مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی خدمات

عارف عزیزبھوپال
مولانا ابوالکلام آزاد ہفت پہلو شخصیت کے مالک تھے مذہب ہو کہ سیاست، خطابت ہو کہ ادب کوئی میدان ایسا نہ تھا جس کے وہ مردِ باکمال نہ ہوں، ادب ، سیاست اور مذہب کی انہوں نے جو خدمت کی یا اردو زبان ان کے قلم کی کتنی احسان مند ہے، یہ میرا موضوع نہیں، جہاں تک صحافت کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ مولانا آزاد ادب ومذہب کو صحافت سے جوڑنے والے اردو کے پہلے صحافی تھے جنہوں نے اپنی تحریروں سے سیاست کے اندھیرے میں حق وصداقت اور ایمان وعمل کی شمعیں روشن کیں، ان کا ذہن ایک عالم کا ذہن تھا، ان کا مزاج ایک مفکر کا مزاج تھا، ان کی اصابتِ فکر ایک فلسفی کی فکر تھی لیکن وہ بنیادی طور پر صحافی تھے، اس لئے ان کی طبیعت کا رجحان ابتداء ہی سے اخبار نویسی کی طرف مائل رہا، اگرچہ مولانا کی عملی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا اور دس برس کی عمر میں وہ شعر کہنے لگے لیکن صحافت کی راہ سے نثر کے میدان میں قدم رکھا تو اپنے اسلوبِ بیان اور تحریر سے ایک نئے طرز نگارش کا ہی آغاز نہیں کیا، ایک ایسا ورثہ بھی چھوڑا جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاست وصحافت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ذہنی ارتقاء کا مختصر جائزہ لیا جائے ، انہوں نے خالص مذہبی ماحول میں اپنی آنکھیں کھولیں، مولانا کے والد مولانا خیرالدین ہندوستان کے ایک معروف خانقاہی نظام کے سربراہ تھے، والدہ محترمہ عرب کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، مولانا آزاد نے ایک خالص مذہبی ماحول میں پرورش پائی اور کم عمری میں ہی مذہبی علوم کا مطالعہ مکمل کرلیا، اس طرح ماضی سے ان کا رشتہ نہایت گہرا قائم ہوگیا لیکن اس کے باوجود ان کا طرز فکر بنیادی طور پر جدید رہا، مذہب سے وابستگی نے ان کے دل ودماغ میں تعصب، تنگ نظری نہیں، گہرائی اور وسعت پیدا کی اور یوں مولانا کے مذہب وسیاست میں ایک توازن اور ہم آہنگی پیدا ہوگئی جو ان کی شخصیت کا ایک اہم جوہر ثابت ہوئی، مولانا کو قدرت نے اپنی جن نوازشوں سے فیضیاب کیا اس کا حال نوجوانی میں ہی ظاہر ہونے لگا تھا گویا شباب سے پہلے مولانا پرشباب آگیا یعنی علم وفضل اور صلاحیت کے چرچے شروع ہوگئے ، یہی وجہ ہے کہ علامہ شبلی نعمانی کی نظر نے آزاد کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو دیکھ لیا اور ’’الندوہ‘‘ جیسے اہم رسالہ کی ادارت ان کے سپرد کردی۔
اس کے علاوہ مولانا آزاد کلکتہ کے ماہنامہ ’’نیرنگ نظر‘‘ ، ہفت روزہ ’’المصباح‘‘ ، ’’رسالہ محمدیہ‘‘ ، ہفت روزہ ’’احسن الاخبار‘‘ ، ماہنامہ ’’لسان الصدق‘‘ ، شاہ جہاں پور کے ’’ اڈورڈگزٹ‘‘ ، لکھنؤ کے ’’خُدنگ نظر‘‘ سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں جن میں لکھ کر مولانا نے اپنی مضمون نگاری کا شوق ہی پور انہ کیا تبادلہ میں اسلامی ممالک سے آنے والے عربی اخبار ورسائل کے مطالعہ کا بھی انہیں موقعہ ملا اور اس سے ان کی صحافیانہ صلاحیتوں کی نشو ونما میں مدد ملی مگر حقیقت میں’’نیرنگ عالم‘‘ کلکتہ، ’’المصباح‘‘ کلکتہ، ’’تحفہ محمدیہ‘‘ کانپور، ’’لسان الصدق‘‘ کلکتہ اور ’’وکیل‘‘ امرتسر وہ رسائل ہیں جن کی ادارات کے دوران مولانا کی مشقِ صحافت بعد کے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ میں بہت کام آئی۔
