سکھدیوسنگھ کے قتل پر بلکورسنگھ کی تشویش

ڈاکٹر سلیم خان
راشٹریہ راجپوت کرنی سینا کے سربراہ سکھدیو سنگھ گوگامیڑی کو ایک بہت ہی نازک وقت میں جے پور کے اندر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ راجستھان میں بی جے پی کے 115 ؍ ارکان اسمبلی کامیاب ہوگئے ہیں ۔ان میں سے 70؍ ارکان نے ہائی کمان کی مرضی کے خلاف سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سے ملاقات کرکے اپنی وفاداری کا اظہار کردیا ۔ گودی میڈیا تک میں وسندھرا راجے چھاگئیں ۔ ہبدوستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی رہنما نے اپنے ارکان اسمبلی کی ہائی کمان کے خلاف باڑے بندی کی اور فارم ہاوس میں جمع کرلیا ۔ اس سے بی جے پی کے مرکزی ذمہ داروں پر زبردست دباو بننے لگا ایسے میں اچانک سکھدیو سنگھ گوگا میڑی کے قتل کی خبر میڈیا پر چھا گئی اور وسندھرا پسِ پردہ چلی گئیں۔ سکھدیو سنگھ گوگامیڑی کے مشتعل حامی پوری ریاست میں ہنگامہ کرتے دکھائی دینے لگے ۔ میڈیا ہاتھ دھو کر سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے پیچھے پڑگیا کہ انہوں نے مطالبے کے باوجود سکھدیو کو تحفظ کیوں فراہم نہیں کیا؟ بچھے کچھے پولیس اور انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھہرانے لگے ۔ کچھ لوگ بشنوئی گینگ کی کہانی سنانے لگے اور کچھ قاتلوں کے سرغنہ روہت گواردار کا آڈیو نشر کرنے لگے ۔ اس طرح گویا بی جے پی کی سرپھٹول سے عوام کی توجہ ہٹا دی گئی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قتل سے کس کا فائدہ ہوا؟ جرائم کی تفتیش کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جس سب سے زیادہ فائدہ ہو اس کی جانب شک کی سوئی گھوم کر ٹھہر جائے۔
راجستھان کے اندر بی جے پی کے حامی راجپوت رہنماوں اس قتل کی ذمہ داری مستعفی وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے سر ڈال دی لیکن بی جے پی نے اگر وزیر اعلیٰ کے تقرر میں تاخیر نہیں کی ہوتی اشوک گہلوت کے بجائے اس کا وزیر اعلیٰ اقتدار پر فائز ہوتا ۔ توکیا ایسے میں اس سے استعفیٰ طلب کیا جاتا؟ بی جے پی کواپنی نااہلی کا ٹھیکرا کانگریس پر نہیں پھوڑنا چاہیے۔ اشوک گہلوت پانچ سال وزیر اعلیٰ رہے۔ اس دوران کسی راجپوت رہنما کا قتل نہیں ہواتو بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی مجرموں کے حوصلے اتنے نلند کیوں ہوگئے؟ کیا رام راجیہ کے قائم ہونے کا مطلب اسی طرح کی لا قانونیت کا بول بالا ہے؟ بی جے پی کی منصوبہ بندی کے بڑے چرچے ہیں ایسے میں اس کو نتائج سے پہلے وزیر اعلیٰ طے کردینا چاہیے تھا۔ ۳؍کو نتیجی آیا ۴؍ یا ۵؍ کو وزیر اعلیٰ کی حلف برداری کردیتے مگر وہاں تو شروع میں ہی پنوتی لگ گئی۔ یہ کہنا کہ اشوک گہلوت نےسرکاری سیکیورٹی کیوں نہیں دی ایک نہایت نامعقول سوال ہےکیونکہ گوگامیڑی کے خلاف تیس ایسے مقدمات درج ہیں جن کی تفصیل حیران کن ہے۔
