میں نا اُمید نہیں ہوں!

اردو صحافت کا تاریخی پس منظر،کے عنوان سے میری تقریر،شروع میں دو پیراگراف کا اضافہ کیا ہے،جو کتاب میلہ کے تعلق سے ہے۔
جاوید جمال الدین
اُردو کتاب میلہ کے افتتاحی جلسہ کے بعد میں مسلسل کئی روز تک میلے میں پہنچا اور ایک صحافی کی حیثیت سے میری کوشش رہی کہ ہر ایک اسٹال کاجائزہ لوں اور الحمدللہ میں نے کسی اسٹال مالک کی زبان سے نااُمیدی کے الفاظ نہیں سنے۔بلکہ میلے کے ساتھ ساتھ ہونے والے علمی،ثقافتی ،تعلیمی ،صحافتی اور معلوماتی پروگراموں اور مشاعروں میں بڑی بڑی تعداد اُردو داں طبقہ اور اردو کے مختلف شعبہ حیات سے وابستہ شخصیات کی شرکت اس بات کی گواہ ہے کہ اردووالوں نے حق ادا کردیا،اتنی بڑی تعداد میں حاضری اور ہزاروں لاکھوں کتابوں کی خریدوفروخت قابل ستائش ہے۔انجمن اسلام،اردوجرنلسٹ ایسوسی ایشن،پبلشرزسمیت سبھی تنظیموں اور اداروں کا تعاون کے لیے مشکور ہوں۔
اس موقع پر میں
اردو صحافت کا تاریخی پس منظر
کے عنوان سے اپنے خیالات کااظہار کیا۔
السلام وعلیکم
میرے محسن حسن کمال صاحب کسی وجہ سے نہیں آسکے ہیں،جب وہ شفقت بھراہاتھ سر پر رکھتے ہیں تو ایک عجیب سا روحانی سکون میسر ہوتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ ان کی دختر کی طبیعت بہتر فرمائے۔
روزنامہ سہارا میں ہم نے چند سال ساتھ کام کیا۔ویسے میں بلٹز کے زمانے سے انہیں جانتا اور پڑھتا آیا ہوں۔فلمی دنیا کی ان کی مصروفیت سے واقف ہوں۔
ان کی غیر حاضری میں صدارت فرمارہے جناب سمیع بوبیرے اور مہمان خصوصی جناب خلیل زاہد نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور سرفراز آرزو نے قدم قدم پر رہنمائی کی ہے،شاہدلطیف اور میں نےانقلاب میں تقریباً 17 سال ساتھ وقت گزاراہے،میں یہاں سے انہیں ایڈیٹرشپ کے بیس سال مکمل ہونے پر مبارکباد پیش کرتاہوں۔ ممبئی اُردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید اسکول کے اور پھرصحافت کے بھی ساتھی ہیں،انقلاب میں ہم ساتھ رہے، جبکہ اعجازاحمد انصاری نے دکھ درد اورپریشانی میں ہمیشہ تعاون کیا،شاہدانصاری اچھے نوجوان دوست ہیں۔یہاں میں آپ کی اجازت سے مرحوم حنیف اعجاز، محمود ایوبی،ساجد رشید،عبدالرحمن صدیقی ،ریاض احمد خان ،وسیم انصاری،فضیل جعفری، ہارون رشید صاحب اور ابراھیم شیخ کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ورنہ ان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوگی۔جبکہ فاروق انصاری،فاروق سید اور عزیز اعجاز میرے اچھے دوست ہیں۔فاروق سید مایوس نہیں ہوتا ہے اور مددگار انسان ہے۔بلکہ۔دوسروں کی مدد کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔یہاں عالم۔رضوی،جہانگیر کاظمی ،عزیز کھتری اور ریحانہ بستی والاکو یادکیاجاسکتا ہے ۔میں جناب خالدانصاری صاحب کا بھی شکرگزار ہوں کہ انہیں نے 20 سال بعد اپنی آٹوبائیوگرافی میں مجھے یاد رکھااور ایک باب میں ایکنولیجیمنٹ پیش کیاہے،دراصل میں ان کے والد بانی انقلاب جناب عبدالحید انصاری کا بسئیوگرافر ہوں،میں این سی پی یو ایل ،اجمل سعیداور امتیار خلیل کا بھی شکرگزار ہوں۔
دوستو میرا عنوان ہے،
اردو صحافت کا تاریخی پس منظر
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں،
اردو ہندوستان کی مشترکہ گنگا-جمنی تہذیب کی علامت ہے۔ اخبارات کے معاملے میں بھی یہ پیچھے نہیں رہی۔ مغربی بنگال کے اخبارات اردو پریس کے پیش رو تھے۔ فارسی زبان کے بعد ہندوستان میں اردو زبان نے تیزی سے فروغ پایا۔ اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘بتایا جاتا ہے،جس کے بانی ہری ہر دت تھے اور انھوں نے اس اخبار کو 1822 میں کلکتہ سے شائع کیا۔ انگریزی اور بنگالی زبان کے بعد یہ اخبار ہندوستان میں کسی تیسری زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ یہ 1888 تک شائع ہوتا رہا۔یعنی ساٹھ سال سےزیادہ عرصے تک شائع ہوا۔
