اندرا گاندھی کی موت نے انجیل کی حکایت کو سچ کردیا!

عارف عزیز(بھوپال)
اُصولوں، تحریکوں، نظریوں اور خیالات کی اوّلیت چاے جتنی مسلم یا قابل احترام ہو، سماج میں فرد کی اہمیت کا ایسا ناقابل انکار ثبوت وقفہ وقفہ سے دنیا کے سامنے آتا رہا ہے کہ اُس کے سامنے اور دوسری بحثیں بے بنیاد اور فروعی دکھائی دینے لگتی ہیں، چنگیز خاں سے لے کر اندراگاندھی تک دنیا کی تاریخ پر افراد کی اولوالعزمیوں، عہد آفریں نقل وحرکت اور دوررس و پائیدار اثرات کا سایہ اِتنا گہرا ہے کہ موجودہ دنیا کی تصویر اُن ہی بے شمار افراد کے موئے قلم سے رنگین نظر آتی ہے جو باری باری سے ایک الگ دنیا کے مالک بن کر اُبھرے اور اپنی مرضی کے مطابق اِس تصویر کو شکل دے کر مختلف خطوں کی تاریخ کے اُفق میں غروب ہوگئے۔
مسز اندراگاندھی ایسی ہی ایک خاتون تھیں وہ ایک ایسے وقت میں اِس دنیا سے رخصت ہوئیں کہ ایک دو کے سوا اُن کے مرتبہ و صلاحیت کا کوئی آدمی عالمی سیاست کے اسٹیج پر موجود نہیں رہا ۔ موجودہ نسل اُنھیں ہندوستان کے وزیر اعظم اور ایک اعلیٰ مدبر کی حیثیت سے جانتی ہے لیکن جس وقت وہ اِس عہدہ پر فائز ہوئیں، اُس وقت کانگریس میں اِس سے زیادہ اہمیت کی مالک نہیں سمجھی جاتی تھیں جتنی اہمیت اُس تنظیم میں تقسیم سے پہلے تک ڈاکٹرراجندر پرشاد کو حاصل تھی۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد کانگریس کے اندر مہاتما گاندھی کی صرف آواز تصور کیے جاتے تھے، گاندھی جی کا دماغ سمجھنے پر اُنھیں کوئی آمادہ نہیں تھا، اِسی طرح اندراگاندھی کانگریس میں پنڈت جواہرلال نہرو کا عکس تصور کی جاتی تھیں اور اُن کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے تک کابینہ کا وہ عنصر جو پنڈت نہرو کے خلاف سرگوشیوں میں مصروف رہا کرتا تھا اُن کے نام کو نہروجی کے خلاف بدگمانیاں پھیلانے کے لیے استعمال کیا کرتا تھا۔
اِسی داخلی خوف اور تذبذب کے باعث اُنھیں پہلی مرتبہ اطلاعات ونشریات کی وزارت دی گئی تاہم وزیراعظم لال بہادر شاستری کو شکایت رہی کہ اندراگاندھی اپنی وزارت کے بارے میں اُن کی مداخلت تو کجا اُن کے مشورہ تک کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں تھیں۔ جسٹس محمد کریم چھاگلہ کے بقول ’’وہ اپنی وزارت پر ایک خودمختار حکمراں کی طرح راج کررہی تھیں‘‘۔ درحقیقت وہ وزارتِ اطلاعات ونشریات کو اپنے حوصلوں اور شخصیت کے مطابق نہیں سمجھتی تھیں، اُن کی تربیت جس طرح ہوئی تھی اور جس طرح کا ذہن اُنھوں نے بنا رکھا تھا، پھر مہاتما گاندھی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، آصف علی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے افکار ونظریات سے وہ جس طرح متاثر ہوئی تھیں اور پنڈت نہرو نے اُن کے کردار وشخصیت کی تشکیل میں جس عرق ریزی سے کام لیا تھا، اُس کا صحیح مصرف یقینا وزارتِ اطلاعات و نشریات نہیں ملک کی وزارتِ عظمیٰ تھی جس پر بالآخر وہ فائز ہوئیںاور ہندوستان کے تیسرے وزیراعظم کی حیثیت سے اُنھوں نے اپنی تصویر تشکیل دی۔
