ایم پی عجب ہے، سب سے غضب ہے

 

ڈاکٹر سلیم خان

مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو کامیابی ہضم نہیں ہورہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اس  کی حالت آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا جیسی ہوگئی ہے۔ بی جے پی کے اندر  قوت ِ فیصلہ کی کمی  مودی جی کی دین ہے ورنہ پہلے بہت جلد یہ مرحلہ طے ہوجاتا تھا۔ مودی جی کے اندر احساسِ خوف اتنا زیادہ ہے کہ وہ زبردست جیت کے بعد  بھی شش و پنج میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔     اس ہچکچاہٹ کی بنیادی وجہ  تبدیلی کا ڈر ہے کیونکہ جب بھی وہ پانچ دن سے زیادہ لگاتے ہیں وزیر اعلیٰ بدل جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال 2017 میں اترپردیش کی زبردست کامیابی کے بعد وزیر اعلیٰ کے تقرر میں 9؍دن کا وقت لگانا ہے۔ اس وقت  مشکل یہ تھی کہ راجناتھ سنگھ اور منوج سنہا جیسے لوگ دوڑ میں شامل تھے۔ فی الحال راجناتھ کو وزارتِ داخلہ سے ہٹاکر دفاع کردیا گیا ہے اور سنہا صاحب سرینگر کی ہوا کھا رہے ہیں ۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کی لاٹری نو دن بعد لگی ۔  اتراکھنڈ میں اسی سال ترویندر سنگھ راوت کو8 دن انتظار کروانے کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔  اس وقت بی ایس کھنڈوری  اور رمیش پوکھریال  جیسے لوگ امید سے تھے لیکن انہیں بھی مایوس ہونا پڑا۔ اس لیے سبھی توقع کررہے ہیں کہ موجودہ تین ریاستوں کو بھی نیا وزیر اعلیٰ ملے گا۔  2017 اور 2014 میں مودی جی نے ہماچل پردیش اور مہاراشٹر میں 7 دن کا وقت لگایا اور وہاں بھی نیا وزیر اعلیٰ آیا۔ اسی طرح   6؍دن لگانے کے بعد ہریانہ میں  کھٹرکے سر پر تاج رکھا گیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے تذبذب سے قطع نظرمدھیہ پردیش میں  بی جے پی کو ملنے والی  دو تہائی سے زیادہ اکثریت  قابلِ مبارکباد ہے۔  اس نے اپنے  ووٹ  کے تناسب  7.53% فیصد اضافہ کیا۔  اس  طرح  جملہ 230 نشستوں میں سے 163  پر کمل کھل گیا۔  یہ تعداد 2018  کی بہ نسبت 54 زیادہ ہے۔ کانگریس کے ووٹ شیئر میں صرف 0.49%  کی کمی واقع ہوئی مگر اس کےنشستوں کی تعداد114 سے گھٹ کر 66 پر آگئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سماجوادی  پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی ، عام آدمی پارٹی کا سوپڑا صاف ہوگیا۔  ان سب کے ووٹ بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے اور یہ صرف اور کانگریسی رہنما کمل ناتھ کی رعونت کے سبب ہوا۔دیگر جماعتوں  میں سے سماجوادی پارٹی اور عام آدمی پارٹی تو خیر انڈیا محاذ میں شامل ہیں۔ کانگریس اگر دل بڑا کرکے بہوجن سماج کی سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کرتی تو دوسرے سارے حلقہ ہائے انتخاب میں ان پارٹیوں  کے ووٹ کانگریس کی جھولی میں آجاتےاور یہ فرق کم ہوجاتا لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔

