ہندوستان ‘ خلیج اور یورپ کی مجوزہ اقتصادی راہ داری!!

از: ناظم الدین فاروقی

G20 کی کانفرنس نے ہندوستان کو بین الاقوامی سطح پرپھر ایک مرتبہ بلندیوں تک پہنچا دیا۔ چاند پر چندریان اترتے ہی دنیا کی نظر میں سائنس و ٹکنالوجی میں حیرت انگیز خوش آئند ترقی نے ہندوستان کی قدر و منزلت میں اضافہ کردیا اس کے چند دن بعد G20 کانفرنس کی دہلی میں میزبانی کا زرین موقع ہندوستان کو حاصل ہوا۔ چند ناگوار باتوں کو چھوڑ کر مجموعی حیثیت سے ہندوستان کو زبردست سیاسی ‘ سفارتی و اقتصادی فائدے حاصل ہوئے ۔ عالمی طاقتوں کی آپسی رسہ کشی نے ہندوستان کی جغرافیہ و علاقائی اہمیت اور بحیثیت ایک عظیم جمہوری سرگرم فعال ملک تسلیم کرنے پر تمام اقوام کو مجبور کردیا۔
شرکأ G20عالمی سیاسی تبدیلیوں ‘ توڑ جوڑ ‘ قومی وفاداریوں میں ایک طاقتور ملک کی افادیت سے فائدےاٹھانے کے لئے اپنے ساتھ کئی مشترکہ معاشی ‘ اقتصادی ‘ مالیاتی پروگرام لے آئے تھے ۔ مہمان سربراہان کے ہندوستان کے ساتھ جو معاہدے ہوئے وہ اسٹیج پر نظر نہیں آئے‘ اس دوران ہندوستان کی کوششیں رائیگاں نہیں ہوئیں اور کئی سکنڈ لائن سفارتی باہمی یادواشت مفاہمت پر دستخط ہوئے ۔
ہندوستان کے لئے ایک بہت بڑا تاریخ ساز بڑا عظیم الشان پروجکٹ (IMEC) India Middle East Europe Economy Corridor کے قیام کے لئے یادواشت مفاہمت پر متحدہ امارات ‘ سعودی عربیہ ‘ اردن ‘ یورپی یونین ‘ جرمن ‘ فرانس اور اٹلی کے دستخط ثبت کئے گئے ۔ تفصیلات کے مطابق ریل اور بحری راستے کو ہندوستان سے راست طور پر مربوط کیا جائے گا وہ تمام Economic Hubs سے گزارتے ہوئے ریل روڈ اور بحریہ کا راستہ تعمیر کیا جائے گا ‘ اطلاعات کے مطابق زیر سمندر ممبئی تا دبئی ایک ریلوئے لائن تعمیر کی جائے گی ۔
IMEC کی تعمیر سے مغربی خلیجی ممالک اور ہندوستان کے درمیان بین الاقوامی تجارت کو زبردست ترقی ملے گی اور کم وقت میں در آمدات اور برآمدات کا سلسلہ تیز رفتاری کے ساتھ تکمیل پائے گا ۔
Eastern Corridor India براہے خلیج عرب سے شمالی Northern Corridor کو مربوط کردیا جائے گا ۔ ریل پروجکٹ کو مال بردار بحری جہازوں’’ کارگو شپس ‘‘سے جوڑ دیا جائے گا ۔ IMEC کے مقاصد میں سب سے اہم ایک اور مفید بین الاقوامی سطح پر معیشت کی ترقی کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کے لئے بھی خصوصی رعایت بھی فراہم کی جائے گی۔ اس راہ داری سے تجارتی Manufacturing Synergies ‘ صنعتی ترقی کے علاوہ صاف ستھری ایندھن Clean Energy ‘ فوڈ سیکوریٹی اور سپلائی چین جیسے کاروبار کو بلندیوں تک پہنچایا جاسکتا ہے ۔
IMEC کا BRI سے تقابل : چین کی جانب سے Belt & Road Initiative (BRI) کے اسنادات پر 150 ممالک اور 30 بین الاقوامی اداروں نے ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعہ اس کے تحت 3000 پروجکٹس کے قیام کے لئے دستخط کئے تھے ۔ حال میں IMEC میں جن ممالک نے رکن کی حیثیت سےدستخط کئے ہیں ان میں چند BRI کے معاہدہ کے شریک ممالک بھی ہیں جیسے اٹلی ‘ سعودی عربیہ ‘ امارات شامل ہیں لیکن اٹلی نے IMEC سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے ۔
گوکہ IMEC کے کاغذات میں BRI یا چین کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ BRI کا عالمی تجارتی انفراسٹرکچر کا منصوبہ قدیم سلک روڈ کے طرز پر تشکیل دیا گیا ہے جس کا سب سے بڑا اہم مقصد چین کو مغرب سے جوڑنا ہے ۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے IMEC پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرقی وسطیٰ اور یورپ کو جوڑنے کے لئے ترکی کی شراکت کے بغیر یہ پروجکٹ نا ممکن ہے ۔ اور ایک ادھورا خواب ثابت ہوگا‘ ترکی ایک ترقی یافتہ صنعتی ‘ تجارتی ملک اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہہ سے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ ہوسکتا ہے آئندہ دنوں میں ترکی کو بھی شامل کرلیا جائے لیکن ریل روڈ کا رُخ اردن کی جانب موڑ دیا گیا ہے ‘ مبصرین کا کہنا ہے کہ BRI‘IMEC سے دس سال قبل تیار کیا گیا تھا لیکن ابھی اس کی تکمیل کے دور دور تک اثرات نظر نہیں آرہے ہیں ‘ تاخیر کی اصل وجہہ سرمایہ کی عدم دستیابی نہیں ہے بلکہ عالمی بدلتی سیاسی صورت حال اور امریکہ کے متحدہ ممالک کی چین کے ساتھ معاندانہ کاروائیوں نے BRI کو بڑی حد تک ناکامی سے دوچار کردیا ہے ۔
