مسجد- مندر کے تنازعات عدلیہ کے ذریعہ گھیرے میں لینے کوشش جاری

جاوید جمال الدین
حال میں مہاراشٹر کے وزیراعلی ایکناتھ شندے نےاپنے عہدے کی پاسداری کو در کنار کرتے ہوئے اپنے اس فرقہ وارانہ عزم کو دوہرایا ہے کہ ممبئی کے قریبی شہر کلیان میں واقع حاجی عبدالرحمن شاہ عرف حاجی ملنگ بابا کی درگاہ کو مکتی دلائیں گے،انہوں نے ایک دبے ہوئے حساس موضوع اٹھاتے ہوئے صدیوں مزارکوملنگ گڑھ بتایا ہے،جبکہ حاجی عبدالرحمن شاہ کاسالانہ عرس 24 فروری سے شروع ہوگااورہرسال شیوسینا اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور اس بار زیادہ اندیشہ ہے،اس درمیاں ،ٹرسٹ نے انتظامیہ اور پولیس کو ایک پہاڑ پر واقع درگاہ کی سیکورٹی مزید بڑھانے کامطالبہ کیاہے۔
واضح رہے کہ بھگوا تنظیمیں حاجی ملنگ درگاہ کو مچھندر ناتھ کی سمادھی قرار دیتی ہیں اور یہاں اکثر شرانگیزی جاری رہتی ہے۔ ایکناتھ شندے نے گزشتہ روزکلیان کی حاجی ملنگ درگاہ پر ایک دیرینہ تنازعہ کو جنم دیا،جوکہ ان کے گروآنجہانی آنند دیگھے کا اٹھایا ہوا تنازع ہے۔مذکورہ مزار کلیان شہر سےجنوب میں واقع ایک پہاڑی پر واقع ہے۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں کوئی بھی معمولی تنازع ہو،ان تنظیموں اور اداروں کی کوشش ہے کہ مسجد- مندر کے کسی بھی تنازعات عدلیہ کے ذریعہ گھیرے میں لے لیے جائیں۔خصوصی طورپر اتر پردیش میں پٹارا کھول دیا گیا ہے،الہ آباد ،وارانسی،متھرا کی مقامی عدالت تو کبھی لکھنئو بینچ کادروازہ کھٹکھٹایا جاتاہے۔بابری مسجد کی اراضی کے حق ملکیت کے معاملے کے بجائے 2019 میں ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا ،کس میں یہ تسلیم بھی کیاگیاکہ اجودھیا میں بابری مسجد کی کھدائی میں قدیم مندر کے کوئی آثار نہیں ملے اور نہ کوئی ثبوت پیش کیا گیا ،لیکن پھر بھی اکثریتی فرقے کی جھولی میں متنازعہ جگہ ڈال دی گئی اور مسجد کو کوسوں دور پھینک دیاگیا۔
ملک بھر میں خصوصی طورپراترپردیش میں جگہ جگہ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ،لیکن وارانسی کی گیان والی مسجد اور متھرا شاہی عیدگاہ مسجد کے مقدمات موضوع بحث ہیں۔ابھی وارانسی کی ایک عدالت نے محکمہ آثارقدیمہ (اے ایس آئی) کی جانب سے گیان واپی مسجد کے سروے کی سائنسی رپورٹ کو عام کرنے یا اس کی کاپیاں دونوں فریقین کے حوالے کرنے کے تعلق سے فیصلہ کرنے کیلئے ۲۴؍ جنوری کا وقت طے کیا ہے۔ اس حوالے سے عدالت کا کہنا ہے کہ سول جج سینئر ڈیویژن فاسٹ ٹریک عدالت کے فیصلے کے آنے کے بعد اس معاملے پر فیصلہ سنایا جاسکے گا۔یعنی وارانسی کی عدالت نے اے ایس آئی کی جانب سے گیان واپی سروے کی داخل کی گئی سائنسی رپورٹ کو عوام میں عام کرنے یا فریقین کو اس کی کاپیاں فراہم کرنے کے تعلق سے فیصلہ کرنے کیلئے ۲۴؍ جنوری کا وقت طے کیا ہے۔ جوکہ 22،جنوری کو اجودھیا میں رام مندر میں مورتی نصب کیے جانے کے دوروز بعد مقرر کی گئی ہے۔
اس ضمن میں ہندو فریقین کے وکیل مدن موہن یادو کاکہناہے کہ ضلعی عدالت کے جج اے کے وشویس نےفیصلے کیلئے یہ تاریخ طے کی ہے۔ سماعت کے دوران اے ایس آئی کی ٹیم اور مسلم اور ہندو فریقین عدالت میں موجود تھے۔اس حوالے سے عدالت کا کہنا ہے کہ سیول جج سینئر ڈیویژن تیز رفتار عدالت کے فیصلے کے آنے کے بعد ہم اس معاملے میں فیصلہ سنائیں گےجبکہ فاسٹ ٹریک عدالت ۱۹؍ جنوری کو اس معاملے میں فیصلہ سنائے گی۔جبکہ ۱۸؍ دسمبر کو اے ایس آئی نے گیان واپی مسجد کے سروے کی سائنسی رپورٹ وارانسی عدالت میں پیش کی تھی۔ اے ایس آئی کے سروے مکمل کرنے کے بعد عدالت نے متعدد مرتبہ سروے کی سائنسی رپورٹ پیش کرنے کیلئے وقت طلب کیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ سروے اس لئے کیا جا رہا ہے تا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ گیان واپی مسجد کسی مندر پر بنائی گئی ہے یا نہیں جیسا کہ ہندو فریقین کا دعویٰ ہے۔ سروے کا حکم الہ آباد ہائی کورٹ نے دیا تھا،جبکہ مسجد کمیٹی کی مخالفت اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد کورٹ نے سروے پر روک لگانے سے انکارکر دیا تھا۔ اب 24 جنوری کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔
