بھارت رتن اور مودی جی کا سیاسی کھیل

مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی
ہمارے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی جی ایک کم پڑھے لکھے انسان ہیں مگرمداریوں کی طرح بہت بڑے باتونی اور بہت بڑے سیاسی بازی گر ہیں، وہ ہر کام ڈرامائی انداز میں صرف انتخابات جیتنے کے لیے کرتے ہیں، اور ہندوستان کی بھولی بھالی داستانیں سننے والی جنتا بڑی آسانی سے ان کے جادو کا شکار ہوجاتی ہے.
دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا عام انتخابات سے قبل رام جی سے عقیدت رکھنے والوں کے لیے ادھورے مندر کا افتتاح کردیا، چاروں شنکر آچاریہ چلاتے رہے کہ ادھورے رام مندر کا افتتاح صحیح نہیں ہے، مگر ان کی کسی نے نہیں سنی.
قبائلیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک کم پڑھی لکھی قبائلی خاتون کو صدر جمہوریہ ہند بنادیا ، وہ صرف آرٹس سے بی اے ہیں، نہ وہ مقرر ہیں نہ مصنف، نہ ادیب ہیں اور نہ دانشور، وہ ایک اسکول کی ٹیچر تھیں.
مجھے ملک کے حالات پر بہت افسوس ہوتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے پہلے صدر اور پہلے وزیراعظم کتنے زیادہ پڑھے لکھے اور کتنے بڑے دانشور تھے، ہمارے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد بہار کے سارن ضلع کے تھے اور کائستھ تھے، انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا تھا اور وہیں سے وکالت بھی سب سے زیادہ اعلی نمبرات سے پاس کیا تھا، ان کو اپنی تعلیمی زندگی کے درمیان کئی بار گولڈ میڈل ملے تھے، اور انہوں نے اس زمانے میں ملک کی دوسری بڑی یونیورسٹی الہ آباد یونیورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی کی تھی، انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مولانا صاحب سے حاصل کی تھی وہ بقدر ضرورت،اردو، عربی اور فارسی بھی جانتے تھے.
پہلے دلت صدر
ہمارے ملک کے پہلے دلت صدر کے آر نارائنن نے انگریزی ادب مین بی اے اور ایم اے ٹراونکور یونیوسرسٹی سے اعلی نمبرات سے حاصل کیا تھا، وہ یونیورسٹی میں اول نمبر تھے، وہ کیرلا کے پہلے دلت تھے جنہیں گولڈ میڈل ملا تھا، انہون نے انیس سو چوالیس اور پینتالیس مین انگریزی کے مشہور اخبار دی ہندو اور ٹائمز آف انڈیا میں بطور صحافی کام کیا تھا، اس درمیان انہوں نے مہاتما گاندھی کا انٹرویو بھی لیا،ان ہی دنوں انیس سو چوالیس کا ٹاٹا اسکالر شپ ملا جس کی بدولت وہ سیاسیات، معاشیات اور صحافت کی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئے اور وہاں کے لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کی.
وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی جوہر شناس نگاہوں نے دہلی سے تین ہزار دور کوٹایم ، کیرل کے ایک دلت نوجوان کو گنوں کو جانا اور سمجھا اور اس میں مزید چمک پیدا کرنے لیے اسے سفارت کار بنادیا وہ انیس سو انچاس سے انیس سو اناسی تک متعدد ملکوں میں سفارت کار رہے.
اعلی تعلیم کے ساتھ سفارت کاری انسان کے اندر ددور اندیشی اور خورد بینی پیدا کرتی ہے، اور ہندوستان جیسے کثیر الثقافت، کثیر اللسان ملک کے صدر اعلی تعلیم یافتہ اور دانشور ہونا چاہیے، وزیر اعظم نہرو نے جتنے بھی صدر بنوائے سب اعلی تعلیم یافتہ اور دانشور تھے، اندرا گاندھی کے زمانے میں صدر بنائے گئے ڈاکٹر ذاکر حسین بھی بہت اعلی تعلیم یافتہ تھے، ان کے بعد بنائے گئے صدور میں صرف تین صدور ڈاکٹر شنکر دیال شرما، کے آر نارائنن اور اے پی جے عبد الکلام تعلیم اور دانشوری کے معیار سے صدر بننے کے لائق تھے، بقیہ کو صرف پارٹی سے وفاداری کا انعام ملا تھا.
ہمارا خیال یہ ہے کہ دلتوں، قبائلیوں اور پس ماندہ طبقات میں سے کسی کو بھی اعلی عہدوں پر بٹھانا مناسب نہیں ہے اور یہ پورے ملک کے ساتھ دھوکہ ہے، بلکہ ان کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو اعلی عہدے دینا چاہیے اور ان کے اندر ایسے افراد نہیں ہیں تو ایسے افراد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.
