امریکہ! اسرائیل کاسب سے بڑا سہارا

ابو معاویہ محمد معین الدین دربھنگوی
ادارہ تسلیم ورضا سمری دربھنگہ (بہار)

یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے ان گنت نعمتوں سے نوازا تھا بلکہ انہیں تمام جہان والوں پر فوقیت دی گئی تھی ارشاد ربانی ہے
*يٰبَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتِىَ الَّتِىۡٓ اَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَاَنِّىۡ فَضَّلۡتُكُمۡ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ*۞(البقرۃ:47)
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمہ اللہ فائدہ کے تحت لکھتے ہیں:
فائدہ : اہل عالم پر فضیلت کا یہ مطلب ہے کہ جس وقت سے بنی اسرائیل کا وجود ہوا تھا اس وقت سے لے کر اس خطاب کے نزول تک تمام فرقوں سے افضل رہے کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا، جب انہوں نے نبی آخرالزمان اور قرآن کا مقابلہ کیا تو وہ فضیلت بالکل جاتی رہی اور مغضوب علیھم اور ضلال کا لقب عنایت ہوا۔ اور حضور ﷺ کے متبعین کو کنتم خیر امۃ کا خلعت ملا۔ (تفسیر عثمانی)
مذکورہ بالا تفسیر سے معلوم ہوا کہ بعثت نبوی ﷺ کے بعد ان کی تمام تر فضیلتیں سلب کر لی گئیں اور ان پر ہمیشگی کی لعنت اور پھٹکار پڑی ،سورہ فاتحہ میں غيرالمغضوب عليهم سے مراد جمہور مفسرین کرام کی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد یہودی ہی ہیں، اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا عاشق الہٰی بلند شہری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
یہودیوں کی شرارت، عناد اور مکاریاں اور دسیسہ کاریاں جو سورة بقرہ میں اور دوسری سورتوں میں بیان کی گئی ہیں ان کے جاننے کے بعد ہر صاحب عقل یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ لوگ قصداً وارادۃً ایسی حرکتیں کرتے تھے جن سے اللہ تعالیٰ کے غصہ کے زیادہ سے زیادہ مستحق ہوتے چلے گئے۔(انوار البیان)
قرآن مجید میں ایک جگہ یہودیوں کے بارے میں یہ ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہے اور یہ اس وقت دور نہ ہوگی جب تک کہ وہ ایمان لے آئیں یا کوئی اس کا سہارا نہ ہوجائے ۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
ضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الذِّلَّةُ اَيۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَحَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَضُرِبَتۡ عَلَيۡهِمُ الۡمَسۡكَنَةُ  ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ كَانُوۡا يَكۡفُرُوۡنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقۡتُلُوۡنَ الۡاَنۡۢبِيَآءَ بِغَيۡرِ حَقٍّ‌ؕ ذٰ لِكَ بِمَا عَصَوۡا وَّكَانُوۡا يَعۡتَدُوۡنَ۞(آل عمران:112)
وہ جہاں کہیں پائے جائیں، ان پر ذلت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہوجائے یا انسانوں کی طرف سے کوئی ذریعہ نکل آئے جو ان کو سہارا دیدے، انجام کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (نیز) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے، اور ساری حدیں پھلانگ جایا کرتے تھے۔
موجودہ دور میں یہود تو ایمان نہیں لائے ،لیکن پھر بھی یہ مضبوط ہے ،بظاہر طاقت ور ہے، اس کی مضبوطی کا انحصار "امریکہ”پر ہے کہ یہی اس کا بحبل الناس ہے ، جیسا کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں:
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست ہے اور یہ امر واقع ہے۔اللہ رب العزت نے یہود کے بارے میں قرآن مجید میں بیسیوں باتیں فرمائی ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے: "ضربت عليهم الذلة اينما ثقفوا إلا بحبل من الله وحبل من الناس”کہ یہودی اب قیامت تک ذلیل ہی رہیں گے ،ہاں اللہ کی رسی تھام لیں یعنی مسلمان ہوجائیں یا دنیا کی کسی طاقت کا سہارا لے لیں ۔آج "بحبل من الناس”کا منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا سہارا بنا ہوا ہے اور اس حد تک سہارا بنا ہوا ہے کہ پوری دنیا کی اجتماعی رائے کو رد کر کے امریکہ یہودیوں کی حمایت میں اور بیت المقدس پر یہودیوں کا استحقاق جتانے کے لئے بڑی مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔” (صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر:40)