سیاست کی جو دنیا ہے وہ ایمانداری اور سادگی کا کوئی رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی معاملات کو طے کرنے کا جو ڈھنگ سیاست کے بازار میں رائج ہے اُس میں صفائی، راست بازی، وضاحت کیشی اور صداقت شعاری کے بجائے پیچیدگیوں، اُلجھاؤں، جھانسوں اور موقع پرستی کا سکہ چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک سیاست کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ عیاری کے مظاہروں اور نتائج کے بدنما رنگوں سے لپی ہوئی حدنظر تک دکھائی دیتی ہے اور سچائیوں کے نام پر حقیقت کا گلا گھونٹنے، اُصولوں کے نام پر بداُصولیوں کے مظاہرے اور دوستی کے نام پر محبت کو قتل کرنے اور ایمانداری کے نام پر بے ایمانی کرنے کے ہولناک واقعات سے بھرپور ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جو ریاکاری سے پُر ہے اور متضاد چہرے یا دُوہرے معیار رکھتی ہے اگر فی الواقعہ اندراگاندھی کے بعض فکری جملے اور خیالات بھی اِسی کے نذر ہوجائیں تو اُسے خلافِ توقع اور بعیدازقیاس نہیں کہا جاسکتا۔
وزیراعظم شریمتی گاندھی کا بھوپال سے تعلق کافی پرانا ہے وہ جب بھی یہاں تشریف لائیں اُنھوں نے ایک مادرِ مہربان کی طرح بھوپال اور اہلِ بھوپال کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ایک مرتبہ اُنھوں نے بھوپال کے فطری حسن، قدرتی نشیب وفراز اور جھیل و تالاب کو دیکھ کر وزیراعلیٰ ارجن سنگھ سے کہا تھا کہ اِس حسین شہر کے حسن میں مزید اضافہ کرنے کی کوشش کیجئے‘‘۔ آخری بار جب وہ بھوپال میں لال پریڈ کے استقبالیہ کا جواب دے رہی تھیں تو بیساختہ اُن کی ممتا بیدار ہوگئی اور اُنھوں نے نہایت جذباتی انداز میں اپنے چھوٹے صاحبزادے آنجہانی سنجے گاندھی کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا:
’’میرے دونوں بیٹے جب چھوٹے تھے۔ تو صبح کے وقت اُٹھ کر میرے بستر میں آجاتے اور مجھے گھیرکر لیٹ جاتے تھے۔ اُس وقت اکثر سنجے مجھ سے یہ پوچھتے کہ ممی! اُن لوگوں کا کیا ہوتا ہوگا جن کے تین بچے ہوتے ہیں، اُن کی ماں تیسرے بچے کو کہاں سلاتی ہوگی! میں جواب میں اُن سے کہتی کہ ماں کے لئے سب اولاد برابر ہوتی ہے، ماں کا دل تو اِتنا کشادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتی، اُس کا پیار تو سب کے لئے برابر ہوا کرتا ہے۔ یہی حال میری نظر میں ہندوستان کی تمام ریاستوں اور شہروں کا ہے، جن سے مجھے برابر کی محبت ہے‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ اقتدار ایک ایسا نقاب ہے جس کے پیچھے انسان کی انفرادی شخصیت چھپ جاتی ہے۔ شریمتی گاندھی کے ساتھ بھی اگر ہی معاملہ ہوا ہوتو خلافِ توقع نہیں اُن کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ نہایت سرد مزاج، جذبات سے عاری اور اقتدار کی ہر قیمت پر خواہشمند ہیں لیکن اصل اندراگاندھی ایسے مواقع پر نظر آتی تھی، جب وہ اپنے خاندانی حلقوں، نجی محفلوں یا گھر کے افراد کے ساتھ ہوں، اپنے پوتے اور پوتی کے ہمراہ کھیلتے ہوئے یا اپنے باغ کی کیاریوں میں پانی دیتے ہوئے جن لوگوں نے اُنھیں صبح سویرے دیکھا ہے وہ یقینا اِس کی تصدیق کریں گے کہ بظاہر سنگ و آہن سے مرکب اِس شخصیت کا دل کتنا وسیع اور مزاج کس قدر شگفتہ تھا۔