اُردو اخبارات یا صحافت پر اتھارٹی گربچن چندن یا جی ڈی چندن نے اپنی تحقیقات کے بعد تحریرکیا ہے کہ "ایک زمانے سے اردو صحافت کے مؤرخین یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ مارچ ۱۸۲۲ء میں کلکتہ سے جاری ہونے والا اردو کا اولین اخبار جام جہاں نماتھااور یہ اخبار برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک سرکاری یا نیم سرکاری گزٹ تھا۔ ان کے نزدیک اس کی پیشانی پر شائع ہونے والا کمپنی کا سرکاری نشان اس امر کا اعلان تھا، نیز اس کی خبروں کے ذرائع بھی بیشتر انگریزی اخبار تھے۔ ان تاریخ داں کا دعویٰ ہے کہ یہ اخبار فرنگی افسروں کی تعلیمی اور تربیتی ضرورتوں کے لیے جاری کیا گیا تھا کیونکہ اس زمانے میں ان نو واردوں کے لیے ایسی تدبیروں کی ضرورت تھی ۔ ان مؤرخین نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ اس پرچے کی اشاعت کا ایک برطانوی تجارتی کوٹھی کے ہاتھوں میں ہونا بھی لامحالہ اس کا برٹش ایسٹ انڈیاکمپنی سے تعلق ثابت کرتا ہے۔”
پھر کچھ مصنفوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ اردو کا پہلا اخبار نہیں ہے بلکہ اس سے قبل اٹھارویں صدی کے آخری دہے میں ٹیپو سلطان نے میسور سے اور انیسویں صدی کے پہلے دہے میں فورٹ ولیم کالج کے ایک معاون لائبریرین مولوی اکرام علی نے کلکتہ سے اردوکے اخبارات جاری کیے تھے۔ٹیپوسلطان کااخبار فوجیوں کے لیے تھا۔
اس جائزے کی بنیاد نیشنل آرکائیوز آف انڈیا، قومی دفتر خانه هند اور دیگر مستند ذرائع سے حاصل کردہ ان معلومات پر ہے جو آج تک منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔ ان معلومات میں سرفہرست حکومت کے چیف سکریٹری ، ولیم برو رتھ بیلی کا تبصرہ ہے جو انھوں نے جام جہاں نما کے پہلے چھے ماہ کے شماروں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد کیا تھا۔ انھوں نے اس اخبار کو سیاسی بیداری کے جذبات پیدا کرنے والا اور سامراج کے استحکام کے خلاف خطرہ بننے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ اسی تبصرے کی بنیاد پر گورنر جنرل جان ایڈم نے کمپنی کی حکومت کا پہلا پریس آرڈنینس جاری کیا تھا اس آرڈنینس کے خلاف راجا رام موہن رائے نے قانونی احتجاج کیا تھا، اسی سے شہہ پا کر دیسی صحافت میں فرنگی حکومت کے ناگوار اقدام کے خلاف اعتراض اور احتجاج کا جذ بہ فروغ
پذیر ہوا۔
ساتھ ہی جام جہاں نما کے پس منظر اور اس کے اپنے زمانے کے صحافتی ماحول بالخصوص قومی لسانی صحافت کے حالات بھی پیش کیے گئے ہیں تاکہ اس اخبار کی ہستی اور "جام جہاں نما "کے بارے میں مروجہ نظریات حقیقت سے دور ہیں اور اردو صحافت کی عمارت کی یہ پہلی اینٹ سیدھی نصب نہیں کی گئی۔ اس کے نتیجے میں اردو صحافت کے قاری اور طالب علم آج تک مسلسل گمراہی کا شکار ہوتےرہے ہیں۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے اس پہلے اُردو اخبار سے جو تقریبا ساٹھ سال تک جاری رہا اور جو اجرا کے چھٹے سال بعد ہی صاحب مطبع اور کمپنی کے نشان سے آزاد بھی ہو گیاتھا،آج تک اس تعلق سےانصاف نہیں کیا گیا بلکہ ستم ہے کہ اسے ایک بے وقعت، طفیلی اور کاسہ لیس اخبار کا درجہ دے کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اخبار جس سے ہندستان کے گوشے گوشے کے اخباروں، مشاہدوں اور مبصروں نے استفادہ کیا تھا اور جسے حکومت کے ایک سکریٹری نے اپنے وقت کا بہترین، محتاط اور ذی فہم اخبار قراردیا تھا، اپنے مورخین ہی کے ہاتھوں اردو صحافت کا مظلوم ترین اخبار بن گیا۔ اس اخبار سے عدم توجہی یا نیم تو جہی کی ایک بڑی وجہ غالبا یہ ہے کہ اس کے مالک اور اڈیٹر کے بارے میں پوری معلومات دستیاب نہیں ہے ۔جی ڈی چندن صاحب نے ان کی فراہمی کی ہر ممکن کوشش کی ۔ دستیاب ریکارڈ کی کھوج لگائی۔ اخباروں میں اشتہارات چھپوائے ۔ اکابر اردو کو خطوط لکھے ذاتی طور پر ان سے استفسار کیا لیکن افسوس کہ اخبار کے بانی ہری ہردت اور اولین اڈیٹر سدا سکھ لعل کے شخصی کوائف میسر نہ ہوئے۔ ان کاکہنا تھاکہ بہر حال اس تلاش کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تلاش جاری رہنی چاہیے۔
مشہور صحافی اور کالم نویس سہیل انجم رقم طراز ہیں کہ اردو صحافت اپنا ایک نہایت تابناک اور درخشاں ماضی رکھتی ہے۔ اس نے جد وجہد آزادی کے باقاعدہ آغاز سے قبل اپنی آنکھیں کھولیں اور پھر اس نے جنگ آزادی میں ایسا کردار ادا کیا جو لازوال بن گیا۔ اردو صحافت ایک مشن کے طور پر شروع ہوئی تھی اور اس نے رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کیں ۔ آج کے مادہ پرست دور میں جبکہ ہر چیز کمرشلائزڈ اور تجارتی ہوگئی ہے، اردو صحافت کسی نہ کسی شکل میں آج بھی ایک مشن بنی ہوئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملت کے مسائل پر صرف اردو اخبارات ہی پر زور آواز اٹھاتے ہیں۔
حالانکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے بھی تجارتی تقاضوں سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے تا کہ اس مادہ پرست دورمیں اس کی بقا کی بھی کوئی صورت نکالی جاسکے۔سہارا پریوار اور جاگرن گروپ نے ایک عرصہ قبل پہلے کردی ۔
دراصل برصغیرہندو پاک میں سولہویں صدی کے وسط میں پرتگیزیوں نے چھاپہ خانہ قائم کیا۔ اس کے بعد انگریزوں نے 1672 میں بمبئی میں پہلا چھاپہ خانہ شروع کیا۔ ہندوستان میں سب سے پہلا مطبوعہ اخبار 29 جنوری 1780 کو انگریزی زبان میں آگسٹس ہکی نے ہکیز بنگال گزٹ کے نام سے کلکتہ سے جاری کیا۔ اس کے 26سال بعد 1822میں منشی سدا سکھ لعل اور ہری دت نے اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما کلکتہ سے ہی جاری کیا۔ اس طرح ہندوستان کی انگریزی، فارسی ، بنگالی اور اردو صحافت کا آغاز انگریزوں کے پہلے دار الحکومت کلکتہ سے ہوا ۔
جام جہاں نما اردو کا پہلا اخبار تھا۔ اس کے بعد دوسرا اخبار” دہلی اردو اخبار تھاجسے مولوی محمد حسین آزاد کے والد مولانا محمد باقر نے شروع کیا تھا۔ اس کا اجرا 1837میں ہوا تھا ۔13 مئی 1840 تک اس کا نام دہلی اخبار تھا، پھر دہلی اردو اخبار ہو گیا۔ 1857 سے پہلے کے اخباروں میں یہ سب سے بے باک، بے خوف اور با اثر اخبار تھا۔ لیکن انگریزوں نے مولانا باقر کو شہید کر دیا اور اس طرح انھیں پہلا شہید صحافی کہا جاتا ہے۔
اس کے بعد سر سید احمد خاں کے بھائی سید محمد خان نے سید الاخبار نکالا ۔ مولا نا امداد صابری کے مطابق یہ ہفت روزہ تھا اور 1837 میں جاری ہوا تھا۔ اس کے ایڈیٹر مولوی عبد الغفورتھے ۔ یہ اخبار 1848 تک جاری رہا۔ اس زمانے میں دہلی سے شائع ہونے والا صادق الاخبار بھی نہایت جری اوربیباک تھا۔ ابلاغیات” کے مصنف ڈاکٹر محمد شاہد حسین کے مطابق اس نام کے کئی اخبار دہلی سے نکلے تھے۔ ان میں سے ایک یا دو صادق الاخبار کا ذکر 1857 کی جنگ آزادی کے سلسلے میں بھی بار بار آتا ہے۔ ان میں سے ایک اخبار کو بہادر شاہ ظفر کے مقدمے میں ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا گیا تھا۔ مگر وہ کون سا صادق الاخبار ہے اس میں اختلاف ہے ۔ جبکہ افتخار کھو کھر کے مطابق ایک صادق الاخبار 1844 میں شیخ امداد حسین کے زیر ادارت جاری ہوا اور جنوری 1856 میں دوسرا
