کلیم عاجز: ایک ولی صفت شاعر
محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
فون نمبر = : 9933598528
ہندوستان میں بہار کی سرزمین ہمیشہ سے پر بہار اور مر دم خیز ثابت ہوئی ہے، علماء، صلحاء، اولیاء، صوفیا، ادباء، اور شعراء کا مرکز رہا ہے، بہار کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے تین قدیم مذاہب جین مت، ہندو مت اور بدھ مت کی تاریخ اسی بہار کی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے۔ بدھ عہد کی عظیم تعلیم گاہیں نالندہ اور وکرم شیلا اسی صوبہ میں واقع ہیں ، بدھ مذہب کے سب سے بڑے پیشوا اور بانی گوتم بدھ کو اسی بہار کی سرزمین میں علم ومعرفت کا گیان حاصل ہوا تھا ۔ بہار کے مشہور صوفی شیخ خضر پارہ کی بزرگیت کی شہرت ہندوستان کے مغربی علا قہ تک پہنچی ہوئی تھی، بتایا جاتا ہے کہ نامور بزرگ، محبوب الہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃاللہ علیہ نے بھی ان سے کسب فیض کیا تھا ۔ مشہور ادیب اور نامور انشاء پرداز، عظیم صحافی، محقق، مصنف مولانا عبد الماجد دریا بادی رحمۃاللہ علیہ بہار کے بارے رقمطراز ہیں ”بہار کی سرزمین آج سے نہیں گوتم بدھ کے زمانے سے پر بہار چلی آرہی ہے،کیسے کیسے عالم ،درویش، حکیم، ادیب،مورخ ، شاعر اسی خاک سے اٹھے اور یہیں کے خاک میں مل کر رہ گئے۔ یہ وہی بہار ہے جس کا پانی کوئی غبی پی لے تو وہ ذہین ہو جائے ،یہ گیان کی سرزمین رہی ہے“۔ تیلہاڑہ صوبہ بہار کے نالندہ ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں پرانے زمانے میں بدھ مت کے راہب رہا کرتے تھے۔ اسی تیلہاڑہ گاؤں میں شیخ کفایت حسین صاحب کے گھر میں 11/اکتوبر 1920ء میں کلیم احمد نے آنکھیں کھولی جو بعد میں "ڈاکٹر کلیم احمد عاجز” کے نام سے اردو ادب کے شعر و سخن کی دنیا میں شہرت حاصل کی، آپ کی والدہ محترمہ کا نام امت الفاطمہ شہید تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم 1932ء میں اپنے نانا مولوی سید ضمیر الدین کے مکتب سے شروع ہوئی ۔اور 1940ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پورے بہار میں پانچویں پوزیشن حاصل کی ۔ 1942ء میں ان کی شادی رئیس پٹنہ ‘شیخ کنواں’ کی پوری انوار فاطمہ سے ہوئی۔ 1956ء میں بی اے آنرس میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی اور پورے بہار میں اوّل آئے۔ اور 4 طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1958ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے پاس کیا۔ اور اپنے یونیورسٹی میں اوّل رہے۔ اور طلائی تمغہ کے حق دار ہوئے۔ 1965ء میں ‘بہار میں اردو کی ارتقاء ‘ پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔ کلیم عاجز کا طالب علمی سے فراغت کے بعد تک پٹنہ یونیورسٹی سی تعلق قائم رہا ۔ اور وہ وہاں کے شعبہ اردو میں فیکلٹی ممبر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور بحیثیت پروفیسر بحالی عمل میں آئی ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ حکومت بہار کی اردو مشاورتی کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے اور تا حیات اس عہدے پر برقرار رہے. کلیم عاجزؔ کو شاعری کا ذوق فطرت میں شامل تھا۔ بچپن ہی میں علمی و ادبی ماحول میسر ہوا جہاں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفلیں جمتیں تھیں ۔ پٹنہ کے ” انجمن رفیق الشعراء” کے طرحی مشاعرں سے شاعری کی ابتداء کی۔ اور 1950-51 سے شاعری کے میدان میں قدم رکھا اور زینہ بزینہ بتدریج ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے اردو شعر و ادب میں عالمی شہرت کے حامل ہوئے.
