فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور بربریت

عالم انسانیت کی شرمناک خاموشی اور عالم اسلام کی مجرمانہ بے حسی
محمد عبدالحلیم اطہر سہروردی
صحافی و ادیب،،گلبرگہ،حال مقیم ریاض، سعودی عرب
8277465374گلبرگہ، 0532018531ریاض
حماس کے ملٹری ونگ نے اسرائیل کے خلاف آپریشن الاقصی طوفان کا اعلان کرتے ہوئے 5 ہزار راکٹ فائر کیے۔جس کے بعد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان شدید جنگ چھڑ گئی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ذریعے اسرائیل پر زمین، سمندر اور فضا سے اچانک زبردست حملے کیے گئے جس میں صیہونی فوجیوں سمیت ہزاروںاسرائیلی ہلاک اورزخمی اور سیکڑوںیرغمال بنالیے گئے ہیں،غزہ سے راکٹ حملوں کے بعد اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب سمیت پورے اسرائیل میں جنگ کے سائرن گونج اٹھے۔دوسری طرف غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں ہزاروںفلسطینی بھی جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں ، جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اعلان کردیاکہ ”ہم حالت جنگ میں ہیں۔” انہوں نے وارننگ دی کہ ”حماس ایسی قیمت چُکائے گا، جس کا اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔” چنانچہ اسرائیلی فوج نے اپنے ہزاروں رضاکاروں کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا ہے اور وہ غزہ میں زمینی کارروائی کر رہے ہیںاور جارحیت و بربریت کی تمام حدوں کو پار کردیا ہے،،امریکہ نے بھی اپنا بحری جنگی بیڑہ اسرائیلیوں کی مدد کیلئے بھجوایا ہے؛حالانکہ افرادی قوت اور جنگی سازو سامان کی پہلے کون سا کوئی کمی ہے۔کہا جاتاہے کہ1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد حماس نے اسرائیل کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ ہزاروںاسرائیلی ہلاک اور زخمی ہوئے، اورسینکڑوں گرفتار بھی ہوئے ہیں۔الغرض فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان یہ سب سے زیادہ پرتشدد اور کشیدہ صورتحال قرار دی جا سکتی ہے، بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطین اور اسرائیل کے درمیان خطرناک جنگ چھڑ گئی ہے۔7اکتوبر سے اس مضمون کے لکھے جانے تک 24ہزار سے زائدفلسطینی شہید ہوچکے ہیں ، جن میں 70فیصد خواتین اور بچے ہیں، 10ہزار کے قریب بچے شہید ہوئے ہیں اور 60ہزار سے زائدفلسطینی مرد و خواتین اور بچے زخمی ہوئے ہیں،ان درندوں نے گھروں سمیت ہسپتال،مساجد،اسکول، مدرسہ سبھی کو اپنی درندگی کا شکار بنایاشہر وںکو کھنڈر بنادیا، اس کے باوجودفلسطینی مجاہدین اسرائیل کو مسلسل منہ توڑ جواب دے رہے ہیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیںاور ابھی بھی ان کے حوصلہ بلند ہیں ،تازہ ترین صورتحال یہ ہیکہ دنیا کے بڑے بڑے مہذب لوگ اقوامِ متحدہ میں اکھٹے ہو کر ابھی تک فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کر سکے،اس معاملہ میں عالم انسانیت کی شرمناک خاموشی اور عالم اسلام کی مجرمانہ بے حسی نے فلسطینیوں کی مشکلات میں بے حد اضافہ کیا ہے۔
