وادی کشمیر کا عاشق رسول ﷺ

الطاف جمیل شاہ ندوی
مسلمانوں کو فیض اس بزم سے ممکن نہیں اکبر
کہ جس میں عزت_ نام_ محمد ہو نہیں سکتی
(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
اہل ایمان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کا اظہار کریں اہل ایمان نے جب سے اس نبی ﷺ سے اپنی نسبت کو کمزور کرنا شروع کیا وہ وقت تھا اور آج کا دن کہ ان کو پورے جہاں میں سوائے گدا گری کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا اور وہ حیران و پریشان سرگرداں ہیں پورے جہاں میں
رسول رحمت ﷺ کا تذکرہ ان کا ذکر جمیل ٹوٹے دلوں کو تسکین دیتا ہے یہ کمزوروں مظلوموں کے لئے تسکین کا باعث ہے یقین کریں آپ جب بھی حالات و حوادث کی موجوں میں بہنا شروع ہوجائیں جب اعضاء جسمانی جواب دے جائیں جب ہمتیں/ حوصلے ٹوٹ جائیں آپ ایک بار صرف سیرت النبی ﷺ کے زیر سایہ چلے جائیں آپ کے قلب کو قرار آئے گا آپ کے جذبات میں ٹہراؤ اور جوش و جذبہ میں بیداری آئے گی ۔۔
سیرت النبی ﷺ میں ایک اہم جز نعت نبی ﷺ بھی ہے جس میں۔ شعراء اپنے قلب و جگر کے سوز کے ساتھ حب رسول ﷺ سے سرشار ہوکر بارگاہ رسالت میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں کبھی شعراء کچھ ایسا کہہ دیتے ہیں کہ سخت سے سخت دل ٹوٹ جاتے ہیں آنسوؤں کی نمی چہرے کو رونق بخشتی ہے اور ان آنسوؤں اور ہچکیوں میں وہ سکون کہ آدمی دنگ رہ جاتا ہے یہ سلسلہ حضرت حسان ؓ سے شروع ہوکر تا ایں دم مسلسل جاری و ساری ہے ۔۔
وادی صحراء نما میں بھی شعراء کرام نے نذرانہ عقیدت پیش کئے اور کر رہے ہیں وہ خواہ کشمیری زبان میں ہوں یا اردو زبان میں وادی کے شعراء نے جہاں بقیہ میدانوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا وہیں جب وہ بارگاہ رسالت میں ہدیہ عقیدت پیش کرنے لگئے تو ان کے جذبات و احساسات نے وہ سماں پیدا کیا جی چاہتا ہے ان کے لب و ماتھے کو بوسہ دیا جائے کہ یہ مسافران دیار حبیبﷺ کس ادب و احترام کے ساتھ ہدیہ عقیدت پیش کر رہے ہیں ہر کسی نے کوشش کی اللہ قبول فرمائے
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا گیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
کائنات کے مہربان جس کی تعلیمات اب آہستہ آہستہ بکھرتی جارہی ہیں امت مسلسل ان کے بتائے ہوئے طریقے سے دستبردار ہوتی جارہی ہے ایسے میں چند سعید نفوس گر مل کر صدائے حق بلند کریں تو وہ لائق تحسین و آفرین ہیں ایسا ہی ایک صاحب وادی کشمیر میں کئی سال سے ایک گمنام عاشق رسولﷺ کہئے یا دیار حبیب ﷺ کا فدوی کہئے بنا کسی شہرت کسی لالچ کے اس نعتیہ اور حمدیہ کلام کو مرتب صورت میں محفوظ بنانے کے لئے میدان عمل میں سرگرم عمل ہوگیا ہے کتابی سلسلہ کے بطور انہوں نے حمدیہ نعتیہ کلام کے پانچ حصے مرتب صورت میں ہدیہ قارئین کئے اور مجھے نہیں معلوم انہیں اس پر کتنی داد و تحسین ملی ملی بھی یا نہیں۔ ان چند سطور کو لکھنے کے لئے اس لئے وقت نکال لیا کیونکہ یہ وادی عشق کا متوالا اب اپنے محبین و متعلقیں کو ان حمدیہ و نعتیہ کتابی سیریز کی موجودہ زمانے کی کتاب پی ڈی ایف صورت میں بھیج رہا ہے جس پر مجھے قدرے حیرت بھی ہوئی اور دکھ بھی ہوا۔ حیرت اس لئے کہ یہ دیار حبیبﷺ کا مسافر کن مراحل اور مشکلات سے گزر کر اس کتابی سلسلے کو تیار کر رہا ہوگا اور اپنے محبوب کے ذکر جمیل کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے کیسے اپنی محنت و کاوش کو نذر قارئین کر رہا ہے بنا کسی معاوضے کے ۔ دکھ اس بات کا ہوا کہ حب رسولﷺ پر خوب تقاریر و مجالس کرنے والے کیا اس سادہ مزاج انسان کے لئے اتنا نہیں کرسکتے تھے کہ اس کی اس قابل قدر کاوش کو ہاتھوں ہاتھ لے لیتے تاکہ اس کی ہمت و عزیمت باقی رہتی یا یہ مالی خسارے کا شکار نہ ہوتا پر ایسا شاید نہیں ہورہا ہے جس کا سبب یہی ہے کہ وادی کا اکثر پڑھا لکھا طبقہ اب کسی اور ہی نہج پر چل پڑا ہے یہاں کتب بینی کا شوق اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور ایسے میں ایک قلم و کتاب کا شیدائی مسلسل وہ کام کر رہا ہے جس کے لئے بہت بڑا دل اور بہت بڑی ہمت و استقلال چاہئے اللہ ہمت و استقلال کی نعمت سے نوازے اور تا زندگی نوازتا رہے ۔۔
میں جہاں تک اس شخص کو سمجھ سکا ہوں یہ واقعی میں ایک حقیقی عاشق رسول ﷺ ہے
کئی سال سے یہ امت کا لخت جگر مسلسل الحیات نامی رسالہ مختلف موضوعات پر شائع کر رہا ہے جس کا ہر ورق علمی ادبی ثقافتی اقدار کے درخشاں ابواب پر مشتمل ہوتا ہے سال گزشتہ میں کئی اہل علم کو متعارف کرنے کے لئے ان کے نام پر خصوصی نمبرات کی اجرائی بھی ہوئی جو بے حد مفید بھی رہا اور شوق مطالعہ کے شیدائیوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہ رہا ماہ نامہ الحیات نامی اس رسالے کو اہل علم و ادب کے ہاں بڑی پذیرائی ملی ہوئی ہے اللہ کرے یہ سلسلہ جاری رہے اور ترقی کی منزل طے کرتا رہے
جوہر قدوسی صاحب کہنہ مشق ادیب بھی ہیں اور معروف استاد بھی ہیں جو کسی تعارف کے محتاج بھی نہیں۔ ہیں ان کا یہ کام بذات خود ان کے لئے سعادت ہے جسے وہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں اس مطالعہ کتب بینی سے کنارہ کش ہورہے دور میں شاید وہ یہ سب کام یہ جان کر رہے ہوں کہ کل میدان حشر میں۔ حوض کوثر پر یہ صدا آیے کہ جوہر قدوسی کہاں ہے وہ آئے کہ اس نے اندھیرے میں بھی حب رسول ﷺ سے سرشار ہوکر اپنے حصے کا کام کیا ہے اور مسلسل یہ کار خیر انجام دے رہا ہے
آ میرے پیارے میں تیری اس محبت کا صلہ دوں کہ میں ہر کسی کی محبت کا بدلہ ضرور دیتا ہوں
چلتے چلتے
ممکن ہو تو اس کتاب کے یہ نسخے منگوا کر اپنے حصے میں سعادت لکھ لیں پڑھ نہ سکتے ہوں کم سے کم لیکر کسی پڑھنے والے کو ہی دیں وہ بھی آپ کے لئے باعث افتخار ہی ہوگا
فی امان اللہ
Comments are closed.