کلیم عاجز نے اپنی پہلی غزل محض17 برس کی عمر میں لکھی اور 1949ء سے باضابطہ مشاعروں میں شرکت کرنے لگے ۔ 1951ء میں پہلی بار پٹنہ سے باہر ‘بزمِ فرح’ جمشیدپور کے مشاعرے میں شرکت فرمائی ۔ اور 1966ء میں شاعر کی حیثیت سے پہلا بیرون ملک کا سفر "جدہ مشاعرہ "میں شرکت کے لئے سعودی عرب تشریف لے گئے ۔ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کا پہلا دیوان 1976ء میں شائع ہوا جس کی تقریب رونمائی اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند سید فخر الدین علی احمد کے ہاتھوں وگیان بھون دہلی میں ہوئی۔ اس کے بعد ان کے یکے بعد دیگرے متعدد دیوان منظر عام پر آئے جن میں "جب فصل بہاراں آئی تھی ، وہ جو شاعری کا سبب ہوا ، جب فصل بہار آئی، اور جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی” قابل ذکر ہیں۔ کلیم عاجزؔ کے کلام عوام الناس میں کافی مقبول ہوئے اس کی وجہ دراصل ان کی شخصیت کی تشکیل میں مذہبی روا داری، سنجیدگی، متانت، شرافت، نفاست، صداقت، سلیقہ اور وضعداری کی اہم حصہ داری شامل ہیں ۔ قلب ونظر کی نظافت و پاکیزگی روح و جگر کی شفافیت ان کے ظاہر سے بھی عیاں ہوتی ہیں اور ان کے کلام میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ان کے کلام میں پیچ و خم اور ژولیدہ خیالی مشکل سے نظر آتی ہے اس لیے اشعار کی تفہیم میں ترسیل کا مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا۔ اس نسبت سے اردو زبان و ادب کے مشہور نقاد، پٹنہ یونیورسٹی کے معروف اور معتبر پروفیسر کلیم الدین احمد کی ذاتی رائے ملاحظہ فرمائیں ۔وہ لکھتے ہیں ’’کلیم عاجزؔ کے شعروں کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے شعروں میں ایک مخصوص سادگی ہے۔ ان کے الفاظ جانے پہچانے ہوتے ہیں ، ان کی ترکیبیں ایسی سیدھی سادی ہوتی ہیں کہ مفہوم فوراً ذہن نشیں ہوجاتا ہے۔ یہ نہیں کہ ان کے سادہ اور سستہ الفاظ کی وجہ سے اشعار سطحی ہوتے ہیں بلکہ الفاظ اور ترکیبوں اور معانی کے درمیان کوئی پردہ نہیں بلکہ یوں کہیے کہ ان کے الفاظ ایسے شفاف ہوتے ہیں کہ معانی کو ایک نگاہِ غلط انداز بھی پالیتی ہے۔ اکثر ان کے شعروں میں لفظوں کا ایک تو سطحی مفہوم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا مفہوم ہوتا ہے، دونوں بیک وقت سمجھ میں آجاتے ہیں۔” کلیم عاجز غزل گوئی میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی غزلیں ایک منفرد رنگ میں نظر آتی ہیں ، اور وہ ان کی شاعری کا لب ولہجہ ہوتا ہے، ان کی غزلوں میں وہ مخصوص الفاظ "کروہو، چلے ہے، چلوہو ، جانے ہے‘‘ وغیرہ جو خاص اردو محاورے ہیں، اُن محاوروں کو با ضابطہ اپنی غزلوں میں سب سے پہلے میر تقی میر نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے، ان کا مشہور زمانہ شعر آپ بھی گنگنائیے، ع سرہانے میر کے آہستہ بولو * ابھی ٹُک سو گیا ہے روتے روتے” اس قسم کے محاورے دہلی اور لکھنو کے نوابوں کے گھرانے میں کثرت سے استعمال ہوتے تھے، اس طرح کے اچھوتے الفاظ کا استعمال ان کی شاعری کے لب ولہجے کے لئے اگر کہا جائے کہ خاص ہے جس کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی غزلوں میں نہایت فنکارانہ انداز میں استعمال کیا ہے