فلسطینی مجاہدین کے مقابلہ اور حملوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر جذبہ ایمانی پختہ ہو تو تعداد اور ہتھیاروں کی برتری اور سپر پاور سسٹم کوئی حیثیت نہیں رکھتے،فلسطین و غزہ کے مجاہدین کو معلوم تھا کہ اسرائیل پر حملہ کریں گے تو جوابی کارروائی ضرور ہو گی اور بہت شدت سے ہو گی،جنازے اٹھانے پڑیں گے،ہنستا بستا شہر ملبوں کا ڈھیر بن جائے گا،مگر پھر بھی انہوں نے قبلہ اول مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لیے ساری قربانیاں قبول کیں، ان کا یقین تھا کہ صرف حرارت ایمان کو تروتازہ کرنے کی ضرورت ہے،باطل قوتیں خود بخود گھٹنوں پر آ جائیں گی،وقت نے دکھایا کہ فلسطینیوں کی جذبے، ہمت، عزم اور غیرت سے لبریزحالیہ الاقصیٰ طوفان سے موسوم کارروائی اور اس کے بعد سے مسلسل طویل مزاحمت اور مقابلہ انہی جذبوں کی زندہ تصویر نظر آ رہی ہے کہ کیسے دنیا کے بڑے بڑے ہتھیار اور ترقی کے رتھ پر براجمان ظالم ریاست اور اس کے ہمنواؤں کے خلاف ساز و سامان کی کمی والے نوجوان دلوں میں عشقِ نبی ﷺ کی شمع کو روشن کیے ٹوٹ پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے باطل کے سارے غرور کو خاک میں ملا ڈالا، اس بات کا یقین کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے لہٰذا اس سے لڑنا اور جنگ آزما ہونا موت کے مترادف ہے، حماس نے کمال دلیری سے اس خیال کو پارہ پارہ کرکے دکھا دیا ہے ۔واضح رہیکہ ڈھائی ہزار سال سے یہ قوم پوری دنیا میں حکومت کا خواب دیکھ رہی ہے،یہودی لیڈروں کا کہنا ہے اب اس خواب کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ یہ یروشلم اور مسجد اقصی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے اس جگہ پر ڈھائی ہزار سال پہلے عظیم الشان سلیمانی مندر تھا۔ یہ اس مندر کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ یہ بدبخت کہتے ہیں اسے رومن بادشاہ نے تباہ کردیا تھا۔ یہ کہتے ہیں جب تک ہیکل سلیمانی قائم نہیں ہوگی یہودیوں کی بادشاہت قائم نہیں ہوسکتی۔ اس ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنا ہر یہودی کا خواب ہے۔امریکی یہودیوں کے ساتھ مل کر دولت، طاقت، صلاحیت ہر چیز وہ اس میں صرف کرتے ہیں۔ یہ مسجد اقصی کو شہید کرنا چاہتے ہیں۔اور ان کا ماننا ہے کہ مسجد اقصی کی شہادت کے بعد آسمان سے ہیکل سلیمانی کا نقشہ اترے گا۔ اور مسجد کی جگہ لے لے گا اور دوہزار برس یہودیوں کی عظمت کا دور ہوگا۔اور مسلمانوں کا زوال شروع ہوگا۔وہ دنیا کی بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔آئے دن یہ حملے کرتے ہیں۔خواتین ،بچوں کو، جوانوں کو شہید کرنا، جھگڑا فساد یہ ان کا معمول ہے۔
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ہجرت نبوی کے بعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسجد اقصٰی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے ۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺسفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے‘‘ (سورہ الاسراء)۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔سیدنا عمر فاروق کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا ،اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا ۔