ممبئی کےبعد بھوپال میں  انڈیا الائنس کا اگلا  اجلاس  طے ہوا تھا ۔ وہ تمام جماعتوں کو متحد کرنے میں   نہایت اہم  کردار ادا کرسکتا تھا مگر کمل ناتھ  کی اکڑ نے اسے منسوخ کروا دیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنے بل پر کامیابی درج کرائیں اور انڈیا الائنس میں  پارٹی کا قد  بڑھائیں  لیکن الٹا ہوگیا ۔   ایسے میں ہندی زبان کا محاورہ یاد آتا ہے ’چوبے جی چلے تھے   چھبے بننے مگر دوبے بن کر لوٹ آئے۔  کمل ناتھ کانگریس کے بڑے رہنما ہیں ،مرکزی وزیر رہے ہیں اور دہلی کے اندر بڑے  بارسوخ مانے جاتے  ہیں۔  اس بار مدھیہ پردیش کے پانچ امیر ترین امیدواروں کی فہرست میں چار تو خیر بی جے پی والے تھے لیکن ان کا نام بھی تیسرے نمبر پر موجود  تھا ۔  اپنے ذاتی ہوائی جہاز سے چلنے والے کمل ناتھ  زمینی رہنما نہیں ہیں۔  کوئی فرد یا جماعت جب بہت عرصے تک اقتدار میں رہے تو اس کی مخصوص   زمینداری کی  نفسیات بن جاتی۔ بی جے پی میں وہ ابھی پروان چڑھ رہی ہے مگر کانگریس میں پہلے سے  موجودہے۔ ایسے لوگوں پر بہت زیادہ دباو ہوتو یہ  سرمایہ دارانہ ذہنیت عارضی طور پر دب جاتی ہے مگر اقتدار حاصل ہوجائے بلکہ امکانات روشن ہوجائیں تب بھی وہ  غائب ہوجاتی ہے ۔  شمالی ریاستوں میں کانگریس کے ساتھ یہی ہوا۔ وہ اگر انڈیا الائنس کے حصے داروں کا احترام کرتی  تو نہ ووٹ کے تناسب میں اتنا بڑا فرق  اور نشستوں کی تعداد میں ایسی خلیج ہوتی لیکن اب تو جو ہونا تھا سو ہوچکا اس لیے پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں آگے خیال رکھا جائے تو یہ کافی  ہے۔ ویسے کمل ناتھ کے خلاف فی الحال پارٹی میں زبردست غم و غصہ ہے ۔ ایک بار تو ان کے استعفیٰ کی خبر بھی آگئی۔ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ ازخود چلے جائیں  ورنہ لوگ دھکے مار کر بھگا دیں گے۔  

عام لوگوں کے اندر پہلے سے منتخب شدہ ارکان اسمبلی اور وزراء کے تئیں جو غم و غصہ ہوتا ہے اس کے اظہار کا بہترین موقع  انتخاب  فراہم کرتے ہیں۔بی جے پی چونکہ  ایم پی کے اندر اقتدار میں تھی اس لیے اس سے توقعات زیادہ تھیں۔ اس کے جملہ 99؍ ارکان اسمبلی میں سے 27 امیدوار  اور وزراءمیں سے  12  امیدوار انتخاب ہار گئے۔ان بد قسمت لوگوں  میں ریاستی وزیر داخلہ اور کٹر ہندوتوا شبیہ کے حامل نروتم مشرا بھی شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنی کامیابی پر ہیمامالنی کو نچوانے کا اعلان کردیا تھا لیکن بیچارے خود 7,742 ؍ ووٹ کے فرق سے ہار گئے۔   عوامی  ناراضی سے بچنے  کے لیے بی جے پی اپنے بیشتر  امیدوار بدل دیتی ہے۔  اس بار اس نے اپنے ارکان پارلیمان کو میدان میں اتار کر نیا تجربہ کیا۔  ان ارکان پارلیمان کو  اپنے پارلیمانی حلقے  کے تحت آنے والے اسمبلی حلقوں کا ذمہ دار بھی  بنا دیا گیا ۔ ایم پی کے اندر اس نے تین مرکزی وزراء کو ٹکٹ دیا اور ان میں سے پھگن سنگھ کالستے انتخاب ہار گئے۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ جو شخص اپنی  اسمبلی سیٹ نہیں نکال سکتا ہو اس کوو زیر اعلیٰ کی کرسی کے ممکنہ دعویدار  بناکر پیش کیا جائے ۔ اب ایسے شخص کا  مرکز میں وزیر رہنے کا اخلاقی جواز بھی باقی  نہیں رہا لیکن بی جے پی کے پاس اخلاق و اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مرکزی وزراء کے علاوہ جن چار ارکان پارلیمان کو ٹکٹ دیا گیا تھا ان میں سے گنیش سنگھ بھی  انتخاب ہار گئے۔