مقتول رہنما کے خلاف مقدمات میں دو توقتل کے ہیں ۔ پانچ مقدمات میں سے ایک میں قتل اور اقدام قتل دونوں کی دفعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اغوا،چوری ، ڈکیتی، ہنگامہ آرائی، بھتہ خوری، سرکاری ملازم کے طور پر جعلسازی اور ایک ملازم پر حملہ ، مجرمانہ دھمکیاں، جنسی ہراسانی ، گھر میں گھسنا، آگ لگانا یا دھماکہ خیز مواد سے نقصان پہنچانا، مذہب، نسل کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا اور حملہ کے متعدد الزامات ہیں ۔ ان میں سے کچھ کیسز میں آرمس ایکٹ (1959)، نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائیکوٹرپک مادہ ایکٹ (1985)، پبلک پراپرٹی کو نقصان کی روک تھام ایکٹ (1984)، نیشنل ہائی ویز ایکٹ (1956) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ (1956) کے تحت الزامات بھی شامل ہیں۔ کیا دنیا میں کہیں ایسے مجرم پیشہ عناصر کو سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے ۔ ایسا کرنا تو پولیس محکمہ کی تضحیک و توہین ہے۔ کرنی سینا کو راجپوت سماج کے محافظ ہونے کا زعم ہے ایسے میں اس کے رہنما کوتحفظ کی کیا ضرورت؟ اس سے کرنی سینا کا دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوتا ہے ۔ اشوک گہلوت کو گوگا میڑی کا قاتل کہنے والے بھول گئے کہ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کا قتل پولیس کسٹڈی میں کھلے عام ہوا۔ اس وقت کسی نے یوگی کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرا کر استعفیٰ کیوں نہیں مانگا؟
جے پور کے پولیس کمشنر بیجو جارج جوزف کے مطابق سکھدیو سنگھ گوگامیڑی کوجن لوگوں نے گولی ماری وہ نوین شیخاوت کوشادی کا کارڈ دینے کے بہانے اپنے ساتھ لائے تھے۔ ان لوگوں نے جاتے جاتے نوین کوگولی سے مار کر اپنے خلاف اہم ترین ثبوت بھی مٹا دیا۔ یہ شرمناک واردات دوپہر تقریباً 1.30 بجے شیام نگر علاقے میں واقع سکھدیو سنگھ گوگامیڑی کے مکان میں ہوئی ۔ بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار کے اندر اس طرح گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں صاف نظر آتا ہے کہ ایک حملہ آور باہر جانے کے بعد لوٹ کر آیا اور سکھدیو کی کنپٹی پستول رکھ کرگولی چلا دی۔مودی سرکار میں بدمعاشوں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ جیل میں بند لارینس بشنوئی گینگ نے چھوٹتے ہی اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ اس نے فیس بک پوسٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ مقتول سکھ دیو سنگھ کواس لئے قتل کیا گیا کیونکہ وہ سدھو موسے والا کا قریبی تھا ۔ بشنوئی کے گرگے روہت گودارہ نے ٹیلی ویژن پر اینکر سے بات کرتے ہوئے اپنے جرم کا اقرار کیا اور کہا کہ وہ لوگ اپنے سارے مخالفین کو ماریں گے ۔اس نے سلمان خان اور کے سارے حامیوں کو مارنے کی دھمکی دی ۔
روہت گودارہ بیکانیر کے کالو تھانہ علاقے میں واقع لنکارانسر کا رہنے والا ہے۔ وہ 2010 کے اندر جرائم کی دنیا میں شامل ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق وہ صرف 19 سال کی عمر میں جرائم کی دنیا میں داخل ہوا تھا۔ اس نے اپنی سیکیورٹی کے لیے ایک پرائیویٹ ایجنسی سے باڈی گارڈ بھی رکھا ہواہے۔اس کے گینگ میں 150 سے زیادہ لڑکے ہیں۔ وہ راجستھان کے اندرلارنس کے اسپیشل آپریٹو میں سے ایک ہے اور وہ گودارا اپنا گینگ بھی چلاتا ہے۔ اس سے پہلے اس نے لڈن کے ایم ایل اے مکیش بھاکر کو فون کرکے جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ پولیس نے اس کے خلاف ریڈ کارنر نوٹس جاری کررکھا ہے مگر اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس پر ایک لاکھ روپے کے انعام کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔گزشتہ سال روہت گودارہ نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں سیکر میں گینگسٹر راجو تھیہت کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔جے پور کے ایک کلب میں تاجر کو دھمکیاں دے کر 2 کروڑ روپے بھتہ مانگنے کے معاملے میں بھی اس کا نام سامنے آیا تھا۔ پولیس سدھو موسی والا کے قتل کے بعد سے اس کی تلاش کر رہی ہے۔ سدھو موسے والا قتل میں جب اس کا نام آیا تو اس نے کھلے عام اعتراف کرلیا اور اب اسے پھر سے دوہرایا ۔
اس ڈھٹائی پر موسے والا کے والد بلکور سنگھ کے دل پر کیا گزری ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ ابھی حال میں انہوں نے ایک ویڈیو میں افسوس کے ساتھ کہا کہ وہ 556 دن بعد بھی اپنے بیٹے کے قتل میں انصاف کے منتظر ہیں۔ سکھدیو کی موت پر وہ بولے سدھوموسے کے قتل کے بعد بدمعاشی کا سلسلہ نہیں رک رہا۔ جب تک حکومتیں بدمعاشوں کو لاڈ، سپورٹ اور پناہ دیتی رہیں گی، مزید خاندانوں کو نقصان پہنچے گا۔ بلکور سنگھ کے مطابق ان کی لڑائی صرف موسے والا کو انصاف دلانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ گینگ اور حکومت کے اتحاد کو توڑنے کے لیے بھی ہے۔ایوان پارلیمان میں بڑی بڑی ہانکنے والے وزیر داخلہ کو بلکور سنگھ کے اس بیان کو سن کر چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر یہ مجرم نڈر کیوں ہیں؟ کیونکہ ہم ذاتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سکھدیو سنگھ گوگامیڑی کے قتل میں ہریانہ کے فوجی نتن کا ملوث ہونا ہندوستانی فوج اور اس کے تربیتی نظام پر بھی بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ اس بابت وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو وضاحت کرنی چاہیے لیکن مودی سرکار میں یہ رواج ہی ختم ہوگیا ہے۔
بلکور سنگھ نے اپنی ویڈیو میں کہا جب روہت گودارا اور گولڈی برار نے سدھو موسے والا کو مارا تو ہم نے کہا کہ لارنس بشنوئی گینگ محب وطن ہے، وہ خالصتانیوں کا صفایا کر رہے ہیں۔ جب راجو نے ٹھہٹ کو مارا تو کہا گیاکہ اس نے مجرموں کو ماراتو کیا غلط کیا؟ اب ان کے ہاتھ اتنے کھل گئےہیں کہ انہوں نے کھلے عام سماجی کارکن اور راجپوت کرنی سینا کے قومی صدر سکھدیو سنگھ گوگامیڑی کا قتل کر دیا۔ اب بھی اگر انتظامیہ پر اکٹھے دباؤ نہ ڈالا گیا تو جاٹوں اور راجپوتوں کی لڑائی کا فائدہ اٹھا کر دونوں برادریوں کے لیڈران کو فنا یعنی ختم کردیا جائے گا۔ہمیں وقت رہتے سنبھل جانا چاہئے۔بلکور سنگھ کے من کی بات عام لوگوں کے لیے فکر مندی کا سبب توہے مگر جو حکومت ماوارائے قانون قتل و غارتگری یعنی انکاونٹر پر فخر جتاتی ہو۔ عدالت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مرضی چلانے میں یقین رکھتی ہو اسے عوام کے ذریعہ یہی سب کرنے پر اعتراض کرنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں ہے؟ بلکور سنگھ کا موجودہ حکومت پر جرائم پیشہ لوگوں کی پشت پناہی کرنے کا الزام اگر درست ہے تو اس سے جلد ازجلد نجات حاصل کرلینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ یہ لوگ اقتدار کی ہوس میں ملک کو تباہ برباد کردیں گے ۔
Comments are closed.