1187ء میںمرد مجاہد سلطان ایوبی نے تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا جسے رہتی دنیا تک فراموش کر پانا ناممکن ہے۔ یعنی مسلمانوں کے قبلہ اول ’’بیت المقدس‘‘ کو پورے 88سالوں بعد مسیحیوں کے قبضے سے آزاد کرایا۔ ’’فاتح بیت المقدس‘‘ نے بیت المقدس کے ساتھ یروشلم فتح کرڈالا۔ اور جلد ہی پورا فلسطین مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔ اس مرد مجاہد کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز پر1173ء سے 1193ء تک تقریبا بیس سالہ شاندار حکومت کی۔ بیت المقدس1948ء تک مسلسل 671سال مسلمانوں کے قبضہ میں رہا اور دنیا کے ہر گوشہ سے زائرین اس پاکیزہ گھر کی زیارت کے لیے آتے رہے مگر1948ء میں امریکہ،برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ سازش سے فلسطین پر یہودی حکومت قائم ہوئی اور نصف بیت المقدس پر اسرائیلیوں کا قبضہ ہوگیا۔ اور1976ء کی عرب،اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر یہودیوں کا مکمل قبضہ ہوگیا۔ 1948سے آج تک گزشتہ 75سالوں میں اسرائیلیوں نے بیت المقدس اور فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم، تشدد وبربریت کے وہ پہاڑ توڑے کہ جنہیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔2007ء سے اسرائیل نے اس کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
تاریخ اسلامی کا مطالعہ کرتے ہوئے جب جانثارانِ اسلام کیحق و باطل کے معرکوں میں کوششوں اور قربانیوں پر نظر جاتی ہے تو چند لمحوں کا توقف کرنا پڑتا ہے تاکہ سوچا جائے کہ آخر ہمارے اسلاف کے برخلاف ہم ایک ہی دین، ایک ہی مذہب، ایک ہی ملت، ایک ہی کلمہ پڑھنے کے باوجود کیوں اتنے جدا جدا ہیں کہاں وہ دس افراد ہونے کے باوجود دس ہزار کے لشکر کو تہہ و تیغ کر دینے والے اور کہاں ہم 57ممالک رکھنے کے باوجود ڈر اور سہم کر رہنے والے، کہاں وہ اپنے بچوں اور خواتین پر ظلم کی ایک ہلکی سی چنگاری کے بدلے ظالم کا نام و نشان مٹادینے والے اور کہاں ہم محض رسمی لفاظی کے بعد بھی مظلومیت کی چکی میں پسنے والے ۔گزشتہ نصف صدی سے فلسطینی مسلمان اس مرد مجاہد کی راہ دیکھ رہے ہیں جو انہیں اسرائیلی جبر وتشدد کے اذیت ناک چنگل سے نجات دلاے اور بیت المقدس کو آزادکرے۔مگر پچھلے 75سالوں سے یہ سوال آج بھی بدستور قائم ہے کہ مسلمانوں میں اب کوئی دوسرا صلاح الدین ایوبی کیوں نہیں پیداہوتا؟کوئی مسلمان اپنے قبلہ اول’بیت المقدس‘ کی حفاظت کے لیے آگے کیوں نہیں آتا؟ کیوں اس مقدس گھر کو اسرائلیوں کے ناپاک قدموں سے پاک نہیں کرتا؟ کیا مسلمانفلسطینی مسلمانوں پر ہو رہی زیادتیوں کو نظراندازکر رہے ہیں یا ان کی آنکھیں یہ سب دیکھنے کی تاب نہیں رکھتیں اس لئے آنکھیں بند کرلی ہیں؟۔ یا پھر قوم مسلم درس ’’کل مومن اخوۃ‘‘بھول کر فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلیوں کے ہاتھوں فنا ہوتے دیکھ لطف اندوز ہورہی ہے؟۔ کیوں کسی مسلمان میں ایوبی جرأت پیدا نہیں ہوتی؟ کیوں کسی مسلم نوجوان کے بازوؤں میں ایوبی قوت نہیں سماتی؟ کیوں کسی مسلمان کی کلائی میں شمشیر ایوبی کے جوہر پیدا نہیں ہوتے؟۔تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کا اتحاد اور اتفاق ان کے عروج کا سبب اور ان کی بہت بڑی قوت تھی اور اسی اتحاد کی برکت سے ان کی قلیل تعداد کافروں کی کثیر تعداد پر ہر میدان میں غالب رہی اور مسلمان ہر طرف اپنی فتح کے جھنڈے لہراتے رہے، روم اور ایران جیسی اپنے وقت کی سپر پاورز کو اپنے قدموں تلے روند کر رکھ دیا، مصر، عراق، اسپین اور افریقی ممالک میں اسلام کا پرچم بلند کر دیا، الغرض کفار اپنے اتحاد، عددی برتری اور جنگی ساز و سامان کی فراوانی کے باوجود مسلمانوں پر کسی طرح غالب نہ آ سکے اور یہ سب مسلمانوں کے ایک مرکز پر جمع ہونے اور باہمی اتحاد و اتفاق کا نتیجہ تھا۔ جب کفار کسی طرح مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے تو انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرنے اور ان میں افتراق و انتشار پیدا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں اور ا س کے لئے انہوں نے بے تحاشا مال و زر، سونا چاندی اور ہیرے جواہرات خرچ کر کے مسلمانوں میں غدار پیدا کئے، مسلم وزراء، مسلم حکمرانوں اور فوج کے سالاروں کو خریدا، یہاں تک کہ انہوں نے اس کام کے لئے اپنی عورتوں کے حسن و جمال اور ان کی عزت و آبرو کا استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا، جب وہ مسلمانوں میں مال و زر کی خواہش، سلطنت و حکومت کی ہوس، شراب اور شباب کی طلب اور ایک دوسرے سے حسد، بغض اور عداوت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے زوال کی صورت میں ظاہر ہوا، مسلمانوں کا باہمی اتحاد ختم ہوگیا اور وہ لا مرکزیت کا شکار ہو کر ٹکڑوں میں بٹ گئے اور مسلمانوں کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر کفار رفتہ رفتہ وہ ان پر غالب آتے گئے اور پھر مسلمانوں نے اندلس، قرطبہ، غرناطہ، ترکستان، ایران، بغداد، فلسطین اور دیگر ملکوں میں عیسائیوں اور تاتاریوں سے ایسی عبرتناک تباہی کا سامنا کیا کہ اسے سن کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ مسلمانوں کے گھر اور مال و اسباب جلا دئیے گئے، ان کی مساجد میں کفار نے اپنے اپنے گھوڑے باندھے اور اذان و نماز پر پابندیاں لگا دیں، ان کے اہلِ حق علماء اور اسلام کے وفاداروں کو چن چن کر قتل کردیا گیا، ان کے علمی و روحانی مراکز تباہ و برباد کر دئیے گئے، بغداد میں مسلمانوں کے علمی ورثے کو جب دریائے نیل میں غرق کیا گیا تو اس کی سیاہی سے دریا کا پانی سیاہ ہوگیا، باپوں کے سامنے بیٹیوں، شوہروں کے سامنے بیویوں، بھائیوں کے سامنے بہنوں اور بیٹوں کے سامنے ان کی ماوں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا اور مسلمان حسرت کے آنسو بہانے کے سوا کچھ نہ کر سکے۔
آج مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ نئی نسلوں کو اسلامی تاریخ سے آگاہ کرائیں، دراصل ہم نے اپنی تاریخ فراموش کردی ،آج ہم نے مجاہدین اسلام کی داستانوں کا مطالعہ ترک کر دیا اور فضول وباطل کہانیوں میں الجھ گئے،فحش لیٹریچر ،موبائیل ،یوٹیوب میں طرح طرح کے واہیات ویڈیو اورگیم و کارٹونس دیکھنا شروع کردیا۔ آج ہمارے بڑے بالخصوص ہماری مائیں بچوں کو فرضی چاند تارے کی کہانیاں سنانے لگیں، انہیں خودفاتح بیت المقدس ایوبی، فاتح قسطنطنیہ محمد الفاتح، فاتح سندھ محمد بن قاسم جیسے بہادر سپاہیوں کی داستانیں یاد نہیں،۔