لکشدیپ ، مالدیپ اور مودی

 

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلے دنوں لکشدیپ کا دورہ کیا۔ اس مہم کا   مقصد لکشدیپ کو فائدہ پہنچانا کم اور مالدیپ کو نقصان پہنچانا زیادہ  تھا۔  وہ  چاہتے تھے کہ ان گیدڑ بھپکی سے خوفزدہ ہوکر مالدیپ کے سربراہ محمد معیزو ہندوستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائیں  ۔ یہ تو  اس دورے کا ایک ظاہری  ہدف تھا مگر بین السطور ایک چھپا ہوا  نہایت گھٹیا سیاسی مقصد  بھی تھا۔  مالدیپ کو اسلامی ملک بتا کر اس کی آڑ میں  ہندو مسلم کارڈ کھیلنا  اپنے آپ میں  ایک ثانوی ہدف بھی   تھا حالانکہ جس طرح مالدیپ ایک مسلم آبادی والا ملک ہے اسی طرح لکشدیپ بھی اکثریتی یونین ٹیریٹری ہے یعنی دونوں مقامات پر سیاحت کے فروغ سے مسلمانوں کا ہی فائدہ ہوگا ۔ ان دونوں کے اندر ایک فرق یہ ہے کہ لکشدیپ ہندوستان کا حصہ ہے جبکہ مالدیپ ایک آزاد و خود مختار ریاست ہے۔  مودی جی کی یہ غلط حکمت عملی  ہے کہ دوسرے ممالک پر بھی اپنی مرضی تھوپنا چاہتے ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ اس  سرکار نے اپنے سارے پڑوسیوں کو ناراض کردیا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر  ہر چہار جانب سے چین نے وطن عزیز کو گھیر لیا ہے۔

مالدیپ جس طرح ایک پڑوسی مسلم ملک ہے اسی طرح  بنگلا دیش بھی  مسلمانوں  کی اکثریت ہے لیکن  وہاں کی ظالم سربراہِ مملکت کی شان میں حکومتِ ہند رطب اللسان  رہتی ہے کیونکہ وہ ہندوستان کے آگے دُم ہلاتی  ہیں۔ ابھی حال میں بنگلا دیش  کے متنازع انتخاب کو مودی جی  نے پر امن قرار دے  کر مبارک باد پیش کی جبکہ   مودی بھگت بھول  گئے کہ  وہاں کی ہندو آبادی لکشدیپ میں رہنے بسنے والے ہندووں سے کم  محفوظ ہے۔اس دوران ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان تیزی سے  بگڑتے ہوئے تعلقات کے سبب  مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے حکومتِ ہند کو 15 مارچ تک اپنی فوجیں واپس بلانے کا حکم دے دیا ،  محمد معیزو نےاس دھمکی سے قبل چین کا دورہ کیا۔   انتخاب  میں کامیابی کے بعد یہ ان پہلا  چینی  سرکاری دورہ تھا جہاں انہوں نے  شی جن پنگ سے ملاقات کی۔حکومت ِ ہند کی جانب سے اگرمالدیپ کی  خوب مخالفت نہیں ہوئی ہوتی تو شاید ان کی ایسا زبردست خیر مقدم  بھگت نہیں ہوتا ۔ دورے سے لوٹنے کے بعد صدر کے دفتر میں پبلک پالیسی ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری عبداللہ ناظم ابراہیم نے  اعلان کیا کہ ہندوستانی فوجی اہلکار اب مالدیپ میں نہیں رہ سکتے۔ یہ صدر ڈاکٹر محمد معیز اور ان کی سرکاری پالیسی ہے۔

