مجھے ہے حکم اذاں

مولانامحسن علی
صدرجمعیۃ علماء گوونڈی
تبلیغی جماعت کے تعلق سے جس طرح بعض احباب کی تحریر سے استہزاء ظاہر ہوتا رہتا ہے سوچا آج کچھ کھل کر باتیں کر لی جائے کہ اپنوں سے ہی شکوہ شکایت ہوا کرتی ہے، پہلا تو ان سے سوال ہے کہ یہ جماعت پورے عالم میں کس نسبت کے ساتھ کام کر رہی ہے؟ جو تقریباً ایک جیسے نظام کے تحت اپنے اعمال انجام دیتی ہے جس میں خاص طور پر فضائل اعمال کی تعلیم ہے، پھر اکثر علماء مدارس و جمیعت کے علاوہ یا تو تجارت میں مشغول ہیں یا اپنی محنت کا دائرہ محدود کرتے ہوئے حجرہ نشینی اختیار کر لی ہے، وہ تو شوشل میڈیا نے انکے بال و پر اگا دئے ہیں کہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے یہاں تشریف لے آتے ہیں اور کچھ اٹھکھیلیاں کرکے اپنے کو غازی سمجھنے لگتے ہیں، انکی گیارہ سالہ قربانی یقیناً بھت قیمتی ہے اگر وہ عوام کی اصلاح و غم خواری پر اکسائے یا رات کو امت کے غم میں آنسو بہائے، کیا محض کتابوں کے پڑھ لینے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وراثت کے حقدار ہوگئے؟ کیا نبی کا غم اور اس کے لئے جماعت تیار کرنا ہمارے لئے اسوہ نہیں ہے؟ رہی بات جہالت کی تو نبی مبعوث ہوتا ہی اپنی قوم کی اصلاح کے لئے اور جسے بستی تک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی الا یہ کہ اوپر سے حکم آجائے،
علماء کرام سے ایک سوال ہے کہ وضو کا بدل تیمم ہے کیا تیمم کے فضائل مثل وضو نہیں؟ ثواب میں کسی بھی درجہ کی کمی ہو تو بتلائے،
یہ محنت بھی اصل محنت کا بدل ہے اور اس جماعت کو حضرت مدنی اور حضرت شیخ زکریا کی تائید حاصل رہی بمقابلہ اس جماعت کے جو اصل کی دعوت دیتی رہی ہے کیا ہمارے لئے کافی نہیں ہے۔
اب صلوٰۃ الخوف ہو یا نماز قضا ہونے تک کتنے ہی ایسے احکام ہیں جو اس خاص عمل کے لئے ہیں مگر اس سے پہلے سامنے والے کو دعوت دینا ہے مگر تنقید کرنے والے کیا اس طرح کی دعوت کی بھی ہمت رکھتے ہیں آگے کے مراحل رہنے ہی دیں،
یہ کام افضل نہیں ہے ضروری ہے اسلئے کہ تجربے سے اس کا مفید ہونا ثابت ہوا ہے ۔
اصلاح کیجئے مگر خیرخواہی وامانت داری کے ساتھ اپنی تلخ نوائی پر معافی کا خواستگار ہوں!
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
تبلیغی جماعت ایک طرف خانقاہی نظام کی توسیع ہے تو دوسری طرف مدارس کے لئے داخلہ مھم کی حیثیت رکھتی ہے جہاں اس کی وجہ سے خانقاہ کا ماحول اور اسکے قصے عام مسلمان تک پہنچے وہیں مدارس کی طرف طلبہ کا میلان بڑھا۔
شروعات میں اثر انگیزی کی وجہ وہ شدائد تھے جو اس جماعت کو اپنے اور غیروں سے پیش آتے تھے ایسے میں اللہ سے خوب تعلق مضبوط ہو جاتا تھا مگر پھر مخالفت نصرت میں بدل گئی تب سے وہ الحاء و زاری کم ہوتی چلی گئی جو انکا خاصہ تھا۔
اکثر نکلنے والے میں معاشرت معاملات اور اخلاق کا بگاڑ پہلے سے موجود ہوتا ہے اب اصلاح کی جیسی امید کی جاتی تھی ویسے نتائج نا ملنےکی بڑی وجہ جماعت میں تربیت یافتہ ساتھیوں کی کمی ہے جو نئے آنے والوں کی کما حقہ تربیت سے عاجز ہیں، اور جہاں یہ جماعت جاتی ہے وہاں کے علماء اور نیک و سمجھ دار لوگ ان سے دوری بنائے رکھتے ہیں صرف مہمان نوازی سے زیادہ ان کا کوئی رول نہیں ہوتا یہ بھت بڑی وجہ ہے کہ تربیت نہیں ہو پا رہی ہے، حالانکہ کچھ تبدیلیوں کے علاؤہ اب بھی وہی منشور ہے مگر مقررین کی آمد سے ضعیف بلکہ موضوع روایات کا چلن عام ہوگیا، جبکہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے ہر زمانے کے مبلغین کے یہاں یہ عام بات ہے ہر طرح کی رطب و یابس روایات کتابوں میں مل جاتی ہے مگر اس کے باوجود ان کو دریا برد نہیں کردیا گیا بلکہ اس نقص کے باوجود مفید سمجھا جاتا ہے، اب رہی بات آپسی اختلاف کی تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے خیر القرون سے اب تک انتشار ہر شعبے میں آچکا ہے اس کو انا کا مسئلہ نا بناتے ہوئے جو جہاں ہے وہیں کام کرتا رہے اس کا آسان حل یہ ہے کہ جہاں جو مسجد وار جماعت موجود ہے وہاں اتفاق کے ساتھ جو ممکن ہو سکے کر لیجیے اگر طبیعت آمادہ نہیں ہے تو گوشہ نشینی اختیار کر لیجیے، جب تک کوئی جماعت یا شیخ کامل نہیں ملتا جس میں علمائے زمانہ خیر کی کثرت دیکھیں قرآن مجید کی تلاوت اور بزرگوں کے ملفوظات و سوانح جو دراصل اپنے زمانے کے حساب سے سنتِ نبوی کے اہتمام والی زندگی کا نچوڑ ہوتے ہیں کو لازم پکڑ لیں، باقی مشکاۃِ نبوی سے جتنی دوری بڑھتی جائے گی طبیعتوں میں اتنی ہی کثافت اور قلوب میں قساوت بڑھتی جائے گی اطاعت قبول کرنا تو دور حسنِ ظن رکھنا کسی کو برداشت کرنا اور بھی مشکل ہوتا چلا جائے گا، واللہ المستعان۔

Comments are closed.