بزمِ صدف کا نئی نسل ایوارڈ شاداب اُلفت کو اور بزمِ صدف ایوارڈ برائے ادبی تحریک ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کو

یکم دسمبر کو دوحہ قطر اور ۳؍ دسمبر کو شارجہ میں تقسیمِ ایوارڈ اور عالمی مشاعرے کا انقعاد
پٹنہ: ۲۴؍نومبر(پریس ریلیز)بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ۲۰۲۲ء کے اپنے سالانہ ایوارڈ کا اعلان کر دیا ہے۔ بزمِ صدف نئی نسل ایوارڈ دوبئی میں مقیم جناب شاداب اُلفت کو دیا جائے گا۔ ایوارڈ برائے اردو تحریک ۲۰۲۲ء ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کو دیا جائے گا۔ اِس سے پہلے بزمِ صدف نے اپنے بین الاقوامی ایوارڈ ۲۰۲۲ء ڈاکٹر ظفر کمالی کو دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ بزمِ صدف کے چیئر مین جناب شہاب الدین احمد اور ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے بین الاقوامی جیوری کے متفقہ فیصلے کی اطّلاع دیتے ہوئے یہ بتایا کہ اِس کی مرکزی کمیٹی نے توثیق کر دی ہے۔ اُنھوں نے اِس بات پر مسرّت کا اظہار کیا کہ تمام ایوارڈس اتّفاق راے سے طَے کیے گئے اور ایسے ادبا و شعرا کو دیے جا رہے ہیں جن کی خدمات کا دائرۂ کار نہ صرف یہ کہ اپنے علاقے اور ملک تک ہے بل کہ اُن کی شناخت عالَمی سطح پر ہے۔
جناب شہاب الدین احمد نے بتایا کہ دوحہ قطر میں یکم دسمبر کو تقریبِ تقسیمِ ایوارڈ اور عالَمی مشاعرے کا ڈی۔ پی۔ایس آڈیٹوریم، الوکرا (دوحہ قطر ) میں منعقد کیا جائے گا۔ عالَمی مشاعرے میں پاکستان سے معروف شعرا میں جناب علی زریون اور ڈاکٹر سجّاد بلوچ تشریف لا رہے ہیں۔ اُسی طرح سے ہندستان، کویت، دوبئی اور سعودی عرب سے متعدد مہمانان شریک ہو رہے ہیں۔ اُنھوں نے ۳؍ دسمبر کو پاکستان شارجہ سوشل سینٹر میں منعقد ہ تقسیمِ ایوارڈ اور عالَمی مشاعرے کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ واضح کیا کہ بزمِ صدف کی دیگر ایوارڈ تقریبات کی طرح یہ بھی مہتم بالشان ہوگا اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بزمِ صدف کی نئی شاخ کے قیام سے شارجہ، ابو ظہبی اور دوبئی میں ادبی تقریبات کے امکانات بڑھیں گے۔
ظفر کمالی، جناب شاداب الفت اور ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کے بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے منتخب ہونے کی اطلاع پاکر بزمِ صدف کی مختلف قومی اور بین الاقوامی شاخوں کے عہدے داران نے انھیں مبارک باد پیش کی ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ ان کی تصنیف و تالیف اور ناموری کا حلقہ مزید وسیع ہوگا۔ دوحہ قطر سے جناب حسن عبدالکریم چوگلے، محترمہ صوفیہ بخاری، ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی دانش، جناب احمد اشفاق،جناب عمران اسد، جناب عرفان اللہ؛ کویت سے جناب مسعود حساس،دوبئی سے جناب امتیاز صدیقی ؛ہندستان سے پروفیسر ظفر امام، ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر تسلیم عارف، ڈاکٹر افشاں بانو، محمد مرجان علی وغیرہ نے ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے ظفر کمالی کے لیے صحت و تندرستی کی دعائیں دی ہیں اور توقع ظاہر کی ہے کہ اس ایوارڈ کے بعد ظفر کمالی کی تصنیفی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگا اوران کے قبول عام کا دائرہ وسیع ہوگا۔
صفدر امام قادری
ڈائرکٹر: بزمِ صدف انٹرنیشنل
شاداب الفت
اصل نام: محمد شاداب علی خاں
قلمی نام: شاداب الفتؔ
