بحراحمر میں حوثیوں کی کامیاب جنگی حکمت عملی

ناظم الدین فاروقی
سینئر مبصر
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کے خلاف عرب و مسلم ممالک میں سے اگر کسی نے فلسطینی مظلومین کی حمایت میں میزائل اور ہتھیار کا استعمال کیا ہے تو وہ یمن کے ایران نواز ملیشیاء حوشیوں نے کیا ۔
بحرا حمر کو ہزاروں سالوں سے بین الاقوامی تجارت میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔خلیج عدن اور باب مندب سے لے کر ارون کی بندرگاہ العقبہ تک 1930 کلو میٹر کی پٹی تبرسوز سے ہوتے ہوئے ایشیاء یورپ اور امریکہ کے لئے ایک بہت اہم بحری گذر گاہ ہے اس سمندری پٹی کی چوڑائی 350 کلو میٹرسے کم ہو کر یمن کے باب مندب پرصرف 32 کلو میٹر کی ہو جاتی ہے ۔ 40% سمندر کی گہرائی بہت کم ہے یعنی صرف 330 فٹ گہرا سمندر ہے ۔
یمن کے مدمقابل ایک جانب مصر ‘ سوڈان ‘ ائیر ہٹریا ‘ ا نیھوپیا ‘ Dijibouti کے سوا حل ہیں ۔ بحراحمر قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔دنیا کے دوسرے سمندروں کے مقابلے میں بحرا حمر میں ہمہ اقسام کی مچھلیاں ‘ حیاتیات و سمندری مخلوق کثرت سے پائی جاتیں ہیں ۔ یہاں کا پانی بہت کھارا ہے۔یمن سطح سمندر سے 7200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

یمن کی جملہ آبادی 3 کروڑ 50 لاکھ ہے اور رقبہ 5 لاکھ 55 ہزار مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے ۔65% آبادی سنی اور 35%شعیہ ہے ۔ لیکن یمنوں میں ایک خاص بات یہ ہے کہ شعیہ اور سنی میں کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ دو طبقے ایک مسجد اور ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ۔ یمنی قبائل بڑے جفا کش جنگجو اور طویل جنگیں لڑنے کے عادی ہیں۔ انگریزوں نے سلطنت عثمانیہ کے زوال کے لئے سب سے پہلے یہیںسے ترکوں کو گھیرے میں لینے کی ابتداء عدن پر قبضہ سے کی تھی ۔1905 سے 1915 کے درمیان مختلف یمنی قبائل کو پیسہ اور اسلحہ کی فراہمی کے ذریعہ ترکوں کے خلاف انہیں اُکسایا گیا تھا ۔ ترکی افواج عربوں سے ہرگز جنگ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔30ہزار سے زیادہ ترکی افواج کا قتل کیا گیاتھا اوراِنہیں یمن سے خروج پر مجبور کیا تھا ۔ اس کے بعد یمنوں نے جمال عبدالناصر کے دور میں مصری افواج کو شکست دی تھی ۔ اب 2015 سے سعودی عربیہ اور امارات کے ساتھ ہوتی 7 سالہ طویل جنگ میں حوشیوںکو کسی بھی طرح کی شکست دینے پر یہ ممالک میں بری طرح نا کام رہے ۔
جب حوشیوں نے آرمکو کے تیل کے ذخائر پر میزائیل برسانے شروع کردیئے تو بلآخر سعودی عربیہ و امارات کو ایران کے ساتھ مارچ 2023 میں ایک امن معاہدہ پر دستخط کرنے پر مجبور ہو نا پڑا۔
یمن دو حصوں میں بٹا ہوا ہے ۔ مغرب کا علاقہ جہاں یمن کا دارالحکومت صناء ہے وہ حوشیوں کے قبضے میں ہیں ۔اب جبکہ غزہ پر اسرائیل و امریکہ کی و اسرائیل کی بمباری اور فلسطینیوں کی وحشیانہ نسل کشی گذشتہ 100 دن سے جاری ہے ۔ جس میں 25 ہزار سے زیادہ بچے ‘ عورتیں ‘ بوڑھے اور جوان شہید ہو گئے اور 55 ہزار سے زیادہ مکانات بمباری کے ذریعہ ملبے میں تبدیل کردیئے گئے ہیں ۔
اسرائیل گذشتہ ان100 دنوں میں اپنے مغویہ فوجیوں اور شہریوں کو القسام برگیڈ سے چھڑا نے اور حماس کی قیادت کو گرفتار کرنے میں بری طرح شکست کھا چکاہے۔