بیسویں صدی کے اوائل میں جب پورا ہندوستان سیاسی بحران سے دوچار تھا، انگریزوں کے معاندانہ رویہ نے ہندوستان کی تہذیبی اور ثقافتی قدروں کو پامال کردیا تھا اور پہلی جنگ عظیم کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں، اس بحرانی دور میں اردو کے ایسے اخباروں کی ضرورت تھی جو ہندوستانیوں میں قومی شعور کو بیدار کرکے ان کے عزم وارادہ کو مستحکم اور پوری قوم کو آزادی کا پیغام دیتا۔ مولانا آزاد کی ادارت میں یکے بعد دیگرے شائع ہونے والے اخبار ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ نے یہی خدمت انجام دے کر ایک تاریخ بنائی ہے اور ہندوستان کے اجتماعی ذہن کو ایک عہد آفریں موڑ دیا، اعلیٰ پایہ کی علمیت اور ادبیت کے باوجود مذکورہ اخبارات کی مقبولیت کسی عجوبہ سے کم نہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافت کے ذریعہ حالاتِ حاضرہ کی آگاہی کے ساتھ عوام و خواص کی ذہنی تربیت اور اخلاقی اصلاح کا کام بخوبی انجام دیا جاسکتا ہے اور یہی صحافت کا اعلیٰ معیار ہے۔
’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ یکم جون ۱۹۱۳ء کو منظر عام پر آیا اور اس کی آواز ہندوستان میں اس طرح گونجی کہ اس نے سوتے مسلمانوں کو بیدار کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اخبار نہ صرف مسلمان بلکہ پوری اسلامی دنیا کا ترجمان بن گیا۔ یہ اردو کا پہلا اخبار تھا جوٹائپ میں شائع ہوا اور اس کے بارے میں مولانا آزاد کا ایک واضح نظریہ تھا جس کا اظہار انہوں نے اخبار کے اولین شمارہ میں کردیا، وہ لکھتے ہیں:
’’ہم اس بازار میں سودائے نفع کے لئے نہیں بلکہ تلاش زیاں ونقصان میں آئے ہیں صلہ وتحسین کے لئے نہیں بلکہ نفرت و دشنام کے طلب گار ہیں، عیش کے پھول نہیں بلکہ خلش واضطراب کے لئے کانٹے ڈھونڈتے ہیں۔ دنیائے سیم وزر کو قربان کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے تئیں قربان کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ‘‘
مگر افسوس صد افسوس کہ بعد میں چل کر’’ الہلال‘‘ ہی نہیں بلکہ ملک ہندوستان کے ہر وطن پرست انسان اور اس کے کارناموں سے جلنے والی برطانوی حکومت نے اپنے جبر وستم سے’’ الہلال‘‘ جیسے چراغ کو بجھانے اور اس کی آواز کو بند کرنے کی انتھک کوششیں کیں جس میں اس طاغوتی حکومت کو کامیابی حاصل ہوئی۔ مگر اللہ کا مخلص بندہ اور آزادی وحریت کے لئے باطل کے آگے سینہ سپر کہاں دبنے والا تھا۔ مولانابرطانوی حکومت کے لگائے گئے شرائط ضمانت کی رقم جمع کرکے’’ الہلال‘‘ کی اشاعت کا کام آگے بڑھانے لگے لیکن اس شیطانی وطاغوتی حکومت نے پھر دس ہزار رقم کی ضمانت کا مطالبہ کیا جس کے نتیجہ میں مصلحت کو مدنظر رکھ کر’’ الہلال‘‘ کو بند کرکے مولانا آزاد نے’’ البلاغ‘‘ جاری کیا۔ یہ اخبار اگرچہ مذہبی اور دینی نوعیت کا رسالہ تھا لیکن اس کے پس پردہ مذہب کے ساتھ ساتھ ہندوستانی باشندوں کے ذہنوں کی آزادانہ سیاسی تربیت وٹریننگ کا اہم التزام بھی تھا۔ لیکن افسوس یہ کہ اجراء کے کچھ ہی ماہ بعد ۱۳ اپریل ۱۹۱۶ء کو ’’البلاغ‘‘ بھی برطانوی سامراج واستبداد کا شکار ہوگیا۔
گیارہ سال بعد جون ۱۹۲۷ء میں دوبارہ’الہلال‘‘ شائع تو ہوا مگر اس ’’الہلال‘‘ سے اس کی اصل روح غائب تھی۔ کیونکہ مولانا آزاد سیاسی گرم بازاری میںکلی طور پر پھنس چکے تھے۔ یاد رہے کہ ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ مولانا آزاد جب مسلمانوں کے شانوں کو جھنجھوڑتے تھے تو بعض دفعہ الہامی باتیں بھی کہہ جاتے تھے ۔ ایک طویل اقتباس کی چند سطریں درج کی جاتی ہیں جن میں مولانا آزاد فرماتے ہیں:
