حق وانصاف کی علمبردار مولانا عبدالماجد دریابادی کی صحافت

عارف عزیز(بھوپال)
مولانا عبدالماجد دریابادی پیکر علم ودانش اور حرکت وعمل کی زندہ مثال تھے، ان کا دل ہر دوجہاں سے غنی اور پاکبازی وبے نیازی کا نمونہ تھا، علم وادب کی محفلوں کے کتنے ہی متوالوں نے انہیں اپنا پیر مغاں بناکر محفل کی آب وتاب بڑھانا چاہی، ارباب سیاست کی طرف سے اونچے سے اونچے عہدے کی پیشکش ہوئی اور عصری تحریکات نے انہیں میر کارواں بنانا چاہا لیکن مزاجاً وطبعاً دورِ الحاد کے بعدوہ ایسے صوفی ہوگئے تھے جو ہاتھ قلم ہوجانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جنوں کی حکایت لکھنااپنا مقصد عین بنا لیتا ہے اور اس عمل میں اس کے قلم کی بے باکی، بے خوفی اور سچائی اپنے زمانہ کی تمام مصلحت پسندی کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔
مولانا عبدالماجد دریابادی کا رسالہ ’’سچ‘‘ ’’صدق‘‘ اور ’’صدق جدید‘‘ جب جب پڑھا تو یہی احساس ہو اکہ سچائی کی یہ آواز کسی طور پر دبائی نہیں جاسکتی۔
وہ اپنے رسائل میں زندگی بھر سچی اور کھری باتیں لکھتے رہے اور اس ملک میں انہوں نے صداقت کا علم تھامے رکھا جہاں سچ کے پائوں نہیں ہوتے اور ہر سچ کو چھوٹ کے سہارے آگے بڑھنا پڑتا ہے مولانا کی زندگی میں قطرے کے گہر بننے کی داستان کے اتنے پہلو ہیں اور ہر پہلو کی اتنی پرتیں ہیں کہ’’ سفینہ چاہئے اس بحربیکراں کے لئے‘‘ کوئی مختصر خاکہ یا تاثرات کا مجموعہ اس طویل داستان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ۱۸۹۲ء میں مولانا ایک خانوادہ علم وفضل میں بمقام دریا باد پیدا ہوئے تو سلطنت برطانیہ کا آفتاب عالم تاب نصف النہار پر تھا ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگ آزادی کے شکست خوردہ عام ہندوستانی عموماً اور مسلمان خصوصاً نہایت ڈرے سہمے اور مغلوب وپریشان تھے، بالخصوص شمالی ہند میں متمول مسلم خاندانوں کا جو حال ہورہا تھا اس کو اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر سے سمجھا جاسکتا ہے ؎
مرید دھرنے وضعِ مغربی کرلی
نئے جنم کی تمنا میں خودکشی کرلی
مولانا عبدالماجد دریابادی کا خاص موضوع فلسفہ ونفسیات تھا لیکن جب علامہ شبلی کی نگاہِ سیقل گر ان پر پڑی تو مولانا کا ادبی ذوق پروان چڑھنے لگا اور علم کا ذوق اتنا بڑھا کہ کوئی موضوع ان کی دسترس سے باہر نہ رہ گیا، انگریز مصنفین، آریہ سماجی مفکرین اور مستشرقین کی کتابوں کا گہرائی کے ساتھ اتنا مطالعہ کیا کہ مختلف نظریات کی کتابوں نے ان کے دل ودماغ میں ایک ہلچل پیدا کردی، عقلیت کے زور سے مذہبی نظریات کی چولیں ہل گئیں، تشکیک ولامذہبیت کا رنگ گہرا ہوتا گیا وہ خود بتاتے ہیں کہ اس وادی ظلمات سے نکلنے میں مولانا محمد علی جوہر کی بیباکانہ تنبیہ، اکبر الٰہ آبادی کی حکیمانہ تبلیغ، علامہ شبلی نعمانی کی عالمانہ تلقین نے بڑی مدد کی۔ سیرت النبیؐ کے مطالعہ اور مثنوی مولائے روم نیز ملفوظات نے تو مولانا کے دل کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی اب عبدالماجد دریابادی مسٹر کا لباس حریری اتار کر مولانا کے روپ میں جلوہ آرا ہوئے، ہاتھ میں آبدار قلم لئے، اسلام کے خلاف ہر آواز کو چیلنج کرنا اور تحریر کا جواب دینا ان کا مشن بن گیا، اندر کے منافقین ہوں یا باہر کے منکرین، ان کی تیغ سب کے لئے بے نیام تھی، جہاں سے بھی اسلامی تہذیب وثقافت، ملی افکار ونظریات پر ضرب پڑتی، برجستہ وار شروع کردیتے، خواہ یہ حملہ تجدد کی نقاب میں ہو یا ادب کی آڑ میں، اگر کوئی فریب کا لباس پہن کر آتا یا تحقیق کا نام لیکر آگے بڑھتا تو مولانا کا قلم بغیرخم ہوئے اس کی کاٹ شروع کردیتا۔
