نیوزاینکروں کی اشتعال انگیزی پر خاموش براڈکاسٹر تنظیم کااب واویلابے معنی
جاویدجمال الدین
نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن(این بی ڈی اے) نے انڈیا اتحاد کی طرف سے لئے گئے فیصلے سے سخت پریشان اور فکر مندی کا اظہار کیاہے۔ دراصل انڈیا نے اپنے نمائندوں کو کچھ صحافیوں/اینکرز کے پروگراموں اور مباحثوں میں نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے،این بی ڈی سے نے انڈیا کی طرف سے لیے گئے فیصلہ کوایک خطرناک نظیر قائم کرنے مترادف قراردیاہے۔
تنظیم نے انتہائی افسوناک لہجے میں کہاہے کہ حزب اختلاف کے اتحاد کے نمائندوں پر ٹی وی نیوز شوز میں شرکت کرنے پر پابندی جو ہندوستان کی کچھ سرکردہ ٹی وی نیوز شخصیات کے ذریعہ اینکر کی جاتی ہیں، جمہوریت کے اصولوں اور اخلاق کے خلاف ہے۔بلکہ یہ عدم برداشت کی نشاندہی کرتا ہے اور پریس کی آزادی کو متاثر کرتا ہے۔
جبکہ این بی ڈی اے نے اپوزیشن کو ہی نشانہ بنادیا ہے اور کہاہے کہ حزب اختلاف کا اتحاد تکثیریت اور آزاد صحافت کا چیمپیئن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس کا فیصلہ جمہوریت کے سب سے بنیادی اصول یعنی خیالات اور آراء کے کھلے عام اظہار کے ناقابل تنسیخ حق کے لیے سخت نظر انداز کرتا ہے۔بعض صحافیوں/اینکرز کا بائیکاٹ قوم کو واپس ایمرجنسی کے دور میں لے جاتا ہے، جب پریس کو دبایا جاتا تھا، اور آزادانہ رائے اور آواز کو کچل دیا جاتا تھا۔
این بی ڈی اے اپوزیشن اتحاد پر زور دیتا ہے کہ وہ بعض صحافیوں اور اینکرز کے بائیکاٹ کے اپنے فیصلے کو واپس لے کیونکہ اس طرح کا فیصلہ صحافیوں کو مارنے کے مترادف ہوگا اور ذرائع ابلاغ کی آزادی اور اظہار رائے کو دبانے کے مترادف ہوگا۔
این بی ڈی اے کی سیکریٹری جنرل اینی جوزف نے مذکورہ بیان جاری کرتے ہوئے صرف اور صرف حزب اختلاف کو ہی نصحیت کی ہے اور لمبا چوڑا لیکچر بھی دے دیا ہے کہ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئیے،بلکہ انہیں ملک میں 1975 میں نافذ کی گئی ایمرجنسی کی بھی یاد دلائی کہ بعض صحافیوں/اینکرز کا بائیکاٹ قوم کو واپس ایمرجنسی کے دور میں لے جاتا ہے، جب پریس کو دبایا جاتا تھا، اور آزادانہ رائے اور آواز کو کچل دیا جاتا تھا۔یہ عجیب بات ہے کہ انڈیا اتحاد کے قابل ذکر فیصلے پر واویلا مچانے والے این ڈی بی اے گزشتہ ایک عشرہ سے کیا کونوں میں روئی ڈالے بیٹھا تھا،جب ان اینکروں کی اکثریت بے روزگاری،مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل پر بحث ومباحثہ کے بجائے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے اور خلیج پیدا کرنے میں مصروف رہی ہے۔
دراصل انڈیا اتحاد کے فیصلے کو عام طور پرکیے گئے جائزہ میں قابل تحسین قرار دیا جارہا ہے، اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اس کی بھرپور حمایت کی جارہی ہے۔جن 14 اینکروں کی فہرست جاری کی گئی ہے ان میں ناویکا کمار ، سدھیر چودھری اور ارنب گوسوامی شامل ہیں اور ان کے پروگراموں اور بحث میں جانے کا بائیکاٹ کیا جائے گا، کیونکہ ان پر جانبداری اور اشتعال انگیزی کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص فرقے کو ٹارگیٹ کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے،جبکہ ان پر یہ بھی حزب اختلاف کے لیڈروں کے بیانات کو توڑ مروڑکر اور بحث ومباحثہ کے دوران ان کے جوابات سننے کے بجائے درمیان میں ٹوکنے اور بولنے سے روکا جائے کا الزام لگایا گیا ہے ۔جوکہ حقیقت پر مبنی ہے۔