آج موبائیل، ٹی،وی اور سنیما کی لعنت نے ہمارے بچوں کو ان جاں باز مسلم مجاہدینکی سچی،اصلی اور حقیقی حکایتوں سے کوسوں دور کردیا۔ ہماری نئی اور آزاد خیال نسل تاریخ اسلامی کے ان دلیر سپاہیوں کامطالعہ کرنے کی بجاے لایعنی اور فضول فلموں اور کہانیوں میں مصروف نظر آرہی ہے۔ انکی ذہن سازی کامیڈی ویڈیو پرینک اور کچھ اس طرح کے مخرب اخلاق مواد سے کی جارہی ہے کہ صلاح الدین ایوبی جیسا اولوالعزم، جرأت مند اور شجاعت وبہادری میں یکتاے روزگار مرد مجاہدان کی نظروں میں ہیرو نہ رہا۔ بلکہ انکے ہیرو تو فلمی دنیا کے کفریہ کلمات بکنے والے ہیروز اور’’سوپرمین، بیٹ مین، سپائیڈر مین جیسے کارٹون کیرکٹرس ہوچکے ہیں جو محض تصوراتی اور باطل ہیں جن کا حقیقی دنیا میں کوئی وجود نہیں۔ ہماری نئی اور آزاد خیال نسل نے اسلامی ہیروز کی زندگی سے سبق لینے کی بجاے مغربی تہذیب وتمدن سیکھنا شروع کردیا ہے اور یہی اصل وجہ ہے کہ اب تک کوئی دوسرا صلاح الدین ایوبی پیدا نہ ہوسکا۔آج کے مسلمانوں کا حال دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ اپنی تاریخی عبرتناک غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی بجائے انہی غلطیوں کو از سرِنو دہرا رہے ہیں اور ایک مرکز پر جمع ہو کر متحد ہونے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر اور کفار کا دست نگر ہو کر زندگی گزارنے کو اپنی عظیم سعادت سمجھے بیٹھے ہیں، اپنی حکومت اور سلطنت بچانے یا اپنے مفاد کی خاطر کفار کے آگے ایڑیاں رگڑتے اور ان کی ناراضی کو اپنی محتاجی کا پروانہ سمجھتے ہیں، مسلمانوں کی اخلاقی اور ملی تباہی کے لئے کفار کی طرف سے بنے گئے جالوں میں بری طرح پھنسنے کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں، کسی مسلم ملک پر کفار حملہ کریں تو یہ اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کی بجائے اپنی حفاظت کی خاطر کفار سے ان کے سودے کرتے ہیں، مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لئے ہر طرح سے کفار کا ساتھ دیتے ہیں اور کفار سے پٹنے والے مسلمانوں کا حال و انجام دیکھ کر یہ تصور تک کرنا گوارا نہیں کرتے کہ کفار نے اپنے منظورِ نظر مسلمانوں کا جو حال کیا کل کو وہ یہی حال ان کا بھی کر سکتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہیکہ نئی نسل کو خاص طور سے فلمی دنیا کے خیالاتی، تصوراتی افسانوں اور جھوٹے ہیروز کی کہانیوں سے نکال کر ان کے دلوں میں اسلام کی تاریخ راسخ کریں جس میں ہم تین سو تیرہ ہوکر ہزاروں کے مقابلے ڈٹے ہوئے تھے بلکہ انہیں شکست فاش دیا تھا، اور ہماری تلواروں کی چمک قیصر وکسری کو اندھا اور اسکی کھنک ظالموں کو بہرابنا دیتی تھی ۔ کیونکہ آج بھی ہماری رگوں میں ایمانی خون گردش کر رہا ہے اور تھوڑا ہی سہی اسکی حرارت نے ہمارے بازوؤں کو مکمل خستہ اور کمزور ہونے سے باز رکھا ہے۔اللہ فلسطینی مجاہدین کو غیبی مدد کے ساتھ ساتھ استقامت و فتح و نصرت نصیب فرمائے،امت مسلمہ کے مظلوم مسلمانوں خاص طور سے فلسطین ،شام، کشمیر، برما کے مسلمانوں کی غیبی مدد فرمائے ۔ہم تمام مسلمانوں کو متحد فرمائے ، جذبہ ایمانی عطا فرمائے۔ آمین
Comments are closed.