پران پرتشٹھان پر قدرتی آفات کے گھنے بادل

 

ڈاکٹر سلیم خان

 شنکر اچاریہ اوی مکتیشور آنند نے ادھورے رام مندر کے افتتاح پر اعتراض کرتے ہوئے جن قدرتی آفات کاذکر کیا تھا وہ بلائیں  ظہور پذیر ہونے لگی ہیں ۔ اس طرح کے اتفاقات سے دقیانوسی توہمات فروغ پاتے ہیں   لیکن اگر وہ چاہیں تو اس کی مثالوں سے اپنی مقبولیت بڑھا سکتے ہیں۔ ہندو مذہب کے بیشتر تہوار موسم کے لحاظ سے منائے جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک مکر سنکرانتی بھی ہے ۔اس تہوار کو ہندوستان، نیپال اور بنگلہ دیش کے بیشتر علاقوں میں متفرق انداز  میں منایا جاتا ہے۔ یہ فصلی تہوار  ہمیشہ جنوری کی چودہ یا پندرہ تاریخ  کو پڑتا ہے کیونکہ اسی دن سورج خط قوس سے گذر کر خط جدی میں داخل ہوتا ہے لہذا  اسے ہندوستان   میں موسم بہار کا آغاز سمجھا جاتا ہے  تمل ناڈو میں یہ پونگل کے نام سے مشہور ہے۔  اس کے بعد سے سردی کا زور ٹوٹتا ہے اسی لیے غالباً ۲۲؍ جنوری کو رام مندر کا افتتاح رکھا گیا تاکہ لوگ بہ آسانی ایودھیا آسکیں لیکن سردموسم کی   تباہی  تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے   اورسنگھ کے منصوبے پر نحوست کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ پران پرتشٹھان کے کرم کانڈ(رسوم و رواج )  کا آغاز وزیر اعظم کے دورے سے ۶؍دن  قبل  ہوگیا۔ اس وقت  دہلی اوراین سی آر میں شدید دھند کی وجہ سے فضائی اور ریل ٹریفک متاثرتھی کیونکہ دارالحکومت کا کم سے کم درجہ حرارت 3.5 ڈگری سیلسیس تک گر گیا تھا جو معمول سے 4 ڈگری کم ہے ۔ یہی حال پنجاب، ہریانہ، چنڈی گڑھ اور اتر پردیش کاتھا وہاں بھی کم از کم درجہ حرارت معمول سے کئی ڈگری کم ریکارڈ کیاجارہا تھا۔