حوشیوں نے مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کردی اور وہ لگا تار اسرائیل کے داخلی علاقوں کے علاوہ بحر احمر سے گذرنے والے اسرائیل کے مال بردار کے جہازوں پر میزائیل مار کر تباہ کر دیئے ۔
امریکہ اور دوسرے 10 یوروپی ممالک نے فوری ایک وفاق بنا کر بحر احمر سے گذرنے والے جہازوں کی حفاظت کے لئے اپنے بحری بیڑہ روانہ کر دیئے ۔
بحراحمر سے دنیا کے12% مال برداری کے جہاز گذرتے ہیں جو عالمی تجارت کا 20% ساز و سامان اور گڈس لے جاتے ہیں ۔ حوشیوں کے استقلال ‘ پامردی‘ صمود‘ عزم ولولے اور شجاعت نے اقوام عالم کو ہلا کر رکھ دیا ۔ امریکہ اسرائیل اور یورپی ممالک کی یہ خام خیالی تھی کہ بحراحمر میں اپنے بحری جنگی جہازوں سے ریڈسی Redsea کو محفوظ بحری گذر گاہ بنائے رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔
یہ بات عالمی میڈیا میں مخفی رکھی گئی کہ گذشتہ 7 سالوں میں امریکہ حوشیوں کے خاتمہ میں بار ہا کوشش اور حملے کرنے کے باوجود بری طرح نا کام ہو چکا تھا۔
تفصیلات کے مطابق امریکی ائیر فورسس نے حوشیوںپر2015 میں 35 ‘ 2016 میں 130 ائیراسٹرایک کئے اور 2107 میں امریکہ نے Special Operation Force Raid کئے پھر اس کے بعد 2022 میں امریکہ نے 400 ائیراسٹرایک کئے تا کہ حوشیوں کی طاقت کوپوری طرح ملیا میٹ کردیاجائے۔ اس کے نتیجہ میں اس وقت کے صدر یمن عابد منصور کو مستعفی ہونا پڑاتھا۔ یمن کی خانہ جنگی اور بڑی طاقتوں کے ساتھ حوشیوں کے جنگ کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایک کروڑ30 لاکھ بچوں کو دواء اور فوری طبی امداد کی ضرورت ہے ۔ دو کروڑ یمنی غذاو دوا ء کی شدید قلت کی وجہہ سے سخت پریشان ہیں ۔ تیل کے کنویں حوشیوں کے قبضے میں ہیں۔ یمن کے تباہ کن معاشی حالات اور شدید غربت کے باوجود حوشیوں فوجی جنگی طاقت میں زرہ برابرفرق نہیں آیا۔
تمام ایشاء ممالک بالخصوص ہندوستان کی بین لاقوامی تجارت کے لئے بحر احمر بہت اہمیت کا حامل ہے ۔حال ہی میں ہندوستان کی وزارات خارجہ ‘ وزارات دفاع ‘ وزارات مالیہ اور وزارات صنعت و تجارت کا ایک اہم مشترکہ اجلاس ہوا جس میں اس بات پر غور و خوص کیا گیا کہ کس طرح حوشیوں کے نئے چیالنج کا مقابلہ کرنے یا بچتے ہوئے معمول کے مطابق مال بردار جہازوں کے گذرنے کو یقینی بنایا جاسکے۔ امریکہ بحری بیڑہ اور پھر مودی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہندوستانی بحریہ کے جنگی جہاز سمندر میں تعین کرائے گئے ہیں۔ شپپنگ لائن کسی بھی قسم کا جو کھم مول لینا نہیں چاہتے۔یہ سب سیاسی بیان بازی ثابث ہوئیں۔
ہندوستان کی سالانہ 230 بلین ڈالر کی تجارت اس بحری گذر گاہ سے ہوتی ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اگر آئندہ چند ماہ بحر احمر کی اس طرح کی صورتحال رہے گی تو ہندوستانی تجار ت کا 30 بلین ڈالر کا راست نقصان ہو سکتا ہے۔
یمن ساحل کے مدمقابل ڈجیبوتی بندر گاہ سے روزانہ تقریباً 2500 مال برداروں کے جہاز گذرا کرتے تھے ۔ حالانکہ اسرائیل نے اپنی سمندری وبحری اسٹراٹیجک پلاننگ کے طور پر ڈجیبوتیDijibouti میں اپنا فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے ۔لیکن حوشیوں نے اس اڈہ کو خاطر میں لائے بغیر تابڑتوڑ اسرائیلپرحملے کیے جو اب بھی جاری ہے ۔
