مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیو ں کی اہم خبریں

شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام’ پوسٹ ٹروتھ : عصری ادب اور سنیما میں نمائندگی ‘موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس 28 نومبر سے
علی گڑھ، 27نومبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام ’’پوسٹ ٹروتھ (مابعد سچائی): عصری ادب اور سنیما میں نمائندگی‘‘ موضوع پر دوروزہ بین الاقوامی کانفرنس 28اور 29 نومبر 2023 کو منعقد کی جارہی ہے۔
کانفرنس کا مقصد متبادل سچائیوں، پوشیدہ حقائق، اطلاعاتی تعصب، غلط معلومات، سوچے سمجھے استدلال اور مصنوعی خبروں کے اہم مسائل کو اٹھانا ہے۔ کون جانتا تھا کہ سچائی کو دانستہ طور پر دفن کرنے سے عدم سچائی کا ایسا چشمہ ابل پڑے گا جو ہمیں پوسٹ ٹروتھ یا مابعد سچائی دور کی طرف دھکیل سکتا ہے! ایک ایسا دور جس میں خطرے سے دوچار حقائق، جعلی خبروں، خالی اشاریوں اور جذباتی سیاست کا بول بالا ہے، جس میں چائے و کافی کے پہلے کپ کے اجزاء سے لے کر کسی ملک کے صدر کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ہر معلومات پردہ اخفا میں ہے یااس میں ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ہمیشہ اپنی تنقیدی صلاحیتوں پر فخر کیا ہے جس کا آغاز یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خاں سے ہوا تھا، جنھوں نے اپنے دور میں رائج غلط تصورات کے خلاف زور و شور سے لکھا۔ اس طرح یہ کانفرنس کئی پہلوؤں سے علم و ادب کی میراث کو قائم رکھتی ہے۔
کانفرنس میں معروف ادبی مورخ، مترجم اور مصنفہ ڈاکٹر رخشندہ جلیل کا کلیدی خطبہ ہوگا۔ افتتاحی سیشن سے وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز اور پروفیسر نثار احمد کے ساتھ ڈین، فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر عارف نذیر اور صدر شعبہ پروفیسر عاصم صدیقی خطاب کریں گے۔
ڈاکٹر کشور ظفیر کانفرنس کنوینر ہیں۔ مقررین میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر راج کمار، پروفیسر اے آر قدوائی، پروفیسر ایس ندیم رضاوی، پروفیسر سمیع رفیق، پروفیسر ثمینہ خان، نامور فلم نقاد مسٹر انوج کمار وغیرہ شامل ہیں۔
افتتاحی اجلاس میں دو اہم کتابوں، قرۃ العین حیدر پر ایک مونوگراف کا انگریزی ترجمہ از پروفیسر محمد عاصم صدیقی اور پریم چند کے ڈرامے ’کربلا‘ کا انگریزی ترجمہ از ڈاکٹر حارث قدیر اور پروفیسر سمیع رفیق، کا اجراء عمل میں آئے گا۔یہ دونوں کتابیں ساہتیہ اکادمی (2023) نے شائع کی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
رالے لٹریری سوسائٹی نے کانفرنس سے قبل خطبات سیریز کا اہتمام کیا
علی گڑھ، 27 نومبر: رالے لٹریری سوسائٹی، شعبہ انگریزی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ’’پوسٹ ٹروتھ (مابعد سچائی): عصری ادب اور سنیما میں نمائندگی‘‘ موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس سے قبل تین روز ہ سلسلہ خطبات کا اہتمام کیا جس میں پوسٹ ٹروتھ کے پیچیدہ منظرنامے اور تصورات پر گفتگو کی گئی۔
اس سلسلے کا آغاز پروفیسر مرزا اسمر بیگ، ڈین، فیکلٹی آف سوشل سائنس، اے ایم یو کے خطبہ سے ہوا ، جس کا عنوان تھا ’پوسٹ ٹروتھ کی تفہیم‘۔ انھوں نے جنگ عظیم دوئم کے بعد کے دور میں پوسٹ ٹروتھ کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا۔