جو غزل کا اہم جزو اور قاری کی توجہ کا مرکزی نقطہ ثابت ہوتا ہے، کلیم عاجز کا یہ مشہور شعر ملاحظہ فرمائیں، ع دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ * تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو. رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں * چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو. کلیم عاجز "میر” کے انداز اور ان کے طرز بیان کے لیے بہت مشہور ہیں۔ جس کو وہ خود بھی محسوس کرتے تھے اور کئی جگہوں پر برملا اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے۔ ع اس قدر سوز کہاں کسی اور کے ساز میں ہے* کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے. تم ہو گئے ہو میر تقی میرؔ کی طرح * آگ اپنے دل کی سب کے دلوں میں لگاؤ ہو. کلیم عاجز نے میر کا انداز بیاں اپنانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان کے دائرۂ فکر و فن میں میر کی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہے، بلکہ اردو شاعری میں ان کے اس طرز بیاں سے اپنی ایک الگ پہچان، انداز اور اسلوب اپنائی ہے، جس کے ذریعہ وہ شاعری کی دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کے تعلق سے ان کے استاد علامہ جمیل مظہری رقمطراز ہیں ”کلیم عاجز اپنے کیفیات تغزل میں میر کے فرماں بردار پیرو تو ہیں لیکن یہ نہ سمجھیے کہ ان کے دائرۂ فکر و فن میں میر کی تقلید کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ ہمیں ان کی غزلوں میں تغزل جدید کا پرتو بھی ملتا ہے۔ ان کے انداز بیان میں نہ سہی، ان کے انداز فکر میں بھر پور ندرت اور بھر پور جدت ہے۔ انداز فکر میں جدت اور انداز بیان میں قدامت کلیم عاجز کے تغزل کا مخصوص آرٹ ہے جو سینکڑوں شعرا کے ہزاروں اشعار کے ہجوم میں جانا اور پہچانا جا سکتا ہے”. (وہ جو شاعری کا سبب ہوا)
جمیل مظہری کے بعد کنہیالال کپور نے ایک مضمون ’کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے‘ لکھ کر جمیل مظہری کی رائے کو تقویت پہنچائی۔ اس سلسلے میں خود کلیم عاجز کے چند اشعار نے بھی ’میر اور کلیم‘ کے موضوع کو استحکام بخشا ہے کنہیا لال کپور نے لکھا ہے ’’شیخ عبدالقادر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب کچھ نقاد کہہ رہے ہیں کہ کلیم عاجز کی غزلوں میں خدائے سخن میر دو بارہ زندہ ہوگئے ہیں۔ اس قول کا اطلاق شاید ان کی ساری شاعری پر نہ ہوتا ہو، لیکن ان غزلوں پر ضرور ہوتا ہے جو انھوں نے پچھلے دنوں کہی ہیں۔ ‘‘ (جب فصل بہاراں آئی تھی) کلیم عاجز کی شاعری میں ایک بڑی خصوصیت یہ کہ وہ جس زبان میں سوچتے تھے اسی زبان میں شعر بھی کہتے تھے ، بالکل عام بول چال اور روز مرہ والی زبان، جو سماج اور معاشرے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بے شمار اشعار ایسے ہیں جو زبان زد خاص و عام ہیں جسے لوگ موقع محل سے استعمال بھی کرتے رہتے ہیں. کلیم عاجز اپنی غزلوں کی بنیاد حقائق پر رکھتے تھے، ہوا پر گرہ باندھنے کی پرانی روایت اور زمانے کی روش سے ہٹ کر اپنی شاعری میں ایک الگ مقام بنانے کی کوشش کی ہیں ،جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ان کے اشعار میں سہل ممتنع کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں آپ بیتی جگ بیتی بن جاتی ہے، جو ایک اچھے فنکار ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ان کے ان تمام خوبیوں کی وجہ سے اپنے تمام ہم عصروں میں ایک ممتاز شاعر جو شاعری کی دنیا میں ایک مخصوص مقام و مرتبہ پر فائز نظر آتے ہیں. ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں. ع ابھی کلیمؔ کو پہچانتا نہیں کوئی * یہ اپنے وقت کی گدڑی میں لال ہے پیارے. یہ گدڑی میں لعل کو سمجھنے کے لئے ان کی زندگی کے شعر و سخن کی محفلوں سے ہٹ کر ان کی نجی زندگی میں جلوت اور خلوت کی جانب رخ کرنا ضروری ہو گا
ان کا ایک شعر پر نظر ڈالیں کہتے ہیں. کیا دل ہے کہ آرام سے اک سانس نہ لے ہے* محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے. پروفیسر عبدالواسع کا مضمون ’’کلیم عاجز یادیں و باتیں‘‘ میں اس پر سے پردہ اٹھاتے ہوئے رقمطراز ہیں ’’ کلیم عاجز کو جیسا میں نے دیکھا اور پایا تو احساس ہوا کہ انہوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ نہ کوئی شان و شوکت، نہ علم کا غرور بلکہ انکساری و عاجزی کے پیکر تھے۔ زبان سے دعاؤں کا ورد کرتے رہتے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا دل بھی ذکرِ الٰہی میں محو ہو بلکہ ذاکر ہو گیا ہو۔ کہاں ملتے ہیں ایسے دیدہ ور لوگ۔ وہ اپنے میں ایک دبستان تھے۔” کلیم عاجزؔ ایک کامیاب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی نجی زندگی کا دینی، اصلاحی، دعوتی اور تبلیغی پہلو بھی نہایت ہی روشن اور مثالی رہا ہے۔ آپ حلقہ بہار میں دعوت و تبلیغ کے امیر کی حیثیت سے بہت بلند حیثیت کے حامل تھے ۔ آپ کا دل نورِ ایمانی سے منور تھا۔ آپ کی سحر خیزی اور نالۂ نیم شبی کا کرشمہ تھا کہ غموں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں ہوتے ہوئے بھی آپ کی پیشانی پر کبھی شکن تک نہیں آئی۔ کبھی مایوس نہیں ہوئے، کبھی پژمردگی نہیں آئی، ہمیشہ صبر اور شکر کے ساتھ ہشاش بشاش اور مسکراتے رہے۔ ع، دل ہے لہو لہان مگر جبیں پر شکن نہیں۔ کا مصداق رہے، ان کے چہرے پر شرعی ڈاڑھی کا نور، بلند پیشانی، کھڑی ناک، صاف ستھرا رنگ، خوبصورت آنکھیں اور جاہ و جلال دیکھ کر بلا شبہ کسی بزرگ، ولی اور صوفی کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ کلیم عاجزؔ کی ایک مبلغ اور داعی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے حکمت و موعظت کے ساتھ اسلامی شعار کی وضاحت بھی فرماتے تھے ، نمونہ کے طور پر ان کا ایک خط ملاحظہ فرمائیں ، جس میں وہ ایک ایسے شخص کو جو دوسرے مذہب کا پیروکار ہیں ان کو اعتکاف کی اہمیت و افادیت سے کس طرح روسناش کراتے ہیں، وہ لکھتے ہیں ’’ کل آپ کا خط ملا، جب میں تین روز کے لئے مسجد میں اعتکاف کرنے کو آ رہا تھا۔ اعتکاف کہتے ہیں چند روز کے لئے دنیا سے بالکل الگ علاحدگی اختیار کرنے کو، ہر طرح کے تعلق اور مشغلے سے الگ ہو کر صرف دھیان، تپسیا اور عبادت میں لگنا۔ دل کو دنیا سے خالی کرنا بہت مشکل ہے اور ہمارے مذہب میں دینداری اس کو کہتے ہیں کہ دنیا میں پوری طرح رہ کر، جسم کو دنیا میں مشغول رکھ کر، دل کو دنیا سے خالی رکھا جائے یعنی دنیا کی محبت دل میں نہ آئے، ہمارے یہاں اصل بروگ اور اصل جوگ یہی ہے۔