صادق الاخبار شیخ خدا بخش نے شروع کیا تھا۔
اس کے بعد جو اردو اخبارات نکلے،ان کی طویل فہرست ہے
وہ اس طرح ہیں: کریم الاخبار ، مولوی کریم الدین 1835 دہلی ۔ اسعد الاخبار، قمر الدین 1847 آگرو۔ اعظم الاخبار، نواب محمد غوث خال اعظم 1849 مدراس – تیسیر الاخبار، حکیم عبد الباسط عشق1849 مدراس ۔ شملہ اخبار ، مولوی عبد اللہ 1847 شملہ ۔ 1857 کے بعد اردو اخبار بڑی تعداد میں جاری ہوئے تھے جن میں سے کچھ کے نام ہیں: ہفت روزہ شمس الاخبار مدراس، دس روزه طلسم حیرت مدراس، سه روزه قاسم الاخبار
منگلور ہفت روزہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ علی گڑھ ہفت روزہ آگرہ اخبار، دس روزہ مفید عام اخبار آگرہ ہفت روزہ خیر خواہ عالم وہلی ، ہفت روزہ نصرت الاخبار دہلی، سہ روزہ ریاض الاخبار گورکھپور، ہفت روزہ جریده روزگار ،مدراس ہفت روزہ نیر اعظم مراد آباد ہفت روزہ اودھ پنچ لکھنو هفت روزه مهر نیم روز بجنور، ماہنامہ حافظ صحت لاہور ہفت روزہ دہلی پنچ لاہور ہفت روزہ آتا جالندھر ہفت روزہ شحنہ ہند میرٹھ ہفت روزہ سراج الاخبار جہلم، ماہنامہ زمیندار گوجرانوالہ بافت اسب بندر روزہ پیسہ اخبار گوجرانوالہ ہفت روزہ پیسہ اخبار لاہور، اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑ ھ،اٹا وہ ہفت روزہ کر زن گزٹ دہلی ، تہذیب الاخلاق علی گڑھ، زبدة الاخبارال اور بخت روزه البشیر ہفت روزہ اودھ پنچ لکھنو ، ماہنامہ اردوئے معلی علی گڑھ ، اخبار ہمدردد ہلی ، ہفت روزہ زمیندارہفت روزہ الہلال کلکتہ، البلاغ کلکتہ ہفت روزہ مدینہ بجنور۔
صحافی اور محقیق محمد شاہد حسین لکھتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق اردو صحافت کے آغاز سے لےکر 1947 تک 1547 اردو اخبارات جاری ہوئے۔ تقسیم ملک کے بعد بہت سے اردو صحافی پاکستان چلے گئے اور کچھ پاکستان سے ہندوستان آگئے ۔ پاکستان سے آکر ہندوستان میں مشہور ہونے والے اخباروں میں پرتاپ ، ملاپ اور ہند سماچار قابل ذکر ہیں۔ آزادی کے بعد ملک کے مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں اردو اخباروں کا اجرا ہوا جن میں سے بعض انتہائی معیاری ثابت ہوئے ۔ ان میں سے کچھ نے دم تو ڑ دیا تو کچھ اب بھی شائع ہو رہے ہیں،
1857 کے بعد اردو صحافت کا ایک نیا دور شروع ہواتھا۔ اس کے بعد اودھ اخبار (لکھنؤ)، سائنٹفک گزٹ اور تہذیب الاخلاق (علی گڑھ)، اودھ پنچ (لکھنؤ)، اکمل الاخبار (دہلی)، پنجاب اخبار (لاہور)، شمس الاخبار (مدراس)، کاشف الاخبار (بمبئی)، قاسم الاخبار (بنگلور) اور آصف الاخبار (دکن) جیسے اخبارات شائع ہوئے۔ ’دہلی اردو اخبار‘ دہلی سے اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار تھا جسے مولوی محمد باقر نے 1837 میں شائع کیا۔ مولوی محمد باقر 1857 کی جنگ آزادی میں ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔ دہلی سے ہی ماسٹر رام چندر نے 1845 میں اخبار فوائد الناظرین اور 1847 میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ ’محب ہند‘ جاری کیا۔ خواتین کا پہلا اردو رسالہ ’اخبار النساء‘ تھا۔روزہ نامہ خلافت اور روزنامہ اقبال قابل ذکر رہے ہیں۔
سہیل انجم کے مطابق
