ہیٹ انڈسٹری اور ہماری حکمتِ عملی

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
میں پچھلے کئی برسوں سے اپنے اخباری کالم میں بار بار لکھ رہا ہوں کہ یہ جو مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپچ ہورہی ہے۔ اشتعال انگیز نعرے لگ رہے ہیں اور جگہ جگہ فرقہ وارانہ تصادم کا ماحول بنایا جارہا ہے جس نے آج کی تاریخ میں باضابطہ ہیٹ انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے اور ہر روز ایک نیا بھڑکاؤ بھاشن، ایک نیا بھڑکاؤ نعرہ، کارٹون، خاکے اور فلمیں اور ڈکومنٹریز بنائی جارہی ہیں یہ کسی فرنچ ایلیمنٹ یا انتہا پسند گروہ کا کارنامہ نہیں ہے، بلکہ یہ رولنگ ڈسپنسیسن اور اس کے تھنک ٹینک کی سوچی سمجھی اسٹریٹجی کا پارٹ ہے جس کی حمایت جگت گرو، مندر اور مٹھ کے مہنت، میڈیا کے مالکان اور یہاں کے بڑے سرمایہ دار اور کارپوریٹ گھرانے کررہے ہیں۔ جس کا واضح طور پر دو مقصد ہے۔ پہلا ہندو اور مسلمان میں تفریق کو مضبوط کرنا اور ہندو اکثریت کو اپنے حق میں گول بند کرنا۔ دوسرا مقصد مسلمانوں میں انتشار اور افتراق پیدا کرنا،ان کو ڈرا کر رکھنااور انہیں دوسرے درجہ کا شہری بننے پر مجبور کرنا۔
ان حالات کا مقابلہ کیسے کیا جائے یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ حالات ایسے ہیں اور لوگ اس طرح گالی گلوج پر آمادہ ہیں کہ صبر کا بند ٹوٹ جانا فطری ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ ہمارا مقابلہ کسی چھوٹے سے انتہا پسند گروہ سے نہیں ہے بلکہ اسٹیٹ پاور سے ہے کیونکہ جو ہورہا ہے وہ اسٹیٹ کے زیرِ سایہ ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے دیکھا کہ کسی مقام پر فساد ہوگیا ہے۔ فساد میں دونوں طرف کے لوگوں کا جان و مال کا نقصان ہوا۔ کسی مقام پرفساد کا ہونا اور کچھ دنوں تک جاری رہنا یہ انٹیلی جینس ایجنسی اور حکومت کے لاء اینڈ آرڈر کا فیلیور ہے، جس کے لیے اس ریاست کی حکومت اور لوکل ایڈمنسٹریشن ذمہ دار ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب اور جہاں حکومت نے نہیں چاہا وہاں نہ کوئی جلوس نکلا، نہ بھڑکاؤ نعرے لگائے گئے اور نہ کوئی فساد ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ ہریانہ کی سڑکوں پر کچھ لوگوں کا جلوس نکلا جو رکشہ پر مائیک لگا کر بھڑکاؤ نعرے لگارہے تھے، اور مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کررہے تھے اور پولیس کا پورا دستہ ان کی نگرانی کررہا تھا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ حکومت نے نہ صرف ایسا کرنے اور کہنے کی اجازت دی بلکہ ان کو پورا تحفظ بھی عطا کیا۔ اس سے ان لوگوں کا حوصلہ بلند ہونا فطری ہے۔ جن ریاستوں میں انہیں اندیشہ ہے کہ وہاں حکومت ان کی پشت پناہی نہیں کرے گی وہاں ایسی چیزیں دیکھنے کو نہیں ملتی ہیں۔ ابھی نوح میں جب سپریم کورٹ نے ہدایت دی تو اسی ہریانہ کی حکومت نے حالات کو قابو میں رکھنے کی کامیاب کوشش کی اور وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ حکومت اکثر اپنی ناکامی چھپانے کے لیے انتقامی کارروائی پر اتارو ہوجاتی ہے۔ لوگوں کی بے تحاشہ گرفتاری اور بلڈوزر کارروائی جس میں مسلمان نوجوانوں اور مسلمانوں کے گھروں کو توڑنے کی یک طرفہ کارروائی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جو کام فسادی کرنے میں ناکام رہے حکومت نے اس کو پورا کردیا۔ اس طرح ہر طرف تباہی کا منظر نظر آتا ہے جیسے کوئی فاتح فوج اس علاقے سے گزری ہے۔
ہر جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی ہے اور نہ ہر جنگ تلوار سے لڑی جاتی ہے۔ اس کے لیے علم، فراست، صبر و حکمت اور ذوقِ یقین وہ ضروری لوازمات ہیں جس کے بغیر کوئی بھی لڑائی شکست و ہزیمت کو دعوت دینا ہے۔ دراصل بھارت کی آزادی کی جدوجہد کے دنوں میں ملک میں دو دھارائیں چل رہی تھیں، ایک طرف مشترکہ سیکولر اور جمہوری ہندوستان کا تصور تھا اور دوسری طرف خالص ہندو راشٹر کا نظریہ تھا۔ بھارت کی تاریخ نے ایک پورا سرکل مکمل کرلیا ہے۔ پہلا نظریہ ان کے حاملین کی منافقانہ حرکتوں سے کمزور ہوکر پسپائی سے دوچار ہے۔ جبکہ دوسرا نظریہ اپنی سوسالہ محنت کے نتیجہ میں کامیاب ہوتا نظر آتا ہے۔ اس نظریے سے نہ صرف ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو خطرہ ہے بلکہ اس ملک کی تاریخ، ساجھا سنسکرتی اور اس سے بڑھ کر ملک کے دستور اور جمہوری اداروں اور جمہوری قدروں کو خطرہ ہے اور ملک پر فسطائیت اور ڈکٹیٹرشپ کے سیاہ بادل منڈلارہے ہیں۔ ملک کا ایک بڑا طبقہ اس صورتحال سے پریشان ہے۔ لہٰذا ہمیں اس جنگ کو اکیلے لڑنے کے بجائے ان تمام عناصر کے ساتھ مل کر لڑنا چاہیے جو جمہوریت اور آئین میں یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں ہر طرح کی تشدد آمیز کارروائی سے بچتے ہوئے پُرامن جمہوری اور آئینی جدوجہد کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ یہ لڑائی لمبی ہے اور لمبے دنوں تک چلنے والی ہے، لہٰذا صبر و عزیمت کے ساتھ لوگوں سے تال میل بٹھا کر اس کو لڑنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ اس درمیان میں اپنے نوجوانوں کی اچھی تعلیم، اچھی صحت اور جمہوری قدروں میں ان کے یقین کو پختہ کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق وہ لوازم ہیں جس کے بغیر اس لڑائی کو لڑنا اور اس میں کامیاب ہونا مشکل ہے۔ ہر رات کی طرح اس رات کی صبح ہوگی انشاء اللہ!
Comments are closed.