خان کا جوان اور پوار کی دوکان

 

ڈاکٹر سلیم خان

پٹھان کے بعد شاہ رخ خان کی  جوان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سنی دیول کی غدر یا اکشے کمار کی او  ایم جی تو باکس آفس پر  پٹھان کا ریکارڈ نہیں توڑ سکی ۔ اس  لیے جوان کو میدان میں آنا پڑا۔ وہ ابھی تک پانچ سو کروڈ کا کاروبار کر چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔  جوان کی کہانی پٹھان کے آخری مکالمہ  کو سچ ثابت کرتی ہے کہ ’کیا کریں دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا‘۔  اس فلم  کا پنچ  یہ ہے کہ ’بیٹے کو ہاتھ لگانے سے پہلے باپ سےبات کر ‘۔ اس طرح یہ معاملہ ایکشن اور فکشن سے آگے بڑھ کر حقیقت بن جاتا ہے۔ جوان  فاسد نظامِ سیاست پر تنقید کرنے کے بعد اسے قابو میں رکھنے کی خاطر انگلی کے اشارے سے ووٹ کی اہمیت بتاتا ہے نیز اس کااستعمال  جذبات کے بجائے دماغ سے کرنے کی تلقین کرتا ہے۔  وہ کہتا ہے جو کام کرے اس کو ووٹ دو۔ ظاہر ہے اگرلوگ دماغ کا استعمال کرکے ناٹک کرنے والوں کو  ووٹ دینا بند کردیں  تو بی جے پی کا دیوالیہ پٹ جائے۔ اس دورِ استبداد میں  کروڈوں روپیوں کے کاروبار کوخطرے میں ڈال کرایسا مضبوط سیاسی پیغام دینے  کی جرأت کوئی للو پنجو نہیں شاہ رخ خان ہی کرسکتا ہے۔     جوان کو ملنے والی زبردست پذیرائی  اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ  پیغام  اگر سلیقہ سے پیش کیا جائے تو عوام اسے سر آنکھوں پرلیتے ہیں ۔  

شاہ رخ خان اس کامیابی کے بعداگر شردپوار کو مرکزی کردار بناکر ’مہاراشٹر کی مہابھارت ‘ بنائیں تو اس سے نہ صرف موجودہ سیاسی نظام  بے نقاب ہوجائے گا بلکہ اس کی مقبولیت راما نند ساگر کی رامائن اور بی آر چوپڑا کی مہا بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ ان دونوں سیریلس  کی کامیابی بتاتی ہے کہ ہندوستانی ناظرین کو  سیاسی وراثت کی لڑائی میں بہت دلچسپی ہے ۔ رمائن ، مہا بھارت اور شرد پوار سے اجیت پوار کا تنازع اقتدار کی خاندانی رسہ کشی نہیں تو او9ر کیا  ہے؟ یہ  جھگڑا ہابیل اور قابیل کے زمانے سے جاری و ساری   ہے۔ اس کو سلجھانے کی خاطر دنیا بھر میں دیوانی عدالتیں کام کرتی ہیں  لیکن  جمہوری نظامِ سیاست میں اس کے لیے سب سے پہلے  الیکشن کمیشن  سے رجوع کیا جاتا ہے۔ قومی الیکشن کمیشن کے سامنے این سی پی کے دو دعویدار دھڑوں نے اپنا اپنا دعویٰ پیش  کیا۔  ان  دعوؤں کی تفتیش  کے لیے دونوں کو نوٹس جاری کرکے جواب  طلب  کیا  گیا توتیز طرار بھتیجے  اجیت پوار نے 30 جون کو ہی   اپنا جواب داخل کردیا ۔ اس کے بعد  اگست میں کمیشن نے پوار دھڑے کو 9؍ستمبر تک جواب داخل کرنے کا وقت دیا ۔  انہوں نےبھی وقت سے پہلے 8؍ ستمبرکو جواب بھیج دیا۔ اجیت پوار دھڑے نے  اپنے حلف نامہ   میں  مطلع کیا  تھا کہ پارٹی نے اپنے صدر کو تبدیل کر کے اجیت پوار کو اس عہدےپرفائز  کردیا ہے۔ اس دھڑے نے یہ   دعویٰ بھی  کیا تھا کہ اصلی این سی پی ان کی ہے  اس لیے پارٹی  پرسارے حقوق، انتخابی نشان اور نام کے مالک وہ ہیں ۔  یہ  بیانیہ تو عین توقع کے مطابق تھا۔  اس کے جواب امید تھی کہ  شرد پوار کہیں گے ایک  سازش کے تحت کی جانے والی بغاوت  میں شامل  سارے لوگ غدار ہیں۔ ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے وغیرہ وغیر ہ   لیکن ایسا  نہیں ہوا۔