اتر پردیش میں ہی ایک اور مسجد – مندرتنازع میں متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد اور کرشن جنم بھومی تنازعہ سرفرست ہے ،سپریم کورٹ نے متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے آثار قدیمہ کے سروے اور اس جگہ کو شری کرشنا کی جائے پیدائش قرار دینے کی درخواست کو مسترد کر دیا، عدالت نے کہاکہ اس معاملہ میں پہلے ہی عدالت میں زیر التوا ہے۔ دریں اثنا، مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جس میں مسجد کے سروے کی اجازت دی گئی ہے۔لیکن اس جگہ کو شری کرشنا کی جنم بھومی (جائے پیدائش) قرار دینے کی درخواست کو مسترد کر دیاہے۔
جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتہ کی بنچ نے کہا کہ اس معاملے سے متعلق کیس الہ آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ بنچ نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی کی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ آپ نے اسے مفاد عامہ کی عرضی کے طور پر دائر کیا، اس لیے ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ اگر کسی اور طریقے سے دائر کیا گیا تو عدالت اس پر غور کرے گی۔اس طرح عدالت نے کچھ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے۔
بنچ نے کہا کہ اس میں دیے گئے متنازعہ حقائق پر مبنی سوالات کے پیش نظر، عدالت کے لیے اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب ہوگا۔ درخواست گزار کی طرف سے پیش وکیل نے کہا کہ پی آئی ایل کو الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ اکتوبر میں خارج کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کیس کی خوبیوں پر غور کیے بغیر پی آئی ایل کی سماعت سے انکار کر دیا گیاہے۔درخواست گزار مہک مہیشوری کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا کہ پی آئی ایل 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون کی درستگی کو بھی چیلنج کرتی ہے۔ اس قانون کے مطابق 15 اگست 1947 سے پہلے وجود میں آنے والے کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ایک سے تین سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔
مہیشوری کی درخواست میں دلیل دی گئی کہ مختلف متن میں اس جگہ کو شری کرشن کی جائے پیدائش بتایا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ مناسب مسجد نہیں ہے کیونکہ اسلامی فقہ زبردستی قبضے کی زمین پر مسجد کو مقدس نہیں مانتی، جب کہ ہندو فقہ مندر کا احترام کرتی ہے، چاہے وہ کھنڈر ہی کیوں نہ ہو۔ مہیشوری نے کہا، ‘مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے شاہی عیدگاہ مسجد کو منہدم کر کے وہ زمین ہندوؤں کے حوالے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ زمین پر مندر کی تعمیر کے لیے کرشنا جنم بھومی جائے پیدائش کے لیے ایک مناسب ٹرسٹ تشکیل دیا جانا چاہیے۔‘‘
دوسری طرف، مسجد کمیٹی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے حالیہ حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے متھرا میں کرشنا جنم بھومی مندر سے متصل شاہی عیدگاہ کے عدالت کی نگرانی میں سروے کرنے کی اجازت دی تھی۔ گزشتہ سال 14 دسمبر کو ہائی کورٹ نے مسجد کمپلیکس کے سروے کی نگرانی کے لیے ایک ایڈوکیٹ کمشنر کی تقرری پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ کیس میں ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ ایسی نشانیاں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ کبھی ہندو مندر تھا۔لیکن کوئی ثبوت پیش کرنے سے فریق قاصر ہے جبکہ عیدگاہ اور مسجد کئی صدی سے یہاں برقرار ہے۔
ہم سب یہ جان چکے ہیں کہ مرکز میں بی جے پی کے 2019 میں نریندرمودی کی قیادت میں دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد حالات یکسر بدل گئے،ارباب اقتدار نے اپنی ہمنوا تنظیموں اور جماعتوں کے حوصلے بلند نظرآتے ہیں۔اوران تنظیموں کو شہ دے کرجگہ جگہ مسجد- مندر تنازعات میں عدلیہ کا سہارا لینے کابھی بھر پور منصوبہ تیار کیا گیا اور اس پر عمل آوری جاری ہے۔
[email protected]
9867647741
Comments are closed.