کوپنہیاگن ڈنمارک دنیا کی ایک مشہور مال برداری شپنگ لائن و کنٹینرس کی کمیٹی میرسک Maersk ہے جس کے سربراہ Vincent Clerc کا کہناہے کہ باب مندب پر حوشیوں کی گرفت مضبوط ہے ۔ اس کی وجہہ سے پورے افریقہ کا چکر کاٹ کر جہازوں کو مجبوراً جانا پڑ رہا ہے ۔ ہندوستان سے امریکہ کے لئے 25 دن کا سمندری سفر ہوا کرتا تھا‘ اب 15 دن اس میں مزید بڑھ گئے ہیں ۔اس طرح سمندری فریٹ ‘ انشورنس کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں ۔ اگر چند ماہ میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو قیمتیں دوگنی بھی ہو سکتی ہیں ۔ بعض مصنوعات کو بروقت پہنچانے کے لئے Air Cargo کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ ائیر کارگو کے بحری جہازوں سے 7گناہ اخراجات زیادہ ہو تے ہیں ۔ بلآخر یہ تمام نقصانات و اخراجات کا بوجھ گاہکوں کو برداشت کرنا پڑتاہے ۔
یورپ امریکہ اور خو د ایشائی ممالک میں مصنوعات ‘ خام مال اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ عنقریب اضافہ ہو سکتا ہے ۔تمام برّآعظموں کے بین الاقوامی تجارت کرنے والے تجار بہت پریشان ہیں امریکہ کی طمانیت پر کسی کو بھی اعتماد نہیں ہے اور نہ حوشیوں ملیشیاء کسی کے دبائو یا کسی سے ڈرنے والی ہے ۔
حوشیوں سے جنگ کر کے سعودیہ عربیہ اور امارات پہلے ہی اپنے ہاتھ جلا چکے ہیںوہ اب امریکہ و اسرائیل کی تائید میں حوشیوں سے مزید جنگ نہیں چھیڑنا چاہتے ہیں اپنے نا کام تجربات کی روشنی میں خلیجی ممالک نے محتاط رہنے کو ترجیح دی جو امریکہ کو مہنگی پڑھ رہی ہے ۔ امریکہ اس تصور میں تھا کہ تمام دوست عرب ممالک پھر ایک مرتبہ متحدہ طور پر امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دیں گے ؟ اسرائیل نے بطور انتقام ایران کے ایک کمانڈر کو شام اور ایک کو اعراق اور چند کو لبنان میں ڈرون حملوں کے ذریعہ ہلاک کیا۔ لیکن یمن خاص کر باب مندب کا جغرافیائی علاقہ قدرت نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ سوائے مقامی قبائل کے کسی بھی عالمی طاقت کی اس منطقے میں جدید سے جدید اسلحہ سے جنگ کرنے کی جرأت باقی نہیں ہے ۔
خاص بات یہ ہے کہ بیت المقدس و فلسطین کی آزادی میں یمن کی سو فیصد آبادی حوشیوں کی اسرائیل کے خلاف جنگی اقدامات کی حمایت میں کھڑی ہے ۔ یمن کے مختلف شہروں میں کئی مرتبہ ملین مارچ فلسطین کی تائید میںنکال چکے ہیں ۔
22 عرب ممالک کے 35 کروڑ عرب آبادی میں 97% لوگ فلسطین کی تائید میں ہیں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ایک جنگجو لڑاکا حوشیوں کا چھوٹا سا مسلحہ گروہ دنیاکی بڑی سی بڑی ظالم طاقت کوسبق سکھا سکتا ہے تو 56 مسلم ممالک اگر متحدہ طور پر اسرائیل کے خلاف صف بستہ ہو جائیں تو ہمیشہ کے لئے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور فلسطین و بیت المقدس کو آزادی مل سکتی ہے ۔لیکن اکثر مسلم و عرب حکومتوں کی بے حسی ‘ خوف ‘ لالج ‘ حرص طمع ‘ خیانت ‘ نفاق ‘ بددیانتی نے عالم اسلام کو نہ صرف شکست خوروگی کا شکار بنادیا بلکہ پھر ایک مرتبہ 2023 و 24 میں مسلمانان عالم کی ساکھ متاثر ہوئی ہے ۔ اپنے اپنے ذاتی یا قومی مفادات کے لئے امت کے مفادات کو خاک میں ملا دیا گیا ہے ۔
دنیا نے دیکھ لیا آخر مسلم ممالک جدہ تاقاہرہ پھر ریاض کا نفرنس کا انعقاد کر کے سوائے لن ترانی ‘ کافی کلب کی گپ شب اس سے بڑھ کراور کوئی اہمیت اس کی نہیں رہ سکی ۔ ان کانفرنسوں میں ایران نے برملا کہا تھا کہ باتیں باتیں کرنے سے لا حال ہے کچھ کر دکھائیں !