شرد پوار نے بڑی متانت سے جواب دیا کہ  پارٹی میں کوئی تقسیم ہوئی ہی  نہیں ہے۔ پارٹی کی تقسیم سے انکار کے بعد لکھا  گیا کہ بغاوت کرنے والے چالیس ارکانِ اسمبلی  کو نااہل قرار دینے کے لیے قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کے پاس درخواست دائر کی گئی ہے۔ تب سے اب تک تمام باغیوں کو پارٹی کی ورکنگ کمیٹی اور دیگر عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس طرح شرد پوار نے یہ تو تسلیم کرلیا کہ پارٹی کے چالیس اراکین ِاسمبلی   اپنا راستہ  بدل چکے ہیں  لیکن  اس کے باوجود ان کا اصرار  کہ پارٹی  نہیں  ٹوٹی حیرت انگیز  ہے۔ کیا یہ دونوں باتیں درست ہوسکتی ہیں؟ عام حالات میں نہیں مگر پوار  ہے تو کچھ بھی  ناممکن نہیں ہے۔ اس کےب بعد  بیچارہ الیکشن  کنفیوزن کا شکار  ہوگیا۔ پہلے تو  اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کرے تو کیا کرے؟ لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی  تھا اس لیے اس نے یہ  بھتیجے کی مان لی کہ پارٹی میں تقسیم ہوئی ہے۔ پارٹی کی تقسیم کے بعد دوسرا مرحلہ وراثت کی تقسیم کا آتا ہے۔ الیکشن  کمیشن کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ پارٹی کا نشان کس کو دیا جائے  اور دیگر اثاثہ جات کے بارے میں بندر بانٹ کرنی پڑتی ہے۔ پارٹٰ کے اثاثوں کا جہاں تک تعلق ہے وہ شرد پوار کے پاس ہوں یا اجیت پوار کے پاس ایک خاندان میں رہیں گے لیکن گھڑی کے دوکانٹے دونوں میں بانٹ دیا جائے تو وہ بیکار ہوجاتی ہے۔

اس معاملے شرد پوار کے رویہ کا اگر ادھو ٹھاکرے  سے موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر  آتا ہے۔ اس کی بنیادی  وجہ  عمر اور تجربہ کا فرق ہے۔ شیوسینا میں بھی بھجبل اور رانے نے بغاوت کی تھی لیکن وہ سب ادھو کے عملی سیاست میں آنے سے پہلے کی بات تھی ۔ ان کے اپنے دور میں شندے نے پہلی بار ایسا کیا تھا ۔ اس  فرق کی دوسری وجہ زیادہ اہم ہے۔  جو انسان خود بغاوت کرتا ہے وہ اس راہ کے پیچ و خم کو خوب  اچھی طرح جانتا ہے اور یہ تجربہ ادھو ٹھاکرے کو نہیں ہے۔  اجیت پوار کو خود بغاوت  کا تجربہ ہے۔ اس سے پہلے ایک مرتبہ وہ حلف لے کر استعفیٰ دے چکے ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ شرد پوار نے ان کی بغاوت کو نظر انداز کرکے پھر سے نائب وزیر اعلیٰ تو بنا ہی دیا تھا ۔   فی الحال  اجیت پوار نے جو کچھ کیا ہے   یہ سب شرد پوار کئی بار کرچکے ہیں اس لیے انہیں  اس پرکوئی حیرت نہیں ہوتی۔  1977 میں وہ اپنے گرو یشونت راو چوہان کے ساتھ اندرا گاندھی کے خلاف کانگریس (یو) میں چلے گئے تھے ۔ اس کے باوجود اندرا کانگریس کے   وسنت دادا پاٹل کی وزارت کو بچانے کی خاطر اپنے اختلافات کو بھلا کر انہوں  حمایت کردی۔ اس سیاسی انحراف کو اقتدار کے لیے برداشت کرلیا گیا۔  1978 میں  پوار نے پہلی بغاوت کرکے  پروگریسیو ڈیموکریٹک فرنٹ بناڈالی ۔ جنتا پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملا کر  وزیر اعلیٰ بن  جانے کے لیے یہ ضروری تھا اور وہ اسے کرگزرے ۔

 یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں ۔ پہلی تو یہ کہ  مہاراشٹر وکاس اگھاڑی اور پی ڈی ایف میں مہاراشٹر کو ڈیمو کریسی  سے تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے۔ان دونوں تجربات میں اور  بہت ساری مشابہت ہے۔مرکز میں  اندرا گاندھی کی شکست کے بعد جب  مہاراشٹر میں  انتخابات  کا انعقاد ہوا تو جنتا پارٹی نے سب سے زیادہ  نشستیں جیت لیں مگر وہ اکثریت سے محروم تھی ۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کا شکار ریاست کے اندر  پچھلے انتخاب کے بعد بی جے پی ہوئی  حالانکہ اسے اپنی حلیف شیوسینا کے ساتھ اکثریت حاصل تھی۔ مہاراشٹر میں اندرا گاندھی کی مخالف جنتا پارٹی اور شرد پوار کی کانگریس (یو) اگر یکجا ہوجاتے تو  دونوں مل کر بڑے آرام سے حکومت کرسکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ کانگریس (یو) نے جنتا پارٹی   کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے کانگریس (آئی) سے ہاتھ ملا کر وسنت دادا پاٹل سے ہاتھ ملا لیا ۔ یہ تو خیر انٹرویل سے پہلے کی کہانی ہے۔ اس جوڑ توڑ سے اجیت پوار کی مانند شرد پوار وزیرِ صنعت و حرفت اور مزدوروں کے وزیر  بن گئے  ۔ یہ دلچسپ  اتفاق  بھی کم دلچسپ نہیں  تھا کہ  انہیں  سرمایہ داروں  کی خدمت  کے ساتھ محنت کشوں کی فلاح و بہبود کا متضاد   کام   سونپ دیا گیا تھا۔ شرد پوار کے علاوہ سانپ اور نیولا کو یکجا کرنے کا مشکل  کام اور کون کرسکتا  تھا؟

مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کی مانند پی ڈی ایف کی کہانی میں بھی انٹرویل کے بعدجو ٹویسٹ آیااس کا ذکر مضمون کے دوسرے حصے میں ہوگا ان شاء اللہ ۔اس کہانی کا کلائمکس یہ ہے کہ     بی جے پی اور شیوسینا کی سیاسی چپقلش کا فائدہ اٹھاکر شیوسینا کی مدد سے شرد پوار نے مہاراشٹر میں  حکومت سازی کرڈالی۔ یہ تجربہ امیت شاہ کی چانکیہ نیتی کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھا کہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود حکومت نہیں بناسکی تھی۔ اس کا سہرا   شرد پوا رکے سر بندھا مگر بی جے پی نے شیوسینا کو توڑ کر وہ حکومت گرادی اور این سی پی کو توڑ کر ان کے بھتیجے  کو اپنے ساتھ ملالیا۔  مہاراشٹر کی اس مہابھارت میں پوار خاندان اقتدار کی خاطر کورو پانڈو کی مانند   ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ہوا ہے۔  ست یگ کی مہا بھارت میں بھی یہی منظر تھا اور مہاراشٹر کی مہابھارت میں وہی نظارہ ہے۔  وہاں بھی سب کچھ تباہ ہوگیا تھا یہاں بھی اسی کے آثار ہے ہیں ۔ مہابھارت کا وہ تاریخی جملہ میں سمئے ہوں فی الحال این سی پی کی گھڑی پر جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔شاہ رخ خان کو اس پر سیریل بنانا  چاہیے ۔  اس سے ان کی جیب بھرے گی اور عوام کے سامنے  تفریح کے ساتھ جمہوری نظام کے حقائق بھی کھل کر آجائیں گے۔ یہ سیریل کنگ خان کی پٹھان اور جوان سے بھی زیادہ مقبولِ عام ہوجائے گا ۔

 

Comments are closed.