عشرۂ اردو کے مقابلوں کے مسلسل انعقاد سے اردو کارواں نے تعلیمی اداروں کی نیٹ ورکنگ کا بڑا کام کیا ہے:سرفراز ارزو

ممبئی کے تاریخی خلافت ہاؤس میں اردو کارواں کے عشرۂ اردو کے افتتاحی پروگرام کا شاندار انعقاد

کتابوں سے دوری اختیار کر کے ہم نہ مہذب، نہ تعلیم یافتہ اور نہ ہی محب اردو ثابت ہو سکتے ہیں: فرید احمد خان
اردو کارواں کے نئے انداز کے تعلیمی، ادبی و ثقافتی مقابلوں کا انعقاد تاریخی اقدام ہے:ڈاکٹر ریحانہ احمد

ممبئی :اردو کارواں کے ساتویں عشرۂ اردو کے افتتاحی و اول پروگرام کا آج خلافت ہاؤس ممبئی میں انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت سرفراز آرزو (آل انڈیا خلافت کمیٹی چیئرمین و مالک و مدیر روزنامہ ہندوستان) نے کی۔ مہمان خصوصی محترمہ بیگم ریحانہ احمد (ایگزیکٹیو چیئر پرسن انجمن اسلام گرلز بورڈ اف ایجوکیشن) تھیں۔
رکنٍ اردو کارواں پرنسپل سائرہ خان نے آغاز میں اردو کارواں کا تعارف پیش کیا اور عشرہ ٔ اردو کی تفصیلات پیش کیں۔ صدر جلسہ سرفراز آرزو نے پر مغز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’عشرہ ء اردو کے پروگرام کے انعقاد سےاردو کارواں نے کالجوں اور اسکولوں کی نیٹ ورکنگ کا کام بھی کیا ہے اور اسے برقرار رکھا ہے۔ اس نیٹ ورکنگ سے طلبہ کو ترقی کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا جو کام اردو تعلیمی اداروں اور کالجوں کو کرنا چاہیے وہ کام اردو کارواں کر رہا ہے۔ اور کارواں نے اردو کو غیر اردو طبقے تک بھی پہنچانے کی عمدہ کوششیں کی ہیں۔‘‘
صدر کارواں فرید احمد خان نے عشرۂ اردو اور آج کے انوکھے تمثیلی مقابلے کی غرض و غایت سامعین کے سامنے پیش کی اور کہا کہ” کتابوں سے دوری اختیار کر کے ہم نہ مہذب نہ تعلیم یافتہ نہ ہی محب اردو ثابت ہو سکتے ہیں۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر ریحانہ احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ "اردو زبان نے محبت کرنا سکھا ئی۔انہوں نے اردو کی نو آبادیات کا ذکر کیا۔ اور انہوں نے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا کہ لکھی ہوئی چیز ہی تاریخ بنتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ "اردو کارواں کے نئے انداز کے تعلیمی، ادبی و ثقافتی مقابلوں کا انعقاد تاریخی اقدام ہے "۔
اپنی نوعیت کے پہلے تمثیلی مقابلے میں منصفی کے فرائض انجام دینے والے سبکدوش صدر مدرس خان عبداللہ عبدالکریم نے اپنے تاثرات پیش کیے اور نصیحت کی کہ اساتذہ طلبہ کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے تلفظ اور نوک پلک سنوارنے کا کام اساتذہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس مقابلے کے دوسرے منصف سینئر شاعر احمد وصی رہے انہوں نے طلبہ کو بالکل آسان زبان میں سمجھایا کہ "کسی کا عکس بن جانا کسی کو اپنے اندر اتار لینا ہی تمثیل ہے” اور اس کے لیے انہوں نے دلی کی آخری شمع کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ تیسرے منصف عارف مہمتولے نے کہا کہ ” یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقابلہ ہے اور یہ اردو زبان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے”۔ اردو کارواں نے اس نئی چیز کو جنم دیا ہے اور صدر کارواں کے تعلق سے کہا کہ "وہ جو کام اپنے ہاتھ لیتے ہیں اسے نقطہ عروج پر ہی پہنچا کر دم لیتے ہیں۔‘‘
اس مقابلے میں ممبئی، تھانہ، ممبرا، کلیان، بھیونڈی اور اطراف سے 10 جونیئر کالجوں مع ڈی ایڈ کالجز حصہ لیا اور پروگرام کو کامیاب بنایا۔ پروگرام میں خاص طور پر آر سی ڈی ایڈ کالج ۔امامباڑہ کے شیخ وسیم سر نے مقابلے کی نظامت اور دیگر اہم امور و فرائض انجام دیے۔ ساتھ ہی شیخ شاداب مس، شیخ نکہت مس، مخدومی ناسیہ مس، زرینہ اقبال مس کا تعاون حاصل رہا۔ اسی طرح آر سی ماہم ڈی ایڈ کالج کی مس نادرہ، مومن منصفہ اور قادری عائشہ مس کا بھی تعاون حاصل رہا۔
اس مقابلے میں انجمن خیر الاسلام سے جمیلہ مس، بھیونڈی کے معروف رئیس ہائی اسکول سے شریف سراور صمدیہ اردو اسکول سے مومن شائستہ بھی شریک رہیں۔ ممبئی کے نامور سماجی خدمتگار محمود حکیمی (جنرل سیکرٹری انجمن باشندگان بہار) بھی اس مقابلے سے محظوظ ہوئے اور اس تاریخی پروگرام کا حصہ بنے۔ آل انڈیا خلافت ڈی ایڈ کالج (خلافت ہاؤس) کے اشتراک سے منعقدہ اجلاس میں وہاں کی پرنسپل شبانہ ونو اور انکا اسٹاف بھی پیش پیش رہا اور دیگر ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ آخر میں رکن اردو کارواں ڈاکٹر تبسم ناڈکر صاحبہ نے رسم شکریہ ادا کیا۔

Comments are closed.