مصر ‘ سعودی عربیہ امارات وغیرہ کشکول لئے روس و چین کے دورہ کرتے رہے ۔ اس سے سوائے سفارتی سرد مہری و مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کے اکثریتی اراکین ممالک کی کوششیں قابل تحسین ہیں 150 ممالک نے2مرتبہ اسرائیل کی وحشیانہ نسل کشی کی کاروائیوں کے خلاف فوری روک لگانے کے لئے متحدہ طور پر ووٹ دیئے ۔ محض امریکہ کے ویٹو کی وجہ سے یہ دو مرتبہ نا کام ہو گئی ۔
جن عرب و مسلم ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں ان میں سے ایک کو بھی توفیق یا ہمت نہیں ہوئی کہ اسرائیل جیسے ظالم ملک کے ساتھ اپنے سفارتی ‘ تجارتی و سیاسی تعلقاتفی الفور منقطع کرلیں۔
بے غیرتی کی انتہاء یہ ہے کہ غزہ پر بمباری کے لئے اردن کا حسین ائیر بسیں استعمال کیا اور ابوظہبی ائیر فورس کے طیاروں نے مشترکہ طور پر امریکی و یورپی فورسس کے ساتھ مل کر غزہ پر بمباری میں حصہ لیا ۔
بڑی افسوس اور شرم کی بات ہے ۔ غور فرمائیں۔امریکہ کی اسرائیل کو 3 بلین ‘ اردن اور مصر کو ڈیڑھ بلین ڈالر سالانہ امداد ملتی ہے۔تاکہ اردن اور مصر کبھی کسی مصیبت کے وقت بھی فلسطینیوں کی مدد نہ کریں اور فلسطینیوں کوکسی بھی قسم کی مدد کے لئے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ غزہ کے جنوب میں مصر کی سرحد پر واقع رفع بارڈ پر مصر اور غزہ کا کنٹرول ہے لیکن مصر باوجود اس کے بار بار اسرائیل بمباری میں کئی معصوم شہری ہلاک ہو رہے ہیں اس کے خلاف مصر کوئی احتجاج تک نہیں کرتا ۔ نہ صرف غزہ میں بلکہ مصر پر بھی بمباری کی جاتی ہے تو مصر اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔بلکہ بڑی افسوسناک چونکہ دینے والی تفصیلات ہم تک پہنچ رہی ہیں جتنی انسانی بنیادی ضرو ریات کی ایمرجنسی امداد مختلف ممالک سے مصر روانہ کی جاتی ہے اس بین الاقوامی ایمرجنسی امداد کا بہ مشکل 20% حصہ بھی غزہ کے مصیبت ذدہ شہریوں تک نہیں پہنچتا ہے ۔ اسرائیل کی لازمی شرط یہ ہے کہ کوئی امدادی سامان بغیر اسرائیل میں چیک کئے نہیں بھیجا جاسکتا ہے ۔ مصری اور اسرائیلی دونوں مل کر امدادی سامان کی لوٹ میں لگے ہوئے ہیں ایک عرب نیوز چیانل کے مطابق کویت نے غزہ کے زخمیوں کے لئے اس جنگ میں 100نئے ایمبولینس گاڑیاں بطور عطیہ بھیجے تھے ۔جیسے ہی یہ 100 ایمبولینس گاڑیاں قاہرہ پہنچے ۔100 نئے ایمبولینس گاڑیاں غائب کر دیئے گئے ۔اس کی جگہ قدیم ‘ناکارہ‘ خستہ حال کے ایمبولینس بھیج دیئے گئے جس پر کویت نے شدید اعتراض کیااور ابھی تک ان ایمبولینس کا پتہ نہیں چل سکا کہ کس نے انہیں چوری کرلئے ؟
اگر خلیجی ممالک امریکہ و اسرائیل پر نیک نیتی سے دبائو ڈالتے اور ترکی ‘ قطر ‘ کویت ‘ ایران کی طرح سفارتی سطح پر کوششیں کرتے ہوتے تو فلسطین کو بہ آسانی ایک آزاد مملکت کا درجہ مل سکتا تھا۔
افغانیوں کے بعد حماس اور حوشیوں نے اپنی قومی‘ ملّی ‘ حمیت و غیرت اور شجاعت کا ثبوت دے دیا ہے ۔تیل سے مالا مال ممالک کئی ٹریلین ڈالر سے خزانے بھرے پڑے رہنے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ان کی آبادی میں اثر ہے اور نہ ہی ان کی سفارتی سرگرمیاں کوئی معنی رکھتی ہیں۔
حوثیوں کے علاقے سے دو ہزار کلو میٹر دور غزہ پٹی کی خون ریز جدوجہد آزادی میں کھل کر حصہ لیا اور ظالم طاقتوں کی شہ رگ پر اپنی گرفت مضبوط کر تے ہوئے باب مندب کی بحری گذر گاہ کو جنگی حکمت عملی کے طور پر کنٹرول میں لے لینا ایک مثالی اقدام ہے ۔

 

Comments are closed.