کے آر نارائنن پچیس جولائی انیس سو بانوے سے چوبیس جولائی انیس سو ستانوے تک نائب صدر جمہوریہ ہند اور پچیس جولائی انیس سو ستانوے سے پچیس جولائی دو ہزار دو تک صدر جمہوریہ ہند تھے، ان کا تعلق سیاسی اعتبار سے انڈین نیشنل کانگریس سے تھا مگر ان کے دور صدارت میں کانگریس کی حکومت نہین تھی، ان کے زمانے میں جنتادل کے آئی کے گجرال کی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اٹل بہاری واجپائی کی حکومتیں تھیں.
کسانوں کو خوش کرنے کے لیےمودی جی نے راجستھان کے ایک کسان کو نائب صدر بنادیا جو مودی جی کے اتنے مشکور ہیں کہ ان کی نظر میں مودی جی موجودہ دور کے مہاتما گاندھی ہیں ، اسے سن کر کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوا تیلی کی کہاوت یاد آتی ہے.
جب مودی جی نے دیکھا کہ دو ہزار چوبیس کا رن بڑا مشکل ہے، ہمارے پرانے مددگار نتیش کمار نے اپنے پرانے دوست اور بڑے بھائی لالو جی سے دوستی کرلی ہے، ان ہی کے سہارے تو ہمارے واجپائی جی وزیر اعطم بن پائے تھے اور ان ہی کے ساتھ مل کر ہم نے بہار میں پندرہ سال حکومت کی ہے، وہ دو ہزار تیرہ میں بھی ہم سے الگ ہوگئے تھے مگر دو ہزار سترہ مین پھر دوبارہ آگئے تھے، مگر پھر وہ ناراض ہوئے , اور اگست دو ہزار بائیس سے ہم سے الگ ہوئے اور ہمارے خلاف مورچہ کھولے ہوئے ہیں اور تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد بنا رہے ہیں
یہ سب دیکھتے ہوئے مودی جی نے دو ہزار چوبیس کا بھارتن رتن سابق وزیر اعلی بہار اور سماج وادی لیڈر آنجہانی کر پوری ٹھاکر کو دینے کا اعلان کردیا، کر پوری ٹھاکر صرف ڈھائی سال بہار کے وزیر اعلی تھے وہ ایک پس ماندہ ذات نائی یعنی حجام سے تعلق رکھتے تھے، انہیں جے پرکاش نارائن کے بعد بہار کا دوسرا بڑا سماج وادی لیڈر سمجھا جاتا ہے.
کرپوری ٹھاکر (24 جنوری 1924 – 17 فروری 1988) پہلے بائیس دسمبر انیس سو ستر سے دو جون انیس سو اکہتر تک کل پانچ ماہ گیارہ دن اور پھر جون انیس سو ستہتر سے اکیس اپریل انیس سو اناسی تک کل ایک سال نو ماہ وزیر اعلی تھے، وہ جن نائک( عوام کے ہیرو )کے نام سے مشہور ہیں ۔ آج 26 جنوری 2024 کو، انہیں حکومت ہند کی طرف سے بعد از مرگ ہندوستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز، بھارت رتن سے نوازا گیا ۔ ان کو بھارت رتن دینے کا اعلان ہندوستان کی صدر دروپدی مرمو نے 23 جنوری 2024 کو کیا تھا۔
بھارت رتن کیا ہے
بھارت رتن جمہوریہ ہند کا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے ۔ دو جنوری 1954 کو قائم کیا گیا، یہ ایوارڈ نسل، پیشے، عہدے، یا جنس کے امتیاز کے بغیر "اعلیٰ ترین اور غیر معمولی خدمت اور کارکردگی” کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ اصل میں فنون، ادب، سائنس اور عوامی خدمات تک محدود تھا، لیکن حکومت نے دسمبر 2011 میں "انسانی کوششوں کے کسی بھی شعبے” کو بھی شامل کردیا تھا، بھارت رتن کے لیے سفارشات وزیر اعظم کی طرف سے صدر کو دی جاتی ہیں ، جس میں ہر سال زیادہ سے زیادہ تین نامزد افراد کو نوازا جاتا ہے۔ وصول کنندگان کو صدر کی طرف سے دستخط شدہ ایک سند (سرٹیفکیٹ) اور ایک پیپل کی پتی کی شکل کا تمغہ ملتا ہے۔ ایوارڈ سے منسلک کوئی مالیاتی گرانٹ نہیں ہے.