اسلامی مرکز ثقافت کا اگست ۱۹۸۴؁ء میں سنگ بنیاد رکھتے ہوئے شریمتی اندرا گاندھی نے نئی دہلی میں جو تقریر کی تھی وہ اُن کی چند اچھی تقریروں میں شمار کی جاسکتی ہے، ایسی ہی ایک دلنشیں اور مفید تقریر اُنھوں نے چودھویں صدی ہجری کے اختتام اور پندرھویں صدی کے آغاز کی تقریبات کے موقع پر بھی کی تھی، اِن دونوں تقاریر میں شریمتی گاندھی کا موضوع یہ تھا کہ ’’اسلام نے ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں‘‘۔ چنانچہ اُنھوں نے اِس موقع پر اعتراف کیا تھا کہ’’ اسلام نے ہندوستان کو بہت کچھ دیا ہے اور اسلام ہندوستان کا ہی ایک مذہب ہے‘‘۔
شریمتی گاندھی نے ۱۵کروڑ روپئے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اسلامک کلچرل سینٹر کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ’’ہندوستانی نظریات اور فلسفہ پر اسلام نے قابلِ ستائش اثرات مرتب کیے ہیں اور اسلام کی اِسی دین نے ہندوستانی تہذیب کو زیادہ وقیع اور شاندار بنایا ہے، اسلام ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے ہندوستانی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش حصّہ رہا ہے۔ خصوصاً ہندوستان میں آمد کے بعد مسلمان زیادہ عرصہ تک اجنبی نہیں رہے بلکہ وہ مسلمان بھی جن کے اجداد بیرونِ ملک سے یہاں آئے تھے جلد ہی رچ بس گئے۔ اُنھوں نے یہیں شادیاں کیں، یہیں اپنے بچوں کی پرورش کی اور اِس ملک کو وہ اپنا وطن سمجھ کر رہ پڑے۔ اسلام کی ہندوستان میں آمد کے ساتھ ہی فکروتہذیب کے اثرات کی ایک تازہ لہر سی دوڑ گئی جو ایک مدت سے علم و تہذیب کے جدید دھاروں سے الگ تھلگ رہا تھا۔ آج کی ہندوستانی تہذیب درحقیقت ہندو، مسلم، بدھسٹ اور عیسائی مذاہب کے اندازِ فکر کا مرکب ہے۔ سکھ مذہب پر بھی اسلام اورہندومت کی روایات کے اثرات پڑے ہیں۔ اِسی طرح راجہ رام موہن رائے کے ’’برہمو سماج‘‘ میں اسلام ، عیسائیت اور ہندومت کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ الغرض ہندوؤں اور مسلمانوں نے مشترکہ طور پر بیش قیمت ہندوستانی روایات کی تشکیل کی ہے ایک ایسے وقت میں جب کہ بیشتر تنگ نظر عناصر اہلِ وطن کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ اسلام ایک بیرونی مذہب ہے جس کا کام ہندوستان پر حملہ آور ہوکر اُس کی تہذیب کو برباد کرنا تھا اور اب کہیں جاکرہندو ایک ہزار برس کے بعد اسلام اور عیسائیت کے نرغے سے آزاد ہوئے ہیں۔ اندراگاندھی کا یہ اعتراف جہاں اُن کی منصف مزاجی پر دلالت کرتا ہے وہیں تاریخ کو اپنے صحیح پسِ منظر میں دیکھنے کی وہ کوشش ہے جس کا لحاظ اُن کے جانشینوں کو بھی کرنا چاہیے۔
