کیا متبادل کرنسی کا استعمال ڈالر کی بالادستی کا خاتمہ کر پائے گا؟
مجتبیٰ فاروق
اس بارے میں بحث بڑھ رہی ہے کہ آیا بعض ممالک کی جانب سے چند تجارتی معاہدات میں ڈالر کو چھوڑ کر دیگر کرنسیوں کا استعمال کیا ڈالر کی بالادستی کو ختم کر پائے گا۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ لوگوں نے ڈالر کے زوال کے امکان کے بارے میں قیاس آرائیاں کی ہوں، اور معیشت میں ہونے والے مسلسل اتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہوئے، یہ آخری بار بھی نہیں ہوگا۔ لیکن موجودہ بحث کو سمجھنے اور اسے تناظر میں رکھنے کے لیے، ہمیں نظام کی حقیقت یعنی اس کے سیاسی اور اقتصادی دونوں پہلوؤں کو دیکھنا ہو گا، اور یہ سمجھنا ہوگا کہ کس طرح امریکہ اس سرمایہ دارانہ ورلڈ آرڈر کی جڑوں میں موجود ہے جس ورلڈ آڈر کے ساتھ تمام ممالک اپنی وفاداریاں جوڑے ہوئے ہیں۔
حالیہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ کچھ ریاستوں نے امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی "یوآن” میں معاہدات کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ڈالر پر ان کا انحصار کم ہوجائے گا۔ جہاں تک یوآن کی بات ہے تو مثال کے طور پر عراق کا مرکزی بینک،جو تیل کا ایک بڑا سپلائر ہے،اس نے اعلان کیا کہ وہ چین کے ساتھ تجارت کو پہلی بار یوآن میں طے کرنے کی اجازت دے گا۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے مرکزی بینک نےبھی ستمبر میں اسی طرح کا اعلان کیا تھا۔چین کے زیرِ اثر شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین نے اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت بڑھانے پر اتفاق کیا۔ چین کے علاوہ یہ بلاک روس، بھارت، پاکستان، ازبکستان، قازقستان، تاجکستان اور کرغزستان پر مشتمل ہے۔ پچھلے سال دسمبر میں، چین اور سعودی عرب نے یوآن میں اپنا پہلا لین دین کیا۔ پھر روس نے 2023 میں اپنی تمام تیل اور گیس کی اضافی آمدنی کو یوآن میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ اپنے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے زیادہ سے زیادہ چینی کرنسی کا رخ کررہاہے۔ اسی طرح برازیل اور چین نے امریکی ڈالر کے بجائے اپنی اپنی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے تجارت کرنے کا معاہدہ کیا۔ چین فروری سے اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے کہ وہ برازیل میں یوآن پر مبنی تجارت کو آباد کرنے کے لیے ایک کلیئرنگ ہاؤس کھولے گا۔چین اس سے قبل پاکستان، قازقستان اور لاؤس میں بھی اسی طرح کے کلیئرنگ ہاؤسز کا اعلان کر چکا ہے۔ مزید یہ کہ چین اپنے امریکی ٹریژری بانڈز سے چھٹکارا حاصل کر رہا ہے، جو مختلف ممالک میں ڈالر کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس کے پاس اب 870 ارب ڈالر کا امریکی قرض ہے، جو 2010 کے بعد سے اب تک سب سے کم رقم ہے۔
جہاں تک یوآن کے علاوہ دوسرے ممالک کی کرنسیوں کی بات ہے تو مثال کے طور پر چین اور روس دونوں تیل کا لین دین اپنی مقامی کرنسیوں میں کر رہے ہیں۔ پھر یورپی یونین نے ایرانی تیل کی تجارت کو یورو میں طے کرنے کے انتظامات کیے ہیں۔ اسی طرح بھارت نے ایرانی تیل کی قیمت بھارتی روپے میں ادا کرنے کا ایک معاہدہ کیا ہے۔
یہ تمام فیصلے مختلف سیاسی حقائق سے متاثر شدہ ہیں، مثلاً امریکہ کے روس پر مالی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے سے لے کر ایران سے تیل خریدنے کی خواہش اور جوہری ڈیل کے گرد موجود سیاسی تناؤ سے بچنے تک۔ اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے، ڈالر پر ان کا انحصار کم کرنے کی کوشش اس خوف کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ڈالر کی طاقت کو دوسرے ممالک کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جیسا کہ اس نے روس پر پابندیاں عائد کرتے وقت کیا تھا۔ ڈالر پر اپنا انحصار کم کرکے، اور اپنی تجارت کو یوآن یا دوسری کرنسیوں میں منتقل کرکے، ریاستیں ممکنہ طور پر ڈالر کی طاقت کو کمزور کرسکتی ہیں۔