مالدیپ کے اندر ہندوستان کو کوئی بہت بڑا دستہ نہیں ہے ۔ وہاں پر اس وقت تقریباً 88 ہندوستانی فوجی  موجود ہیں اور ان کے واپس آجانے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن اگر کسی معاملے کو وقار کا مسئلہ بنادیا جائے تو  معمولی بات بھی  بہت بڑی ہوجاتی ہے۔مالدیپ، ہندوستان اور چین کے بیچ یہ ایک  انا کا مسئلہ بن گیا تھا ۔  اس معاملے کو ٹالنے کی خاطر  مرکزی وزیر کرن رجیجو نے نومبر میں مالدیپ کا دورہ کرکے  موجودہ صدر  محمد معیزو سے ملاقات  بھی کی تھی لیکن وہ نتیجہ خیز نہیں رہی تو دونوں فریقوں نے ہندوستانی فوجی پلیٹ فارم کے مسلسل استعمال کی بابت  "عملی حل” پر اتفاق کرلیا یعنی   مالدیپ کے صدر کی  ’’انڈیا آؤٹ‘‘ مہم  نافذ پر  دو ماہ کے اندر عمل در آمد  پر راضی ہوگئے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ فوجی   انخلاء کو ٹالنے کی خاطر یعنی مالدیپ پر دباو بنانےکے لیے لکشدیپ کا ہنگامہ کیا گیا ہو جو بارآور نہیں ہوا۔ 

بی جے پی جس طرح کشمیر کی دفع 370 کے خاتمہ کو اپنے منشور سے جوڑ کر کہتی ہے کہ ہم نے یہ وعدہ کیا تھا اس لیے ہم اسے عملی جامہ پہنانے کے پابند ہیں اسی طرح مالدیپ کے موجودہ صدر محمد معیزو نے انتخابی مہم کے دوران   ہندوستانی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قوم کو "اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی سرزمین پر غیر ملکی افواج کی موجودگی نہ ہو۔‘‘ اس اقدام کے ذریعہ وہ  اپنی "انڈیا آؤٹ” مہم کے عہد کو پورا کررہے ہیں جس کے سبب  وہ اقتدار میں آئے تھے۔  اس طرح ایک طرف مندر بنانے کے وعدے کی تکمیل ہو رہی ہے دوسری جانب فوجیوں کو واپس بھیجنے  کاعہد پورا کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے تحت مالے  میں وزارت خارجہ کے  اندررام مندر کے افتتاح سے ایک ہفتہ قبل  ہندوستان اور مالدیپ کے درمیان ہندوستانی فوجیوں کے انخلاء  پر باضابطہ بات چیت کا آغاز  ہوا جو بالآخر فوجیوں کے انخلاء پر منتج ہوگا اس لیے کہ حکومتِ ہند نے مالدیپ کو سمجھانے کے لیے جو سخت رویہ اختیار کیا اس سے فاصلے کم ہونے کے بجائے اور بھی بڑھ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دھونس دھاندلی  کی حکمت عملی ہر جگہ کارگر نہیں ہوتی ۔

کارگہہ ہستی میں تین طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ عزیمت کی ذہنیت کے حاملین انجام  سے بے پروا ہوکر اپنے سے زیادہ طاقتور سے بھڑ جاتے ہیں اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار بھی ہوتے ہیں جیسے حماس نے اسرائیل سے لوہا لینے کا فیصلہ  کیا۔  اس کے برعکس رخصت والے اپنے برابر کو ڈھونڈتے ہیں ۔  یہ لوگ ہار اور جیت کے درمیان جھولتے رہتے ہیں جیسے امریکہ اور چین  لیکن فسطائی سوچ کے مالک اپنے  سےکمزور کو تلاش کرکے اس پر چڑھائی کردیتے ہیں جیسے روس اور یوکرین  لیکن اس میں بھی انہیں مکمل کامیابی نہیں ملتی ۔ روس اور یوکرین میں فرق تو ہے لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کیونکہ مؤخرالذکر کے ساتھ پورا یوروپ اور امریکہ ہے۔  مودی سرکار نے اپنے آپ کو جہاں پناہ ثابت کرنے کے لیے مالدیپ کو ڈھونڈا جو مضحکہ خیر ہے۔ مالدیپ دنیا کے سب سے چھوٹے ممالک میں سے ایک ہے اور ہندوستان ابھی حال میں  دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن گیا ہے۔  مالدیپ کی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے اس  سے متعلق کچھ اعدادو شمار پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال لینا کافی ہے۔