کانگریس کا حال بھی  اس معاملے میں  اچھا نہیں ہے۔ اس کے  85 ؍ ارکانِ اسمبلی میں  سے 60؍ انتخاب ہار گئے۔  پچھلی مرتبہ ایم پی میں بی جے پی ہار گئی تھی مگر اس نے  جیوتردیتیہ  سندھیا سے بغاوت کروا کر پھر سے شیوراج چوہان کو وزیراعلیٰ بنوایا ۔ اس بار سندھیا  کے جن  19 ؍ حامیوں کو ٹکٹ دیا گیا تھا ان میں سے 10 ؍ اپنی سیٹ نہیں بچا سکے ۔ یہ تو خیر کانگریس سے بغاوت کرکے بی جے پی میں جاکر الیکشن لڑنے والوں کا حال ہے مگر ٹکٹ نہیں ملنے کے سبب  آزاد کھڑے ہونے والے 9؍ باغیوں نے اپنی نام نہاد منظم پارٹی  بی جےپی کا نقصان کیا جبکہ کانگریس کے8؍ امیدوار وں کو ان کی پارٹی کے باغیوں نے ہروایا ۔ مدھیہ پردیش کے مسلمانوں کو کانگریس سے شکایت تھی کہ اس نے مسلم اکثریتی علاقوں سے بھی ملت کے امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دیا۔ ویسے بھوپال سے اس کے دونوں مسلمان امیدواروں نے کامیابی درج کرائی لیکن برہانپور کے مسلمانوں نے ایم آئی ایم کا امیدوار کھڑا کیا ۔ اسے جملہ 33؍ہزار سے زیادہ ووٹ ملے مگر اسی حلقۂ انتخاب سے بی جے پی امیدوار31ہزار سے زیادہ ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوگیا۔ اس طرح مسلم علاقہ کی نمائندگی بی جے پی کے ہاتھ میں چلی گئی۔  مودی کاچہرا اوراس کے ساتھ لاڈلی بہنا کے تحت تقسیم ہونے والی نقد رقم نے بی جے پی کی کامیابی میں بہت اہم  کردار ادا کیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے عام ہندوستانی ووٹرس کے نزدیک قومی  مسائل کے مقابلے ذاتی مفاد کی کیا اہمیت ہے؟  

  ان ساری کامیابیوں کے ساتھ بی جے پی کے لیے بری خبر یہ ہے کہ ان تین صوبوں میں پچھلی بار ریاستی اقتدار گنوانے کے باوجود پارلیمانی انتخاب میں کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ اس نے وہاں پر جملہ 61؍  پارلیمانی نشستوں پر کامیابی درج کرائی تھی مگر حالیہ کامیابی سے جوڑ کر اگر حساب کیا جائے تو وہ صرف   45؍ نشستیں جیت سکتی ہےاور اسے 16؍ امیدواروں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ تو صرف کاغذی حساب کتاب ہے ۔ انتخاب کے وقت کیا ماحول ہوگا اور کون سا مدعا کتنا کارگر ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بی جے پی نے اس بار اسی طرح کی کامیابی درج کرائی ہے جیسے پچھلی مرتبہ کانگریس نے حاصل کی تھی مگر قومی سطح پر وہ مودی کو نہیں روک سکی ۔ اس بار بی جے پی راہل کو روک سکے گی یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ پچھلے 6؍ ماہ میں 8؍ ریاستوں کے اندر انتخاب ہوا۔ ان میں چھتیس گڑھ اور راجستھان بی جے پی  نے کانگریس سے چھین لیے مگر کرناٹک اور ہماچل کانگریس نے بھی بی جے پی سے چھینے ۔ اس کے علاوہ تلنگانہ کانگریس کو اضافی مل گیا اوراس  انتخاب نے یہ ثابت کردیا کہ جب تبدیلی کی آندھی چلتی ہے تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں ٹک پاتا ہے۔ جنتا پارٹی کے زمانے میں یہ ہوچکا ہے اور آگے بھی ہوسکتا ہے ہوگا یا نہیں یہ کوئی نہیں جانتا ۔

Comments are closed.