مدارس پاکیزہ ذہنی و فکری اور روحانی تعلیمات کی درسگاہیں ہیں

مولانا رضوان احمد ندوی
مدارس دینیہ دنیا کے سارے مسلمانوں کے لئے مینارہ ہدایت رکھتے ہیں، یہ جہاں علم وفن کا گہوارہ ہیں، وہیں یہ دعوت فکر ونظر کو نئی جہت ووسعت عطا کرنے والے منبع وسرچشمہ بھی ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں انہیں مدارس سے دین کے ایسے ایسے مجاہد وداعی پیدا ہوئے جنہوں نے مذہب کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنوں کا مقابلہ کیا اور مذہب اسلام کی حقانیت کو دلائل کے ذریعہ روشن وتابناک بنایا، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت اور ان کو دین پر باقی رکھنا دشوار ہو جاتا، اسلئے حضرت مولانا سید ریاست علی ندوی نے لکھاہے کہ قوموں کے عروج اور ترقی میں ان مدرسوں کی بڑی اہمیت ہے، قومیں افراد سے بنتی ہیں اور افراد کی ان کے بچپن ہی سے ذہنی، اخلاقی وروحانی تعلیم وتربیت مدرسوں ہی کے ذریعہ انجام پاتی ہے، اسلئے اگر مدرسے پاکیزہ، ذہنی، اخلاقی اور روحانی تعلیمات کی درسگاہوں گے توان سے ایسی قوم تیار ہوگی جو زندگی کی صحیح شاہراہ پر چل کر اپنے وجود سے دنیامیں انسانوں کے مقصد تخلیق کو پورا کرے گی(اسلامی نظام تعلیم، ص:۴۶)
انہیں بنیادوں پر ہندستان کے چپہ چپہ میں درجن بھر عربی درسگاہیں قائم ہیں، جن کے نور سے جہالت وبے دینی اور ظلمت وتاریکی کے بادل چھٹ رہے ہیں۔
مولانا وارث مظہری نے مجلہ ترجمان دار العلوم کے اداریہ میں مدارس کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ ’’ہندستان میں مدارس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی ہندستان میں سیاسی اور معاشرتی سطح پر مسلمانوں کا وجود تاہم اس کی باضابطہ ابتدا قطب الدین ایبک کے عہدے سے ہوتی ہے۔ مسلم بادشاہوں نے اپنے ادوار حکومت میں جن چند بنادی امور پر توجہ دی ان میں مدارس کا قیام بھی ہے۔ مسلم بادشاہوں کی اس سے دل چسپی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک عرب سیاح ومؤرخ القلشقندی کے مطابق، سلطان محمد بن تغلق کے عہد میں صرف دہلی میں ایک ہزار مدارس پائے جاتے تھے۔ (صبح الاعمش ابو العماس القلشقندی:۵؍۶۹)
انگریز سیاح ہملشن نے اورنگ زیب کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ صرف ایک شہر میں ۴۰۰؍مدارس تھے‘‘ شمس الدین التمش (وفات ۱۲۳۶ء) محمد بن تغلق (وفات۱۳۵۱) فیروز شاہ تغلق (وفات۱۳۸۸) اسی طرح خلجی سلاطین (۱۵۳۱ء) -۱۴۳۶ء) کے عہدہائے حکومت میں باتفاق مؤرخین لاتعداد مدارس قائم کئے گئے۔ اس ذیل میں سلطان سکندر لودھی کانام بھی مؤرخین نے خصوصیات کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مسلم بادشاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں نیز نوابوں اور جاگیر داروں کے ذریعہ مدارس کے قیام وسرپرستی کا سلسلہ آخری مغل حکمراں بہادر شاہ ظفر (وفات۱۸۶۲ء) کے دور حکومت تک بالفاظ دیگر ۱۸۵۷ء کے انقلاب تک جاری رہا۔ مغل حکمرانوں میں خاص طورپر اکبر کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس نے مدارس کے علاوہ کتب خانے بھی کھولے اور مدارس کے نصاب میں توسیع کرکے اس میں نئے علوم ومضامین کا اضافہ کیا، اسی کے ساتھ غیرمسلموں کے لئے اس نے الگ سے بھی مدارس قائم کئے تاہم حقیقت یہ ہے کہ عہدہ وسطیٰ کے ہندستان میں بکثرت غیر مسلم ہندستانی باشندوں کی بالخصوص تعلیم کابھی ایک اہم ذریعہ یہ مدارس ہی تھے۔ اس کے ثبوت واضح طورپر ملتے ہیں۔ ان مدارس کے فارغین ہندوؤں میں سے باکمال لوگ اہم حکومتی عہدوں پر بھی فائز ہوتے تھے۔ خاص طورپر دور مغلیہ میں اکبر کی سرپرستی میں جو نظام تعلیم رائج ومستحکم ہوا اس میں اسکی کافی ووافر گنجائش تھی۔ مدارس میں ہندوؤں کے پڑھنے کی روایت دور آخر تک قائم رہی، اس کا اندازہ اس مثال سے کیا جاسکتا ہے کہ راجہ رام موہن رائے (۱۸۳۳ء) جنہوں نے ہندو معاشرے کی اصلاح کی زبردست تحریک چلائی وہ ایسے ہی ایک مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے خود دار العلوم دیوبند جو ہندستان میں ۱۸۵۷ء؁ کے بعد ’’خالص‘‘ دینی مدارس کی تحریک کی بنیاد اور سرچشمہ ہے میں ابتدا میں ہندو بچے بھی پڑھتے تھے۔ (تاریخ دار العلوم دیوبند،جلد:۱، ص:۱۹۴) بر صغیر ہند میں تعلیمی تفریق (دینی ودنیاوی انگریزوں کی دین ہے۔ اس کے بعد صورت حال بلاشبہ مختلف ہو گئی لیکن اسے مسلمانوں کے عہدہائے گذشتہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ان عہدوں میں بنیادی طورپر اسی دھارے نے پورے ملک کو سیراب کیا خاص طورپر اعلی تعلیم کے تعلق سے یہی ادارے ملک میں عمومی سطح پر تعلیم کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنے عہد ماضی کے حکمرانوں نے جس طرح یونان کے مردہ اور مدفون علوم کو نئی زندگی بخشی، انہیں پھیلایا، عام کیا، ان میں اضافے کئے تاآں کہ یہ علوم یورپ پہنچ کر یورپ کی نشأت ثانیہ کا باعث بنے۔ اسی طرح متوارث ہندی علوم کی سرپرستی بھی انہی مدارس کے توسط سے ہوئی دوسری طرف دنیاکی دوسری قوموں اور ملکوں کے درمیان علمی وثقافتی تبادلے کا ذریعہ وواسطہ یہی مدارس بنے۔ عہد اکبری (عہد مامونی کی طرح ہندوؤں کی مذہبی اور ادبی کتابوں کے جو ترجمے سنسکرت اور ہندوستان کی دوسری زبانوں سے فارسی میں ہوئے۔ اس کو انجام دینے والے کوئی دوسرے نہیں انہی مدارس کے فیض یافتگان تھے (ماخوذ ترجمان دار العلوم دیوبند، شمارہ نمبر:۱؍ستمبر۲۰۰۵)
کیونکہ یہاں کے تربیت یافتہ فضلاء مسجدوں کے منبر ومحراب سے دعوت حق کی صدا لگاتے ہیں اور مسلمانوں کے اندر دینی حمیت وغیرت کو ابھارتے ہیں، ماضی سے تاحال ان مدارس کے ذریعہ جس طرح بدعت والحاد کا قلع قمع ہوا اور ہو رہا ہے اس کی چند جھلکیاں یہاں پیش کی جارہی ہیں:
(۱) ملک میں عرصہ سے ہندو مسلمان ایک ساتھ رہتے سہتے آرہے ہیں، اس مخلوط معاشرہ کے باعث مسلمانوں کے اندر بھی ہندوانہ رسم ورواج ومشرکانہ اعمال داخل ہونا شروع ہو گیا حتی کہ طرز معاشرت کا رنگ ڈھنگ بدل گیا، چنانچہ ان مدارس کے علماء واصحاب فکر ونظر نے مسلمانوں کو اسلامی تہذیب وثقافت سے آشنا کیا اور جن گھروں میں دیومالائی رسمیں جاری تھیں ان کے نقائص وقباحت بیان کرنے کے بعد اسلامی طرز معاشرت کو اختیار کرنے پر توجہ دلائی جس کے خوشگوار اثرات مسلم معاشرہ پر پڑے۔
