منور رانا، پاکیزہ رشتوں کے کامیاب شاعر

 

قسط اول

 

امجد صدیقی

 

 

منور رانا میرے بچپن کے شاعر ہیں،زمانہ طالب علمی میں ان کے سو سے زیادہ اشعار مجھے ازبر تھے، موقع کی مناسبت سے زبان پہ آجاتے تھے۔ آج جب ذوق شاعری کو ذرا سی حرکت دی تو ذہن کے دریچے میں منور رانا صاحب کے وہ اشعار نمایاں ہونے لگےجنہیں عہد طالب علمی میں زبان زدکر لئے تھے !

منور رانا صاحب کی شاعری کو ارباب حل وعقد میں سے بعضوں نے ادب کے زمرے میں نہیں رکھا اور ان کی دلیل شاید منور صاحب کی عام فہم اور سادہ زبان کا استعمال ہے۔

مگر یہ غیرمنصفانہ رویہ ہےکیوں اردو ادب کا معیارکسی خاص طبقے کی جرح وتعدیل یا قول وفعل سےنہیں بنتا بلکہ سامع اور قاری کے ذوق اورطبعی میلان سے بنتا ہے، مشہور نقادکلیم الدین احمد مرحوم کا رجحان بھی اسی طرف ہےکہ ہروہ زبان (خواہ وہ نثر ہو یا نظم ) ادب ہے جس سے عام قاری یا سامع کوخوشگواراحساس ہو۔ حالانکہ میں کلیم الدین مرحوم کے قول کوبھی ادبی حیثیت ثابت کرنے کے لئے دلیل نہیں سمجھتا،

میرؔوغالبؔ اورذوقؔ وداغؔ کی شاعری کا معیار ان کے زمانے کے سامع وقاری کے جذبات ورجحانات کے موافق تھا، یہی حال دیگر ان شعراء کا بھی ہےجو اپنے عہدکے ادبی وقارومعیارکےاعتبار سے اپنی شعری ہئیت کی تعین کی تھی،جس ادبی عہدمیں فارسی اورعربی لفظوں کااستعمال بکثرت ہوتا تھا اس میں ذوق سماعت بھی کچھ اسی نہج کا تھا،ورنہ تو کیا مجال کہ شاعراپنے قاری اورسامع کےحسی میلان اورطبعی رجحان کونظراندازکرے اورکامیاب وکامران بھی ہوجائے،

منوررانا صاحب کا عہداردو اور ہندی کی آمیزش سے بنا تھا جس کی وجہ سے الفاظ وتراکیب کے استعمال میں زیادہ زورنہیں دیا گیا بلکہ سارا زورعام سامع کے ذوق سماعت اورقاری کی ترجیحات پر صرف کیا گیا ہے !

منوررانا صاحب نے غزل کی ہئیت ونوعیت کو بدل کر” ماں” سے بھی منسوب کرنے لگے حالانکہ غزل محبوب سے راز ونیاز کی باتیں کرنے کا نام تھا ،غز ل کی روایت میں گل وبلبل، شمع وپروانہ، مے ومیخانہ، ساغر وصہباء،گل چیں وباغباں، گلشن وصحرا، قیس ولیلیٰ، فرہاد وشیریں، یوسف وزلیخا اور طور وموسیٰ وغیرہ نہ جانے کتنے اشاروں ،تمثیلوں اور تلمیحوں کا استعمال ملتا ہے۔ہر شاعر اپنے اپنے انداز میں ان کا استعمال کرتا ہے ،مگر منور رانا نے اپنی غزل میں ماں کی تقدیس وتعظیم، احترام وشفقت، بہن بیٹی اور دیگر مقدس رشتوں کا بکثرت تذکرہ کرکے روایت شکن ہونے کا الزام اپنے سر لے لیا۔

جس غزل میں پرتعیش زندگی کی ترجمانی ہوتی تھی وہ غزل منور رانا کے یہاں مقدس رشتوں کے جزبات کی عکاس بن گئی۔

اے اندھیرے دیکھ لے منھ تیرا کالا ہوگیا

ماں نےآنکھیں کھول دیں گھرمیں اجالا ہوگیا

 

ماں جیسی پاکیزہ ہستی کو تاریکی کی ضدقرار دینا منور صاحب کی فکری نفاست کی دلیل ہے، اگراسے رویتی شاعری کے مضمون میں باندھا جائے تو اپنے کسی اجنبی محبوب کی زلفوں کوگھٹا ٹوپ تاریکی سے تشبیہ دی جاتی اورحسن کومثل چاند قرار دیا جاتا۔

 

کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی

میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی

 

اس اخلاقی زوال کے عہد میں شعر ہذا کی معنویت دوچند ہوجاتی ہے جہاں والدین کےحقوق کی پامالی ہر گھر میں ہونے لگی ہے، ماں کی عظمت بحال کرنے کی یہ شعری خواہش کتنی پاکیزہ ہےکہ ان کے نذدیک ماں کا وجودسامان وزر کی حیثیت پر فوقیت حاصل ہے، ماں دونوں جہاں کی کامیابی کی کنجی ہے، حالانکہ ایسے جملے زبانی حد تک تو ٹھیک ہیں مگرعملی حد میں مشکل ہوتے ہیں پھر بھی منور رانا صاحب بضد ہیں کہ مجھے اس پرعمل کرنا ہے!

 

منورؔ ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا

جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی۔

منور صاحب کے پاکیزہ تخیل وتصور اور شعری انفرادیت کا لطف لیجئے اورتلمیحی رنگ وآہنگ کو نوٹ کر لیجئے، پھربزم سخن آرائیوں میں صدا لگائیے کہ یہ استعارہ اردو ادب کے معیار کا ہے یا نہیں ؟

یہ حساسیت منور صاحب کی امتیازی شناخت ہے، ماں کی مامتا اور مشفقانہ سلوک کے سامنے اتنے بے بس ہیں کہ کھل کر رونے کو توہین مامتا سمجھا جائے، یہاں رونے کی کیا ضرورت ہے ،فقط اداسی ہی شفقت ومحبت کی بنی عمارت کوخس وخاشاک کی طرح بہا لے جانے کے لئے کافی ہے چہ جائیکہ رویا جائے ؟

منوررانا صاحب کا یہ تمثیلی وترکیبی تنوع ان کے شعری محاسن وکمالات کا بیانیہ ہے !

جاری ۔۔۔۔

Comments are closed.