فی الحال اشتعال انگیزی کرنے والے بے لگام اینکروں کے بائیکاٹ کے انڈیا اتحاد کے فیصلے نے جہاں ان اینکروں اور ان کی میڈیا کمپنیوں میں ہلچل مچادی ہے وہیں انڈیا اتحاد کے اس فیصلے کو سوشل میڈیا پر بھرپور حمایت مل رہی ہے۔ ساتھ ہی اہم شخصیات نے بھی اس فیصلے کی ستائش کی ہے۔ سوشل میڈیا پر خاص طور پر اس فیصلے کو سراہا جارہا ہے۔ چند افراد نے اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان بے لگام اینکرس کا بائیکاٹ کرکے گودی میڈیا کو ختم کرنے کی شروعات کردی گئی ہے۔ اس عرصہ میں کن اینکروں کا بائیکاٹ ہو گا ،انڈیا اتحاد نے ان کی فہرست جاری کی ہے اس میں ادیتی تیاگی، امن چوپڑا، امیش دیوگن،ارنب گوسوامی ، آنند نرسمہن،اشوک شریواستو ، چترا ترپاٹھی، گورو ساونت، ناویکا کمار،پراچی پراشر، روبیکا لیاقت، شیو ارور، سشانت سنہا اورسدھیر چودھری شامل ہیں۔ ان ناموں کے ساتھ مزید کچھ نام جوڑ کر ایسی کچھ فہرستیں ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیاپلیٹ فارمس پر گشت کررہی ہیں۔ اپوزیشن کے حامی افراد ان اینکروں کا بائیکاٹ کرنے کے فیصلے پر ٹویٹر پر ٹرینڈ بھی چلارہے ہیں۔
عام خیال ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف مظلوموں کی مدد ہوگی بلکہ اس سے اپوزیشن کے خلاف متعصبانہ رپورٹنگ اور میزبانی کرنے والے اینکروں کو سخت پیغام جائے گا۔ یہ بھی مطالبہ کیا جارہاہے کہ میڈیا ٹرائل کرنے والے اینکروں کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہئے کیونکہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں دانستہ طور پر دل آزاری، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کی کردار کشی اور ان کے ذریعہ اشتعال انگیزی کی جاتی ہےجو کہ سراسرناقابل قبول ہے۔ مولانا واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعےمیڈیا ٹرائل پر بھی برہمی ظاہر کرنے اور ہدایات جاری کرنے کا حکم بھی دیاہے، سپریم کورٹ نے جو احکامات جاری کئے ہیں وہ بالکل واضح ہیں اور اس سے اشتعال انگیزی پر روک لگانے میں بھرپور مدد ملے گی۔ سوال یہ ہے کہ آخر
انڈیا اتحاد نے کیا فیصلہ لیا ہے،مرکز کی مودی حکومت کے خلاف متحد ہوئی اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ نے ’گودی میڈیا‘ کے خلاف گزشتہ روز ہونے والی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ میں بڑا قدم اٹھایا ہے۔ انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسے ٹی وی اینکرس یا صحافیوں کے پروگرام میں اپنے لیڈرس کو نہیں بھیجیں گی جو کہ صرف اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے ایسے ٹی وی اینکرس کی فہرست جاری کی گئی ہے ، دراصل انڈیا اتحاد کے کوآرڈنیشن کمیٹی کی میٹنگ این سی پی چیف شرد پوار کی دہلی واقع رہائش پر منعقد ہوئی تھی۔ اس میٹنگ کے بعد ہی کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ میٹنگ میں اس بات پر اتفاق قائم ہوا ہے کہ کچھ میڈیا گروپس کے کچھ اینکرس کے شو میں انڈیا اتحاد کا کوئی بھی لیڈر شامل نہیں ہوگا۔ حالانکہ اس وقت انہوں نے کسی بھی اینکر کا نام ظاہر نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اینکرس کے نام پر فیصلہ وہ ذیلی گروپ کرے گا جسے میڈیا کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس گروپ نے جمعرات کو وہ فہرست جاری کی۔
کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے ٹویٹ کیا اور لکھاکہ ’’روزانہ شام کچھ نیوز چینلز پر نفرت کی دکانیں سجائی جاتی ہیں۔ ہم نفرت کے بازار کے صارفین نہیں بنیں گے۔ ہمارا مقصد ہے ’نفرت سے پاک ہندوستان‘۔انڈیا اتحادنے بڑے بھاری من سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ کچھ اینکرس کے شوز اور ایونٹس میں ہم شراکت دار نہیں بنیں گے۔ اپنے لیڈران کے خلاف نازیبا تبصرے اور فیک نیوز سے ہم لڑتے آئے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔‘‘
ظاہری بات ہے کہ اس فیصلہ سے بی جے پی کا چراغ پا ہونا فطری امر ہے،فیصلہ سے انڈیا اتحاد نے واضح لکیر کھینچ دی ہے وہیں بی جے پی اس پر سخت چراغ پا ہے۔ پارٹی صدر جے پی نڈا نے اس فیصلے کو ایمر جنسی کی یاد دلانے والا فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ کانگریس پارٹی اسی طرح سے میڈیا پر قدغن لگاتی رہی ہےلیکن ہمیں افسوس ہے کہ اس مرتبہ اس کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جن پر ایمر جنسی کے وقت مظالم ڈھائے گئے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا اتحاد کے بائیکاٹ کی وجہ سے ملک کے میڈیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ اب یہ چینل زیادہ دیکھے جائیں گے ۔ان سدھیر چودھری کی مثال یہاں دی جاسکتی ہے کہ حال میں انہوں نے کرناٹک کی کانگریس حکومت کی ایک عوامی اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے خبر پیش کی کہ۔اس سے صرف مسلمانوں کو ہی فائدہ پہنچایس جارہا ہے جبکہ عام ہندو کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ،جبکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہے،معاملہ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ہے اور نیوزچینل آج تک اور سدھیر چودھری عدلیہ سے رجوع کررہے ہیں اور وہاں سے انہیں پھٹکار پڑی ہے۔
اب سوال یہ ہے انڈیا اتحاد کے مذکورہ فیصلہ پرنیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن(این بی ڈی اے) بھی بی جے پی کی طرح واویلا مچایا ہے ،اور کہاجارہا ہے کہ انڈیا اتحاد کی طرف سے لئے گئے فیصلے سے صحافت اور اظہار رائے کی آزادی متاثر ہوگی ،این بی ڈی اے ے نے انڈیا کی طرف سے لیے گئے فیصلہ کوایک خطرناک نظیر قائم کرنے سے مترادف قرار دیاہے۔جبکہ یہ بیان جاری کرنے سے پہلے ایک۔ بی ڈی اے کو خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے ان نیوز چینلز کے مالکان ،عہدیداران اور صحافیوں کوبھی متنبہ کیا جانا چاہئیے تھاجو انہوں نے کبھی نہیں لیا بلکہ حزب اختلاف پر چڑھ دوڑے ہیں،اس کاواویلا بے معنی ہے۔
[email protected]
9867647741
Comments are closed.