  محکمہ موسمیات (آئی ایم ڈی) نے  اگلے چار دنوں  کے بعد جس تبدیلی کی پیشنگوئی کی تھی وہ بھی تادمِ تحریر غلط ثابت ہوگئی ہے۔  پران پرتشٹھان کے چوتھے دن بھی این سی آر سمیت پورے شمالی ہندوستان میں شدید سردی کا قہر جاری ہے۔ وسطی ہندوستان کی ریاستیں بھی دھند اور سردی کی لپیٹ میں ہیں۔ دہلی میں درجہ حرارت 4 ڈگری سیلسیس سے نیچے برقرار ہے۔ دارالحکومت میں گھنی دھند اور حد نگاہ صفر ہونے کے سبب  کئی پروازیں اور ٹرینیں تاخیر سے چل رہی ہیں۔ جموں کشمیر، لداخ اور اتراکھنڈ میں برف باری کا امکان  ظاہر کیا گیا ہے۔ راجستھان، اتر پردیش، ہماچل پردیش، پنجاب اور ہریانہ  کے علاوہ مدھیہ پردیش   اور بہار میں بھی  سردی کی لہر کا انتباہ جاری  ہوگیا  ہے۔ مکر سنکراتی کے دن میں  دہلی ہوائی اڈے پر 170 پروازیں متاثر ہوئی تھیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اب  دہلی سمیت شمالی ہندوستان میں سردی سےنجات کا کوئیامکان  نہیں ہے۔ ایودھیا کے والمیکی  ہوائی اڈے پر بھی   دھندکی وجہ سے شام ڈھلے پروازوں کا اترنا مشکل ہی  ہوگا اور ہریانہ اور پنجاب میں  اگلےدو تین دن  تک  شدید ٹھنڈ پڑے گی ۔ شنکر اچاریہ کو اس  خبر سے یقیناً  خوشی  ہوگی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو  بجا طور پربرہمن  بنیا پارٹی کہا جاتا ہے اتفاق سے  تینوں کا پہلا حرف ’ب‘ ہے۔ اس کے ساتھ   یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برہمن سے زیادہ بنیا اس کا وفادار ووٹر ہے کیونکہ اول الذکر تو کانگریس اور بی ایس پی تک میں منہ مارتا  رہاہے  شنکر آچاریہ کے اعتراضات سے  برہمن کی دلآزاری تو ہوئی ہی ہوگی۔  اس کے برعکس بنیا اپنے معاشی مفاد کی خاطر ہمیشہ ہی بی جے پی کے ساتھ کھڑا رہتا ہے لیکن فی الحال وہ بھی پریشان ہے۔ ہندوستانی اسٹاک مارکیٹ میں پچھلے تین دن یعنی پران پرتشٹھان کے آغاز سے تباہی کا غلغلہ ہے اور اس انڈکس میں مسلسل  گراوٹ ریکارڈ کی جارہی ہے۔ بامبے اسٹاک ایکسچینج  میں بدھ کوابتداء میں ہی ایک ہزار پوائنٹس کی زبردست گراوٹ درج کی گئی جو آگے چل کر تیس ہزار  پوائنٹس تک پہنچ گئی اور یہاں تک کہ  وہ 23.2؍ فیصد کی زبردست گراوٹ کے ساتھ بند ہوا۔ اسی طرح نیشنل اسٹاک ایکسچینج  بھی نو فیصد سے زیادہ  کمی پر بند ہوا۔  ایچ ڈی ایف سی بینک کے حصص46.8؍  فیصدکی گراوٹ کے ساتھ بند ہوئے۔ دیگر کمپنیوں کے حصص میں بھی گراوٹ درج کی گئی۔  بی  ایس ای پر درج کمپنیوں کی کل مارکیٹ کیپ  میں پچھلے ایک ہی تجارتی سیشن میں تقریباً 6.4؍ لاکھ کروڑ روپے کی کمی ہوئی ۔ معیشت کی اس تباہی کو کوئی ادھورے رام مندر کے افتتاح کی وجہ سے آنے والی تباہی سے جوڑ دے تو شنکر اچاریہ بلےّ بلےّ ہوجائیں گے۔

شنکر اچاریہ اوی  مکتیشور آنند نے ایودھیا نہیں جانےکی  ویسے تو کئی وجوہات بیان کی ہیں لیکن ان میں سے ایک بہت دلچسپ   سبب ملک میں  گئو کشی کا جاری رہناہے۔ انہوں نے  سنگھیوں کے ترانہ  ’’جو رام کو لائےہیں،  ہم ان کو لائیں گے‘‘ْ کا حوالہ دے کر کہا میں بتاتا ہوں کہ رام کو کون لایا۔ ہندو مذہبی صحیفوں کے مطابق جب زمین ظلم وستم سے بھر گئی  تو اوہ گائے کا بھیس بدل کر برہما کی خدمت میں حاضر ہوئی اور دنیا میں آکر اسے ختم کرنے کی فریاد کی۔ اس پر برہما نے جواب دیا کہ وہ سوریہ ونش میں رام کا اوتار لے کر آئیں گے۔ یہ کہانی سنانے  کے بعد سوامی  اوی مکتیشور   آنند کہتے ہیں کہ رام کو لانے والے یہ لوگ نہیں ہیں بلکہ  گائے ہے اور چونکہ ملک میں گائے کو قتل کیا جارہا ہے اس لیے وہ نہیں جائیں گے۔ ٹی وی نامہ نگار نے ان سے پوچھ لیا کہ آخر گائے کا قتل یعنی ذبیحہ بند کیوں نہیں ہورہا ہے تو  اوی مکتیشور آنند شنکر آچاریہ نے بڑے پتہ کی بات کہی ۔ وہ بولے اسے معیشت سے جوڑ دیا گیا ہے۔

