سی اے اے اور پاکستان کی جاسوسی کا خطرہ

ڈاکٹر سلیم خان
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ جب بھی مغربی بنگال میں جاکر یہ دیکھتے ہیں کہ اگلی بار وہاں بی جے پی کا سُپڑا صاف ہوجائے گا تو انہیں سی اے اے کی یاد آجاتی ہے اور وہ بنگلادیش سے ریاست میں آکر بسنے والے ہندووں کو خوش کرنے کے لیے یہ اعلان کردیتے ہیں کہ سی اے اے یعنی شہری ترمیمی قانون کو نافذ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ امیت شاہ نے نومبر اوراس کے دسمبر میں بھی یہ اعلان کیا۔ اس دوران ان کی اپنی ریاست گجرات میں انہیں کی وزارت کے تحت کام کرنے والے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے پاکستانی شہریت چھوڑ کرہندوستانی شہریت حاصل کرنے والے ایک شخص کو ’پاکستان کے لیے جاسوسی‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔یہی وجہ ہے شاید کہ وہ اپنے گجرات میں اس طرح کا بیان نہیں دوہراتے۔ گجرات میں پکڑے جانے والے جاسوس کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔ پولیس کے مطابق لابھ شنکر مہیشوری پاکستان کے خفیہ ایجنٹوں کوہندوستانی فوج کے بارے اہم معلومات فراہم کرنے میں مبینہ طور پر مدد کر رہا تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہاں سے آنے والوں کی اپنے سابقہ ملک کے ساتھ وفاداری ختم نہیں ہوتی اور وہ ان سے جاسوسی تک کروا دیتی ہے۔
لابھ شنکر کی گرفتاری کے بعد انسداد دہشت گردی سکواڈ نے الزام عائد کیا کہ مہیشوری نے پاکستانی ایجنٹوں کو مبینہ طور پر ایک انڈین سم کارڈ فراہم کرنے میں مدد کی تھی اور اس کی مدد سے ایجنٹ انڈین فوج کے عملے کے بارے معلومات حاصل کر رہے تھے۔ حکام نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مہیشوری نے یہ سم کارڈ پاکستانی ایجنٹوں کو اپنے انڈیا میں مقیم بعض رشتے داروں کو پاکستان کا ویزا دلانے کے عوض فراہم کیا تھا۔ 53 سالہ مہیشوری پاکستان کے صوبہ سندھ کے رہنے والے ہندو نے گجرات کے آنند قصبے میں واقع تارا پور گاوں میں شادی کی اور 1999 میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ طویل مدتی ویزے پر ہندوستان آگیا۔ چوبیس سالوں تک ہندوستان میں رہنے کے باوجود اس کے دل سے پاکستان کی محبت نہیں نکلی اور وہ جاسوسی کے معاملے میں ملوث ہوکر گرفتار ہوگیا۔ فی الحال حکومت ہند پاکستانی ہندووں کو ویزا دلانے کی بابت خاصی محتاط ہے اس لیے ہزاروں کی درخواست منظوری کی منتظر ہے۔ اس معاملے میں اگر سی اے اے کے تحت نرمی کی گئی تو اس سے بی جے پی کچھ ووٹ تو مل جائیں گے لیکن یہ قومی سیکیورٹی کا خطرہ بن جائے گا۔
ویسے بھی میڈیا میں وقتاً فوقتاً ہندوستانی فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں کے پاکستان کی خاطر جاسوسی کے واقعات شائع ہوتے رہتے ہیں اوراس پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔ گزشتہ دو سالوں کے اندر ایسی کئی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی ہیں ۔امسال مئی( 2023) میں ہندوستان کے دفاعی ادارے ڈیفینس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے ایک سائنسدان کو مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس پرنے ایک پاکستانی ایجنٹ کو حساس معلومات فراہم کرنے کا سنگین الزام تھا۔ اتفاق سےیہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو ہندوستان کے اندر ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے موجود تھے۔ ڈی آر ڈی او کے اس سینئر سائنسدان کا نام پردیپ کورولکر بتایا گیا تھا ۔ 1985 میں الیکٹریکل انجینئرنگ کی بیچلر ڈگری لینے کے بعد 1988 میں وہ ڈی آر ڈی او سے منسلک ہوئے۔ اس دوران انہوں نے ڈرائیوز اور ایپلی کیشنز پر کام کرنے کے ساتھ آئی آئی ٹی کانپور سے اعلی درجے کی پاور الیکٹرانکس کورس کا کام بھی مکمل کیا۔
