کانگریس نے آنجہانی اومن چانڈی کے بیٹے کو میدان میں اتار اور اس نے 81 ہزار 668 ووٹ حاصل کیےجبکہ قریبی حریف جیک سی تھامس کو 42 ہزار 425 ووٹ ملے حالانکہ پچھلی مرتبہ ہار جیت کا فرق صرف9,000 رہ گیا تھا  ۔ اس طرح یہاں بھی کانگریس نے خود کو مضبوط کیا ۔ جھارکھنڈ کی ڈمری اسمبلی سیٹ میں  جگن ناتھ مہتو کے انتقال   کی وجہ سے ضمنی انتخاب  ہوا۔ انہوں نےپچھلی بار اے جے ایس یو کی یشودھا دیوی کو 34,000 ووٹ کے فرق  سے ہرایا تھا۔جے ایم ایم نے ان کی بیوہ بیبی دیوی کو ٹکٹ دیا  اور انہوں نےیشودھا دیوی کو پھر  17 ہزار  ووٹوں سے شکست دی مگر اس بار فرق نصف ہوگیا۔ اس حلقۂ انتخاب میں قبائلی طبقہ  کے بعد مسلمان سب سے زیادہ ہیں۔

مغربی بنگال میں دھوپ گوڑی اسمبلی حلقہ پر بی جے پی کا قبضہ تھا، لیکن ترنمول کانگریس نے یہ نشست بی جے پی سے چھین لی۔ اس طرح تریپورہ کا انتقام لے لیا گیا ۔یہاں پرپچھلی بار 4,300 ووٹ سے جیتنے والے وشنو رائے پد کے انتقال کی وجے انتخاب کروانا پڑا۔  بی جے پی نے حال میں کشمیر کے اندر ہلاک ہونے والے سی آر پی ایف کے جوان جگن ناتھ رائے کی بیوہ تپاسی رائے کو ٹکٹ دے کر بڑا داوں کھیلا مگر ناکام رہی۔ ترنمول کی آمد سے قبل سی پی ایم وہاں سے آٹھ مرتبہ انتخاب جیت چکی ہے۔  سی پی ایم نے اس بار کانگریس کی حمایت  سے ایشور چند رائے کو ٹکٹ دیا مگر وہ صرف 13758 ووٹ حاصل کرپائے۔ ایشور چند اگر4 ہزار مزید  ووٹ حاصل کرلیتے تو وہاں پھر  سے بی جے پی جیت جاتی کیونکہ  جہاں   ترنمول امیدوار نرمل چندر رائے کو 96961 ووٹ  ملے وہیں بی جے پی کی تاپسی رائے نے 92648        ووٹ حاصل کیے ۔ ان نتائج میں کانگریس اور سی پی ایم کے لیے بڑی نصیحت  ہے۔   

اترپردیش میں گھوسی کے علاوہ  یہ سارے  ضمنی انتخابات مجبوری تھے لیکن یہاں ایسا نہیں تھا ۔پچھلی بار بی جے پی سے بغاوت کرنے والے داراسنگھ چوہان  کو سماجوادی نے اپنے کامیاب امیدوار کا ٹکٹ کاٹ کر امیدوار بنایا اور کامیاب کیا ،  اس کے باوجود وہ  وزارت کے چکر میں   استعفیٰ دےکر بی جے پی میں لوٹ گئے۔ اس  نے بھی ایک غدار کو دوبارہ اپنا کرامیدوار بنالیا ۔ اب وہ نہ  گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ سماجوادی پارٹی نے اپنے پرانے امیدوارسدھاکر سنگھ کو پھر سے ٹکٹ دیا اور کانگریس و آر ایل ڈی کی مدد سے کامیاب کردیا ۔   قدرتکی ستم ظریفی ہے کہ   پسماندہ سماج کی سیاسی جماعت  نے  ایک راجپوت امیدوار کو ٹھاکروں کی بی جے پی کے پسماندہ امیدوار کےخلاف میدان میں اتارکر   42,759 کا فرق  سے شکست دی  ۔ پچھلی مرتبہ یہ فرق صرف 22,216  ووٹ کا تھا ۔ بی جے پی کو زعم تھا کہ وہ یوپی میں  پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیتی ہے لیکن اس بار سماجوادی پارٹی کو 58%  ووٹ ملےجبکہ پچھلی بار یہ 42% تھا۔ اس بار مایا وتی نے انتخاب  نہیں لڑا  جبکہ 2022 میں ان کو  21%  ووٹ ملے تھے  سابق بی ایس پی امیدوار  دارا سنگھ کو اس ووٹ کی امید تھی مگر وہ پوری نہیں ہوئی۔ بی جے پی کے ووٹ کا تناسب   پانچ فیصد بڑھ کر 38% تک تو پہنچا مگر یہ کافی نہیں تھا۔  اس طرح  انڈیا نامی وفاق  نے یوگی اور مودی کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی خاطر یوگی انتظامیہ نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو پریشان کیا مگر امت کہاں ڈرتی ہے۔ اس نے بی جے پی کو سبق سکھا ہی دیا کیونکہ بقول اقبال(ترمیم کی معذرت کے ساتھ ) ؎

یوگی  سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم                           سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

 

Comments are closed.