اردو اخباروں کے جن مدیروں نے کامیابی اور مقبولیت کے آسمانوں پر جست لگائی اورجن کو پڑھنے کے لیے قارئین بیتاب رہا کرتے تھے ان میں قابل ذکر نام یوں ہیں: مولانا عبد الماجد دریا بادی سچ اور صدق جدید لکھنو ، سرسید احمد خان اخبار سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ، مولانا حسرت موہانی اردوئے معلیٰ ، مولانا ابوالکلام آزاد الہلال کلکتہ، مولانا ظفر علی خاں زمیندار لاہور، مولانا محمد علی جوہر ہمدرد ،منشی محبوب عالم زمیندار گوجرانوالہ، علامہ نیاز فتح پوری ماہنامہ نگار لکھنو ، دیا نرائن نگم، ماہنامہ زمانہ کانپور ، دیوان سنگھ مفتوں ہفت روزہ ریاست دہلی، خواجہ حسن نظامی منادی دہلی ،مولانا عثمان فارقلیط الجمعیۃ دہلی محمد مسلم دعوت دہلی ، شاہد احمد دہلوی ساقی دہلی ، سید سلیمان ندوی معارف اعظم گڑھ ، حامد الانصاری غازی مدینہ بجنور ، مہاشے خوشحال چند خورسند اور ان کے بیٹے رنبیر ملاپ دہلی ، قاضی عبد الغفار پیام حیدر آباد، حیات اللہ انصاری قومی آواز لکھنئو ،عشرت علی صدیقی قومی آواز دہلی، جمیل مهدی عزائم لکھنو ، خواجہ احمد عباس بلٹز، بمبئی،ظ انصاری آئینہ دہلی اور عبد الحمید انصاری انقلاب بمبئی وغیرہ۔ہیں۔ظ انصاری صاحب دوبار روزنامہ انقلاب کے مدیر رہے۔میں نے 2000کے دوران 1950 کی فائلوں میں ان کے طویل اداریے اور مضامین دیکھے ہیں جبکہ موصوف 1986 میں بھی انقلاب کے مدیر رہے ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز سے ہی اردو صحافت پر سیاسی اور سماجی اصلاحات کا غلبہ رہا۔ کانگریس، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا، آریہ سماج، تحریک خلافت اور علی گڑھ تحریک کی طرف سے شروع کی گئی سیاسی اور سماجی تحریکوں نے اردو زبان کے اخبارات اور رسالوں پر ایک گہرا اثر چھوڑا اور اردو صحافت نے اسی صدی میں ایک مضبوط قوم پرستانہ رخ اختیار کیا۔یہاں میں ممبئی کی اردو صحافت کا ذکر کرناچاہتاہوں۔
فارسی اخبار کا اردو ضمیمہ :
ممبئی میں سب سے پہلے کس اردو اخبار کا اجراء کب ہوا یہ اس بارے میں سردست کچھ کہنا مشکل ہے۔ برطانوی دور میں فارسی کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی اس لئے ممبئی میں بھی فارسی کے تین اخبارات آئینہ سکندر، احسن الاخبار اور مجمع الاخبار شائع ہوتے تھےاور ان ہفتہ روزہ اخبارات نے۱۸۳۰ء سے اردو ضمیمہ بھی شائع کرنے شروع کر دیئے تھے۔ جنوبی ہند میں اردو صحافت نامی کتاب
میں ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال رقمطراز ہیں :
آئینہ سکند را گر چهہ فارسی اخبار تھا مگر ۱۸۳۴ء میں اس کا اردو ضمیمہ شائع کیا گیا۔ اخبار ہر جمعرات کو شائع ہوتا تھا۔
ڈاکٹر میمونہ دلوی نے بمبئی میں اردو نامی کتاب میں لکھا ہے کہ بمبئی کا سب سے قدیم اردو اخبار جودستیاب ہوا وہ ” کشف الاخبار” ہے۔ ۱۸۵۵ء میں اس کا اجراء ہوا۔ ممبئی میں کتب خانہ محمد یہ جامع مسجد اور کریمی لائبریری انجمن اسلام میں اس اخبار کی کئی جلدیں ۱۹۶۰ ء تک محفوظ تھیں لیکن اب دیمک کی نذر ہو چکی ہیں۔ مشہور ادبی ، تہذیبی اور ثقافتی ماہنامہ آج کل نئی دہلی کے مئی ۱۹۹۳ء کے شمارے میں محمدشائر اللہ خاں نے اردو صحافت کی گمنام تاریخ ” میں لکھا ہے کہ کلکتہ کے ایک ماہنامہ شعری گلدستہ نتیجہ سخن نے فروری ۱۸۸۳ء کے شمارے میں اخبارات و رسائل کی ایک فہرست مدیر، مالک مہتم اور مقامات
اشاعت کے ساتھ شائع کی تھی۔
اس فہرست کو اردو صحافت کی مختصر ابتدائی تاریخ کہا جا سکتا ہے۔ اس فہرست میں شامل 107 اردو اخبارات میں سے سات اخبار ممبئی کے ہیں۔ ان میں کشف الاخبار (۱۸۵۵ء) ، ارمغان (۱۸۸۱ء) ، خادم هند (۱۸۸۳ء) سرپنچ (۱۸۸۳ء) ، ابوالظرفا (۱۸۸۳ء) ، سراج خلوت اور خیر خواہ اسلام (۱۸۸۸ء) شامل ہیں۔ ان میں دو اخبارات سراج خلوت اور خادم ہند ڈاکٹر میمونہ دلوی کی کتاب کی فہرست میں شامل نہیں ہیں ۔