اقتصادی نقطۂ نظر سے، ڈالر پر ان کے انحصار میں کمی انہیں اپنی معیشت کو برقرار رکھنے اور امریکی اقتصادی پالیسیوں کے ان پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ ان ممالک کے لیے اہم ہے کیونکہ جیسے جیسے ڈالر کی طاقت بڑھتی ہے، یہ دوسرے ممالک پر افراطِ زر کے دباؤ کو بڑھاتا ہے۔ اس سے ان ممالک کے مرکزی بینکوں کے لیے بلند افراطِ زر پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ تکلیف تب بڑھ جاتی ہے جب ڈالر کی طاقت سے تجارتی حجم سکڑ کر رہ جاتا ہے، اور قرضوں کے ساتھ ساتھ قرض پر سود کے اخراجات میں شدید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ پھر یہ حقیقت ہے کہ جیسے جیسے ڈالر کی طاقت بڑھتی ہے، یہ عالمی اقتصادی سرگرمیوں پر ایک بوجھ بن جاتا ہے، جو دیگر کرنسیوں کو کمزور کرتا ہے اور اس سے ڈالر کی طاقت کو مزید ہوا ملتی ہے۔ اس سے ایک خوفناک چکر جنم لیتا ہے جو ڈالر کو مزید مضبوط اور دیگر کرنسیوں کو مزید کمزور کرتا ہے۔
لہٰذا، کرنسیوں کے تنوع سے انہیں ڈالر کے اثرات سے کسی حد تک نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے، البتہ اس کا انحصار متعدد دیگر عوامل پر ہوگا۔ لیکن کیا اس تنوع کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر مکمل طور پر اپنا غلبہ کھو دے گا؟ نہیں، ایسا نہیں ہوتا کیونکہ ڈالر اب بھی غالب ہے۔ دوسری کرنسیوں کے استعمال میں اضافے نے اس کے غلبے میں کوئی خاص کمی واقع نہیں کی ۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق :”(مختلف ممالک کے)زرمبادلہ کے ذخائر کے تناسب میں کمی کے باوجود، ڈالر اب بھی دیگر تمام کرنسیوں کے مجموعے سے زیادہ ہے۔ یوآن عالمی غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کا صرف 2.7 فیصد ہے”۔
بظاہر تو ایسا لگتا ہے جیسے چین اور دیگر ریاستیں جو اقدامات کر رہی ہیں، اس سے وہ امریکہ اور ڈالر سے آزادی کا باعث بن جائیں گی۔ لیکن جب صورتحال کو نظریاتی نقطہ نظر سے سمجھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح امریکہ نے ڈالر کو اس نظام میں شامل کیا ہوا ہے جو سرمایہ دارانہ نظریے سے پھوٹا تھا۔ 1971 ء میں صدر نکسن نے ڈالر کو سونے سے الگ کر دیا۔ اس کے بعد سے اہم اشیاء کو ، جن میں سب سے زیادہ قابلِ ذکر تیل ہے، سونے یا چاندی کی پشت پناہی دینے کی بجائے فیاٹ ڈالر کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔پھر امریکہ نے ڈالر کی پوزیشن کو مزید مضبوط کر لیا جب اس نے سعودی عرب جیسے تیل پیدا کرنے والے ممالک سے معاہدہ کیا کہ وہ تیل صرف ڈالر میں فروخت کریں گے، جس کو ‘پیٹرو ڈالر’ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ باقی دنیا نے ڈالر کو قبول کر لیا، کیونکہ انہیں تیل خریدنے کے لیے ڈالر کی ضرورت تھی۔اس سے یقیناً تجارت متاثر ہوتی ہے، کیونکہ برآمدات کرنے والے ممالک عالمی منڈی میں مقابلہ کرتے ہیں تاکہ وہ ڈالر حاصل کر کے ایک طرف تو اپنے قرضوں کی ادائیگی کر سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ درآمدشدہ توانائی اور خام مال جیسی دوسری بہت سی اشیاء کی ادائیگیاں کر سکیں۔
پھر دیگر کرنسیوں کو ڈالر کے ساتھ جوڑ کر، ڈالر ہر کرنسی کی تجارتی قدر کو اس کو جاری کرنے والی معیشت کی پیداواری صلاحیت سے براہ راست لاتعلق کردیتا ہے اور اس کی بجائے اسے امریکہ میں ڈالر جاری کرنے والے مرکزی بینک کے پاس موجود ڈالر کے ذخائر کے حجم سے براہ راست منسلک کردیتا ہے۔نتیجتاً، ڈالر کی بالادستی امریکہ کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کی دولت کو ان فیاٹ ڈالروں پر مبنی کر کے بالواسطہ طور پر پوری عالمی معیشت کا مالک بن جائے ، جنہیں امریکہ اپنی مرضی سے تھوڑے سے مالی جرمانے کے ساتھ چھاپ سکتا ہے۔