شاید ۱۹۷۱ء؁ کی بات ہے کہ چین اقوام متحدہ میں اُس شان سے داخل ہوا کہ عالمی سیاست ایک نئے تلاطم اور ہلچل سے دوچار ہوگئی اُس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آنے والے عرصہ میں کون کدھر چلا جائے گا، امریکہ سے چین کے روابط استوار ہونے کے بعد کم از کم افریشیائی طاقتیں جو اَب تک کم وبیش تسلسل کے ساتھ عالمی مسائل میں ہندوستان سے روابط رکھتی تھیں، چین کی موجودگی اور نئے سیاسی جغرافیہ کی تشکیل کے بعد کسی دوسری طرف بھی بڑھ سکتی تھیں اور غالب گمان یہ تھا کہ وہ ایک زیادہ طاقتور ملک کی حمایت کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا اقدام کریں گی۔
اُس وقت سوال یہ نہیں تھا کہ عالمی سیاست میں چین کا درجہ اور رویہ کیا ہوگا۔ بلکہ اصل سوال یہ تھا کہ ہندوستان کی پوزیشن کیا ہوگی۔ اِس پس منظر میں اندراگاندھی نے عالمی سیاست میں ہندوستان کا اہم مقام برقرار رکھنے کے لیے بائیں جانب گھوم جانے کا مظاہرہ کرکے پہلے ہند۔روس دوستی معاہدہ کیا اور اپنے اِردگرد اِتنی طاقت مجتمع کرلی کہ وہ کھلے ہا۔تھوں اور صاف ذہن سے کوئی بھی فیصلہ کرسکیں اور اُسے عملی جامہ پہناسکیں۔ چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ وہ پورے ولولہ کے ساتھ ہندوستان کی نئی قوت سے عالم کو روشناس کرانے میں مصروف ہوگئیں۔
اندراگاندھی کی طوفان خیز سیاسی زندگی جن سخت تہلکوں سے دوچار ہوئی اُن میں سے ایک ۱۹۷۳؁ء سے ۱۹۷۵؁ء کا وہ دَور بھی ہے جس میں جے پرکاش نرائن کی مزاحمتی تحریک نے زور پکڑا اورشریمتی گاندھی کی جانب سے چمن بھائی پٹیل کو گجرات کا اور عبدالغفور کو بہار کا وزیراعلیٰ نامزد کرنے کا اقدام عمل میں آیا اِن دونوں کی تقرری سے اندراگاندھی کے لیے مشکلات کے نئے دروازے کھل گئے مگر بہار میں اِتنا فائدہ ضرور ہوا کہ وہاں کے مسلمانوں کی حمایت اُنھیں حاصل ہوگئی۔ لیکن گجرات میں یہ بات بھی حاصل نہ ہوسکی اور جے پرکاش نرائن، اندراگاندھی کے خلاف عدم اعتماد اور کشمکش کی علامت بن گئے بعد میں ملک کی مایوس اپوزیشن بھی اُن کی طرف ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے نظریں اُٹھانے لگی۔ یہاں تک کہ اُسی سال گجرات میں طلباء کی تحریک چلی جس کے ڈانڈے بھی بالآخر جے پرکاش نرائن کی تحریک سے مل گئے۔ پھر ۱۹۷۴؁ء آتے آتے جے پی مزاحمتی تحریک جو ۱۹۷۳؁ء کے آغاز میں کمزور اور بے اثر نظر آتی تھی، اندراگاندھی کے لئے ایک سنگین چیلنج بن گئی۔ اور ایک بنگال کے سوا اُترپردیش، اُڑیسہ اور دوسری کئی ریاستوں میں بھی جہاں کانگریس کی مضبوط اکثریت تھی۔ اُس کے اثرات نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ گجرات میں طلباء کی تحریک کی کامیابی نے جے پرکاش نرائن کو ایک باثر اپوزیشن رہنما کے قالب میں ڈھال دیا، اگرچہ اندراگاندھی نے اِس موقع پر فخرالدین علی احمد کی صدارت کے عہدہ پر نامزدگی اور پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کردینے کے مؤثر اقدامات کے ذریعہ اپنی پوزیشن کو سنبھالنا چاہا۔ لیکن حزبِ اختلاف کا اُٹھایا ہوا شور اِتنا زبردست تھا کہ اُس کے غلغلہ میں اِتنے بڑے اقدامات بھی دب کر رہ گئے۔ سکّم کی ہندوستانی ریاست میں شمولیت کا واقعہ بین الاقوامی سطح پر اتنی ہمہ گیر تنقید کا باعث بناکہ بنگلہ دیش اور نیپال تک میں اِس کی تلخی محسوس کی گئی اور بنگلہ دیش میں تو ہندوستان کی امداد واعتراف کی لہر آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگی، ساتھ ہی پاکستانی قیدیوں پر ہونے والے بے پناہ اخراجات اور سابقہ جنگ کے کمرتوڑ اقتصادی دباؤ کی بدولت ایک ایسی حالت ملک میں جاگ اُٹھی کہ عام آدمی کا جینا تک دُشوار ہوگیا۔