آج کل صفحه 44 ،مئی (۱۹۹۳)
بر صغیر میں اردو صحافت پر اپنے ایک جائزے میں مشہور صحافی اور محقق جناب جے ۔ پی بھٹناگر
رقمطراز ہیں :
۱۸۵۷ء کے بعد دہلی ، آگرہ، بریلی ، لاہور، میرٹھ ، سیالکوٹ ، کلکتہ، بنارس ،
ملتان ، شملہ اور بمبئی سے بھی ماہنامہ ہفتہ روزہ اور روز ناموں کی شکل میں اخبارات شائع ہونے لگے۔ مجمع الاخبار اور کشف الاخبار بمبئی کے قدیم
اخبار کہے جاسکتے ہیں
محمدی، پہلا مکمل اردو اخبار :
بمبئی میں پہلے اخبار کا سہرا کس اخبار کے سر ہے ، اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی ہے۔ اختر شہنشاہی میں ممبئی کے اردو اخبارات کی فہرست میں ۱۸۴۷ء میں محمدی نامی اخبار کا ذکر ملتا ہے۔ جناب نا خدا محمد علی رو گھے اس کے مالک تھے ۔ عبد الملک محمد صادق کی ادارت میں نکلنے والے اس اخبار کے پرنٹر عبدالوہاب اور پبلشر شیخ محمد بتائے گئے ہیں ۔ گارساں دتاسی نے ۲ / دسمبر ۱۸۵۴ء کو اردو اخبارات کی تدریجی ترقی پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔ ” بمبئی میں تین یا چار ہندوستانی اخبار ہیں جو عام طور پر سب ہندیوں کے لئے ہیں۔ دو خاص کر مسلمانوں کے لئے اردو میں شائع ہوتے ہیں۔ ان میں بمبئی کاہرکارہ اور تازہ بہار شامل ہیں۔
۱۹ ویں صدی کے آخر میں شائع ہونے والے چند ایک ہفتہ روزہ اخبارات نے اپنا چولا بدل لیا اور روزناموں میں تبدیل ہو گئے ۔
ممبئی میں اردو صحافت :
مشہور مجاہد آزادی جناب نصرت اللہ عباسی نے بمبئی کی اردو صحافت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہےکہ نصف صدی قبل پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں بیسویں صدی کا پہلا اردو روز نامہ نصرت منظر عام پر آیا۔ زمانہ جنگ اور سنسنی خیز جنگی خبروں نے اس روز نامہ کو فروغ دیا۔ لیکن اس ننھےمنئے اخبار نے کل ہند مرکزی خلافت کمیٹی کے ترجمان ” روز نامہ خلافت کے اجراء کے بعد دم توڑ دیا ۔ مدت تک صرف روزنامہ خلافت کا پرچم بمبئی پر لہراتا رہا ۔ مگر نہرو رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد رپورٹ کے حامیوں نے کانگریس کی پالیسی اور نقطہ نظر کی نشر و اشاعت کے لئے کئی اخبار نکالے ۔ جناب معین الدین حارث نے روز نامہ اجمل اور جناب حافظ علی بہادر خان نے روزنامہ ہلال کا اجراء کیا۔ دونوں اخبارات اس دور میں عوام کے خیالات کے ٹکراؤ کی بناء پر مقبولیت
حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔
اردو صحافت کی تاریخ کے مصنف جناب امداد صابری اور ممبئی میں اردو کی مصنفہ محترمہ میمونہ دلوی نے بیسویں صدی کے آغاز میں شائع ہونے والے چند اخبارات ، امیر الاخبار (۱۹۰۱ء). مولا ناپنچ (۱۹۰۲ء ) ، دکن ریویو (۱۹۰۶ ء ) ، اردو ڈیلی (۱۹۰۷ء)، اقبال ( ۱۹۱۰ء) ،ڈیلی میل اور اجمل وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے میں اور جنگ کے دوران ممبئی میں متعدد نئے اخبارات کا اجراء عمل میں آیا ۔ ان میں روزنامہ آفتاب ، جمہوریت ، اقبال، ہندوستان ، اجمل ، ہلال، الہلال اور انقلاب شامل ہیں ۔ خلافت تحریک کے دوران روز نامہ خلافت کا اجراء ہوا۔ خلافت کی مقبولیت
کے سامنے بہت سے اہم اخبارات سر نہ اٹھا سکے ۔
۔۔
۔۔روز نامه خلافت
خلافت کی ۱۹۲۶ اور 1939 کے شمارے راقم الحروف نے خلافت ہاؤس بھائیکلہ ، ممبئی ۔ ۲۷ میں بیس سال قبل نہایت خستہ حالت میں دیکھے ہیں۔ 1926 میں جناب قمر احمد بی اے ایل ایل بی اخبار کے ایڈیٹر اور محمد عبد الرحمن پرنٹر پبلشر تھے ۔ خلافت پریس میں چھپ کر دفتر روزنامہ خلافت سلطان مینشن، ڈوگری بمبنی سے شائع کیا جاتا تھا۔اس شمارے میں کئی اہم خبریں صحفہ اول پر تھیں۔