بیسویں صدی کے وسط میں جب سابقہ سامراجی دور (امپیریل ازم)کا خاتمہ ہو رہا تھا اور عالمی جنگیں پوری دنیا میں تباہی مچا چکی تھیں تو امریکہ ایک غالب اور بالادست طاقت کے طور پر ابھرا اور اپنے ساتھ ایک نیا ورلڈ آرڈر لے کر آیا جو سرمایہ دارانہ نظریے پر مبنی تھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ باقی تمام دنیا اپنی وفاداریاں اس کے ساتھ جوڑ دے۔امریکہ نے متعدد اقدامات متعارف کروائے جن میں ڈالر کے غلبہ کی اجازت دے کر عالمی معیشت کو ٹھیک کرنے کی خواہش بھی شامل ہے، جیسا کہ دوسرے ممالک نے اپنی مقامی کرنسیوں کو ڈالر کے ساتھ منسلک کیا اور اپنی شرح مبادلہ کو برقرار رکھنے کے لیے ڈالر کو اپنے ذخائر میں رکھا۔ یوں ڈالر اس نظام میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہو گیا، اور امریکہ کی بڑی اور لچکدار مالیاتی منڈی، نسبتاً شفاف کارپوریٹ گورننس کے اصولوں اور ڈالر کے استحکام نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کرنسی کا غلبہ برقرار ہے۔ (الجزیرہ ڈاٹ کام)
لیکن یہ معاملہ ڈالر کے محض ایک کرنسی کے طور پراستعمال ہونے سے بہت آگے جاتا ہے اوریہاں سیاسی اور معاشی منظرنامے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔جب امریکہ عالمی جنگوں کے بعد ایک غالب طاقت کے طور پر ابھرا تو اس نے اپنی معاشی طاقت کو عالمی نظام کو ازسرنو تشکیل دینے لیے استعمال کیا۔ اس نے بین الاقوامی تنظیموں کوقائم کیا، نظام میں ڈالر کو شامل کیا، مختلف اتحاد قائم کیے، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ ریاستوں کے مفاد میں ہو کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے امریکی ورژن کے اندر رہتے ہوئے کام کریں۔ جب امریکہ نے یہ ورلڈ آرڈر قائم کیا تو اس نے اسے دیگر طاقتور ممالک کے تعاون کے ساتھ قائم کیا ، جن میں سے سب نے اپنے ملک کی خودمختاری کا کچھ حصہ بین الاقوامی نظام کے لیے کم کرنے پر اتفاق کیا، اس فائدے کے بدلے میں جو وہ امریکہ کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق نظام کے اندر کام کرکے حاصل کریں گے۔
نتیجے کے طور پر، یہ ممالک اس نظام میں سرایت کیے ہوئے ہیں جس میں امریکہ غالب ہے اور امریکہ کو ہٹانے کے لیے انہیں ایک ایسی ریاست کی ضرورت ہوگی جو اس موجودہ ورلڈ آرڈر میں اس کی جگہ لے سکے، جو کہ جلد ہونے والا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر ریاستوں کے پاس وہ طاقت یا قانونی حیثیت نہیں ہے جو اس وقت امریکہ کے پاس ہے،اور امریکہ کی جگہ ایک نئےبالادست کو مقبول ہونے کیلئے اسے ان دونوں چیزوں کی ضرورت ہوگی ۔ اور اس کا مطلب ہے کہ ڈالر غالب کرنسی کے طور پرموجود رہے گا، چاہے ریاستیں اس پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ اس لیے بھی درست ہے جب ہم اس حقیقت پر غور کرتے ہیں کہ ہر کرنسی بشمول چینی یوآن کے ، ڈالر سے ہی منسلک ہے!
ڈالر پر انحصار میں کمی کے معاملے کی اس بحث سے ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہےکہ ایک بہت اہم وجہ موجود ہے کہ ایک ایسی اسلامی ریاست کا دوبارہ قیام کیا جائے جو موجودہ کرنسیوں پر اپنے انحصار کو ختم کرے۔موجودہ معاشی نظام کا حصہ ہونا اور ان فیاٹ کرنسیوں کو قبول کرنا ہمیں مکمل طور پر امریکہ جیسی دشمن ریاستوں پر منحصر کردیتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں ریاست کی اپنی ایک خود مختار کرنسی ہوتی ہے جسے کسی غیر ملکی کرنسی سے منسلک کرنے کی اجازت نہیں ۔خلافت کی کرنسی صرف اور صرف سونے اور چاندی پر ہی مبنی ہوتی ہے ، خواہ وہ سکوں کی شکل میں ہو یا کاغذی کرنسی کی شکل میں ۔ ہمارے پاس سونا بھی ہے اور ہمارے پاس چاندی بھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فی الحال ہمارا اس پر کوئی کنٹرول نہیں اور ہم آپس میں تقسیم شدہ ہیں، اس لیے مسلمانوں کی سرزمین کے ایک حصے کے وسائل باقی مسلم علاقوں کے مسلمانوں کی رسائی میں نہیں ہیں۔ یہ حقیقت صرف اس وقت بدلے گی جب اسلامی ریاست خلافت کا دوبارہ سے قیام ہو گا،کیونکہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں، جو آج ہم پر حکومت کر رہا ہے، اسلامی قوانین کا اطلاق ممکن نہیں ۔
Comments are closed.