گجرات ہائی کورٹ کاتاریخی فیصلہ، لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی پابندی کی درخواست کوکیا خارج

نئی دہلی (ایجنسی) گجرات ہائی کورٹ نے لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی پابندی کی درخواست خارج کر دی ہے۔
میڈیاذرائع کے مطابق گجرات ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ اذان کا دورانیہ 10 منٹ سے کم ہوتا ہے لہٰذا اس سے ’نوائس پَلوشن‘ یعنی صوتی آلودگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
یہ درخواست گاندھی نگر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دھرمیندرا پرجاپتی اور سیاسی مذہبی جماعت بجرنگ دَل کے رہنما شکتی سنھ زلا کی جانب سے دی گئی تھی۔
دونوں افراد نے اپنی درخواست میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے پر اعتراض کیاتھا، تاہم گجرات ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جسٹس انیرُودھا مائی پر مشتمل بینچ نے اس درخواست کو خارج کر دیا۔
اس درخواست میں ڈاکٹر دھرمیندرا نے موقف اپنایا کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان کی وجہ سے ان کے ہسپتال میں مریضوں کو کوفت ہوتی ہے۔
درخواست کے جواب میں بینچ نے ریمارکس دیے کہ ’ہم اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے کہ انسانی آواز میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے سے صوتی آلودگی کیسے پیدا ہو سکتی ہے جو کہ عوام کے لیے مضر صحت ہو۔‘
بینچ کی جانب سے درخواست گزار کو حکم دیا گیا کہ وہ اس بات کا سائنسی طور پر ثبوت دیں کہ لاؤڈ سپیکر سے دی جانے والی اذان کے ڈیسیبلز سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے۔
اس کیس کے دوران بینچ نے درخواست گزاروں سے یہ پوچھا کہ کیا آیا مندروں میں پوجا کے دوران بجنے والی گھنٹیاں اور گھنٹوں کی آواز صرف مندروں کی چہار دیواری تک ہی محدود رہتی ہے؟
بینچ نے مزید کہا کہ ’ہم اس کیس کو مزید نہیں سن سکتے۔ یہ برسوں سے کی جانے والی عبادت ہے اور یہ صرف 5 سے 10 منٹ کے لیے ہوتی ہے۔‘
’آپ کے مندروں میں صبح تین بجے سے بھجن آرتی شروع ہو جاتی ہیں جس میں ڈھولک اور موسیقی کا استعمال کیا جاتا ہے، کیا اس سے صوتی آلودگی نہیں پھیلتی؟‘

Comments are closed.