اسمبلی انتخابی مہم میں فرقہ واریت کے دوران چند خوش آئند واقعات

جاوید جمال الدین
یہ ان دنوں کی بات ہے ،جب ممبئی کے ایک بڑے روزنامہ میں برسر روزگار تھا اوراس دوران مجھے کمپنی کی پالیسی کے تحت شہر کے ایک بڑے ماس کمیونیکشن کالج میں ایک سالہ صحافتی ڈپلومہ کرنے کا موقعہ مل گیااور اس کی فیس وغیرہ بھی کمپنی نے برداشت کی تھی،کیونکہ پوسٹ گریجویٹ ،پبلک اسپیکنگ اور انگلش اسپیکنگ یا اخباری صنعت سے وابستہ کورس کرنے کے لیے اخبار کے عملے کو سہولت مہیا کرائی جاتی تھی اور عملہ مستفیض ہوتا تھا،دوران تعلیم ہی مجھے جاب مل گیا تھا،خیرصحافت میں ڈپلومہ کی پڑھائی کے دوران اساتذہ کی فہرست میں مشہور صحافی ٹائمز آف انڈیا اور الیسٹیڈ ویکلی کے سابق ایدیٹر ایم وی کانت بھی اداریہ اور کالم نویسی پر لیکچر لیتے تھے،ایک بار طلباء سےسوال و جواب کے سیشن دوران پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ وہ تقریباً دیڑھ عشرے تک امریکہ میں ٹائمز آف انڈیا کے نمائندہ رہنے کے بعد انہوں نے وطن عزیز واپس آنے کو کیوں ترجیح دی تھی۔
ایم وی کامت ،حالانکہ وہ ایک دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے صحافی تھے،نے برملا اور متاثر کن جواب دیا کہ ہندوستان ایک قومی ہم آہنگی رکھنے والا ملک ہے اور یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو عزت واحترام سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان۔کا خیال بھی رکھتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اخبار والا،دودھ والا ،سبزی وترکاری والا اور پھل وغیرہ بیچنے والا آپ کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔اچھے اور کم تر سامان کی جانکاری بھی فراہم کردیتے ہیں۔کئی باتیں پیشگی بتاتے ہیں،تاکہ۔آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔البتہ ایم وی کامت نے اس سے ہٹ کر ہمیشہ ہندوتوا کی سختی سے حمایت کرتے رہے اور آخری دم تک اس کاپروپیگنڈہ کرتے رہے تھے۔ایک بارانہوں انگریزی اخبار میں امتیازی سلوک کا شکار مسلم نوجوان سے ہمدردی کا اظہار بھی کیاتھا۔
حال میں مکمل ہوئے پانچ ریاستوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے ہونے والی انتخابی مہم میں فرقہ واریت اور فرقہ پرستی کاکھل کراستعمال کیا گیا ،بی جے پی کی لیڈر شپ بشمول وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی،اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔کانگریس کو ایک بار پھر جہدوجہد والی سرحد پر پہنچا دیا گیا ہے۔
خیر ایک سوا مہینے کے دوران چلنے والی انتخابی مہم میں جاری کھلی فرقہ پرستی کے دوسری طرف کچھ اچھی باتیں یعنی قومی ہم آہنگی کے کئی فل کو چھو لینے والے واقعات پیش آئے ہیں۔
اتراکھنڈ کے سلکیارا-بارکوٹ کی سرنگ میں پھنسے41 مزدوروں کو 17دنوں کے پر خطر راحتی مہم کے بعد بحفاظت نکال لیا گیا۔ اس خبر سے پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ان تمام لوگوں کے دلوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی ،جو اس واقعہ پر نظر رکھے ہوئے تھے اور ہر پل زیر لب دعاء میں مشغول رہ کر ان مزدوروں کی صحیح سلامت واپسی کی تمنا کر رہے تھے۔ سترہ دنوں تک چلنے والا یہ آپریشن نہایت مشکل اور صبر آزما تھا۔ کئی بار مختلف زاویوں سے پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنے کی کوششں کی گئیں، جدید ترین قسم کے آلات و اوزار اور مشینی کل پرزوں کا استعمال کیا گیا تاکہ جلد سے جلد ان لوگوں تک رسائی حاصل کرکے انہیں سلامتی کے ساتھ نکالا جاسکے۔ اس راہ میں بیشمار دشواریاں بھی پیش آئیں اور ایک موقع پر ایسا لگا کہ شاید اب آگے کا مرحلہ دشوار گزار ہوجائےگا اور ان 41،افراد کو باحیات نکالنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ یہ احساس اس لیے پیدا ہوا کیونکہ ان تک پہنچنے کے لیے جس آلہ کا استعمال کیا جا رہا تھا، وہ ٹوٹ گیا اور بجائے اس کے کہ وہ مشینیں زندگیاں بچانے کا ذریعہ ثابت ہوتیں، خود ان کے ٹکڑوں کو نکالنا ایک بڑا کام بن گیا، مشینوں کی ایک حد ہے جہاں تک پہنچ کر وہ اپنا کام بند کرسکتی ہیں لیکن انسانی ہمت و حوصلہ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اسی حقیقت کا مشاہدہ اتراکھنڈ کے اس آپریشن میں بھی دنیا نے کیا۔ ابھی پھنسے ہوئے مزدوروں تک پہنچنے میں تقریباً 12 میٹر کی دوری باقی تھی ،اس موقع پر مشینوں نے جواب دے دیا، آگے کا مرحلہ طے کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں اور ذہانت کی ضرورت تھی۔
حکومت اور انتظامیہ کے درمیان غورو خوض کا معاملہ طے ہوا اور اس مقصد کی خاطر دہلی اور اترپردیش کے بلند شہر سے12،کھدائی ماہرین کو بلانے کا فیصلہ کیاگیا جن کا کام یہ طے پایا کہ وہ تنگ پائپ سے اندر گھس کر باقی کے حصوں کو کھودیں تاکہ پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کی سبیل پیدا ہوسکے۔ یہ 12،مزدوروں کی اکثریت اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتی تھی،جن کے نام مُنّا، حسن قریشی، نسیم ملک، ناصر خان، دیویندر، فیروز قریشی، راشد انصاری اور ارشاد احمدتھے اوسوربھ،مونو کمار، جتن کمار، انکور، ہیں، انہوں نے اپنی فنی مہارت اور انسانیت نوازی کی مثال قائم کر دی۔ یہ تمام لوگ تنگ پائپوں سے گزر کر اندر داخل ہونے اور مٹی کھودنے میں ماہر سمجھے جاتے ہیں اور اپنی اسی مہارت کی وجہ سے دہلی کارپوریشن میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ 20سے 45 تک کی عمر کے ان لوگوں نے 41قیمتی زندگیوں کو بحفاظت نکالنے میں جو اپنا کردار ادا کیا ہے، وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ اس پورے واقعہ کا سبق آموز اور خوش کن پہلو یہ ہے کہ ان مددگار ہاتھوں میں ہندو اور مسلم دونوں ہی ہاتھ شامل رہے تھے۔اور ان کے لیڈر منا قریشی کا وزیراعلی دھانی نے بغل گیر کیا۔وزہراعظم مودی نے گفتگو کی ۔یہ ہندوستان کی تاریخ میں کچھ نیا نہیں ہے۔ایسا سینکڑوں دفعہ ہوچکا ہے۔اس میں آپسی بھائی چارہ اور باہم تعاون چھلکتا ہے۔ لیکن اس ملک کی بدقسمتی کہیے کہ نفرت و تقسیم کی ایک سیاست نے اس پر اپنا قبضہ جمالیا اور ہر چیز میں مذہبی منافرت کا ایسا زہر گھول دیا کہ لوگ یہ بھول گئے کہ ہم کبھی ایک دوسرے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے والے لوگ تھے۔ خود یہی ریاست اتراکھنڈ جہاں کی سرنگ میں یہ مزدور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے پھنس گئے تھے، جیسا سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ،حال میں اتراکھنڈ میں منافرت زیادہ پھیلائی گئی اور دھانی یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے والے پہلے وزیراعلی بننے کے فراق میں ہیں۔ملک کے عوام میں ابھی بھی بھائی چارہ باقی ہے ،لیکن ۔سیاستدانوں کوسوچناہوگا۔انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے، وکیل حسن، جو دہلی میں واقع راک ویل انٹرپرائزز کے مالک ہیں، نے کہا: "ہماری ٹیم میں ہندو اور مسلمان دونوں ہیں، اور دونوں مذاہب کے لوگوں نے ان 41 جانوں کو بچانے کے لیے سخت محنت کی۔ ان میں سے کوئی بھی اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا تھا، اور یہی وہ پیغام ہے جو میں سب کو دینا چاہتا ہوں… ہم سب کو مل جل کر رہنا چاہیے اور نفرت کا زہر نہیں پھیلانا چاہیے۔ ہم سب ملک کے لیے اپنا 100 فیصد دینا چاہتے ہیں… براہ کرم میرا پیغام سب تک پہنچائیں۔‘‘
صبا احمدکو مودی کے روبروپیش کیاگیا اور ویڈیو کال پر انہوں نے کہاکہ قومی ہم آہنگی اور بھائی چارہ ان کا مقصد رہا ہے "ہم سب مزدور ایک بھائی کی طرح سرنگ میں رہتے تھے.”