پروفیسر بیگ نے کہا کہ کھلے ہوئے سامراج سے ہٹ کر ہم ایک ایسے دور کی طرف آئے جس میں رضامندی حاصل کرنے کو مرکزیت ملی۔ انہوں نے کہا ’’سامراج اور استعماریت کا دور گیا، لیکن عوام پر تسلط اور غلبہ برقرار رکھنے کی ضرورت برقرار رہی۔ آج جبر کی بجائے رضامندی حاصل کی جاتی ہے‘‘۔ اس ارتقاء نے مابعد سچائی (پوسٹ ٹروتھ) کے ابھار کی بنیاد رکھی۔ پروفیسر بیگ نے معاصر عالمی سیاست میں علم اور رضامندی کے درمیان ایک گہرے ربط پر زور دیا ، جس سے پوسٹ ٹروتھ کو زیادہ گہرائی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر بیگ نے کہا کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ اور حقائق و آراء کے درمیان خطوط کو دھندلا کرنے میں سوشل میڈیا نے اہم کردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پوسٹ ٹروتھ عوامی بحث کی تشکیل میں سچائی اور حقائق پر روایتی انحصار کو چیلنج کرتا ہے۔ پروفیسر بیگ نے ٹرمپ کے الیکشن کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ’سچائی‘ کے تصور کے زوال نے معروضی حقائق پر موضوعی احساسات کو غلبہ عطاکیا۔
اے ایم یو کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے ’’پوسٹ ٹروتھ کو سمجھنے کی ایک ابتدائی کوشش‘‘ کے عنوان سے ایک فکرانگیز خطبہ پیش کیا ، جس میں انھوں نے سماج پر اس کے اثرات اور تاریخی، سیاسی اور ثقافتی سیاق و سباق کا حوالہ دیا۔
پروفیسر سجاد نے پوسٹ ٹروتھ اور افواہ کے درمیان فرق کو واضح کیا اور فرانسس فکویاما کے حوالے سے سرمایہ داری کی وجہ سے پیدا ہونے والے شدید عدم استحکام کے تصور پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ کہیں نہ کہیں معروضی سچائی موجود ہے کیونکہ اگر یہ موجود نہیں ہے تو ہم سچ بالکل بھی نہیں بول رہے ہوں گے۔
تیسرے اور آخری دن پروفیسر عائشہ منیرہ رشید نے پوسٹ ٹروتھ کے دور میں سچ تحریر کرنے کے موضوع پر اظہار خیال کیا اور رائے عامہ پر اس کے اثرات کا تجزیہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ پوسٹ ٹروتھ کا مفہوم ایسی صورت حال ہے جس میں معروضی حقائق، رائے عامہ پر کم اثر ڈالتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ جذبات کا زیادہ اہم کردار ہے جس میں عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے جذبات سے کھیلنے کا رجحان غالب ہوتاہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے نطشے کے نظریہ کا حوالہ دیا اور کہاکہ پوسٹ ٹروتھ اور پوسٹ ماڈرنزم میں ایک رشتہ ہے ، چنانچہ واحد معروضی سچائی کے تصور کو چیلنج درپیش ہے۔
پروفیسر رشید نے عالمی رائے عامہ پر پوسٹ ٹروتھ کے اثرات کاتجزیہ کیا اور حقائق کی جانچ کرنے والوں کے کردار اور میڈیا ٹرائل کے چیلنجوں پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے حاشیہ کی آوازوں کی مثبت تخریبی طاقت اور بیانیے کو متاثر کرنے کی اہلیت کا بھی ذکر کیاجو اپنی سچائی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ’سچائیاں‘ ہیں۔
سلسلہ خطبات کا اختتام پروفیسر ایس این زیبا، سابق چیئرپرسن، شعبہ انگریزی کے بصیرت افروز کلمات کے ساتھ ہوا۔
پروفیسر زیبا نے پوسٹ ٹروتھ کی سیاست کے وسیع اثر ات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مباحثے عقلی گفتگو کے بجائے جذباتی اپیل کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’انگریزی بولنے والی دنیا میں زیادہ تر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ پوسٹ ٹروتھ، ذرائع ابلاغ کے طوفان کے ذریعے معروضی حقائق کو دفن کرنا ہے‘‘۔
انھوں نے کہاکہ پاپولسٹ رہنما پوسٹ ٹروتھ کے سوداگر ہیں جو اسے ہیرا پھیری کے لیے ایک طاقتور اوزار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انھوں نے اس سلسلہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے الیکشن کی مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی ہتھیار کے طور پر تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر زیبا نے کہا کہ جمہوریت ایسے شہریوں پر انحصار کرتی ہے جو سچ اور مابعد سچ کے درمیان فرق کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
انھوں نے حاضرین سے علم اور تنقیدی فکر کی مشعل کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔

Comments are closed.