ایک خبر اس طرح تھی : جی آئی پی ریلوے (سینٹرل ریلوے) ہار ہر لائن پر کاٹن گرین اسٹیشن کےقریب ایک خاتون برقی ٹرین کی زد میں آکر ہلاک ہونے کی بھی تھی۔ اخبار نے تجویز پیش کی تھی کہ اس قسم کے حادثات کی روک تھام کے لئے ریلوے پٹریوں کے دونوں جانب آہنی تار لگائے جائیں۔
جناب رئیس احمد جعفر کو مولانا شوک علی ممبئی لائے اور خلافت کی ادارت سونپ دی۔ اخبارےسے علیحدگی کے بعد جناب جعفری نے روز نامہ ہندوستان کا اجراء کیا۔ ملک کی آزادی اور تقسیم کے دور میں موصوف روزنامہ انقلاب کی مجلس ادارت میں شامل رہے۔ لیکن بعد میں پاکستان ہجرت کر گئے ۔ روزنامہ خلافت ۱۹۷۰ ء کی دہائی تک شائع ہوتا رہا۔ اس کی چند فائلیں خلافت ہاؤس میں موجود تھیں ۔
روز نامه آفتاب:
ل
روزنامه آفتاب ایک پیسے کے اخبار کے نام سے مشہور تھا۔ اس یک ورقی اخبار کو ایک ٹیکسی ڈرائیور قیصر احمد نے اپنے استاد شرف دہلوی کی سر پرستی میں شائع کیا۔ عوام کی صحیح ترجمانی پر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا لیکن پھر اپنی مقبولیت کھو بیٹھا اور بند ہو گیا ۔ روز نامہ اقبال اور مسلم نے بھی اس زمانے میں آنکھیں
کھولیں ۔ لیکن کچھ عرصہ مقبولیت حاصل کرنے کے بعد بند ہو گئے۔
روز نامہ ہندوستان اور جمہوریت
جناب عبد الحمید انصاری اور جناب احسن مراد آبادی نے تاج پریس سے روز نامہ الہلال شروع کیا اور معروف مصنف و صحافی رئیس احمد جعفری نے ادارہ خلافت سے علیحد گی کے بعد شاہنامہ ہندوستان کا اجراء کیا۔ ان کے پاکستان ہجرت کرنے کے بعد جناب غلام احمد خان آرزو نے روز نامہ ہندوستان کی کمان سنبھال لی۔ جو ایک شاہنامہ کی شکل میں باقاعدہ شائع ہو رہا ہے اور ان کے صاحبزادے جناب سرفر آرز د ادارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ روزنامہ آفتاب اور روزنامہ جمہوریت وافر سرمایہ اور اچھے قلم کاروں کے باوجودخود کو زندہ نہ رکھ سکے۔
نصرت آللہ عباس نے ان کی ناکامی پر لکھا : سستی ، کاہلی، بدنظمی اور عوام کے جذبات کی صحیح ترجمانی نہ کرنے کےاسباب نے دونوں اخبارات کو بند کر دیا ۔ لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ جناب عبد الحمید انصاری کی سرپرستی میں روزنامہ انقلاب طوفانوں سے -مقابلہ کرتارہا اورجنگلوں سے رینگتا نشیب و فراز کی گھاٹیاں طے کرتا ہوا مسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اس کا واحد سبب سر بر اہ انقلاب کی تنظیمی قابلیت ، ان کی آندھیوں اور طوفانوں سے مقابلہ کرنے کی طاقت ، ناسازگار حالت میں منزل مقصود کی طرف بڑھنے کی صلاحیت اور ہر دور میں عوامی جذبات کی ترجمانی ہے۔ اب سے ۲۵ سال قبل کیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ بمبئی کا کوئی اردو روزنامہ ترقی کر کے اس مقام پر پہنچے گا اور فوٹو آفسیٹ مشین کے ذریعے طباعت کے انتظام میں مصروف ہوگا ؟ اردو صحافت کیلئے یہ قابل فخر کارنامہ ہے۔ اس کا سہرا جناب انصاری صاحب کے سر بندھتا ہے۔ انہوں نے اردو داں عوام کو نوازا اور عوام نے فخر صحافت کا خطاب دیا۔س سے دولت، عزت اور شہرت بھی عطا ہوئی ۔
خبر رساں ایجنسی سے محروم :
ابتدائی دنوں میں روزنامہ انقلاب میں بھی خبر رساں ایجنسی کا انتظام نہیں تھا اور اسی طرح انگریزی اور گجراتی اخبارات کی خبریں ترجمہ کی جاتیں اور ریڈیو کی خبروں سے مدد لی جاتی تھی ۔ اس کی تصدیق انقلاب کے ایک سابق مترجم اور سبکدوش میونسپل معلم ابو بکر اکبر علی نے بھی کی ہے ۔ ۷۸ سالہ جناب ابوبکر بھیونڈی میں رہائش پذیر تھے:
