کھیل کے میدان تعصب اور جانبداری سے پاک رہیں!

جاوید جمال الدین
عام طورپرپولیس کے اعلیٰ افسران اور خصوصی طورپر پر فلموں میں یہ مکالمہ ایک اعلیٰ افسر سے کہلوایا جاتاہے کہ "وردی پہننے کے بعد وہ قانون کارکھوالا ہوتا ہے اور اپنے فرائض منصبی انجام دینے کاقائل ہوتاہے۔” لیکن روزمرہ زندگی میں اور آئے دن خبروں میں یہی پتہ چلتا ہے کہ قانون کے رکھوالے جانبداری کے پتلے ہوچکے ہیں۔”یہاں ایک عام آدمی ،اقلیتی فریادی اور پسماندہ شکایت کنندہ کے ساتھ دوسرے سے ہٹ کر سلوک کیاجاتاہے،یہ معاملہ محکمہ پولیس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ سرکاری نیم سرکاری اور نجی شعبوں اور محکموں میں بھی یہی حال ہے۔
کھیل کود سے وابستہ اداروں،اکیڈمیوں اور تنظیموں میں بھی یہی کھیل کھیلا جاتا ہے۔انجمن اسلام سے فارغ ایک ہونہار نوجوان کرکٹ کھلاڑی سرفراز کو رنجی ٹرافی اور دوسرے ٹورنامنٹ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ نہیں دی گئی ،جس پر سابق کپتان اور ماسٹر بلاسٹر سنیل گاوسکر نے بھی احتجاج کیا ہے،لیکن سلیکٹرز نے ہمیشہ عجیب وغریب جواز پیش کر دیا،جوکہ بچکانہ بول لگتے ہیں،اگر جذبات میں نوجوان کھلاڑی سے کوئی غلطی ہوگئی تو اسے وارننگ دی جاسکتی ہے۔
خیر آج میں نے الگ ہٹ کر لکھنے کامن بنایاہے،کھیل کود کاشعبہ ہر ایک اسکول اور کالج میں رہتاہے،سو میری مادر علمی انجمن اسلام میں نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود پر بھی کافی توجہ دی جاتی تھی،منیجمنٹ کے زیر اہتمام پرنسپل خلیفہ ضیاء الدین خود تو فٹ بال سے وابستہ تھے،لیکن کرکٹ کو یہاں ترجیح دی جاتی رہی اور انجمن اسلام کے احاطے میں قدیم عمارت کے سامنے کرکٹ پیچ موجود تھیں ،جو چند سال قبل آزاد میدان منتقل کردی گئی تھیں ،لیکن صدر انجمن ڈاکٹر ظہیر قاضی نے دوبارہ کیمپس میں پیچ تیار کروائی ہیں اور کرکٹ اکیڈمی کی تشکیل کی گئی ہے،انجمن اسلام نے سلیم درانی ،غلام پرکار،وسیم جعفر،سلیم کمال الدین اور وشونوی جیسوال کی شکل میں پانچ کرکٹ ٹیسٹ کھلاڑی دیئے ہیں ،جبکہ سینکڑوں رنجی ٹرافی اور دوسرے ٹورنامنٹ میں بہترین پرفارمینس کرتے رہے ہیں۔واضح رہے کہ ممبئی ہائی اسکول ہریش شیلڈ ٹورنامنٹ میں انجمن اسلام کا ہمیشہ سب سے اچھا پرفارمینس رہا،بلکہ ایک زمانے میں ربع صدی تک انجمن نے ٹرافی جیتی تھی،لیکن یہ حیرت انگیز امر رہاکہ دادر کی شاردا آشرم اور چھبیل داس کے کرکٹر رنجی اور ٹیسٹ کرکٹ میں منتخب کرلیے جاتے تھے،اس فہرست میں سنیل منوہر گاوسکر ،دلیپ وینگسرکر،سولکر،ونود کامبلی ،سچن ٹینڈولکر ،سنجے مانجریکر شامل ہیں اور انجمن کے صرف پانچ کھلاڑی ہی اس لائق سمجھے گئے جبکہ ہارنے والی اسکول کی ٹیم کے متعدد کھلاڑی ہمیشہ چن لیے جاتے ہیں۔
کرکٹ کاشوق اسکول کے زمانے سے ہی پیدا ہونا لازمی تھا،کیونکہ ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے پر آدھادن اورفائنل کے آخری دن پورے پورے دن کی چھٹی دے دی جاتی تھی۔دوردرشن۔پر راست براڈکاسٹ سے یہ شوق مزید پروان چڑھ گیااور محمد اظہر الدین کے کپتان بننے کے بعدتقویت مزید بڑھ گئی،اتفاق کی بات ہے کہ 2010 میں نائب صدر حامد انصاری کے سرکاری دورہ یورپ میں وہ ایم پی کی حیثیت سے اور میں میڈیا کے وفد میں شامل تھا۔اور ہماری دوستی ہوگئی۔ اظہر بھی تعصب اور جانبدارانہ فیصلہ کا شکار بن چکے ہیں۔حالانکہ عدالت سے بے قصور ثابت ہوئے ہیں۔
حالیہ عالمی کپ ٹورنامنٹ میں ہندوستان فائنل میں پہنچ چکاہے۔کیونکہ پہلےسیمی فائنل میں ہندوستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں رسائی حاصل کر لی ہے۔ اس فتح میں جہاں وراٹ اور ائیر نے اہم کردار ادا کیا ،وہیں اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے،محمد سمیع نے دونوں ٹیموں کے درمیان وہ فرق پیدا کیا جس سے ہندوستان جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے دم پر نیوزی لینڈ کی نصف سے زیادہ ٹیم کو پویلین کاراستہ دکھا دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کئی ریکارڈس اپنے نام کر لئے۔