مودی دور کے بھارت رتن
وزیر اعظم نریندر مودی مئی دو ہزار چودہ سے وزیر اعظم ہیں انہوں نے دو ہزار پندرہ میں مدن موہن مالویہ جی کو اور اٹل بہاری واجپائی کو بھارت رتن دیا تھا، اول الذکر ہندوستان کی پہلی ہندو سیاسی پارٹی ہندو مہا سبھا کے بانی تھے، ہندو مہا سبھا انیس سو پندرہ میں قائم ہوئی تھی، اور اسی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر شیاما پرساد مکھر جی نے جن سنگھ بنائی تھی اور پھر اسی جن سنگھ کا نیا نام انیس سو اسی میں اٹل بہاری واجپائی نے بھارتیہ جنتا پارٹی رکھا تھا.
مدن موہن مالویہ بنارس ہندو یونیورسٹی کے بھی بانی تھے.
اٹل بہاری واجپائی دانشور، شاعر اور جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے بہت بڑے لیڈر تھے اور انیس اٹھانوے سے دو ہزار چھ تک وزیر اعظم ہند تھے،
دو ہزار سولہ، سترہ اور اٹھارہ میں کسی کو بھی بھارت رتن نہیں دیا گیا.
بنگال فتح کرنے کے مقصد سے سابق مرکزی وزیر اور سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھر جی کو دیا گیا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا اس کا بہت حد تک فائدہ بھی ہوا،
دو ہزار انیس میں ہی آسام کے بھوپین ہزاریکا اور مہاراشٹرا کے نانا جی دیش مکھ کو بھارت رتن دیا گیا تھا.
ان تینوں کو بھارت رتن دو ہزار انیس کے لوک سبھا انتخابات سے قبل دیا گیا تھا.
بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو ہزار انیس میں کل اٹھارہ سیٹیں ملی تھیں اور اسے سولہ سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا.
آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو ہزار انیس میں کل چودہ سیٹیں ملی تھیں اور اسے دو سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا.
مہاراشٹر میں نہ فائدہ ہوا تھا اور نہ نقصان، دو ہزار چودہ اور دو ہزار انیس میں بھارتیہ جنتا پارٹی تیئیس تیئیس نشستیں ملی تھیں.
مودی جی صرف چناوی سال میں ہی بھارت رتن کیوں دیتے ہیں، ؟؟؟
اس پر ہندوستان کی جنتا کو غور کرنا چاہیے، ہندوستان میں ہزاروں مستحقین بھارت رتن ہیں، کم ازکم ہر سال تین افراد کو تو بھارت رتن دیا ہی جاسکتا ہے، بعد از مرگ ہی بھارت رتن دینا ہے تو وطن کی آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ لٹانے والے ٹیپو سلطان کو بھارت رتن کیوں نہیں دیا جاتا.
ریشمی رومال تحریک کے بانی اور بڑھاپے میں ساڑھے تین سالوں تک اپنے وطن سے دس ہزار کلو میٹر دور مالٹا جزیرے کی سردیوں میں اپنی ہڈیاں پگھلانے والے مجاہدین ازادی کے لیڈر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رح کو بھارت رتن کیوں نہیں دیا جاتا.
ایسے بہت سارے لوگ ہیں جنہیں بھارت رتن سے نوازا جاسکتا ہے ؛ اور جن کو بھارت رتن دینے سے خود بھارت رتن ایوارڈ کے وقار میں اضافہ ہوگا.
کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کے اثرات
کرپوری ٹھاکر کو بھارت رتن دینے کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا یا نہیں، یہ تو مئی دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا، مگر فی الحال اس کا اثر یہ دکھ رہا ہے کہ نتیش کمار کے پھر سہ بارہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں.
بہار کی جنتا ، راشٹریہ جنتا دل، جنتا دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی میں اس طر بٹی ہوئی ہے، کہ ان تینوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی اکیلے حکومت نہیں کرسکتے.
نتیش کمار لالو کے دوست بھی ہیں اور دشمن بھی، بھارتیہ جنتا پارٹی پر دباؤ ڈالنا ہو تو وہ لالو سے قریب ہو جاتے ہیں اور جب ضرورت نہ ہو تو لالو سے دور ہوجاتے ہیں.
امید ہے کہ عقلمند اور ہوشمند سیاست میں مشہور بہار کی جنتا مودی کے مکر جال میں نہیں پھنسے گی، اور کرپوری جی کو بھارت رتن ملنا ان کا بنیادی حق سمجھے گی، کسی کا احسان نہیں.
Comments are closed.