مدارس میں ختم مسلسلات کی روایت

مولانا ندیم الواجدی
تعلیمی سال کے اختتام پر دارالعلوم دیوبند سمیت تمام بڑے مدارس میں مسلسلات ختم کرانے اور اس کی سند دینے کی روایت عرصۂ دراز سے چلی آرہی ہے، اس کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ سالانہ امتحان سے کچھ قبل کسی ایک دن مسلسلات کی کسی کتاب کی خواندگی شیخ (استاذ حدیث) کے سامنے ہوتی ہے، وہ حسب ضرورت کہیں کلام بھی کرتاہے، ورنہ خاموش رہتا ہے، خواندگی کے بعد شیخ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے تمام طلبہ کواجازتِ روایت عطا کرتا ہے، اس طرح یہ مجلس پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے، آج کل کیوں کہ مدارس کی تعلیمی اور اصلاحی سرگرمیوں کی خبریں بہ کثرت اخبارات کے صفحات کی زینت بن رہی ہیں، اس ضمن میں ختم مسلسلات کی خبریں بھی چھپتی ہیں، دل چاہا کہ اس مضمون میں کچھ مسلسلات کے متعلق عرض کیا جائے، مسلسلات مُسَلْسَل کی جمع ہے، جو سَلْسَلَ سے مشتق ہے،جس کے معنی ہیں مربوط کرنا جوڑنا جیسے سَلْسَلَ المرئُ الاشیاء أوِ الاحداث کسی شخص نے چیزوں کو یا واقعات کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کیا،اسی سے سِلْسِلَۃ بھی ہے، جس کی جمع سَلاَسِل آتی ہے، یعنی لوہے یا سونے وغیرہ کے حلقے جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں، سِلْسِلَۃ الْجِبَالِ ایسے پہاڑوں کا سلسلہ جو ایک دوسرے سے مربوط ہوں، سِلْسِلَۃُ الْکُتُبِمتعدد اجزاء پر مشتمل کتاب کا سلسلہ، گویا سِلْسِلَۃکے معنی ہیں کسی چیز کا دوسری چیز سے مربوط ومتصل ہونا (المعجم الوسیط ص: ۷۲۵) یہاں مسلسلات سے مراد مسلسل روایات اور احادیث ہیں، اصول حدیث کی کتابوں میں حدیثِ مسلسل کی یہ تعریف کی گئی ہے، (۱)’’حدیثِ مسلسل وہ حدیث ہے جس میں اس کی سند کے تمام راوی یکے بعد دیگرے کسی ایک صفت یا ایک حالت پر ہوں (حافظ ابن صلاح) (۲) حدیثِ مسلسل وہ حدیث ہے جس کی سند اپنے تمام طبقات میں ایک ہی صفت پر ہو (حافظ ابن دقیق العید) (۳) حدیثِ مسلسل وہ حدیث ہے جس کی سند کے رجال اس روایت کے وقت راوی میں، یا روایت میں ایک صفت یا ایک حالت پر پورے تسلسل کے ساتھ ہوں (حافظ ابن جماعہ) اسی سے ملتی جلتی تعریف شارح مسلم امام نوویؒ نے بھی کی ہے، اس تعریف کی روسے مسلسل حدیث وہ ہوگی جس کی سند کے تمام رجال روایت میں، یا بحیثیت راوی شروع سے آخر تک ایک ہی حالت یا ایک ہی صفت پر ہوں، یہاں محدثین نے حالت اور صفت میں بھی فرق کیا ہے، صفت کہتے ہیںاس وصف کو جو انسان کے ساتھ دائمی طورپر لاحق ہو، یعنی وہ ہر حال میں اس صفت کے ساتھ متصف ہو، جیسے کسی کا حافظ ہونا، قاری ہونا، اور حال انسان کی وقتی کیفیت کو کہتے ہیں، جیسے نفرت اور محبت انسان کی وقتی کیفیات ہیں،یا کھڑا ہونا بیٹھنا، سر اُٹھانا وغیرہ وقتی حالات ہیں ، پھر حالت قولی بھی ہوتی ہے اور فعلی بھی، غرض یہ کہ جو بھی صفت ہویا جو بھی حالت ہو وہ راوی میں یا روایت میں شروع روایت سے آخر تک پورے تسلسل کے ساتھ پائی جانی چاہئے اس کو حدیثِ مسلسل کہتے ہیں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہم حدیث ِمسلسل کو دو قسموں پر تقسیم کرسکتے ہیں:
(۱) جو راوی کی صفت یا حالت کے ساتھ مسلسل ہو۔
(۲) جو روایت کی صفت یا حالت کے ساتھ مسلسل ہو۔
اوّل الذکر کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں مثلاً: (۱) مسلسل بالحفاظ ہو، یعنی پوری سندمیں حافظ حدیث نے کسی حافظ حدیث سے روایت کی ہو، (۲) مسلسل بالفقہاء ہو، یعنی روایت کے راوی از اول تا آخر فقیہ ہوں ،(۳) مسلسل بالمحمدین ہو، یعنی شروع سے آخر تک تمام راویوں کا نام محمد ہو، (۴) مسلسل باہل بلد ہو یعنی تمام راوی کسی ایک شہر کے باشندے ہوں، مثلاً حجازی ہوں یا دمشق وغیرہ کے رہنے والے ہوں، (۵) تمام راویوں کے نام کسی ایک حرف سے شروع ہورہے ہوں، مثال کے طورپر تمام نام حرف عین سے شروع ہوں، جیسے علی کی روایت عبداللہ سے اورعبد اللہ کی روایت عمر سے، (۶) تمام راوی معذور ہوں جیسے لنگڑے راوی نے نابینا راوی سے اور اس نے بہرے راوی سے روایت کی ہو، (۷) تمام راویوں کی ہیئت یا حالت بہ وقت روایت ایک ہو، مثلاً تمام راویوں نے وہ روایت کھڑے ہوکر بیان کی ہویا روایت کے وقت تمام راوی مسکرائے ہوں وغیرہ۔