(۲) ۱۸۵۷ء؁ کے بعد اس ملک میں انگریزی تہذیب کا غلبہ ہوا، اس نے طاقت اور اقتدار کے نشہ میں چور ہوکر مغربی کلچر کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے لئے پوری توانائی صرف کردی جس کے اثرات سادہ لوح مسلمانوں پر پڑنے لگے، اس صورتحال کو بدلنے کے لئے انہیں مدارس کے اصحاب بصیرت علماء میدان عمل میں اترے اور مسلمانوں کو فرنگی تہذیب کے مصائب سے واقف کردیا، ان بزرگوں کی کوششوں کے نتیجہ میں سیلاب بلاخیر کے سوراخ بن ہوئے جس کے باعث انگریز حکومت اپنی تہذیب کو مسلمانوں میں مقبول عام بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
(۳) انگریزوں نے غریب مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے مسیحی پادریوں کو آلہ کار بنایا، ان پادریوں نے ملک کے بعض خطوں میں مسلمانوں کو ان کے اپنے مذہب سے دور کرنے کی کوششیں شروع کیں، ان فتنہ کو روکنے کے لئے اسی مدارس کے صاحب فکر ونظر علماء سینہ سپر ہوگئے، پورے ملک کا دعوتی دورہ کیا اور جہاں جہاں مسلمان اس کے شکار ہو رہے تھے ان کے سامنے اسلامی حمیت کو بیدار کیا اور کہنا چاہئے کہ مسلمان اس فتنہ ارتداد سے محفوظ ہوئے۔
(۴) ملک کے مختلف دینی علاقوں میں اریائی سماج نے غیرمسلموں کی معاونت وحمایت میں مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لئے شدھی تحریک چلائی جو ایک بڑے فتنہ کی شکل میں نمودار ہوئی، بعض ہندو سبھا کے لیڈروں نے اعلان کیا کہ اگر مسلمان سمجھانے بجھانے اور نرمی وآشتی سے شدھ نہ ہوئے تو جبر وقوت سے ان کو ہندو بنایا جائے گا، اس کے خلاف اصحاب مدارس اٹھ کھڑے ہوئے اور پورے ہندستان میں پھیل گئے اور دعوت وتبلیغ کے ذریعہ لڑکھڑاتے مسلمانوں کے قدموں کو جمایا اور ان کے ایمان ویقین میں پختگی پیدا کی۔
(۵) انگریزوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسلامی شعائر کو نشانہ بنایا اور مسلمانوں میں ہی کچھ ایسے لوگوں کو کھڑا کردیا جو بظاہر اسلام کا نام لے کر اسلام ہی کے شعائر اور مذہبی اعتقادات پر ضرب لگاتے تھے، علماء دین اس کے خلاف سینہ سپر ہوگئے اور اسلامی شعائر کی اہمیت سے مسلمانوں کو واقف کرایا بزرگان دین کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ انگریز اپنے مقصد وتدبیر میں کامیاب نہ ہو سکے۔
(۶) جب انگریزوں کے سارے حربے بے کار ثابت ہوتے رہے تو اس نے مغربی مصنفین سے اسلام کے خلاف کتابیں اور مضامین لکھوانے شروع کئے تاکہ مسلمان کا عقیدہ توحید متزلزل ہو جائے ان کے اس باطل نظرے کے خلاف اکابر علماء مدارس نے تحریر وتقریر کے ذریعہ جواب دیا، کتابچے اور رسائل طبع کرائے، اللہ کے فضل وکرم سے ان علماء کی کاوشوں کے نتیجہ میں مسلمانوں کا نور ایمان محفوظ رہا۔
(۷) مدارس دینیہ کے فضلاء اور اصحاب علم وفضل سے ہی ہماری مسجدیں آباد ہیں، شہر سے لے کر دیہات وقصبات تک جس قدر لوگ اسلام سے آشنا ہیں سب انہیں مدارس کا فیض ہے، ان مدارس سے علم دین کا جو نور پھیلا اس سے معاشرہ بدلا اور مسلمانوں میں اسلامی حیات کے آثار نمایاں ہوئے ۔