یوں تو مولانا عبدالماجد دریابادی کی صحافتی زندگی کا قصہ دوچار دس برس کی بات نہیں، پون صدی سے زیادہ کا قصہ ہے، ان کا پہلا مضمون بعمر ۹برس روزنامہ ’’وکیل‘‘ امرتسر میں شائع ہوا، دوران تعلیم اور اس کے بعد ان کے علمی وادبی مضامین اور ترجمے ’’الندوہ‘‘ ’’الناظر‘‘ ’’مشرق‘‘ ’’صبح امید‘‘ ’’العصر‘‘ ’’حقیقت‘‘ ’’معارف‘‘ ’’ہندوستانی‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ میں شائع ہوتے رہے اس آخر الذکر اخبار میں مولانا عبدالماجد نے بطور ایڈیٹر کام کیا اور ۲۱مئی ۱۹۲۸ء کی شام کو جب ہمدرد کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو انہوں نے یہ تحریر رقم فرمائی
’’آج کا ’’ہمدرد‘‘ میری نگرانی میں نکلا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ ایک روزنامہ بالکل اپنے چارج میں پارہا ہوں ، محض ایڈیٹری اور شئے ہے اور مولانا کی جانشینی کرنا کچھ اور ، سوال محض سلیقۂ تحریر وحسن وانشاء کا نہ تھا ، بلکہ اس سے بڑھ کر صحیح بصیرت اور صحیح رہنمائی کا تھا۔ اور مولانا کے یہی وہ جوہر تھے جن میں خاکسار کو ان سے کوئی نسبت نہ تھی ، اس لئے طبعی طور پر جہاں فخر ومسرت محسوس ہورہی ہے وہاں دل دھڑکتا ہے (’’مولانا محمد علی جوہر ایک عہد ساز شخصیت‘‘ از-معصوم عزیز کاظمی صفحہ ۱۳۹)
اسی زمانے میں جب مولانا دریابادی نے مولانا محمد علی کی زیرسرپرستی کام کیا تو ان کی ذہنی تربیت کے مدارج طے ہوئے۔ ’’ہمدرد‘‘ کے پاس اپنے دور کے اعلیٰ اہل قلم کا اسٹاف تھا عبدالحلیم شرر دورِ اول میں اس کے ایڈیٹر رہے، ان کے بعد قاضی عبدالغفار مرادآبادی، سید جالب دہلوی، محمد فاروق دیوانہ، احتشام الدین دہلوی اور عارف ہسولی جیسے مشاہیر’’ہمدرد‘‘ کے ادارے میں شامل رہے اور ان میں سے کئی ایک تو آگے چل کر بہت بڑے صحافی شمارہوئے جیسے قاضی عبدالغفار، سید جالب اور مولانا شرر درحقیقت مولانا محمد علی صحافت میں عقیدے ، اصول اور نظریے کے قائل تھے، وہ مقلد نہیں رہبر تھے، ان ہی تمام امتیازات کو مولانا عبدالماجد دریابادی نے بھی اپنایا، ان کی صحافت کا بنیادی عقیدہ اور نظریہ حق وانصاف کی پاسداری ، مسلمانوں کی سربلندی، عالم اسلام کی سرفرازی اور ملت کی بہی خواہی تھا، ان اصولوں سے مولانا نے زندگی بھر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ مغربیت کے شدید خلاف تھے، مغربی تہذیب کی برائیاں گنانے میں وہ اکبر الٰہ آبادی کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے، اسلامی اور مشرقی موضوعات سے انہیں گہرا شغف تھا، ان کے اندازِ بیان کی دوسری خوبی یہ تھی کہ سوانح نگاری ہو، تنقیدی مضامین ہوں یا مخصوص کالم ’’سچی باتیں‘‘، ان سے سلاست، روانی، برجستگی اور شگفتگی تحریر میں جلوہ گر نظر آتیں، وہ عربی وفارسی کے مشکل الفاظ اور اصطلاحات سے دامن بچاکر ہلکے پھلکے اور چھوٹے لیکن پرزور جملوں سے کام لیتے ۔ ہمدرد کے بعد ۱۹۳۵ء میں مولانا ماجد نے ہفت روزہ ’’سچ‘‘ لکھنؤ سے نکالا۔ اس پرچہ کو اپنی نوسالہ مختصر زندگی میں بڑی بڑی لڑائیاں لڑنا پڑیں آج اس سے جنگ ہے تو کل اس سے، یہ جنگ کبھی ادبی مباحث کو لیکر ہوتی تو کبھی مذہب وسیاست اس کے موضوعات ہوتے اور ان حضرات سے مقابلہ ہوتا جو صاحب قلم تھے او رجن کی علمی وادبی حیثیت مستند ومسلم تھی، ان میں ’’نگار‘‘ کے ایڈیٹر نیاز فتح پوری کا نام سرفہرست ہے، نیاز صاحب مذہب اور دین کے ارکان کا مذاق اڑانے میں کافی بدنام ہوچکے تھے، مولانا دریابادی ان کے نظریات کا اپنے اخبار ’’سچ‘‘ میں احتساب کرتے، جس کا ’’نگار‘‘ جواب دیتا، جواب الجواب کے اس سلسلے نے دفتر کے دفتر سیاہ کردیئے۔ ’’سچ‘‘ کی ساتویں جلد بابت ۱۹۳۱ء کے قریب قریب ہر شمارہ میں’’ نیاز اور فتنہ نگار‘‘کے عنوان سے مولانا نے خوب لکھا اور اپنے مخصوص اسلوب کے جوہر دکھائے، نیاز کی غلط تادیبوں کی گرفت کی اور ان کے نتائج سے ادبی دنیا کو باخبر کیا، نیاز فتح پوری کے خلاف یہ سلسلہ ’’سچ‘‘ کے پہلے شمارہ سے شروع ہوگیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا دریابادی غلطی ہائے مضامین خواہ وہ کسی بھی بڑی شخصیت کے ہوں برداشت نہیں کرپاسکتے تھے اور اس پر اپنے قلم سے تیشہ زنی شروع کردیتے تھے، ایسے تمام معرکوں میں انہوں نے حق وصداقت اور تہذیب متانت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دوسروں کی مناسب اور صحیح رائے کو پوری فراخ دلی بلکہ خندہ پیشانی سے مولانا تسلیم کرلیتے ، یہ معرکے ہمارے ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں، جنہیں ’’سچ‘‘ ’’صدق‘‘ اور ’’صدق جدید‘‘ کی فائلوں سے انتخاب کرکے شائع کیا جائے تو نہ صرف زبان وبیان بلکہ مختلف ومتنوع موضوعات کے رموز ونکات سے علمی وادبی دنیا مستفید ہوسکتی ہے۔
سچ کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ اس نے تعلیم یافتہ طبقہ کے دلوں سے مغربی تہذیب کی برتری کا طلسم باطل کرکے اس کی بے وقعتی اور تحقیر بٹھادی تھی۔ مولانا کی جملہ خوبیوں میں سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ وہ ہر موضوع پر قلم اٹھا سکتے تھے اور اس موضوع کے مطابق زبان نیز انداز بیان اختیار کرسکتے تھے، وہ عالمانہ اور فلسفیانہ مباحث میں عام سطح، دلچسپی اور مطالعہ کے باعث بہت اوپر اٹھ جاتے لیکن ان کے پیر زمین پر رہتے، اسی طرح وہ دیگر موضوعات پر قلم اٹھاتے تو عالمانہ سطح سے نیچے آکر سلیس، سادہ، شگفتہ اور عام فہم حسن بیان اپنالیتے، اردو ادب اور صافت کے میدان میں مولانا دریابادی اپنی انہیں خوبیوں کی وجہ سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔
مولانا نے ’’سچ‘‘ کے بعد’’صدق‘‘ اور’’صدق جدید‘‘ کے ذریعہ ہندومسلم اتحاد، قومی تحریکات سے ہمدردی۔ ردبدعات اور اصلاح معاشرہ پر دھواں دھار مضامین سپرد قلم کئے نیز تہذیب مغرب کی برائیوں کا پردہ چاک کیا، تقسیم ملک کے بعد جو افسوسناک صورت حال اردو اور مسلم اقلیت کیلئے ملک میں پیدا ہوئی اس کا مقابلہ مولانا نے نہایت پامردی کے ساتھ کیا۔بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اپنی صحافتی زندگی میں مولانا نے حق وانصاف کے لئے چومکھی لڑائی لڑی، حق گوئی وبے باکی زندگی بھر ان کا شعار رہا اس لئے اپنے اور پرائے سرکاری اور غیر سرکاری سبھی حلقے ان کا احترام کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ باون سال تک وہ اپنے ذاتی اخبار کو کامیابی ونیک نامی کے ساتھ نکالتے رہے اور اس کا معیار برقرار رکھا، یہ مولانا دریابادی کا آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل کارنامہ ہے اور اس سے ہندوستان میں اردو صحافت کا وقار ومرتبہ بلند ہوا ہے بالخصوص ان کے حکیمانہ شذرات نے کتنے ہی نو آموزوں کو نہ صرف صاحبِ طرز ادیب بنادیا بلکہ صحافت کی تاریخ میں ایک نمایاں باب کا اضافہ کیا ہے، اردو صحافت پر جو گرانقدر احسانات مولانا کے ہیں مستقبل کا مورخ ان کو فراموش نہ کرسکے گا۔

Comments are closed.