‘‘(دیوانے دو، صفحہ 66) انہوں نے تبلیغی جماعت کے امیر کی حیثیت سے کئی اہم کارنامے انجام دئیے۔ دعوت و تبلیغ کے لئے دور دراز گاؤں اور ملک کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ دھوپ، گرمی، جاڑا ، برسات راہ کی دشواریوں اور کٹھن مرحلوں کو جھیلتے رہے ، ہر طرح کی مشقت برداشت کرتے ہوئے دعوتی مشن کو آگے بڑھایا۔ پوری دل جمعی اور دل سوزی کے ساتھ آخری دم تک اس فریضہ کو بطریقہ احسن انجام دیا۔ آپ ہمیشہ ترغیب و ترہیب پر باتیں کرتے اور اختلافی مسائل سے گریز کرتے، امت مسلمہ کو کلمۂ وحدت کی دعوت پر ایک لڑی میں پرو کر زندگی گذارنے کا پیغام دیتے تھے ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہر مسلک اور مشرب کے لوگ ان کا یکساں طور پر احترام کرتے تھے۔ ڈاکٹر کلیم احمد عاجزؔ کی ایک خاص علامت قدیم تہذیب و ثقافت کی پاسداری تھی ، علماء، صلحاء کی صحبت اور ان کے ساتھ اچھے مراسم تھے ۔ وہ اسلامی اور شرعی روایتوں اور قدروں کے امین و پاسدار تھے۔ اپنی تہذیب ، اپنی سرزمین اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور آخری سانس تک اس سے چمٹے رہے۔ شرفاء کا لباس ، پاجامہ، کرتا، شیروانی اور ٹوپی آپ کی شناخت اور پہچان تھی۔ یہ لباس آپ کا وجہِ افتخار تھا۔ اس سے کبھی بھی احساسِ کمتری کے شکار نہیں ہوئے، بلکہ اسی لباس و پوشاک اور رنگ و انداز میں آپ سات سمندر پار امریکہ اور کناڈا جیسے ممالک میں بھی اردو ادب اور شعر و سخن کی آواز بلند کی. کلیم عاجز شاعری کے ساتھ اپنے اٹوٹ رشتہ کے بارے لکھتے ہیں ’’شاعری بالکل میری ماں بن گئی ہے۔ اس کی آغوش میں مجھے ہفتِ اقلیم میں سے کسی چیز کی احتیاج نہیں رہتی۔ میں غنی، سیر آسودہ ہوجاتا ہوں۔ سیراب و شگفتہ ہوجاتا ہوں۔ میری ماں کی بے قرار روح میری شاعری میں سما گئی ہے۔ آپ سمجھ گئے؟ شاعری سے میرا تعلق کیا ہے، کیسا ہے، کس نوعیت کاہے۔” آگے لکھتے ہیں” خدا نے خدا کے دین نے، مذہب نے، جن جن کا احترام لازمی قرار دیا ہے اُن کے بعد کسی کا احترام میری نگاہ میں ہے تو وہ میری شاعری ہے۔ میری نگاہ میں میری شاعری کی بڑی اہمیت ہے، بڑی عظمت ہے۔جب میں کیفِ شاعری میں ہوتا ہوں تو دنیا کی ہرچیز ہیچ ہوجاتی ہے، ہر لذت فراموش ہوجاتی ہے، ہر نشہ اُترجاتا ہے اور شاعری کا نشہ چڑھ جاتا ہے۔‘‘ اردو ادب کی معروف شخصیت کلیم الدین احمد ان کے بارے میں لکھتے ہیں "کلیم عاجز کے شعروں میں ایک مخصوص سادگی ہے. ان کے شعروں میں غم جاناں بھی ہے اور غم دوراں بھی اور دونوں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے الگ نہیں کیے جاسکتے۔” اردو ادب کے نامور نقاد کوثر مظہری فرماتے ہیں کہ "کلیم عاجز سراپا سوز ہیں اسی لیے ان کی غزلوں میں سلگن کی کیفیت اور آواز و لہجے میں درد کا رقص نظر آتا ہے۔” کلیم عاجز کی غزلیں ذو معنی ہوتے ہیں ۔ انہوں نے درد، عشق، ہجر، زلف، خون و خنجر، شیخ و برہمن اور قتل و دامن کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ کلیم عاجز اپنی شاعری کے ذریعے طنز کرنے میں ماہر تھے۔ وہ اپنی غزلوں میں دل کا درد، سوز و گداز، احساس کا کرب سیاسی اور سماجی حالات کی ترجمانی وغیرہ کو نہایت بلیغ انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے ۔