(۸) اردو زبان ہمارا ملی وتہذیبی ورثہ ہے، اسلامی علوم کی مختلف شاخوں میں بہت بڑا تصنیفی ذخیرہ اردو میں ہے جو اردو وفارسی کے علاوہ اور کسی زبان میں نہیں مل سکتیں، اسلئے تہذیبی حیثیت سے مسلمانوں کو اس سے جذباتی لگاؤ بھی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی زندگی میں تہذیبی اثاثہ کی حفاظت اس کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے اور اللہ کا فضل وکرم ہے کہ مدارس کے ذریعہ اس کی حفاظت وصیانت کا بڑا کام انجام پارہا ہے ۔
(۹) اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں مدارس کے ذریعہ نئی نسل کے دین وایمان کی حفاظت ہوتی ہے اگر مدارس نہ ہوں تو ہمارے بچے اپنی تہذیبی ثقافت کھو بیٹھیں گے اور ارتداد کی راہ پر چل پڑیں گے جس سے نسلیں تباہ ہوں گی، اسلئے بچوں کے تعلیمی مستقبل کے بارے میں ارباب مدارس فکر مند رہتے ہیں۔
(۱۰) نئی قومی تعلیمی نے ملک کے سیکولر ڈھانچہ کو متزلزل کردیا ہے اس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو اسلامی زندگی سے دور کردیا جائے، اکابر علماء مدارس کی توجہ دلانے کے باوجود مرکزی حکومت اصلاح وترمیم پر توجہ نہ دی تاہم علماء نے ملک گیر سطح پر ابتدائی دینی تعلیم کے لئے مکاتب کے قیام کی تحریک چلائی۔
حالات متقاضی ہیں کہ یہ مدرسے جہاں بھی ہوں ان کو سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اس لئے مسلمان ان مدارس اور دینی درسگاہوں کی قدر وقیمت کو محسوس کریں اور اس کی ترقی واستحکام میں ہرممکن طریقے سے جدوجہد کریں اور آج کے پرفتن دور میںان مدارس کی قدرو قیمت بڑھ جاتی ہے جہاں آئے دن اسلام اور اسلامی شعائر کو مٹانے کی تحریکیں اٹھتی اور ابھرتی رہتی ہیں، یہ دینی مدارس ہی ہیں جو زبردست دفاع اور نگہبانی کا کام کر رہے ہیں، دینی مدارس کی برکت سے یہاں اسلام زندہ اور تابندہ ہیں، اسپین پر صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی مگر جیسے ہی حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلی وہاں سے مسلمانوں کا وجود ختم ہو گیا، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں دینی مدارس کا کوئی نظام نہ تھا، اللہ کے فضل وکرم سے ہمارے ملک میں مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے جس کی حفاظت ونگہداشت کی ذمہ داری امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہے، اس لئے جس جگہ مکاتب ومدارس قائم نہیں ہیں وہاں اس نظام کو رائج کریں، دینی تعلیم کی تحریک چلائیں اور ہر مسجد کو تعلیم کا مرکز بناکر بچوں کی دینی واخلاقی تربیت سے آراستہ کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہمارا کوئی گاؤں اور محلہ معیاری مکتب سے خالی نہ ہو ؎
مشکلیں کچھ بھی نہیں عزم جواں کے آگے
حوصلے آہنی دیوار گرا دیتے ہیں
قدیم زمانے میں تعلیم کے لئے مساجد کو مرکز بنایا جاتا تھا، ان کے وسیع صحن کے دائیں بائیں کمرے بنوائے جاتے تھے، جو تعلیم گاہ بھی ہوتے تھے اور طلبہ کے لئے اقامت گاہ بھی- آج بھی ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ مساجد کو تعلیم وتعلم کا مرکز بنایا جائے۔

Comments are closed.