سوشل میڈیا پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ بالی ووڈ اسٹارس سے لے کر سیاسی لیڈروں تک سبھی سمیع کی گیند بازی کے معترف ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم مودی اور راہل گاندھی دونوں نے ان کی تعریف میں ٹویٹ کیا۔ وزیر اعظم نے ٹویٹ کیا کہ "محمد سمیع آپ نے شاندار مظاہرہ کیا۔ آپ کے کھیل اور اس کار کردگی کو کئی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ "اتر پردیش کے امروہہ میں ایک منی اسٹیڈیم کی تعمیر کی سفارش بھی ضلع کلکٹر نے کردی ہے اور ایک اوپن جم بھی ان سے منسوب کیاجائے گا۔مطلب ان کی یہی کار کردگی انہیں زمین سے آسمان پر لے آئی ہے۔ اس وقت وہ پورے ملک کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں۔
لیکن افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا.جب کچھ لوگ سمیع کو سوشل میڈیا پر ٹرول کر رہے تھے اور انہیں برا بھلا کہہ رہے تھے۔ سیمی فائنل میں محمد سمیع کے تاریخی مظاہرے کے بعد کانگریس لیڈر شرینو اس بی وی نے اُس وقت کی یاد دلائی اور کہا کہ تب محمد سمیع کے ساتھ صرف رضوان دراصل اکتوبر ۲۰۲۱ء میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ٹی ۲۰ عالمی کپ کا ایک میچ کھیلا گیا تھا۔ اس میچ میں ہندوستان کو ۱۰ وکٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستانی سلامی بلے بازوں بابر اعظم اور محمد رضوان نے تمام گیند بازوں کی بالنگ پر رن بنائے تھے لیکن سوشل میڈیا پر صرف سمیع کونشانہ بنایا گیا اور ہندو توا بریگیڈ کے ذریعہ کافی ٹرول کیا گیا تھا۔ اس موقع پر راہل گاندھی ہی سمیع کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور ان کی حمایت میں ٹویٹ کیا تھا جبکہ اس وقت ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی تھے اور انہوں نے بھی ہند و تو ابر یگیڈ کو کافی برا بھلا کہا تھا اور کھل کر سمیع کی حمایت کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے وراٹ کوہلی کو کپتانی سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ کوہلی کے بعد دیگر کئی کھلاڑیوں نے سمیع کی حمایت کی تھی۔
بہر حال ان تمام تنقیدوں اور ٹرولنگ کا منہ توڑجواب محمد سمیع نےگزشتہ ایک ماہ سے جاری ورلڈ کپ میں دے دیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سمیع کو اس ورلڈ کپ کے ابتدائی میچوں میں توازن قائم رکھنے کے نام پر کھلایا نہیں گیا، لیکن جب انہیں ٹیم میں لیا گیا تو پھر انہوں نے اپنی شاندار کار کردگی سے سبھی کا منہ بند کر دیا۔اب وہ ٹیم کیلئے ناگزیر ہو گئے ہیں۔
لگا تا روکٹ لیتے رہنے کی اسی صلاحیت کی وجہ سے اس وقت سوشل میڈیاپر وہ چھائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چنددنوں سے ٹویٹر اور گوگل کے ٹاپ ۱۰ٹرینڈس میں بھی وہ شامل بتائے جارہے ہیں ۔ بالی ووڈ اسٹار رنبیر کپور جو میچ دیکھنے پہنچےتھے ، انہوں نے ان کے مظاہرہ کی تعریف یوں کی کہ محمد سمیع نے میچ کا پانسہ ہندوستان کے حق میں کرنے میں کلیدی کردار ادا کیاہے۔ اگر ان کی گیند بازی نہیں ہوتی تو ٹیم انڈیا کیلئے مشکلات میں اضافہ یقینی تھا۔ اسٹیڈیم میں موجود ایک اوراداکار جان ابراہم نے کہا کہ وراٹ کی سنچری شاندار تھی،لیکن محمد سمیع کو پورےجوش میں گیند بازی کرتے دیکھنا خوشگوار تجربہ تھا۔
آج سمیع کی تعریفیں سابق کرکٹرس بھی کر رہے ہیں، جبکہ ان کے بچپن کے کوچ نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ سمیع کو بالنگ کرنے کی تربیت دی اس وجہ سے آج ان کی سیم کو پوزیشن پوری دنیا میں بہترین ہے۔ کوچ نے کہا کہ ہم نے سمیع کو کہہ دیا تھا کہ کر سیم بالنگ صرف بزدل کرتے ہیں اس لئے وہ کبھی اس کی کوشش نہ کریں۔ سابق تیز گیند باز گلین میک گرانے کہا کہ محمد سمیع اس ورلڈ کپ میں بہت بڑا خطرہ بن کر ابھرے ہیں۔ آسٹریلیا کی ٹیم کو ان سے ہوشیار رہنا ہو گا۔
سمیع گزشتہ چندسال سے بحران کا شکار رہے ہیں،گھریلومسائل سے بھی دوچارہیں،اور مقدمہ کاسامناہےلیکن سراج اورخاص طورسے سمیع کی بہتر کارکردگی قابل ستائش ہے،انہوں نے تعصب اور جانبداری کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا ہے ۔بلکہ منہ توڑ جواب دیاہے۔
[email protected]
9867647741

Comments are closed.