’’انڈیا‘‘اتحاد سے بی جے پی میں بوکھلاہٹ صاف ظاہر

جاوید جمال الدین
ممبئی میں حزب اختلاف کے نئے گروپ کی شاندار اور جاندار دوروزہ اجلاس نے جیسے بی جے پی اور برسر اقتدار محاذ میں بوکھلاہٹ پیدا کردی اور کئی ایسے نظارے دکھائی دے رہے جوکہ ان کی بوکھلاہٹ کاثبوت ہے جبکہ ایک طرح سے اپوزیشن کے حوصلے بھی بلند نظرآرہے ہیں۔بی جے پی یا این ڈی اے کی بوکھلاہٹ جگ ظاہر ہے،کیونکہ پہلے ہی پٹنہ اجلاس کے موقع پر ان کی اہمیت کرتے ہوئے خوب مذاق اڑانے کی کوشش کی گئی،بلکہ کہاکانے لگا کہ مذکورہ بارات کا کوئی دولہا ہی نہیں ہے۔
خیراپوزیشن رہنماؤں نے متحد ہونے کا جو مظاہرہ کیا اور مستقبل کا لائحہ عمل پیش کیاہے،اس کی وجہ سے بی جے پی کے حلقوں میں تشویش بڑھنا فطری امر تھا کیونکہ بنگلور میں 26 اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہونے والا تھا تو اسی روز این ڈی اے کے اجلاس کا اعلان کر دیا گیا۔اس سلسلہ میں بلاجھجھک کیا جاسکتا ہے کہ خاموش تماشائی حزب اختلاف نے دریا میں موجیں اٹھا دی ہے اور ایل کھل لی سی مچی ہوئی ہے۔اور این ڈی اے نے ممبئی اجلاس کے بعد عوامی مفاد میں کئی فیصلہ ایسے لیے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مضبوط اور متحد و مستحکم اپوزیشن ارباب اقتدار پر زبردست اثر انداز ہوسکتا ہے اور اہمیت کے حامل فیصلہ لیے جاسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپوزیشن پارٹیوں کو اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی تھی اور تب یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ حزب اختلاف کو یکجا کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوں گے کہ این ڈی اے مخالف بیشتر جماعتیں ایک چھتری کے نیچے جمع ہو کر مشتر کہ انتخابی حکمت عملی طے کریں گی اور وزیر اعظم نریندر مودی سے دو بدو مقابلے پر آجائیں گی ۔
جب بنگلور میں اس کا دوسرا اجلاس ہوا اور اتحاد کا نام انڈیا رکھا گیا تو اس وقت بھی یہ اندزہ نہیں تھا کہ برسر اقتدار میں کھلبلی مچ جائے گی مگر ممبئی میں ہونے واے تیسرے اجلا س کے موقع پر حکومت کو کئی اہم فیصلے لینے اور اہم اعلانات کرنے پر مجبور کر دیا گا۔ اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اگر اپوزیشن کے اتحاد میں 26 جماعتیں ہیں تو این ڈی اے کے اتحاد میں 38 جماعتیں ہیں۔ یہ الگ بات ہوسکتی۔ ہے کہ ان میں سے متعدد جماعتیں ون مین شو ہیں اور انھوں نے گزشتہ پارلیمانی الیکشن لڑا ہی نہیں تھا۔
ممبئی اجلاس کے بعد حزب اختلاف کے حوصلہ بلند ہیں اور سبھی لیڈران کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے ارگرد گھوم رہے ہیں۔ را ہل کی پدیسےرا نے صورتحال بدل کر رکھ دی ہے ،قدآور لیڈران بھی آس پاس رہنے میں بہتری سمجھ رہے ہیں۔راہل گاندھی ان دنوں یوروپ کے دورے پر ہیں۔ بیلجیم بروسیلیس میں راہل گاندھی نے ایک بار پھر سنگھ پریوار اور برسر اقتدار پارٹی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی اور نظریاتی اختلافات پر کھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہندوستان میں مہاتما گاندھی اور ناتھو رام گوڈسے کے وژن کے درمیان لڑائی چل رہی ہے۔ آئین میں ہندوستان کو یونین آف اسٹیٹس کہا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یونین کے ممبران کی بات چیت ہونا اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ دوسری طرف ایک اور وژن ہے جو بی جے پی کا وژن ہے، جس میں اس کا خیال ہے کہ اقتدار اور اختیار ایک ہی جگہ پر ہونا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستانی عوام اور یونین کے ارکان کے درمیان بات چیت کو دبا دینا چاہیے۔ راہل کی باتوں پر غور کیا جائے تو حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت اور اداروں پر حملہ ہورہاہے۔ گزشتہ 9 سال اور مودی کی دوسری مدت میں ہندوستان میں تشدد اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔ اقلیتوں، دلتوں، آدیواسیوں اور نچلی ذاتوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔خصوصی طورپر مسلمانوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی کوشش جارہے اور انہیں لپیٹاجارہاہے اور کہیں وہ خاصے خوف زدہ اور سہمے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ہندوستان کی فطرت کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔بقول راہل ہم روس یوکرین جنگ پر ملک کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ روس کے ساتھ ہمارے اچھے رشتے ہیں۔ اپوزیشن بھی اس معاملے پر وہی موقف اختیار کرتی جو حکومت نے اختیار کیا ہے۔ جی-20 سربراہ اجلاس میں ملکار جن کھر گے کو دعوت نہ ملنے پر راہل گاندھی نے کہا کہ حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ملک کے 60 فیصد عوام کی قیادت کرنے والوں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ یہ حکومت کی سوچ کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ جی-20 کی صدارت ملنے پر کانگریس لیڈر نے کہا کہ یہ ملک کیلئے اچھی بات ہے۔ روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ تعلقات سے متعلق یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے۔
ہمارے بہت سے ممالک کے ساتھ تعلقات اور شراکت داریاں ہیں۔ ہندوستان کا حق ہے کہ وہ جس سے چاہے تعلقات برقراررکھے۔ انڈیا اتحاد اور راہل گاندھی کی سرفرازی سے بی جے پی اتنی پریشان ہے کہ ان کی سزائے سلسلہ میں فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جارہاہے ،دراصل انہیں 1947 کے بعد ہتک عزت کے معاملے میں سب سے بڑی سزا ملی ہے۔ انہوں نےاڈانی کے بارے میں پارلیمنٹ میں تقریر کی تھی، جس کے لیے یہ تحفہ دیاگیاہے، اس کی وجہ سے انہیں نااہل قرار دیا گیا۔ یہ سچ ہے کہ پہلے ہندوستان میں پریس کی آزادی کمزور ہوتی تھی لیکن گزشتہ 9 سال میں اسے مزید کمزور کیا گیا ہے۔لیکن۔ گودی میڈیا نے حکومت سے زیادہ حزب اختلاف کو نشانہ بنایاہے اور تلخ سوالات یہی اینکر کرتے ہیں جو حکومت کے حامی ہیں۔
حقیقت یہ جمہوریت کے لیے پریس کی آزادی اور تنقید کو سننا ضروری ہے۔عوام خوش نہیں ہے اور وہ بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ لوگ ناراض ہیں، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ریکارڈ بے روزگاری کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں معیشت کو لے کر وز یر اعظم مودی کے دعووں پر بھروسہ کرنامشکل لگتا ہے۔حکومت کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ایسے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ممبئی اجلاس سے دوروز قبل اچانک رسوئی گیس سلنڈر کی قیمت دوسو روپیے کم کردیئے گئے۔انڈیا کا اثر ایک حد تک نظر آتا ہے ،کیونکہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو انڈیا کے مقابلے میں کم نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔
[email protected]
9867647741
Comments are closed.