اندراگاندھی نے اِس سنگین صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اسمگلروں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف اقدامات کیے مگر جے پی کے مکمل انقلاب کا نعرہ زیادہ مقبولیت کی علامت بنتا رہا، یہ وہ پس منظر تھا جس کو سامنے رکھ کو ۱۹۷۵؁ء میں داخلی ایمرجینسی کا نفاذ کرنا پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے صورتِ حال قابو میں آگئی۔
ہندوستان کے سیاسی مطلع سے اندراگاندھی کے یکایک ہٹ جانے سے کانگریس نے بہت کھویا، اُن کی زندگی کے آخری ۱۸ سالوں میں کانگریس نے جو انتخابی معرکے سر کیے، اِس میں پارٹی پالیسی و پروگرام سے زیادہ اندراگاندھی کی سحرکارانہ شخصیت حاوی تھی۔ ۱۹۷۷؁ء میں جب اُن کا جادو مختصر عرصہ کے لیے ختم ہوگیا تو ریاستوں اور مرکز میں کانگریس کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی موت کے بعد ۱۹۸۴؁ء کا الیکشن بھی کانگریس نے اُن کے نام اور کام پر راجیوگاندھی کی قیادت میں بڑی اکثریت سے جیتا لیکن راجیوگاندھی کی ناتجربہ کاری کانگریس کو متحد نہیں رکھ سکی اور وی پی سنگھ کی قیادت میں اپوزیشن نے آنے والے الیکشن میں بازی مارلی۔
اندراگاندھی کا مہاتما گاندھی کی طرح ملک کے سیاسی منظر پر وُرود نہیں ہوا۔ نہ ہی گاندھی جی کے اُصول ونظریات پر وہ اُن کی طرح گامزن رہیں۔ تاہم اُن کی جدائی ضرور مہاتما گاندھی کی طرح ہوئی۔ اِس طرح غالباً اُنھوں نے انجیل کی اُس حکایت کو عملی روپ دے دیا کہ:’’جو تلوار اُٹھائے گا تلوار سے مارا جائے گا۔‘‘
۱۹۴۸؁ء میں ایک گاندھی نے گولی کا نشانہ بن کر جامِ شہادت نوش کیا تھا جب کہ ۱۹۸۴؁ء میں دوسرے نے بھی اُسی طرح موت کو گلے لگالیا۔ پہلا سیاسی سنت تھا تو دوسرا سیاسی رہنما، مہاتماگاندھی کی قربانی نے قوم و ملک کو استحکام و یکجہتی سے ہمکنار کردیا تھا۔ شریمتی اندراگاندھی کی وفات اس قوم کے لیے ایک آزمائش ہے وہ ایک ایسے وقت میں رخصت ہوئیں جب ملک، قوم اور دنیا کو اُن کی پہلے سے زیادہ ضرورت تھی ایک ایسے دَور میں جب کہ سیاسی اقتدار سے زیادہ غیریقینی اور بے ثبات کوئی چیز نہیں اُن کا اقتدار کم وبیش دو دہائیوں تک قائم رہا، یہ بذاتِ خود ایک ایسا کارنامہ ہے جو سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔
شریمتی گاندھی نے زندگی میں کبھی ہار نہیں مانی مگر اُس موت کے مقابلے میں ضرور اُنھیں ہتھیار ڈال دینے پڑے جو اِس دنیا کی سب سے برتر قوت ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ انسان سے اپنے غلبہ اور تفوق کا اقرار کراکر رہتی ہے، وہ ابدی نیند سوگئیں اور اُن کے ساتھ پورا ایک عہد بھی ختم ہوگیا، تاریخ کا ایک باب پلٹ گیا’’سدا رہے نام اللہ کا‘‘۔

Comments are closed.