ولدیت: زاہد علی خاں
تاریخِ پیدایش: ۵؍ جون ۱۹۷۵ء
جاے پیدایش: تحصیل بہیڑی ضلع بریلی،(اُتر پردیش)
موجودہ سکونت: ال نہدہ، شارجہ، متحدہ عرب امارات
میٹرک: مہاتما گاندھی میمورئیل انٹر کالج، تحصیل بہیڑی ضلع بریلی(۱۹۸۹ء)
آئی۔ اے: بہار یونیورسٹی، مظفر پور ( ۱۹۹۷ء)
گریجویشن: بی۔ ایس۔ سی۔، کمائیوں یونیورسٹی، نینی تال(۱۹۹۵ء )
پوسٹ گریجویشن: ایم۔ بی۔ اے، لال بہادر شاستری انسٹی ٹیوٹ آف مینج منٹ اینڈ ٹیکنالوجی، بریلی (۱۹۹۹ء)
ملازمت: سیلس اینڈ مارکٹننگ ہیڈ، کمرشئیل کِچِن اندسٹری
۲۰۰۷ء سے امارات میں مقیم۔
ادبی سرگرمیوں میں شمولیت: اسکول، کالج کے زمانے سے ۲۰۰۳ء تک۔اس دور میں شعر کہنا شروع تو کر دیا تھا مگر شعور نہیں تھا۔ مضامین بھی لکھے جو کالج کی میگزین اور اخبارات میں چھپتے تھے۔ اس دور میں انگزیزی میں بھی لکھا کرتے تھے۔ اسکے بعد پورے۱۱؍ برس کا وقفہ ہے جو ادبی دنیا سے مکمّل دوری کا ہے۔ ۲۰۱۴ء سے دبارہ آغاز ہوا جو الحمد للہ تا حال جاری ہے۔
منتخب کلام
سورج کے آس پاس کھڑا سوچتا ہوں میں
منزل تو یہ نہیں ہے، کہاں جا رہا ہوں میں
یہ اندھیرا ڈر گیا تھا میں وہیں تھا
جب اجالا بن رہا تھا میں وہیں تھا
خانۂ خستہ و خراب میں ہیں
صفر ہو کر بھی ہم حساب میں ہیں
پھر چھیڑ داستان وہی زلفِ یار کی
کچھ تو یہاں پہ باعثِ تاخیر چاہیے
اگر یہ اشک کوئی رنگ لانا چاہتا تھے
تو آنکھوں کے بجائے دل میں ہونا چاہیے تھا
تری جانب قدم اٹھتے نہیں ہیں آج بھی میرے
نہیں معلوم کب تک یوں کرے گا حکم رانی جسم
اک دوسرے کی بات پہ کتنا یقین تھا
ہم تم تھے کیا ہی خوب اداکار اُن دنوں
یہ جو چہروں پہ ہیں آثار پریشانی کے
یہ نتایج ہیں سبھی آپ کی من مانی کے
تیری فرقت میں جھلستے ہوئے چہروں پہ ہمیں
خشک آنکھیں ہی ملیں اور نشاں پانی کے
صباحت عاصم واسطی
پچھلی دہائی میں صباحت عاصم واسطی اردو شاعری کے منظر نامے پر اُبھرنے والے چند اُن شعرا میں سے ہیں جنھیں جدید تر بیان و فکر و فن کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ صباحت عاصم ایک ڈاکٹر ہیں اور اُنھوں نے زندگی کا ایک طویل عرصہ برطانیہ میں گزارا اور یہ دونوں عوامل اُن کے شاعرانہ رویّہ مرتب کرنے میں کار فرما نظر آتے ہیں۔ صباحت عاصم کے موضوعات تازہ تر اور متنوع ہیں اور اُن کا بیان گوکہ روایت سے بغاوت تو نہیں کرتا مگر روایت کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا نظر آتا ہے۔
صباحت عاصم کا تعلق پشاور سے ہے۔ اُنھوں نے ایک ادبی گھرانے میں آنکھں کھولیں اور اردو شاعری کی ممتاز شخصیتوں کے سایے میں اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ اُنھوں نے اُن قربتوں سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے شعری محاسن کا بہ غور مطالعہ کیا اور بڑی مہارت سے اِن محاسن کو اپنے انداز سے اپنے بیان میں اجاگر کرنے کا سلیقہ سیکھا۔صباحت عاصم کے بارے میں پروفیسر سر شار صدیقی کا کہنا ہے : ’’ مجھے عاصم واسطی کے مجموعۂ کلام کے متعدد اشعار میں سوچ، ہنر مندی اور سلیقے کے اعتبار سے یہ امکانات بہت واضح طور پر نظر آئے کہ اُنھیں تازہ تر ادبی روایت کا درجہ دیا جائے۔ وہ روایت جس کے بطن سے ادبِ عالیہ کی نمود متوقع ہے۔
