Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدرآل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ

کن چیزوں کا آرڈر پر خرید کرنا درست ہے؟
سوال: ہماری ایک کمپنی ہے، جس میں مختلف چیزوں کےآرڈر آتے ہیں، کبھی وہ آرڈرچھوٹی چھوٹی چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں تو کبھی بڑی بڑی چیزوں سے متعلق، دریافت طلب امر یہ ہے کہ موجودہ دور میں میرے لئےکس طرح کی چیزوں کا آرڈر لینا درست ہے، اور اس کے درست ہونے کی کیاشرائط ہیں؟( محمد رضوان، معین آباد)
جواب: آرڈر پر سامان تیار کرانے، خریدنے اور بیچنے کو فقہ کی اصطلاح میں ’’استصناع‘‘ کہتے ہیں، یہ چھوٹی چیزوں جیسے جوتا، چپل، موزے وغیرہ میں بھی ہو سکتا ہے اور بڑی چیزوں جیسے: ہیوی مشنریز اور گاڑی وغیرہ میں بھی؛ البتہ اس کے لئے چند بنیادی شرطیں ہیں:
اول یہ کہ اس میں انسانی صنعت کا دخل ہو، جس میں انسانی کاریگری کا دخل نہ ہو اور وہ قدرتی طور پر وجود میں آئی ہوں، جیسے: غلہ، پھل، اگر یکلچر پراڈکٹ وغیرہ ، ان میں یہ معاملہ درست نہیں۔
دوسرے: وہ چیز اس لائق ہو کہ اس کی مقدار، صفت، وزن اور سائز وغیرہ بیان کر کے اس کو متعین کیا جا سکے۔
تیسرے: اس کی تیاری میں جو میٹریل خرچ ہو، وہ صانع یعنی فروخت کرنے والے کی طرف سے ہو۔
چوتھے: آرڈر پر اس چیز کی خریدوفروخت کا تعامل ہو ۔
پانچویں: جس چیز کا آرڈر دیا جا رہا ہو، اس کی مقدار اور صفات اس طرح متعین کر دی جائیں کہ کوئی ابہام باقی نہیں رہے، صفات میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جو اس چیز کی خریدوفروخت میں پیش نظر رکھی جاتی ہیں، جیسے: وزن، سائز، ڈیزائن وغیرہ، اگر ان باتوں کی رعایت کرتے ہوئے کسی بھی چیز کے آرڈر پر خریدوفروخت کا معاملہ کیا جائےتو یہ جائز ہے: ….. أي أن الاستصناع صحيح في كل ما تعومل به عادة وعرفا كالأواني المعدنية والنحاسية والأخفاف وغيرها من الأشياء، (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، الكتاب الأول البيوع، الباب السابع في بيان أنواع البيع وأحكامه، الفصل الرابع في بيان الاستصناع: 1/423)أما شرائط جوازه: فمنها بيان جنس المستصنع ونوعه وقدره وصفته؛ لأنه مبيع فلا بد وأن يكون معلوما، والعلم إنما يحصل بأشياء. (بدائع الصنائع، كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المسلم: 5/209)

یکطرفہ طورپر آرڈر کو منسوخ کرنا
سوال: ایک شخص نے کسی کو ایک سامان بنانے کا آرڈ دیا؛لیکن بعد میں احساس ہوا کہ میں نے یہ آرڈر غلط دے دیا ،اوروہ ا س معاملہ کو ختم کرنا چاہتا ہے، یا جس شخص نے آرڈر لیا ، وہ کسی مجبوری کی وجہ سے اس آرڈر کو باقی نہیں رکھنا چاہتا ہے،تو کیا فریقین میں سے کسی کواس کے ختم کرنے کا حق حاصل ہے؟ (محمد رضوان، معین آباد)
جواب: جب آرڈ دینے والے اور آرڈر لینے والے کے درمیان معاملہ طے ہوجائےتو اب فریقین اس معاملے کے پابند ہوں گے، فریقین میں سے کسی کو بھی دوسرے فریق کی رضامندی کے بغیر اس کو ختم کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا،اگر معاملہ کو ختم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتو دونوں فریق آپسی رضامندی ہی سے اس کو ختم کر سکتے ہیں،یکطرفہ طور پر ختم کرنا چاہیں تو درست نہیں؛ کیوں کہ اس میں دوسرے فریق کو نقصان ہوگا:الاستصناع بيع وليس وعدا مجردا.(الدرر والغرر) فإذا انعقد؛ فليس لأحد العاقدين على رواية أبي يوسف الرجوع عنه بدون رضاء الآخر. (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، الكتاب الأول البيوع، الباب السابع في بيان أنواع البيع وأحكامه، الفصل الرابع في بيان الاستصناع: 1/424)

قبضہ سے پہلے دوسروں کےہاتھ فروخت کرنا
سوال: میں ممبئی شہر میں رہتا ہوں ،یہاں بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں، جو آرڈر پر سامان تیار کر کے دیتی ہیں،کبھی وہ سامان خود بناتی ہیں اور کبھی دوسروں سے بنواتی ہیں، اسی طرح بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ آڈر دینے والا سامان پر قبضہ کرنے سے پہلے ہی دوسروں کےہاتھ فروخت کر دیتے ہیں، تو کیا یہ طریقہ درست ہے؟ ( عبدالحنان، سورت)
جواب: آرڈر لینے والی کمپنی کو اختیار ہے کہ وہ سامان خود تیار کرے یا دوسرے سے تیار کروائے ،دونوں صورتیں جائز ہیں؛ بشرطیکہ سامان آرڈ دینے والے کے منشاء کے مطابق ہو؛البتہ آرڈر دینے والے کے لئے اس سامان پر قبضہ حاصل ہونے سے پہلے دوسروں کے ہاتھ فروخت کرنا جائز نہیں ہے :إن جاء الصانع بمصنوع غيره أو بمصنوعة قبل العقد فأخذه، صح، (الدر المختار، ص: 440)