پردیپ کرولکر کو دفاعی شعبے میں سب سے زیادہ قابل سائنسدان سمجھا جاتا ہےاور نومبر میں وہ ریٹائر ہونے والے تھے مگر ریاستِ مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) کے ہتھے چڑھ گئے ۔ شیوسینا نے ان پرآر ایس ایس سے تعلق کا بھی الزام لگایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں جاسوسی کرنے والے کو گرفتار کرنا اور باہر اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے کو چھڑانے کی کوشش کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ قطر کے لیے اسرائیل ویسا ہی دشمن ہے جیسے ہندوستان کی خاطر پاکستان ہے۔ جون 2022 میں مہاراشٹر کی پڑوسی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں پولیس نے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ لیبارٹری میں کام کرنے والے ایک انجینیئر کو حساس معلومات فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا ۔ پولیس کے مطابق 29 سالہ ملک ارجن ریڈی ڈی آر ڈی ایل میں ایک کانٹریکٹ ملازم کے طور پر فروری 2020 سے کام کر رہاتھا، اس دوران وہ جاسوسی میں ملوث ہوگیا۔
ملک ارجن کو پھنسانے کا طریقہ نہایت دلچسپ تھا۔ مارچ 2020 میں ریڈی کو فیس بک پر ایک خاتون کی طرف سے فرینڈ ریکوئسٹ موصول ہوئی۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانے والی خاتون نے دفاعی امور کے ایک جریدے کی ملازم کی حیثیت سے نتاشا راؤکے طور پر اپنا تعارف کرایا ۔اس نے بتایا کہ وہ ہندوستانی فضائیہ کےسابق افسر کی بیٹی ہے جو بعد میں برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔ا س کے بعد مبینہ جاسوسہ نے ہندوستان کے جوہری صلاحیت سے بھرپور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل اور آبدوز سے مار کرنے والے میزائلوں کے بارے میں معلومات طلب کی ۔اس بابت ملک ارجن ریڈی نے خود تسلیم کیا کہ اس نےشادی کے وعدے پر زمین سے زمین پر مار کرنے والے اگنی میزائلوں میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کی معلومات شیئر کی تھیں۔ ’کے سیریز‘ کے 3500 کلومیٹر سے 6000 کلومیٹر رینج تک کے انڈین نیوی کی جوہری صلاحیت کے حامل بیلسٹک میزائل آبدوزوں کی تفصیلات اس نے اپنی فیس بُک دوست کو بھیجی تھیں۔ اس کے جرم کا یہ جواز بھی اخبارات میں چھپا کہ وہ بیچارہ غیر شادی شدہ تھا۔ تنہائی کے کرب نے اسے یہ کرنے پر مجبور کردیا ۔ اس کے ہندو ہونے نے اسے ہمدردی کا مستحق بنادیا ورنہ اگر سکھ ہوتا تو خالصتانی اور مسلم ہوتا ملک کا ازلی دشمن قرار دے دیا جاتا۔
