ظلم ،تشدد ،فحاشی اور ترقی کا جدید نظریہ !

عمر فراہی
حدیثِ میں قرب قیامتِ کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ انسانی جانوں کے قتل میں اضافہ ہو جاۓ گا اور زنا کے عام ہونے کا بھی ذکر ہے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ زنا سڑکوں پر عام ہو جائےگا اور کسی حد تک ہم اب دیکھ بھی رہے ہیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات یوں ہی نہیں کہی ہو گی بلکہ ان کے ذہن میں یہ تصور بھی ضرور رہا ہوگا کہ جو طاقتیں اسلام کے مدمقابل کھڑی ہیں جب وہ اس کے اسباب اور ماحول بنا رہی ہونگی تو اہل ایمان یا تو اپنے نصب العین سے منحرف ہو چکے ہوں گے یا پھر یاساری الجبل کی آواز کمزور پڑ چکی ہو گی ۔مسلمانوں میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور بیداری کیلئے اٹھارھویں صدی کے بعد کے یورپ اور یہودیوں کی ترقی کو مثال بنا کر سر سید اور ابوالکلام جیسے جدید قوم پرست اسلامی اسکالر اور دیگر علماء دین کے افکار و خیالات پر کالج اور یونیورسٹیوں کے علاوہ دینی ادارے کھولنے کی بات تو ہر طرف ہو رہی ہے لیکن نبی کے جانشین خلفاء راشدین کے اسوہ سبیل کا جو راستہ دکھاۓ فتنہ کہا جاۓ ۔تہذیب یافتہ روم اور فارس کو اسلامی فوج کے جن دو فوجی سپہ سالار خالد بن ولید اور سعد بن ابی وقاص کی فوجوں نے شکست دی یہ لوگ رومیوں اور فارسیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے ۔
دنیا کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔جس قوم کی سوچ خدا کی کتاب سے نہ بدلے وہ ہزاروں یونیورسٹیوں اور مصنفوں کی کتابوں کے مطالعے سے آراستہ ہو کر ایک مہذب درندے کا کردار تو ادا کر سکتی ہے انسانیت کا نہیں -یقیں نہ آۓ تو اٹھارہویں صدی کے جدید انقلاب کے بعد جدید یونیورسٹیوں کے بطن سے پیدا ہونے والے ہولو کاسٹ کی شکل میں قتل عام اور دو عظیم عالمی جنگوں کا بھیانک نقشہ دیکھ لیں جو مسلسل قتل اور خونریزی کا نظارہ پیش کر رہا ہے ۔کوئی قوم سر سید کی طرح ہزاروں یونیورسٹی ہی کیوں نہ قائم کر لے اور یورپ نے قائم بھی کر لیا ہے لیکن کیا وہ دنیا میں ایک پاک صاف اور پرامن معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوۓ ؟
گوا کے سمندری ساحل انجنا اور کالنگوٹ کے علاقوں پر یہ نظارہ میں نے تیس سال پہلے ہی دیکھا ہے ۔اب آپ اسے یورپ کی طرح ہندوستان کے مختلف بڑے شہروں کے تفریحی مقامات پر بھی دیکھ سکتے ہیں چہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی شہوانی خواہشات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں –
فیس بک ہی پر پوسٹ کئے گئے ایک مضمون خوف سے آزادی میں ہم یہ تذکرہ کر چکے ہیں کہ جب گوروں نے سیاہ فام امریکیوں کی زمین پر قدم رکھا تو کالوں کو بے تحاشہ قتل کرنا شروع کردیا ۔ان کی عورتوں کی عزت و عصمت کو لوٹا اور ان کی زمینوں پر جبراً قابض ہوگئے ۔اس کے بعد جب تھوڑا سا مہذب ہوئے تو امریکی حکمرانوں کی استعماری سوچ نے دنیا کو اپنے بارودی اور ایٹمی ہتھیاروں سے روندنا شروع کیا ۔دوسری جنگ عظیم اور جاپان کے دو شہر ہیرو شیما اور ناگہ ساکی پر جو ایٹمی حملہ ہوا اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا ۔غنڈہ گردی کا یہ سلسلہ بعد میں بھی ویتنام ,سومالیہ ,لیبیا ,عراق اور افغانستان میں مسلسل جاری رہا ہے۔جو لوگ ہر معاملے میں مغرب اور یہود و نصارٰی کے تعلیمی ماحول انصاف اور تہذیب و تمدن کی مثال دیتے ہوۓ نہیں تھکتے فلسطینیوں اور غزہ پر ہونے والی بمباری ان کی منافقت کی تازہ مثال ہے ۔
افسوس اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کو چاہے کتنے ہی خوبصورت پلیٹ اور دسترخوان پر غلاظت سجا کر کھانے کو دیا جاۓ تو کیا ہم اسے کھائیں گے ؟ لیکن ہمارے ذہنوں کو جن خوبصورت کالجوں یونیورسٹیوں اور اداروں سے جدید تعلیمی غلاظت سے آراستہ کیا جارہا ہے ہم اس کے متبادل کے بارے میں سوچنا تو دور کی بات جو ہے اسے پیسے دیکر خوشی خوشی خرید رہے ہیں ۔نوے فیصد اخبار اور نیوز چینل جو انہیں حکومتوں سے سند لیکر جھوٹ اور فریب کی غلاظت سے ہمارے ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں ان پر نہ تو حکومتوں کی طرف سے پابندی عائد کی جاتی ہے انہیں خوبصورت اور قیمتی اشتہار مہیا کروایا جارہا ہے ۔اس کے باوجود ہم روز یہ کلمہ پڑھتے ہیں کہ جمہوریت اب تک کا سب سے بہترین اور خوبصورت سیاسی نظام ہے !
Comments are closed.