بیعانہ کی رقم سے نقصان کی تلافی کرنا
سوال: اگر کوئی شخص کسی کارخانہ کو بیگ یا کوئی اور چیز بنانے کا آرڈر دے، اور اس کے لئے بیعانہ کے طورپر کچھ رقم ایڈوانس میں بھی جمع کردے،پھرسامان تیار ہونے کے بعد اگر وہ اس سامان کو لینے سے انکار کر دے تو کیا آرڈر لینے والااپنےنقصان کی تلافی بیعانہ کی رقم سے کرسکتا ہے؟ (عبدالہادی، بھیونڈی)
جواب: اگر سامان نمونہ کے مطابق تیار کیا گیاہے توخریدارپر اس سامان کا لینا اور قیمت ادا کرنا واجب ہے، اس سے انکارکر جانا درست نہیں ہے؛ کیونکہ خرید وفروخت کا معاملہ مکمل ہو چکا ہے ؛ تا ہم اگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہو، اور شرعی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے اس پر دباؤ اثر انداز نہ ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے کہ اس سامان کو کسی اور سے بیچ دے، اور جو حقیقی نقصان ہوا ہو، وہ وصول کر لے، جیسے: ۵۵؍ ہزار روپئے میں چیز تیار ہوئی اور ۵۰؍ ہزار میں فروخت کرنی پڑی تو پانچ ہزار روپئے بیعانہ کی رقم میں سے لے لے، یہ احناف کے علاوہ دوسرے فقہاء کی رائے ہے اور موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی بددیانتی کے پس منظر میں اسلامی اقتصادی ماہرین نے اس کی اجازت دی ہے:ليس لذي الحق أن يأخذ غير جنس حقه وجوزه الشافعي وهو الأوسع.(قوله وجوزه الشافعي) قدمنا في كتاب الحجر: أن عدم الجواز كان في زمانهم، أما اليوم فالفتوى على الجواز (قوله وهو الأوسع) (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: 6/422)

آرڈر دیتے وقت شرط لگانا
سوال: آج کل بہت سے سامان آرڈر پر بنتے ہیں، بسا اوقات ایک آدمی کسی کارخانہ والے کو ایک سامان تیار کرنے کے لئے دیتا ہے اور ایک تاریخ طے کر دیتا ہے؛ لیکن مقررہ تاریخ پر سامان تیار نہ ہونے کی صورت میں آرڈر دینے والے کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو کیا ایسی صورت میں آرڈر دینے والا شروع ہی میں کوئی شرط لگا سکتا ہے؟ مثلا اگر وقت مقررہ پہ سامان تیار نہیں ہوا تواتنے روپئے کم ملیں گے وغیرہ۔ (محمد سفیان، رین بازار)
جواب: اگر دونوں اس بات پر متفق ہوجائیں کہ سامان وقت مقررہ پر تیار ہوکر خریدار کو نہیں ملا تو تاخیر کی صورت میں اتنی رقم کم کرنی ہوگی اور وہ دونوں اس پر رضا مند ہوگئے تو اس طرح کی شرط لگانا شرعاََ درست ہوگا:اذا قال الخياط ان خطت اليوم فلك درهم وان خطت غدا فلك نصف درهم، قال ابو حنيفة: الشرط الاول جائز والشرط الثاني باطل، وقال ابو يوسف ومحمد: الشرطان جائزان، (النتف في الفتاوى للسغدي: 2/560)

ایئر پورٹ پر حفاظتی نقطۂ نظر سے اسکیننگ مشین کا استعمال
سوال: آج کل بعض مغربی ممالک میں ایئر پورٹ پر حفاظتی نقطۂ نظر سے ایسی اسکیننگ مشین استعمال کی جارہی ہے، کہ اگر کوئی شخص اس کے سامنے سے گزرے تو اس کا پورا جسم مشین پر بیٹھے ہوئے شخص کو بے لباس نظر آتا ہے،ممکن ہے کہ آئندہ ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی مشینیں استعمال کی جائیں، تو کیا حفاظتی نقطۂ نظر سے اس کا استعمال جائز ہو گا؟ اور کیا مسلمانوں کے لئے ایسی مشینوں سے گزرنا درست ہوگا؟ (قاری صباح الدین، ممبئی)
جواب: جس مشین کےسامنے سے گزرنے پر انسان بر ہنہ نظر آئے ،اس کا استعمال کرنااور اس کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ عمل حیا سوز ہے اور بے شرمی پر مبنی ہے ، نیز اس میں انسان کی تو ہین و تحقیر ہے؛ البتہ اگر کسی جگہ حفاظتی نقطۂ نظر سے اس کی اشد ضرورت ہو اور اسکیننگ کے بغیر مطلوبہ تحفظ کے مقاصد پورے نہ ہوتے ہوں، تو بقدر ضرورت اس کے استعمال کی گنجائش ہے، جیسے شریعت نے علاج کے وقت بقدر ضرورت ستر کو دیکھنے اور چھونے کی اجازت دی ہے:قوله: لتحمل الشهادة؛ يعني نظر الشهود لهذا الغرض إلى عورتي الزانيين ليتحملوا الشهادة ويؤدوها إلى الحاكم مباح، فلا يعرض لهم الفسخ به، ومثله نظر القابلة والخافضة والختان والطبيب إذا كان المرض بموضع لا يحل النظر إليه، وكذا يجوز النظر إلى العورة عند الاحتقان، وروية البكارة في العنة، والرد بالعيب، (عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية ، كتاب الحدود:5/467) نیز دیکھئے:(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس:6/371)

Comments are closed.