ایک دوسرے معاملے میں گجرات ہائی کورٹ نے لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی پابندی کی درخواست خارج کر دی ہے۔ گجرات ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ اذان کا دورانیہ 10 منٹ سے کم ہوتا ہے لہٰذا اس سے ’نوائس پَلوشن‘ یعنی صوتی آلودگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا،یہ درخواست گاندھی نگر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دھرمیندرا پرجاپتی اور سیاسی مذہبی جماعت بجرنگ دَل کے رہنما شکتی سنھ زلا کی جانب سے دی گئی تھی۔
دونوں افراد نے اپنی درخواست میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے پراعتراض کیاتھا، تاہم گجرات ہائی کورٹ کی چیف جسٹس سنیتا اگروال اور جسٹس انیرُودھا مائی پر مشتمل بینچ نے اس درخواست کو خارج کر دیا۔
اس درخواست میں ڈاکٹر دھرمیندرا نے موقف اپنایا کہ لاؤڈ سپیکر پر اذان کی وجہ سے ان کے اسپتال میں مریضوں کو کوفت ہوتی ہے۔درخواست کے جواب میں بینچ نے ریمارکس دیے کہ ’ہم اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے کہ انسانی آواز میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے سے صوتی آلودگی کیسے پیدا ہو سکتی ہے جو کہ عوام کے لیے مضر صحت ہو۔‘
بینچ کی جانب سے درخواست گزار کو حکم دیا گیا کہ وہ اس بات کا سائنسی طور پر ثبوت دیں کہ لاؤڈ سپیکر سے دی جانے والی اذان کے ڈیسیبلز سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے۔
اس کیس کے دوران بینچ نے درخواست گزاروں سے یہ پوچھا کہ کیا آیا مندروں میں پوجا کے دوران بجنے والی گھنٹیاں اور گھنٹوں کی آواز صرف مندروں کی چہار دیواری تک ہی محدود رہتی ہے؟
بینچ نے مزید کہا کہ ’ہم اس کیس کو مزید نہیں سن سکتے۔ یہ برسوں سے کی جانے والی عبادت ہے اور یہ صرف 5 سے 10 منٹ کے لیے ہوتی ہے۔‘
’آپ کے مندروں میں صبح تین بجے سے بھجن آرتی شروع ہو جاتی ہیں جس میں ڈھولک اور موسیقی کا استعمال کیا جاتا ہے، کیا اس سے صوتی آلودگی نہیں پھیلتی؟‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو-مسلم اتحاد ملک کی بقاء اور ترقی کے لیے کافی اہم ہے۔اور 41 زندگیوں کو بچانا۔کوئی۔معمولی واقعہ نہیں ہے۔کوئی بھی اس کام کو اکیلا انجام نہیں دے سکتا تھا۔جبکہ گجرات ہائی کورٹ کافیصلہ بھی ایک مثال بن گیا ہے۔
اس طرح اتحاد و یکجہتی کا یہی پیغام سامنے آیا ہے،اس لیے حکومت ،انتظامیہ اور سیاست دانوں کو اس جانب توجہ دینا چاہئیے تاکہ وطن۔عزیز میں امن وامان ،بھائی چارہ ویکجہتی پیدا ہوسکے اور سبھی مل جل کررہے۔
[email protected]
9867647741
Comments are closed.