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے لئے سہارا اور آہنی دیوار کیوں بنا ہوا ہے وہ اسرائیل کے سامنے بونے کیوں نظر آتا ہے اسرائیل کے پاس کون سی جادوئی طاقت ہے کہ "سپر پاور امریکہ” اس کے لئے ڈھال بنا ہوا ہے، تو جاننا چاہئے کہ اسرائیل آج جس مقام پر ہے اس مقام پر آنے کے لیے اس نے پچھلے ستر سال سے محنت کی ہے اس کے بعد ہی آج وہ اس مقام پر براجمان ہے کہ سپر پاور بھی اس کا غلام بننے میں عار محسوس نہیں کرتا ہے ، اس کے بارے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں:
امریکہ میں یہودی تقریباً ایک فیصد ہیں ۔آج سے سو سال پہلے یہودیوں کی کیفیت امریکہ میں بالکل ایسی ہی تھی جیسی اس وقت پاکستان میں قادیانیوں کی ہے ،ان کے خلاف نفرت تھی ،کوئی انہیں منہ لگانے کو تیار نہیں تھا ،ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔سوائے اس کے کہ ان کے پاس پیسہ اور شرارتی ذہن تھا اور کچھ نہیں تھا ۔لیکن انہوں نے اس فارمولے کے تحت جو صہیونیزم کی پالیسی طے کی،اس میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم نے امریکہ میں اپنی نئی نسل کو تیار کرکے مختلف شعبوں میں اوپر کی سطح پر لانا ہے ،جس کے لئے انہوں نے تعلیم پر توجہ دی اور طے کیا کہ ہم اگلی نسل کو پڑھائیں گے ۔”
چنانچہ سائنس،ٹیکنالوجی، معیشت ،سیاست،سوشیالوجی اور سماجیات اور دیگر فنون اگلی نسل کو پڑھانے کے ساتھ ایک ایک کرکے مختلف شعبوں میں داخل کرتے گئے اور انہیں تقریباً نصف صدی لگی ہے کہ امریکہ میں میڈیا ،معیشت ،بیوروکریسی اور اقتدار کے تمام اہم مراکز قبضہ کر لیا ہے ۔اس وقت امریکہ جو پالیسی ساز ادارے ہیں ان میں غالب اکثریت یہودیوں کی ہے۔”
یہودی اپنے شاطر دماغ اور اپنی جہد و کوشش سے امریکہ میں اتنا مضبوط بن چکا ہے کہ اسے ہلایا نہیں جاسکتا یہ امریکہ کے سامنے اتنا طاقتور بن گیا ہے کہ یہودی امریکہ کے حلق پر ہاتھ رکھ چکا ہے اور اسرائیل جو کہتا ہے وہی امریکہ بولتا ہے گویا کہ زبان امریکہ کی ہے اور بات اسرائیل کی ہی ہوتی ہے، امریکہ میں یہودیوں کا اتنا زیادہ اثر و رسوخ ہے کہ امریکہ میں ایک پتہ بھی اسرائیل کی اجازت کے بغیر ہل نہیں سکتا حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں:
یہودی بڑھتے گئے حتیٰ کہ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت ،میڈیا اور پالیسی سازی یہودیوں کے کنٹرول میں ہے ۔امریکہ کا صدر قانوناً عیسائی ہوتا ہے ،یہودی نہیں ہوسکتا ،لیکن یہودیوں کی مرضی کے بغیر وہ ایک پتہ بھی نہیں ہلا سکتا ۔”
اس دور میں اسرائیل و امریکہ کو شکست دینے کے لئے دو چیزوں کو اپنانا ہوگا پہلی چیز علم اس سے مراد حافظ، مولانا،مفتی ہی نہیں ہے بلکہ سائنس وٹیکنالوجی کے ہر میدان میں آگے آنا ہوگا اور اتنا ہی نہیں بلکہ استاذ بننا ہوگا کاش کہ پاک کے لوگ اس کو سمجھیں، کم از کم وہاں کے باشعور اہل علم اس پر توجہ دیں بار بار حج یا عمرہ پر نہ جائیں بلکہ اسی روپے کو تعلیمی اداروں اور جدید ایجادات پر صرف کریں، دوبارہ حج یا عمرہ کرنے سے زیادہ عنداللہ و عندالناس مقبول ہوں گے۔ان شاء اللہ
دوسری چیز معیشت کو محفوظ و مضبوط کرنا ہوگا کُل مسلمان کو نبی کریم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ پر عمل کرنا ہوگا”اليد العليا خير من يد السفلى”اوپر والا ہاتھ نیچے والا ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے، مسلمان کاسہ گدائی لینے والے نہ رہیں بلکہ گداؤں کی خبر گیری کرنے والے بنیں، دنیا کے ہم مقروض نہ رہیں بلکہ دنیا ہمارا مقروض بنے، جس دن ان دونوں پر ہمارا کنٹرول ہوجائے گا اس دن دنیا کا سب سے بڑا خیر خواہ ہم ہوں گے،اللہ ہمیں اس کے لئے قبول فرمائیں۔(آمین)

Comments are closed.