ادبی سفر گذشتہ پچاس برس پر مشتمل ہے۔ اُنھیں شروع ہی سے اردو ادب کے حوالے سے بہت عمدہ فضا میسر آئی۔ اُن کے والد شوکت واسطی بڑی ادبی ہستی تھے اور پشاور اور گرد و نواح کے علاقوں میں مسلسل ادبی محافل کے انعقاد میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔اُن کا تعلق عہد کی تمام بڑی ادبی شخصیات سے تھا اور مجھے بہت ہی بچپن میں اُن مشاہیر ادب سے ملنے کا اور ان کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ اُن مشاہیر میں احمد فراز، محسن احسان، کشور ناہید، سید عبدالحمید عدم اور ان کے علاوہ مجھے حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی پروین شاکر ابن انشاء اور دوسری اہم شخصیات سے ملنے اور ان کو دیکھنے کا موقع ملا۔
ادبی زندگی کا آغاز ۱۱؍ برس کی عمر میں ہوا لیکن ۱۹۔۱۸ برس کی عمر سے شاعری کی طرف باقاعدہ توجہ دینا شروع کی۔انگلستان میں انیس سو چوراسی میں گئے اور وہاں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ادبی حلقوں میں باقاعدہ شرکت شروع کی۔انگلستان میں بہت جلد ادبی حلقوں میں نام پیدا کیا۔ وہاں کی ادبی محفلوں میں شرکت کی اور کئی ادبی محفلوں کا انعقاد کیا۔ اس کے علاوہ وہاں کے بین الالسانی تقاریب میں اردو شاعر کی حیثیت سے شرکت کی۔
انگلستان کے علاوہ یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی اردو کی ادبی تقاریب میں ایک تسلسل سے شرکت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ نارتھ امریکہ کی ادبی سر گرمیوں میں بھی شرکت کا انھیںموقع ملا۔ اب تک کئی ممالک میں اردو ادب کی تقاریب میں شرکت کر چکے ہیں جن میں انگلستان کے علاوہ،پاکستان، ہندستان ،امریکہ، کینیڈا، ناروے، ڈنمارک، سپین، قطر، سعودی عرب، بحرین، برونائی اور اسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کے پہلے مشاعرے کی صدارت کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں جو ۱۹۹۴ء میں عرفان مرتضیٰ نے منعقد کیا تھا۔
اب تک چھ کتابیںمنظر عام پر آ چکی ہیں۔ پہلی کتاب ۱۹۸۹ء میں ’کرن کرن اندھیرا‘ کے نام سے آئی اور اسے اباسین آرٹس کونسل، پشاور کی طرف سے ایوارڈ ملا۔دوسری کتاب ’آگ کی صلیب‘ کے نام سے ۱۹۹۵ء میں شائع ہوئی اور اسے اردو مرکز انٹر نیشنل، لاس اینجلس کی طرف سے انعام ملا۔تیسری کتاب ’تیرا احسان غزل ہے‘ کے نام سے آئی۔ یہ کتاب ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی۔چوتھی کتاب ’توسل‘ کے نام سے گذشتہ برس شائع ہوئی۔ پانچویں کتاب ہندی رسم الخط میں ’ریختہ کی طرف لفظ محفوظ کر لیے جائیں‘ کے نام سے ۲۰۱۸ء میں شائع ہوئی۔ چھٹا اور اب تک آخری مجموعہ ’توسط‘ کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں گزشتہ ۱۵؍ برس کے قیام کے دوران اردو ادب اور خاص طور پر اردو شاعری کے لیے بہت کام کیا اور یہاں کی نئی نسل کو شاعری کی طرف نہ صرف راغب کیا بلکہ اُنھیں بڑی اور بین الاقوامی ادبی محفلوں میں شریک ہونے کا حوصلہ فراہم کیا۔
نام: صباحت عاصم واسطی
تاریخ پیدائش: ۵؍ نومبر ۱۹۵۷ء
جائے پیدائش: مردان پاکستان
تعلیم: ایم۔ بی۔بی۔ایس ، خیبر میڈیکل کالج، پشاور (پاکستان)
ایم۔ آر۔ سی۔ پی (آئرلینڈ)
سرٹی فیکٹ کورس، (یو۔کے)
منتخب کلام
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
میں رکھ سکا نہ توازن اڑان میں قائم
مرے پروں میں کہیں ایک پر زیادہ ہے
وہ یوں ہوا کہ مرے ہاتھ لگ گیا سورج
سیاہ شب میں ستارہ شکار کرتے ہوئے
کہیں کہیں تو زمیں آسماں سے اونچی ہے
یہ راز مجھ پہ کھلا سیڑھیاں اترتے ہوئے
حیرت ہے کہ مجنوں کا مونث نہیں معروف
کیا عشق میں عورت کبھی پاگل نہیں ہوتی
دینے لگا ہوں جنت و دوزخ کے حکم بھی
پروردگار روک خدا ہو رہا ہوں میں
Comments are closed.