حسرت موہانی نے تمام عمر تہذیب ِرسم عاشقی استوار کی: شمیم طارق

زندہ قومیں اپنے اکابرین کو کبھی بھولتی نہیں ہیں یہی لوگ نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں: ڈاکٹر سید احمد قادری
بھیونڈی (پریس ریلیز ) ملک گیر شہرت کے حامل شاعر ، سیاستداں اور عظیم مجاہد آزادی حسرت موہانی کی شاعری میں سیاست ، روحانیت اور تغزل کے عنوان پر گزشتہ منگل کو حالات میڈیا ہاؤس،بھیونڈی کے زیراہتمام ایک تاریخی مذاکرے کا انعقاد ہوا۔ اس مذاکرے میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے مشہور محقق ، نقاد اور کالم نگار شمیم طارق نے کہا کہ حسرت موہانی کو ان کی زندگی میں قابو میں کرنا جتنا مشکل تھا اتنا ہی مشکل ان کی موت کے بعد ان کی گوناگوں خوبیوں کا احاطہ کرنا بھی ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں وہ شاعر ، صحافی ، صوفی ، انقلابی اور مجاہد آزادی تھے لیکن ان کی شخصیت کے ہر پہلو پر ایک پہلو غالب تھا کہ وہ بے ریا اور مخلص شخص تھے۔ انہوں نے اردو غزل کو بھی اس وقت حیات نو بخشی جب یہ صنف ہر چہار طرف سے نرغہ میں تھی۔ ان کی غزلوں میں عاشقانہ ، عارفانہ اور سیاسی مضامین موزوں کئے گئے ہیں۔ شمیم طارق نے حسرت کے شعروں کے حوالے سے مثالیں بھی پیش کیں اور کہا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ حسرت کی غزلوں کا مطالعہ کرنے والوں میں اگرچہ ناموران اردو شامل ہیں مگر ان کی شاعری اور غزل کے تمام پہلوؤں پر مکمل روشنی آج تک نہیں ڈالی جاسکی ہے۔ شمیم طارق نے نام لے کر بتایا کہ حسرت کی شخصیت اور غزل گوئی پر تقریر کے لئے انہیں کئی بار مدعو کیا گیا مگر وہ وقت نہیں نکال سکے قابل مبارکباد ہیں حالات میڈیا ہاؤس کے ذمہ داران کہ انہوں نے اس تہذیب کی تجدید کا موقع عنایت فرمایا جو حسرت نے تہذیب عاشقی کے نام سے استوار اور متعارف کی تھی۔شمیم طارق نے کہا کہ حسرت جب موہان سے علیگڑھ پہنچے تو وہاں کے طلبأنے ان کا وضع قطع ، لباس اور انداز گفتگو دیکھ کر "خالہ ماں ” کا خطاب دیا لیکن ان کی ذہانت ، شرافت اور جرات سامنے آتے ہی ان کو مولانا کہنا شروع کردیا۔ یہ وہ دور تھا جب علماء راشٹروادی ، سماجوادی ، بھاجپائی اور بلڈر لابی کا حصّہ نہیں تھے بلکہ صرف عالم باعمل ہوا کرتے تھے۔
اردو کے معروف صحافی اور کالم نگار ڈاکٹر سید احمد قادری نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ زندہ قومیں کبھی اپنے اکابرین کو بھولتی نہیں ہیں۔انھیں یاد کرتے رہنا چاہیئے کہ یہی لوگ ہماری نئی نسل کے لئے مشعل راہ بنتی ہیں اپنی سیاسی و تمدنی تاریخ رقم کرتی ہیں۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے حسرت موہانی کے دئے گئے انقلابی نعرہ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں ہر کی زبان پر اکثر یہ نعرہ رہتا ہے لیکن اس نعرہ کے خالق کو ہی منظم طور پر فراموش کیا جا رہا ہے ۔حسرت کی شاعری کے حوالے ڈاکٹر قادری نے بتایا کہ حسرت کے زمانے کے بیشتر شعرأ کی غزلوں کا جہاں کلیم الدین احمد نے رد کیا وہیں انھوں نے حسرت کی شاعری کواہمیت دی تھی اور قابل قدر بتایا تھا جو اس دور کی بڑی بات تھی ۔ انھوں نے کا یہ بھی کہا کہ ساہتیہ اکاڈمی انعام یافتہ معروف دانشور جناب شمیم طارق نے حسرت کی شاعری اور شخصیت کے کئی اہم پہلوؤں کا احاطہ بڑی خوبیوںسے کیا ہے ۔ ڈاکٹر سید احمد قادری کے صدارتی خطبہ سے قبل معروف انشائیہ نگار محمد رفیع انصاری نے حسرت موہانی کی علمی ، ادبی ، سیاسی ، سماجی اور شعری خدمات کے مختلف پہلووں کا احاطہ کرتے ہوئے بڑے ہی منفرد اندازِ میں
ایک پرمغز مقالہ پیش کیا جسے سامعین نے بغور سنا اور داد سے نوازا۔
اس پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا تلاوت ثانی ایک آٹھ سالہ معصوم بچہ حافظ قران نے کی۔ اس کے بعد ریاست گیر شہرت کے حامل گلوکار سہیل انصاری نے اپنی مترنم آواز میں حسرت موہانی کی دو غزلیں پیش کیں۔جنھیںحاضرین نے کافی پسند کیا۔
بھیونڈی کے صنوبر ہال میں منعقدہ اس تاریخی مذاکرے میں جناب شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) ، جناب ایڈوکیٹ زبیر اعظمی (صدر اردو مرکز ممبئی)، جناب ذاکر حسین خان (سینئر معلم)،صادق انصاری (ڈرامہ نویس) اور اختر کاظمی (صحافی) مہمانان کرام کے طور پر بہ نفس نفیس موجود تھے وہیں سیاست ، صحافت ، روحانیت اور اردو شعر وادب کے شیدائی سامعین کثیر تعداد میں موجود رہے۔ پروگرام کے کنوینر ایم ابوبکر نے تمام مہمانان کرام اور معزز سامعین کا شکریہ ادا کیا جبکہ عامر اصغر قریشی نے نظامت کے فرائض بہ حسن و خوبی انجام دیا۔
٭٭٭٭٭
Comments are closed.