مالدیپ سمندر سے گھرا ایک ایسا ملک ہےجس  کا صرف ایک فیصد زمینی باقی نناوے فیصد پانی ہے۔  اس کے    1192 چھوٹے چھوٹے  جزائر میں سے تقریباً 200 جزیروں  پر ہی  انسانی آبادی موجود ہے۔ ۔ مالدیپ کا دار الحکومت مالے ہے جہاں پورے ملک کی 80 فیصدباشندے قیام پزیر ہیں  اور اس رقبہ ۸؍ مربع کلومیٹر ہے جبکہ سبرامنیم سوامی کے مطابق چین نے ہندوستان کے4؍ ہزار کلومیٹر علاقہ پر قبضہ کرلیا ہے اور مودی جی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے مگر مالدیپ پر زور دکھاتے ہیں۔  ہندوستان کے بڑے شہروں میں ایک محلہ کا رقبہ اس سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس شہر کی کل آبادی 252,768 افراد پر مشتمل ہے۔پورے ملک کی جملہ آبادی صرف 515,132 ہے اور اس کا نمبر167 واں ہے۔ ہندوستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت اور بہت جلد تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے  گا جبکہ مالدیپ بیچارہ 157 ویں مقام پر ہے۔مالدیپ  ایک معاملے میں ہندوستان سے آگے ہے اور وہ فی فرد  شرح پیداوار۔ اس معاملے میں ملادیپ  54ویں مقام پر ہے جبکہ ہندوستان کا139 واں نمبر ہے یعنی وہاں غریب اور امیر کا فرق وطن عزیز سے بہت کم ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کوئی امبانی اور اڈانی نہیں ہے اس لیے ایسے سرمایہ دار کے ساتھ حکومت کی سانٹھ گانٹھ بھی نہیں ہے۔ خیر اتنے چھوٹے سے ملک کو اگر ہندوستان کا شکتی مان وزیر اعظم زیر کر بھی لیتا تو اس میں  کوئی بڑی بات نہیں تھی مگر افسوس کہ مودی جی سے  یہ بھی نہیں ہوسکا۔

وزیر اعظم نریندرمودی  نے مالدیپ کو زیر کرنے کے لیے اس کی سیاحت کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ملک ہندوستان سے اٹھارہ سال بعد1965میں آزاد ہوا اور دوسال  بعد جمہوریہ بھی بن گیا مگر 1970 کی دہائی تک اس کو کوئی نہیں جانتا تھا ۔اب اس کے  189  جزیروں میں سیاحوں کا آنا جاناہے۔ اس میں شک نہیں کہ مالدیپ سیاحت کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے وہاں پر2019 ء میں17 لاکھ  سے زیادہ لوگوں نے سیاحت کی غرض سے سفر کیا تھا۔  ہندوستان کے جوبھگت  یہ سوچتے ہیں کہ ان  کے بائیکاٹ سے وہ ملک کٹورہ لے کر سڑک پر آجائے گا یہ  خیال درست نہیں ہے۔ ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ   مالدیپ کی جملہ شرح پیداوار کا صرف 28%  سیاحت سے آتا ہے ۔ مالدیپ جانے والے سیاحوں میں کل 16 ؍ فیصد ہندوستانی ہوتے ہیں یعنی اگر ہندوستان کے سیاح دیگر ممالک کے باشندوں کے برابر خرچ کریں تب بھی ساڑھے چار فیصد کی معیشت کو متاثر کریں گے اور اگر وہ کم خرچ کرتے ہیں جس کا قوی امکان ہے تو یہ تین فیصد بھی نہیں ہوگا۔ اس سے مالدیپ کی معیشت پر کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ۔ مودی جی کو مشیروں  نے  لازماً ان اعدادو شمار کو نہیں دیکھے ہوں گے   ورنہ وہ وزیر اعظم کو لکشدیپ کا برانڈ ایمبیسیڈر  بننے کا مشورہ نہیں دیتے۔  محمد معیزو کی دلیری اور استقامت نے علامہ اقبال کے ساقی نامہ میں موجود ان اشعار کی یاد دلادی؎

یہ موجِ نفَس کیا ہے تلوار ہے،خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے

سبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں، پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں

 

 

Comments are closed.