وہ اپنی غزل کو ایک طرف خون جگر سے سینچنے کا حال جانتے تھے تو دوسری طرف شکر کے ساتھ کڑوا گھونٹ پلانے کا ہنر سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اس تعلق سے کلیم عاجز نے کثرت سے غزلیں اور نظمیں لکھیں ہیں۔ ان کی نظم "رات جی کھول کے پھر میں نےدعا مانگی ہے” بہت مقبول ہوئی، تو آئیے ع تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را * گاہے گاہے باز خواں ایں قصہِ پارینہ را. آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ” رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے* اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے. اور وہ چیز نہ دولت، نہ مکاں ہے، نہ محل* تاج مانگا ہے، نہ د ستار و قبا مانگی ہے. نہ تو قدموں کے تلے فرشِ گہر مانگا ہے * اور نہ سر پر کلہِ بالِ ہما مانگی ہے. نہ شریک سفر و زاد سفر مانگا ہے * نہ صدائے جرس و بانگِ درا مانگی ہے. نہ سکندر كی طرح فتح کا پرچم مانگا * اور نہ مانندِ خضر عمرِ بقا مانگی ہے. نہ کوئی عہدہ، نہ کرسی، نہ لقب مانگا ہے * نہ کسی خدمتِ قومی کی جزا مانگی ہے. نہ تو مہمانِ خصوصی کا شرف مانگا ہے* اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے. مے کدہ مانگا، نہ ساقی، نہ گلستاں، نہ بہار * جام و ساغر نہ مئے ہوشرُبا مانگی ہے. نہ تو منظر کوئی شاداب و حسیں مانگا ہے * نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے. محفلِ عیش نہ سامانِ طرب مانگا ہے * چاندنی رات نہ گھنگور گھٹا مانگی ہے. بانسری مانگی، نہ طاؤس، نہ بربط، نہ رباب * نہ کوئی مطربۂ شیریں نوا مانگی ہے. چین کی نیند، نہ آرام کا پہلو مانگا * بختِ بیدار، نہ تقدیرِ رسا مانگی ہے. نہ تو اشکوں کی فراوانی سے مانگی ہے نجات * اور نہ اپنے مرَض دل کی شفا مانگی ہے. نہ غزل کے لئے آہنگ نیا مانگا ہے * نہ ترنم کی نئی طرزِ ادا مانگی ہے. سن کے حیران ہوئے جاتے ہیں اربابِ چمن * آخرش! کون سی پاگل نے دعا مانگی ہے. آ ! ترے کان میں کہہ دوں اے نسیم سحری! * سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے کیا مانگی ہے. وہ سراپائے ستم، جس کا میں دیوانہ ہوں * اس کی زلفوں کے لئے بوئے وفا مانگی ہے. (ڈاکٹر کلیم عاجز) کلیم عاجز کو غزل اور نظم دونوں ہی صنفوں میں کمال حاصل رہا، ان کا مجموعہ کلام "وہ جو شاعری کا سبب ہوا” 1975 میں شائع ہوا، "جب فصل بہاراں آئی تھی” 1990 میں، "ابھی سن لو مجھ سے” 1992 میں اور ” کوچہ جاناں جاناں” 2002 میں شائع ہوا اس کے علاوہ ’’مجلس ادب‘‘ تنقیدی مضامین پر مبنی کتاب کے علاوہ تحقیقی مقالوں کا مجموعہ ’’دفتر گم گشتہ‘‘ ایک سفر نامہ جو سفر حج کے بعد انہوں نے ’’یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ‘‘ 1981 میں تحریر کیا، دوسرا سفر نامہ امریکہ ’’ایک دیش ایک بدیسی‘‘ بالترتیب 1978 اور 1979میں شائع ہوا۔ غزلوں، نظموں اور رباعیات پر مبنی ایک کتاب جسے ڈاکٹر وسیم احمد نے مرتب کیا ہے، 2008 میں منظر عام آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو دنیا کے نامور محقق کلیم الدین احمد بھی کلیم عاجز کی غزلوں کے زلف کے اسیر نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں "کلیم عاجز کے شعروں کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے شعروں میں ایک مخصوص سادگی ہے۔ ان کے الفاظ جانے پہچانے، ان کی ترکیبیں ایسی سیدھی سادھی ہوتی ہیں کہ مفہوم فوراً ذہن نشیں ہو جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ ان کے اشعار سطحی ہوتے ہیں بلکہ الفاظ، ترکیبوں اور معانی کے درمیان کوئی پردہ نہیں بلکہ یوں کہیے کہ ان کے الفاظ ایسے شفاف ہیں کہ معنی کو ایک نگاہ غلط انداز بھی پا لیتی ہے۔ اکثر ان کے شعروں میں لفظوں کا ایک تو سطحی مفہوم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک دوسرا مفہوم بھی ہوتا ہے۔ دونوں بیک وقت سمجھ میں آجاتے ہیں۔“ (وہ جو شاعری کا سبب ہوا ) نامور صحافی غلام سرور، کلیم عاجزؔ کے بارے میں اپنا تاثر بیان کرتے ہیں "بیسویں صدی کے نصف اواخر میں ان کا سا غزل گو کوئی پیدا نہیں ہوا۔‘‘ لال قلعہ میں 1972 کے عظیم الشان مشاعرے میں جس کے مہمان خصوصی فراقؔ گورکھپوری تھے، کلیم صاحب نے اپنی غزل کا جب یہ شعر پڑھا : اب انسانوں کی بستی کا وہ عالم ہے کہ مت پوچھو* لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہےاس شعر کے بعد کی صورت حال بیان کرتے ہوئے خود کلیم عاجز فرماتے ہیں ’’پورے مشاعرے میں صرف دو چیزیں نمایاں تھیں۔ غزل پڑھتا ہوا کلیم اور غزل کی داد دیتا ہوا غلام سرور۔ وہ مشاعرہ، میری غزل اور غلام سرور کی داد تینوں تاریخی ہوگئیں۔ ‘‘ کلیم عاجز کی زندگی میں ہی بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں اور نقادوں نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ فراق گورکھپوری ، کلیم عاجز کی شاعرانہ خصوصیات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔ ”میں اپنی زندگی کی اہم خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے جناب کلیم عاجز صاحب کا کلام خود ان کے منھ سے سننے کے موقعے ملے۔ اب تک کچھ لوگوں کی شاعری پڑھ کر یا سن کر پسندیدگی اور کبھی کبھی قدر شناسی کے جذبات میرے اندر پیدا ہوتے رہے۔ لیکن جب میں نے کلیم عاجز کا کلام سنا تو شاعر اور اس کے کلام پر مجھے ٹوٹ کر پیار آیا اور ہم آہنگی، محبت اور ناقابل برداشت خوشی کے جذبات میرے اندر پیدا ہو گئے۔ ان کا کلام مجھے اتنا پسند آیا کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی اور کلیم عاجز صاحب پر غصہ آنے لگا کہ یہ کیوں اتنا اچھا کہتے ہیں۔ ان کے اس جرم اور قصور کے لیے میں انھیں کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ اتنی ڈھلی ہوئی زبان، یہ گھلاوٹ، لب و لہجے کا یہ جادو جو صرف انتہائی خلوص سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے مجھے کبھی اس موجودہ صدی میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا تھا۔ میں ان کا کلام سن کر خود اپنا کلام بھول گیا”۔ ڈاکٹر کلیم احمد عاجزؔ کی ایک خاص شناخت قدیم تہذیب و ثقافت کی پاسداری ، علماء، صلحاء کی صحبت اور رکھ رکھائو تھی۔ وہ اسلامی اور شرعی روایتوں اور قدروں کے امین و پاسدار تھے۔ اپنی تہذیب ، اپنی سرزمین اور اپنی مٹی سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور آخری سانس تک اس سے چمٹے رہے۔ شرفاء کا لباس ، پاجامہ، کرتا، شیروانی اور ٹوپی آپ کی شناخت اور پہچان تھی۔ یہ لباس آپ کا وجہِ افتخار تھا۔ اسے کبھی بھی احساسِ کمتری کا سبب نہیں بنایا۔ اسی لباس و پوشاک اور رنگ و انداز میں آپ سات سمندر پار امریکہ اور کناڈا جیسے ممالک میں بھی اردو ادب اور شعر و سخن کی آواز بلند کی. پروفیسر توقیر عالم کلیم عاجز کی نظم نگاری سے متعلق اپنے مضمون میں لکھتے ہیں جس کا عنوان ہے . ’’کلیم عاجزؔ بحیثیت نظم نگار‘‘ پروفیسر توقیر عالم کا یہ مضمون اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت ہی منفرد ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ” کلیم عاجز کی غزل گوئی اور ان کی نثر نگاری کے مختلف گوشوں پر اہل قلم نے مختلف زایوں سے روشنی ڈالی ہے لیکن کلیم عاجز کی نظم گوئی کے حوالے باضابطہ کوئی مضمون میری معلومات کی حد تک اب تک کسے نے نہیں لکھا ہے۔ حالانکہ کلیم عاجز کے شعری سرمائے میں 81 نظمیں بھی شامل ہیں ” جناب عبدالباری قاسمی صاحب مونوگراف کلیم عاجز، پر تبصرہ میں لکھتے ہیں ” بیسویں صدی میں اردو غزل کو منفرد اسلوب اور آہنگ عطا کرنے والوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر کلیم عاجز کا بھی ہے ، کلیم عاجز بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں اور غزل کی وجہ سے ہی انہوں نے برصغیر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کی اور یورپی ممالک کا بھی سفر کیا ،مگر انہوں نے اردو شاعری کے اکثر اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ، خاص طور پر ان کی نظمیں بہت عمدہ ہیں ،بیسویں صدی میں میر کے لب ولہجہ اور انداز بیان کو زندہ کیا اس وجہ سے ان کو میر ثانی بھی کہا جاتا ہے ،کلام میں سوز و گداز اور رنج و غم ایسا ہے کہ کہیں کہیں عاجز کے غم کے سامنے میر کا غم پھیکا معلوم ہوتا ہے ” پروفیسر سیّدآلِ ظفر ایک جگہ لکھتے ہیں ’’بلاشبہ کلیم عاجز ایک بڑے فنکار تھے۔ اس لئے ان کی غزلیں بالعموم فکر بلند اور فنِ لطیف کا حسین نمونہ نظر آتی ہیں اور ان خوبیوں کی بدولت وہ تاریخ ادب اُردو میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گے” . کلیم عاجز کو ان کی ادبی خدمات پر حکومت ہند کی جانب سے 1982ء میں پدم شری اعزاز سے نوازا گیا تھا، اس کے علاوہ اور بھی کئی اعزازات آپ کے نام رہے، تقریباً 95 برس کی عمر میں ان کی وفات 14 فروری 2015 کی صبح ہزاری باغ جھارکھنڈ میں جہاں ان کی بیٹی مقیم ہیں آخری سانس لی، وہاں سے آپ کا جنازہ بہار کی راجدھانی پٹنہ لایا گیا وہاں کے مشہور گاندھی میدان میں لاکھوں سوگواران کی موجودگی میں نمازہ جنازہ ادا کی گئی، بہار پولیس نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا وہاں سے آپ کا جنازہ آپ کے آبائی گاؤں تیلہاڑہ لایا گیا اور آپ کے لواحقین اور شائقین ادب نے انہیں بادیدہ نم اور آپ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس موقع پر ایک لاکھ سے زائد پرستاران ادب موجود تھی ۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے شخصی طور پر ان کے ورثا سے ملاقات کرکے تعزیت پیش کی تھی.
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را. ***
Comments are closed.