اوی مکتیشور آنند نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ملک کےعیش پرست  حکمرانوں کی فضول خرچی  اس قدر  بڑھ چکی ہے کہ  وہ ٹیکس سے پوری نہیں ہوتی اس  لیے اسے گائے کے گوشت کو برآمد کرکے وصول کیا جاتا ہے۔ اس سے آگےبڑھ کر انہوں نے یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ غیر ملکیوں کو ہندوستانی گائے کا گوشت بہت پسند ہے اس لیے وہ دباو ڈالتے ہیں کہ اگر اس کی برآمد بند کردی گئی تو وہ حکومت ہند کا تختہ الٹ دیں گے۔  اس الزام کی سچائی سے قطع نظر کسی ہندو مذہبی رہنما کا ہندو ہردیہ سمراٹ اور وشو گرو نریندر مودی پر یہ بہتان لگانا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے اور  خاموشی کے ساتھ اسے برداشت کرلینا بے انتہا شرم کی بات ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ   وشنو کے اوتار ہونے کی تعریف سے خوش ہونے والا وزیر اعظم دراصل کس قدر بے یارو مددگار ہے۔   اس کا ایک اور ثبوت مودی جی کا پران پرتشٹھان کے کرم کانڈ کی مرکزی میزبانی سے سبکدوش ہونا بھی ہے۔ قرآن حکیم میں  اقتدار اور عزت  کے حصول کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے فرمایا:’’   کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔  اس ہر حکمراں کو عزت و احترام بھی مل جائے یہ ضروری نہیں ہے۔

گائے کی محبت کے اظہار  میں  مودی اور یوگی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے  رہتے ہیں ۔ مودی کبھی گائے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے ویڈیو بنواتے  ہیں تو کبھی یوگی چارہ کھلانے کا ناٹک کرتے  نظر آتےہیں۔ اس دوران یعنی پران پرتشٹھان کے آس پاس ڈبل انجن سرکار والے یوپی کے ضلع بریلی میں پولیس نے انکاؤنٹرکر کے تین گئو رکشکوں کو گائے ذبح کرتے ہوئے رنگے ہاتھ گرفتار کر لیا۔ یوگی کی پولیس نے سوچا ہوگا کہ اس کے کرتا دھرتا مسلمان ہوں گے لیکن وہ  کرنی سینا کا ضلع صدر ٹھاکر راہل سنگھ اور ان کا ساتھی چاند عرف اجے نکل آیا۔  وہ دونوں ماسٹر مائنڈ تو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے یا پولیس نے خود انہیں بھگا دیا مگر  اس معاملے  میں کرنی سینا کے شہرکا  صدر سمیت 3 لوگوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔  ٹھاکر راہل سنگھ کی تلاش میں چھاپے ماری  کا ڈھونگ جاری ہے مگر جس طرح بنارس ہندو یونیورسٹی کے زانیوں کو تحفظ دے کر ایک خاص وقت تک محفوظ رکھا گیا اورپانی سر سے اونچا ہونے پر گرفتار کیا گیا اسی طرح کا معاملہ ان کے ساتھ  بھی ہوسکتاہے۔

پولیس نےکرنی سینا کے ان  کا رکنان سے متعلق یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ  انکاؤنٹر کے دوران گائے ذبح کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار  ہونے والا یہ  گینگ مبینہ طور پر خود گائے ذیح کرتا اور پھر دوسروں کو پھنسا کر ان کے خلاف مقدمات درج کرواتا۔ اس طرح اس کا دوہرا فائدہ ہوتا ایک تو مسلمانوں کی بدنامی ہوتی،ہندووں کی ہمدردی حاصل ہوتی  اوراوپر  سے تاوان  بھی وصول کیا جاتا تھا یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والا محاورہ ان لوگوں پر پوری طرح صادق آتا تھا۔ یوگی پولیس کی  رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی حمایت  میں پھلنے پھولنے  والا کرنی سینا کا ضلع صدر ٹھاکر راہل سنگھ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گائے ذبح کرواتا تھا۔ اس واردات میں گرفتار والوں میں  کرنی سینا کے شہر صدر گورکشک  دیویندر سنگھ کے ساتھ  اکرم اور نام نہاد صحافی سعید خان  بھی شامل ہیں بعید نہیں کہ کل کو دیویندر سنگھ  سرکاری گواہ بن جائے نیز  سارا الزام اکرم اور سعید کے سر تھوپ دیا جائے  ۔ اس  طرح   ڈی ایس پی نتن کمار  کی محنت پر پانی پھیر دینا یوگی جی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور مودی  جی کے رام راجیہ میں  تو کچھ بھی ممکن ہے۔

)۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Comments are closed.