شام کے انگریزی اخبارات بامبے کرانیکل“ اور ” ایوننگ نیوز“ سے ترجمہ کیاجاتا تھا۔ جناب غلام احمد خاں آرز و انقلاب کے مدیر اور غیاث الدین فریدی نیوز
ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔“
جبکہ ریڈیو کی خبریں بھی سنی جاتی تھیں۔غلام احمد خان آرزو، ہیڈ ٹرانسلیٹراشفاق نوری اور ساحل بلگرامی ریڈیو کی خبریں سنتے تھے۔
انقلاب کے سب سے پرانے کا تب ۸۲ رسالہ محمد عثمان نے ابوبکر صاحب کی طرح مدیر جناب اشفاق نوری اور ساحل بلگرامی وغیرہ کا ذکر کیا ۔
اس دور روز نامہ خلافت اور اقبال کے دفاتر تھے
اقبال اپنے وقت کے تمام اخبارات کی دسترس سے کافی دور نکل گیا۔ خلافت ۱۹۲۰ء میں جاری ہوا مگر اس کے دس بارہ سال بعد جب روز نامہ اجمل کا اجراء ہوا تو اس کا اپنا ایک پریس اور باقاعدہ دفتر تھا۔ جناب معین الدین حارث نے حکیم اجمل خان کی یاد میں اخبار نکالا۔ اس کے سال دو سال بعد جناب حافظ علی بہادر خان نے ہفت روزہ اتحاد اور ایک ماہنامہ جریدہ عالم نسواں شروع کیا۔ روزنامہ اتحاد بعد میں سابق کارپوریٹر خواجہ غلام جیلانی کی سر پرستی میں آگیا۔ حافظ صاحب نے اس کے بعد روز نامہ ہلال نکالنا شروع کیا تو اس کا دفتر بھی حافظ علی بہادر خان کی رہائش گاہ کے ایک حصہ میں واقع تھا۔ لیکن اخبار کی طباعت کے لئے اقبال برسوں دوسروں کا محتاج رہا۔
تقسیم ہند کے دوران اور مابعد اردو صحافت کو کافی نقصان پہنچا۔ اس وقت اردو کے 415 اخبارات نکلتے تھے جن میں روزنامے، ہفتہ وار، پندرہ روزہ اور ماہانہ رسائل شامل تھے۔ تقسیم کے بعد ان کی تعداد ہندوستان میں 345 رہ گئی کیونکہ تقریباً 70 اخباروں کے مدیران ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے۔ 1957 کی آر این آئی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اردو اخبارات کی تعداد 513 تھی اور ان کی مشترکہ سرکولیشن 7.48 لاکھ تھی۔ آر این آئی رپورٹ 2007 کے مطابق پچاس سال بعد صرف اردو روزناموں اور رسائل کی تعداد0 318 تھی اور ان تمام اردو اخباروں کی مشترکہ سرکولیشن 1.7 کروڑ تک پہنچ گیا۔
تقسیم کے بعد نکلنے والے اردو اخبارات میں ’دعوت‘ بھی شامل ہے جسے جماعت اسلامی ہند نے شروع کیا تھا۔ مولانا عبدالوحید صدیقی نے اردو کا ایک مقبول ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ اور سہارا گروپ نے ہفتہ وار ’عالمی سہارا‘ شروع کیا۔ علاوہ ازیں حیدر آباد سے اردو اخبارات کی ایک اچھی خاصی تعداد شائع ہوئی جس مین رہنمائے دکن، سیاست، منصف اور اعتماد قابل ذکر ہیں۔
درحقیقت 2006 تک آندھرا پردیش میں ہندوستان کی تمام ریاستوں میں سے سب سے زیادہ رجسٹرڈ اردو اخبارات (506) تھے۔ اس وقت ممبئی میں روزنامہ انقلاب اور اردو ٹائمز سمیت کئی اردو اشاعتیں بھی تھیں۔ مغربی بنگال، خاص طور پر کلکتہ میں بھی ایک بڑی تعداد میں اردو اخبارات شائع ہو رہے تھے۔
حیدر آباد سے شائع ہونے والا ’سیاست‘ پہلا ایسا اردو اخبار ہے جس نے 90 کی دہائی کے آخر میں ویب ایڈیشن شروع کیا۔ اس وقت کئی دوسرے اردو اخبارات یا اشاعتوں کے ویب ایڈیشن موجود ہیں۔ دہلی اور شمالی ہند کی ریاستوں جیسے اتر پردیش اور بہار کے علاوہ جنوبی ہندوستان میں بھی اردو پریس کو فروغ دینے کی روایت ہے، تاہم حیدر آباد ایک بڑا اشاعتی مرکز ہے۔سہارا انڈیا پریوار اور جاگرن گروپ نے اردو زبان اور صحافت کو نئی زندگی دی ہے۔اور اس کی اہمیت کو بڑھادیا ہے۔میں ناامید نہیں ہوں۔
۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.