ترکی نے چین کے داخلی شہروں تک ریلوے کا ریڈور تعمیر کرکے کامیابی سے 8 ہزار کیلو میٹر کی مسافت 7 دنوں میں تکمیل کرنے والی تیز رفتار مال گاڑیوں کا کامیابی سے آغاز کردیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ترکیوں نے دنیا کے طویل ترین اس ریلوے لائین بچھا کر سب کو حیرت زدہ کردیا ہے ۔ IMEC کی منصوبہ بندی ابھی کاغذات تک محدود ہے۔
جوبائیڈن نے اس پروجکٹ میں خصوصی دلچسپی لی ہے ۔ اور پروجکٹ کو قطعیت دینے کے لئے کہا ہے۔ امریکہ کا تعاون رہا تو سرمایہ کے حصول میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی ہے ۔
عالمی ماہرین اس بات کو لے کر شک و شبہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ جاپان کے اشتراک سے احمد آباد ممبئی ۔ پھر ممبئی دہلی بلٹ ٹرین پروجکٹ کی تعمیر کا 8 سال قبل اعلان کیا گیا تھا ‘ تکمیل تو دور کی بات ہے یہ پروجکٹ برف دان کی نظر کردیا گیا ہے اوروزیر آعظم نریندر مودی دوسرے قومی بین الاقوامی معاملات میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔
ہوسکتا ہے کہ امارات تا اردن برائے سعودی عربیہ ریل پروجکٹ تیزی سے پائے تکمیل کو پہنچے ‘ لیکن ممبئی تا امارات سمندر مال برداری کے بحری جہازوں کو مربوط کرنے میں ہندوستان اپنی سست روی کا مظاہرہ کرے۔ حکومتی سطح پر مقبول عام Mega Big Projects کا ہمیشہ یہی حال ہوتا ہے ۔ اکثر بڑے بڑے چونکا دینے والے پروجکٹ سے ووٹروں اور شہریوں کو خوش کرتے ہوئے شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے سیاسی گیم کھیلے جاتے ہیں ۔
بی جے پی نے G20 کی ہونے والی کاروائیوں سے پریس کو بہت دور رکھا تھا اور سربراہانِ مملکت کے لئے پریس بریفننگ کاکوئی قطعی موقع فراہم نہیں کیا گیا تھا ۔ حتیٰ کہ جو بائیڈن نے مجبورہوکر کوریا بھیجنے کے بعد اپنی زبان کھولی اور پریس فریڈم کی عدم موجودگی کے سلسلہ میں ناراضگی کا اظہار کیا ۔
G20 کے موقع پر ملی جلی صورت حال دیکھنے کو ملی ‘ مجموعی طور پر ہندوستان کے لئے بہت کارآمد مفید اور دورس اثرات ڈالنے والی کانفرنس ثابت ہوئی ۔
محمد بن سلطان نے G20 کی کانفرنس کے بعد مزید 3 دنوں تک قیام کرکے ہندوستان کے ساتھ 50 یادواشت مفاہمت پر دستخط ثبت کئے ۔ اس سے خلیجی ممالک کے سرمایہ کاروں کو ایک نیا حوصلہ ملا اور ہندوستان میں Mega Projects میں عرب سرمایہ داروں کے سرمایہ کاری کے رجحان میں زبردست اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ وزیر آعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی خاص کر خلیجی ممالک کے ساتھ گہری دوستی کے ثمرات اب سامنے آرہے ہیں ۔
اگر تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں میں ہندوستان کی مالیاتی صورت حال اور پالیسی کو لے کر عدم اعتماد پایا جاتا ہے ۔ مغربی سرمایہ کار ہوں یا خلیجی سابق میں حکومت ہندکے طرز عمل اور بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ نا انصافی کو لے کر ہندوستان کی بہت بدنامی ہوئی ہے ۔ ’’دودھ کا جلا چھانچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ‘‘ کہ مصداق بین الاقوامی سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری کے معاملے کو لے کر بڑے ہی چونکنا اور محتاط ہوچکے ہیں۔
اسکامس ‘ بدعنوانیاں ‘ لوٹ کھسوٹ ‘ بڑے بڑے کمپنیوں کے دیوالیہ اور ڈوبنے کے اطلاعات آئے دن اخبارات میں آتے ہی رہتے ہیں ۔ ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ داروں میں یہ بات مشہور ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لئے جو مارکیٹنگ کی جاتی ہے اور بلند بانگ منافعوں کے دعوے کئے جاتے ہیں وہ سب سراب ثابت ہوتے رہتے ہیں ۔ سرمایہ داروں کے سرمایہ کے تحفظ کا کوئی حکومت کے پاس میکانزم نہیں ہے ‘ جس کی وجہہ سے کارپوریٹ کمپنیاں کارڈ کے پتوں کی طرح گر کر خسارے کا شکار ہوجاتیں ہیں ۔
ملک میں سیکڑوں ایسی کمپنیاں ہیں جو بد عنوانیوں کی وجہہ سے بند ہوگئیں اگر اسے لے کر اس کی دوبارہ کشادگی کے ذریعہ پیداوار کا آغاز کیا جائے تو ہندوستان کی صنعتی شعبے سے آج بھی ملک دوہرا فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ آئندہ حالات بتلائیں گے کہ IMEC پروجکٹ کس طرح سے کامیاب مراحل میں داخل ہوسکے گا یا پھر یہ وقتی کاغذی میڈیا کی حد تک کاروائی تھی ۔وغیرہ۔

Comments are closed.