’’جو ہونے والا ہے اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے نہیں روک سکتی یقینا ایک دن آئے گا جبکہ ہندوستان کا سیاسی انقلاب ہوچکا ہوگا، غلامی کی بیڑیاں بیسویں صدی کی ہوائے حریت کی تیغ سے کٹ کر گرچکی ہوں گی۔ اس کے بعد آنے والا مورخ لکھے گا کہ بالآخر وہ سب کچھ ہوا جو ہونا تھا بیسویں صدی میں کوئی ملک غلام نہیں رہ سکتا اور نہیں رہا۔ دنیا یاد رکھے گی کہ جو کچھ ہوا اس قوم کی سرفرازی سے ہوا جو مسلم تھی‘‘۔
جی ہاں! تاریخ عالم کے آنے والے واقعات کو اس دور بینی سے دیکھنا مولانا ہی کا کام تھا۔ کیونکہ وہ ایک بے مثال صحافی ہی نہیں مستقبل پر نظر رکھنے والے دانشور بھی تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی تحریروں میں مستقبل کی پیشن گوئی کے ساتھ علمی و تاریخی مباحث بھی نہایت شگفتگی کے ساتھ بیان ہوئے نثر میں اتنی دلکشی اور اچھوتا پن ہے کہ خشک سے خشک مضامین وموضوعات پڑھنے والے پر گراںنہیں گزرتے۔ اس نثر کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ مربوط ہے، الفاظ کی بندش اتنی کہ اگر ایک لفظ بھی ادھر سے ادھر ہوجائے تو ساری فصاحت خاک میں مل جائے، خاص طور پر مولانا آزاد نے میدان صحافت میں جو روش اپنائی، وہ سب سے منفرد تھی،مولانا نے اس کو خود ایجاد کیا، خود اس پر چلے اور مولانا کے بعد وہ روش ختم بھی ہوگئی۔ کوئی دوسرا اس کی تقلید نہ کرسکا یہی وجہ ہے کہ مولانا کے ’’الہلال‘‘ نے اردو صحافت کے معیار کو درجہ کمال تک پہونچادیا، عالمی مسائل پر فکر انگیز تبصرے، سیاسی نشیب وفراز پر گہری نظر، علمی و دینی مضامین کی نمائندگی ’’الہلال‘‘ کے ذریعہ اردو صحافت میں ہوتی رہی۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مولانا آزاد دنیا کے اہم ترین صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں ، دوسرا پہلو یہ ہے کہ مولانا کی صحافت علمیت پر مبنی تھی جو آج تقریباً مفقود ہے ، تیسرا امتیاز یہ ہے کہ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کی صحافت برائے صحافت نہ تھی، اس کا تعلق نہ تو صنعت وتجارت سے تھا ، نہ جماعتی گروہ بندی سے بلکہ اس کا مقصد انسانی شعور و کردار کی تشکیل تھا، یہ انسان سازی کی ایک مہم تھی جس نے غلامی، افتراق اور عدم مساوات کے دور میں پورے ملک کو انسان کی حرمت اور مساوات کا درس اس موثر پیرایہ میں دیا کہ اس کے اثرات ایشیا ویوروپ کی دوسری اقوام نے بھی قبول کئے، یہ اس لئے بھی ممکن ہوا کہ ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ نے اپنے عہد کے تمام مسائل کو موضوع بنایا اور ہر مسئلہ پر پوری جرأت وبصیرت کے ساتھ اظہار خیال کیا اور ایک ایسی زبان میں، جو مردانہ وقار کی حامل تھی، اس میں دلوں کو مسخر کرنے کی صلاحیت تھی اور ایک ایسی آنچ بھی جو پڑھنے والوں کے شعور کو بیدار کرنے کیلئے کافی تھی۔
شدید سے شدیدنامساعد حالات میں بھی مولانا آزاد کے قدم ڈگمگائے نہیں اور حتی الامکان ان کی یہی سعی وکوشش رہی کہ اپنی فکر ونظر سے اردو صحافت کو معراج کمال تک پہونچادیں اور اسی لئے ان کے دونوں اخبار ظاہری ومعنوی حیثیت سے اردو صحافت کے سنگ میل قرار پائے۔ مولانا آزاد کے صحافیانہ قلم کی ہمہ گیر مقبولیت کا اعتراف ڈاکٹر ذاکر حسین خاں، غلام رسول مہرؔ، نیاز فتح پوری اور رشید احمد صدیقی جیسی معتبر ومسلم علمی شخصیتیں کرچکی ہیں، مذکورہ اخبارات نے مسلمانوں کے دلوں میں ہمت اور سر میں سودا پیدا کیا اور ان کے مسائل کو اس شدت کے ساتھ اٹھایا کہ انگریز حکومت اخبارات کا گلا گھونٹنے پر مجبور ہوگئی لیکن عوام وخواص کے قلب و جگر میں دونوں اخبارات نے آزادی کی وہ مشعل روشن کردی جو ظلم کی آندھیوں سے بجھائی نہ جاسکی۔

Comments are closed.