ڈاکٹر امام اعظم کی شخصیت ایک انجمن کی طرح رہی

المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام تعزیتی نشست میں شرکاء کے تاثرات
جالے(محمدرفیع ساگر؍بی این ایس) المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام شوکت علی ہاؤس، پرانی منصفی دربھنگہ میں ڈاکٹر امام اعظم کے انتقال پرملال پر ایک تعزیتی نشست کا اہتمام بعد نماز مغرب کیا گیا جس کی صدارت عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزی نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر سید محمود احمد کریمی رہے۔ نشست کا آغاز انور فاروقی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوئی ۔اس نشست میں صدارتی کلمات کے طور پر پروفیسر طرزی نے آہ! امام اعظم کے عنوان سے ایک نظم پڑھی جس کے چند اشعار حسب ذیل ہیں:
ادب نواز و سخن شناور امام اعظم
لٹائے جس نے قلم کے گوہر امام اعظم
جمالِ فن سے جو بہرہ ور تھا ادیب ایسا
صحافی اعلیٰ، بڑا سخنور امام اعظم
عظیم دولت تھی ذات جس کی برائے اردو
اثاثے شعری ہیں جس کے بہتر امام اعظم
ہماری محفل جو تجھ سے خالی ہوئی یکایک
نوازے رحمت سے ربِّ اکبر امام اعظم
شریف کہئے، خلیق کہئے، رفیق کہئے
جو سر سے پا تک خلوص پیکر امام اعظم
ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا ڈاکٹر امام اعظم ایک فعال صحافی اور معتبر قلم کار گذرے ہیں۔ جنہیں میں اپنے بچپن سے جانتا ہوں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی علم وادب میں صرف کردی۔ ”تمثیل نو“ رسالہ کے سلسلہ میں بیحد سنجیدہ رہے ان کا رسالہ جب تک پر یس میں نہیں جاتا ان کو چین نہیں ملتا۔ جب بھی ان سے گفتگو ہوتی وہ زیادہ کر لکھنے پڑھنے، شعر وادب اور رسالے کی باتیں کرتے تھے۔ ان کا خلوص تھا کہ عمر کے ایک بڑے فاصلے کے باوجود ٹوٹ کر ملتے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ گھر کے فرد ہیں۔ کبھی انہوں نے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں اعلیٰ عہدہ پر فائض ہوں۔ ان میں تکبر ذرہ برابر نہ تھا۔ ابھی یہی کولکاتا ہے کتاب شائع ہوئی تو اس کے محتویات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کولکاتا کو زندہ کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ آج جب ہم لوگ تعزیتی نشست میں بیٹھے ہیں ان کے خدمات اور احباب میں ان کی مقبولیت سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ان کا مرتبہ کتنا بلند ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔
سید محمود احمد کریمی نے کہا کہ جناب امام اعظم صاحب سے میری رشتہ داری تھی ۔ ان کے سگے خالو میرے سگے بڑے سالا تھے۔ ان سے میرا گہرا تعلق رہا ۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1985میں ان سے تعلقات قائم ہوگیا اور تعلق بڑھتے رہے۔ ان کی صحافتی زندگی بہت نمایاں اور مشہور تھی۔ ان کی ایک کتاب ”قربتوں کی دھوپ“ کا میں نے انگریزی ترجمہ Proximal warmthکے نام سے کیا تھا۔ پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے کہا کہ امام اعظم سے میرے تعلقات زمانہ طالب علمی سے رہے۔ کیونکہ عمر میں وہ مجھ سے بڑے تھے۔لیکن ایم اے میں مجھ سے ایک سال پیچھے تھے۔ وہ ہم سے بے تکلف تھے اور یہ بے تکلفی ہنوز قائم رہی۔ جہاں کہیں بھی ملاقات ہوتی خوش مزاجی سے ملتے۔ جب کبھی دربھنگہ آنا ہوا شعبہ اردو میں ضرورت آتے ، چائے بنوانے میں دیرہوتی تو کہتے کہ کیا آج بغیر چائے کے ہی چلا جاؤں۔ میں ہمیشہ کہتا ایسا نہیں ۔ چائے بنے گی۔ بغیر چینی کی چائے پیتے۔ میں ان سے کہتا آپ حج کرلیں تو وہ کہتے ان شاءاللہ ۔ انور آفاقی نے اس موقع پر کہا میری ملاقات ان سے 1985میں ہوئی ۔ جس بس سے ہم لو گ مظفر پور شادی میں جارہے تھے۔ میں ان کو نہیں جانتا تھا وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے باضابطہ میرے قلمی نام سے پکارا کہ آپ انور آفاقی ہیں۔ میں آپ کی تخلیقات اردو ماہنامہ میں پڑھتا ہوں۔ وہ پہلا دن اور اس کے بعد سے بے شمار ملاقاتیں جن میں پروفیسر منصور عمر مرحوم ، محمد سالم (امریکہ) اور دوسرے کئی ادبا و شعرا ءسے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ میں ان سے جب بھی ملا مجھے ان کے خلوص اور محبت نے ہمیشہ متاثر کیا۔ ڈاکٹر احسان عالم نے اپنے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں ڈاکٹر امام اعظم کو ادبی سرکل قلعہ گھات کے دور سے جانتا ہوں۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو ماہر ادیب اور ماہر کامل کی ڈگریاں دلوائیں۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا ۔ ان کے شعری مجموعے ”قربتوں کی دھوپ“ اور ”نیلم کی آواز“ کافی مقبول ہوئیں۔ اس کے بعد تنقید کی جانب متوجہ ہوئے ۔ کئی تحقیقی اور ادبی مضامین بھی لکھتے رہے ۔ ڈاکٹر عالم نے ان کے رسالہ تمثیل نو کا ذکر کیا جس میں ان کی کاوشوں کا ذکر کیا ۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا اختتام ان اشعار کے ساتھ کیا:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے
(محمود رامپوری)
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
(امید فاضلی)
ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے کہا ڈاکٹر امام اعظم ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس ذات میںانجمن دکھتا ہے۔ ان کو یاد کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ سامنے ہیں اور مجھ سے مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس شمارے کے لئے تمام تبصرے کئے یا نہیں۔ میں جواب دیتا ہوں وقت پر ضرور آپ کو دے دوں گا۔ سبھی مضمون کے بارے میں پوچھتے تو کبھی کتابوں کی اشاعت کا ذکر کرتے۔ انتقال سے ایک شب قبل ان سے موبائیل پر گفتگو ہوئی تھی کسی بات پر قہقہہ لگاتے ہوئے بولے ہمیشہ خوش رہا کیجئے ۔ اپنی بیماری کا ذکر ذرا کم کم کرئے ۔ ضیافت ایسی کہ ان کا مثل نہیں۔بہت سی باتوں کو در گزر کرجاتے۔ کئی کتابیں کلکتہ کے حوالے سے ہیں۔ یہی کولکاتا ہے اور نگارخانہ ¿ کولکاتا نے ان کی اہمیت کو دوبالا کردیا۔ ایک محقق اور ناقد کے طور پر ان کی تحریریں متاثر کرتی ہیں۔ شاعری میں جو طرز اپنایا اس میں روایت اور جدت کی آمیزش سے اپنا مقام بنایا۔ میں نے ایک مخلص، ہمدرد اور ادبی محرک کو کھودیا۔ ایسے بہی خاہوں سے دنیا خالی ہوتی جارہی ہے۔ ان کو بھلا دینا آسان نہیں۔ دعا کرتا ہوں اللہ ان کر کروٹ کروت جنت نصیب کرے۔ آمین ۔ ڈاکٹر ریحان احمد قادری نے اپنے شعر کے ساتھ کہا:
ذرا سی دیر میں کییا ہوگا زمانے کو
دبا کے قبر میں چل دیئے دعا نہ سلام
انہوں نے ڈاکٹر امام اعظم کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے دعائے مغفرت کی اور اپنی یادوں کے حوالے سے ذکر کیا۔
بذریعہ موبائیل خورشید اکرم سوز نے ڈاکٹر امام اعظم کی تعزیت کرتے ہوئے ایک قطعہ پیش کیا:
اک مفکر، اک مدبر، ایک شاعر خوش نوا
خوش مزاج و خوش خصال اور درد مند و بے ریا
ہاں ادب کے وہ امام اعظم وہ فخر فکر و فن
ان کی رحلت کی خبر سے ہر کوئی ہے غم زدہ
پروفیسر عبدالمنان طرزی کے دعا ئیہ کلمات کے ساتھ اس نشست کا اختتام ہوا۔

Comments are closed.