تکان نا آشنا عبقری شخصیت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
مولانا مفتی ابو ابراہیم مشیر عالم قاسمی دار العلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں استاذ حدیث ہیں، ان کا درس طلبہ میں مقبول ہے، ہم لوگ انہیں ایک مدرس کی حیثیت سے ہی جانتے پہچانتے رہے ہیں، لیکن دار العلوم الاسلامیہ کے سابق سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے تصنیف وتالیف کی ان کی خفیہ صلاحیت کو ہمارے سامنے ا ٓشکاراکیا، وہ ایک بار مولانا کو اپنے ساتھ لے کر آئے اور فرمایا کہ یہ میرے پر دادا مشہور مجاہد آزادی شیخ عدالت حسین بگہی پر کام کر رہے ہیں، اس تحقیق میں آپ ان کی مدد کردیں، مجھے وقتی طور پر اس موضوع پر حوالہ جاتی کتب کا جوعلم تھا، انہیں بتایا، خود مولانا سہیل احمد ندوی ؒ نے اپنے کاغذات کے ذخیرے کوالٹا پلٹا، علاقہ کے اہل علم اور مؤرخین سے چمپارن کی تاریخ کے بہت سے اوراق گم گشتہ کو ڈھونڈھا اور مولانا کے حوالہ کیا، مولانامشیر عالم اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ اس کام کو انجام دے رہے تھے اور مولاناسہیل احمد ندوی مرحوم بھی انتہائی خوش تھے کہ برسوں بعد اللہ رب العزت نے اس کام کی توفیق عطا فرمائی اس کام کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب کے وہ ممنون بھی تھے اور مشکور بھی۔
ابھی شیخ عدالت حسین پر کتاب کی تکمیل نہیں ہو سکی تھی کہ اچانک مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی زندگی کا آخری ورق پلٹ گیا، وہ اڈیشہ کے سفر پر یوسی سی کی مخالفت میں دورے پر تھے کہ ظہر کی نماز کی سنت پڑھتے ہوئے سجدہ کی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، حادثہ اس قدر اچانک آیا کہ لوگ حیرت زدہ رہ گیے اور کہنے لگے ”تم جیسے گیے ویسے بھی ہے جاتا کوئی“ غم واندوہ کی کیفیت مولانا کے صاحب زادگان، اعزو اقربا کے ساتھ ان تمام اداروں کے افراد پربھی طاری تھی واقعہ یہی ہے کہ ان کی کمی دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
مولانا کے انتقال کے بعد مولانا نے اپنے قلم کا رخ مولانا سہیل احمد ندوی ؒ کی حیات وخدمات کی طرف موڑ دیا، علاقہ کی سماجی، سیاسی اور جغرافیائی تاریخ تو وہ پہلے سے ہی شیخ عدالت حسین کے لیے لکھ چکے تھے، اب ساری توجہ مولانا کی زندگی کے مختلف گوشوں اور ان کی خدمات کی لانبی تاریخ کو صفحہئ قرطاس میں ثبت کرنے پر لگ گئی، جو مقدم تھے مؤخر ہو گیے اور جو جانے کے اعتبار سے مؤخر تھے وہ سر فہرست آگیے، مولانا مشیر عالم نے بڑی محنت سے مولانا کی حیات وخدمات کے نقوش کو قارئین کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ رب العزت نے اس میں انہیں کامیابی عطا فرمائی۔
مولانا پر پہلا مضمون مشہور صحافی عارف اقبال نے اپنی کتاب”میر کارواں“ میں لکھا تھا، جس کا مواد اور ماخذ انہوں نے بالمشافہ ان سے انٹر ویو لے کر حاصل کیا تھا، مفتی نیر اسلام صاحب نے بھی مولانا کے اخلاق وعادات اوصاف وکمالات پر ایک طویل مضمون لکھا تھا، مولانا کے انتقال کے بعد تو مضامین، پیغامات اور تعزیتی بیانات کا طویل سلسلہ شروع ہوا، لیکن مولانا پر ان کے انتقال کے بعد پہلا باضابطہ مضمو ن میں نے نقیب میں لکھا، پھر جب