مندرجہ بالا دو واقعات تو سائنسدانوں کے تھے مگر فوج کے اہلکار بھی اس بیماری سے محفوظ نہیں ہیں ۔ جاسوسی کے ان واقعات میں چونکہ غیر مسلمین ملوث تھے اس لیے ہندوتوانواز میڈیا اس پر ہنگامہ آرائی نہیں کرسکا مگر ستمبر 2022 میں ایک مسلمان جاسوس کا معاملہ بھی منظر عام پر آیا اور اس پر بھی ذرائع ابلاغ گونگا بہرہ ہوکر بیٹھ گیا ۔ اس منفرد اور غیر معمولی میں ایک جاسوس کو سپریم کورٹ نے 10 لاکھ روپئے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ ان ہمسایہ ممالک میں ایک دوسرے کے لیے جاسوسی کے الزامات کے تحت گرفتاریاں عام ہیں مگر عدالت کی جانب سے کسی شخص کو معاوضہ دینے کا حکم پہلی بار ہوا تھا ۔اس لیے اسے میڈیا میں زیر بحث آنا چاہیے تھا مگر وہ بیچارہ مدن موہن تیواری کے بجائے محمود انصاری نکل گیاورنہ اس کی خوب پذیرائی ہوتی۔ مسلمان ہونے کے سبب وہ کہانی دب گئی۔ محمود انصاری کو 1970 کی دہائی میں ایک ہندوستانی خفیہ ایجنسی نے جاسوسی کی غرض سے پاکستان بھیجا تھا جہاں وہ پکڑے گئے اور انھیں 14 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔ فی الحال جس طرح قطر سے مبینہ جاسوسں کو واپس لانے کی کوشش ہورہی ہے ویسا معاملہ محمود کے ساتھ نہیں ہوسکا ۔ ویسے ان کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔
محمود انصاری کےذریعہ سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ کے مطابق جس وقت وہ ریلوے پوسٹل سروس میں ملازم تھے انہیں سپیشل بیورو آف انٹیلی جینس نے پاکستان جا کر جاسوسی کرنے کی دعوت دی اور اس مقصد کے لیے حکومت کے خفیہ محکمے کی درخواست پر وہ کوٹہ سے جے پور منتقل کردیئے گئے۔ 1976 میں دو مرتبہ وہ پاکستان کے ’خفیہ مشن‘ میں انہوں نے کامیابی حاصل کی مگر تیسرے سفر سے لوٹتے ہوئے گرفتارہوگئے کیونکہ ان کا گائیڈ غالباً ڈبل ایجنٹ تھا۔ 1978 کے اندر محمود کو جاسوسی کے الزام میں ان کو سزاہو گئی۔ گرفتاری کے بعدتقریباً دو سال تک ان کے اہل خانہ سمجھتے رہے کہ وہ کسی حادثے کا شکار ہو گئے ہیں ۔اس وقت مدد کے لیے افسران سے گہار لگائی گئی تو انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے مگر اشارے میں کہا کہ وہ واپس آجائیں گے۔ اس دوران سارا سازو سامان بک گیا اور ان کی اہلیہ سلائی کرکے یا سبزی بیچ کر گھر چلاتی رہیں۔
محمود انصاری نے قید کے دوران موقع پاکر پوسٹل سروس، خفیہ محکمہ اور اپنی اہلیہ کو اپنے حالات سے مطلع کردیا ۔درمیان میں کویت کے اندر مقیم اُن کے ایک رشتہ دار نے لاہور ہائیکورٹ کے اندر بے گناہی کا دعویٰ کرکے رہائی کی درخواست دائر کی اور 1987 میں انھیں رہا کی گیا۔ 1989 میں وطن واپسی تک وہ ہندوستانی سفارتخانے میں مقیم رہے۔ کوٹہ پہنچنے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ ان کو ’26 نومبر 1976 سے طویل غیر حاضری کے الزام میں‘ ملازمت سے برخاست کیا جاچکا ہے۔کافی مشقت کے بعد ان کو دو صفحات پر مشتمل ملازمت کے خاتمے کا جو کاغذ ملا اس پر درج تفصیلات پڑھی نہیں جاتی تھیں۔اس دوران خفیہ ادارے کا وہ افسرفوت ہوگیا جو محمود کے رابطے میں تھا۔ مختلف محکموں میں مقدمہ بازی کے بعد 2017 کے اندر انہوں نے راجستھان ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو ان کی درخواست ’دائرہ اختیار اور مقدمہ دائر کرنے میں تاخیر‘ کی بنیاد پر خارج کر دی گئی۔اس کے بعد وہ سپریم کورٹ پہنچے جس نے تین ہفتے کے اندر انصاری کو 10 لاکھ روپے کی رقم ادا کرنے کا حکم تو دیا مگر ان کے جاسوسی کی غرض سے پاکستان جانے کے دعوے کو مسترد بھی کیا۔ محمود انصاری نے اس فیصلے کو انصاف کی جیت قرار دیا تھا ۔یہ حسن اتفاق ہے کہ موجودہ دیش بھگت حکومت محمود انصاری جیسے لوگوں کو شہریت سے محروم کرکے لابھ شنکر مہیشوری جیسی کالی بھیڑوں کو ملک کا شہری بنانا چاہتی ہے۔
Comments are closed.