حضرت امیر شریعت کے حکم پر نقیب کا خصوصی شمارہ مولانا مرحوم پر نکلا تو اس کے اداریہ میں بھی بہت سی باتیں میں نے ذکر کی تھیں، اور چوں کہ میرا مضمون ان کے انتقال کے معا بعد نقیب میں چھپ چکا تھا، اس لیے اس خصوصی شمارہ میں قصدا شامل نہیں کیا، نقیب کا یہ خصوصی شمارہ حصہ دوم کی حیثیت سے اس کتاب میں شامل ہے، مولانا مشیر عالم صاحب نے اسے شامل کتاب کرکے اس شمارہ کے مضامین کو حیات جاودانی بخشنے کا کام کیا ہے، ان مضامین سے مولانا کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی اہم پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔
مولانا مشیر عالم صاحب کی اصل محنت پہلے حصہ میں ہے، انہوں نے مولانا کے آبائی وطن، بگہی، علاقہ دیوراج ضلع چمپارن کی تاریخ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور انگریزی اردو میں معلوم تاریخ کے حوالہ سے چمپارن، دیوراج کی وجہ تسمیہ، اس کی تاریخی حیثیت، دیوراج کی خوش حالی، وہاں کے پیشہ، دیوراج کی تہذیبی وثقافتی اہمیت، وہاں کی تعلیمی شرح، کھیل کود کے احوال، سیاسی رجحانات، فرقہ وارانہ ہم آہنگی وغیرہ پر انگریزی کتابوں کے حوالوں سے اپنے مطالعہ کو پیش کیا ہے، یہ انتہائی اہم ہے اور وقیع بھی۔
اس سے فراغت کے بعد مولانا مشیر عالم نے مولانا کے خاندان اور اس خاندان کی دینی وملی خدمات کا جائزہ لیا ہے، مولانا کے سوانحی خاکے، ان کے انداز واطوار، دار العلوم الاسلامیہ کی سکریٹری شپ، امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے حوالہ سے ان کی خدمات کا جامع تذکرہ مرتب کر دیا ہے، اس کے ذیل میں مولانا کی مادر علمی، اساتذہ، مولانا کی ظرافت، فکر امارت کی پاسبانی، کام کرنے کے طریقے کابھی بسیط تذکرہ موجود ہے، اس طرح مولانا کی وفات تجہیز وتکفین کے ذکر پر یہ کتاب اختتام پذیر ہوتی ہے۔
مولانا کی خدمات کی جو مختلف جہتیں تھیں اس میں سے ایک بڑی جہت یہ تھی کہ وہ کاموں کے بوجھ سے نہ تو تھکتے تھے اور نہ ہی گھبراتے تھے،ا س کے لیے مولانا مشیر عالم صاحب نے تکان نا آشنا کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی کو کتاب کا سرنامہ اور عنوان قرار دیا ہے، جوان کے ذہن رسا اور تجزیاتی مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی کی دلیل ہے، واقعتا مولانا کی شخصیت تکان نا آشنا تھی، اسی اعتبار سے ان کا شمار عبقری شخصیتوں میں کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا مشیر عالم کو جزاء خیر دے کہ انہوں نے ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر دیا، میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ مولانا مرحوم کے پر دادا شیخ عدالت حسین صاحب کی سوانح بھی وہ مکمل کر دیں کیوں کہ یہ مولانا مرحوم کی خواہش تھی اور خواہش کو مرنے کے بعد وصیت کا درجہ مل جاتا ہے، اس لیے شیخ عدالت پر کتاب کی تکمیل ان کی صیت پوری کرنے جیسا عمل ہے، اللہ تعالیٰ مولاسہیل احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے، امارت کو ان کا نعم البدل دے اور مولانا مشیر عالم کو صحت عافیت کے ساتھ درازیئ عمر عطا فرمائے، تاکہ وہ ایسے ہی تاریخ وتحقیق کے کل گیسو سنوارتے رہیں، آمین یا رب العالمین
Comments are closed.