اسی طرح مسلسل بِصِفَۃِ الروایۃ کی بھی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں:
(۱) یہ کہ تمام راوی عن کے ذریعہ روایت کریں، یا تمام راوی بوقت روایت یہ لفظ کہیں أما واللّٰہ أنبأنی یا دوسرے الفاظ کہیں۔
(۲) روایت میں کسی خاص زمانے کا ذکر ہو، مثلاً تمام راوی یہ کہیں حدثنی فلان یوم العید۔(فلاں شخص نے مجھ سے یہ روایت عید کے دن بیان کی)
(۳) روایت میں کسی خاص جگہ کا ذکر ہو مثلاً تمام راوی یہ بیان کریں حدثنی فلان بین الرُکن والمقام۔ (فلاں راوی نے مجھ سے یہ حدیث رکن اورمقام ابراہیم کے درمیان بیان کی)
اس تقسیم کے علاوہ بھی حدیث ِمسلسل کی ایک اور تقسیم کی گئی ہے، مسلسل قولی، مسلسل فعلی اور مسلسل قولی وفعلی:
(۱) مسلسل قولی کی مثال حضرت معاذ بن جبلؓ کی یہ حدیث ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے ارشاد فرمایا: ’’یا معاذ إنّی أحبک فی اللّٰہ، فلا تدعن دُبر کل صلاۃ أن تقول: اللّٰہم أعنِّی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک‘‘، ’’اے معاذ! میں تم سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، تم ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور کیاکرو: اے اللہ اپنے ذکر، اپنے شکر اوراپنی عبادت اچھی طرح کرنے پر میری مدد فرما‘‘ اس روایت کے تمام راویوں نے جب بھی اپنے کسی شاگرد سے یہ حدیث روایت کی اس نے یہ ضرور کہا یا فلان إنّی احبک فی اللّٰہ۔
(۲) مسلسل فعلی کی مثال میں حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت پیش کی جاسکتی ہے: شبک ابو القاسم یدہ وقال خلق اللّٰہ التربۃ یوم السبت (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو اُن کے ہاتھ میں پھنسا کر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شنبہ کے دن زمین کی تخلیق فرمائی)۔
(۳) مسلسل قولی وفعلی کی مثال حضرت انسؓ کی یہ روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’لا یجد العبد حلاوۃ الإیمان حتی یؤمن بالقدر خیرہ وشرہ حلوہ ومرہ قال وقبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی لحیتہ وقال آمنت بالقدر‘‘ بندہ اس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پاسکتا جب تک وہ تقدیر کے ہر خیر وشر اور میٹھے کڑوے پر ایمان نہ لائے، راوی کہتے ہیں کہ اتنا ارشاد فرماکر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داڑھی مبارک پکڑی اور فرمایا میں تقدیر پر ایمان لایا‘‘، اس روایت کو جتنے رواۃ نے روایت کیا انھوں نے روایت بیان کرکے اپنی داڑھی پکڑی اور آمنت بالقدر کے الفاظ کہے،اس طرح فعل اور قول دونوں کا اجتماع ہوگیا، یہ تمام قسمیں اور ان کی مثالیں فتح المغیث للعلامۃ السخاویؒ ۴/ ۱۴۰پر موجود ہیں۔ یوں تو روایات کا تمام ذخیرہ ہی مسلسل اسناد کے ساتھ ہم تک پہنچا ہے، اس وقت یہاں اس طرح کی روایات زیر بحث نہیں ہیں، بلکہ وہ روایات زیر بحث ہیں جن پر سابق میں بیان کردہ تعریف کے مطابق مسلسل حدیث کا اطلاق ہوتاہے۔
اس امت کو ہر دور میں نبی پاک سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے حد درجہ عشق رہا ہے، یہ عشق ہی کامظہر ہے کہ آج سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ جوں کا توں کتابوں میں لکھا ہواموجود ہے، اورہم آج تک اس کو پڑھتے اورسنتے چلے آرہے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اوصاف تمام کیفیات اور تمام احوال بھی ہیں جن کومحدثین نے ایک ایک جزء کی تفصیلات کے ساتھ جرح وتعدیل کے اعلیٰ معیار پر پرکھ کر اور کذب وافتراء اور وضع کے امکانات سے پاک کرکے اپنی کتابوں میں جمع کردیا ہے، آج وہ کتابیں، صحاح، مسانید، سنن وغیرہ ناموں سے معروف ہیں اور ان میں سے کئی کتابیں مدارس کے نصاب کا قیمتی حصہ ہیں، جس طرح یہ روایات جمع کی گئیں اسی طرح بہت سے علماء نے مسلسل احادیث کی جمع وترتیب کا اہتمام کیا ہے اور ان کے مجموعے تیار کئے ہیں، ان میں سے بعض حضرات نے تقریباً تمام مسلسل احادیث جمع کردی ہیں، کسی نے صرف ایک ہی طرح کی حدیثیں لی ہیں، کسی نے ان مسلسل احادیث کی شرح وتخریج کا کام بھی کیا ہے، مثال کے طورپرعبدالحفیظ الفاسی کی کتاب ہے ’’الایات البینات فی شرح وتخریج الاحادیث المسلسلات‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس میں مؤلف نے مسلسل احادیث کی تشریح بھی کی ہے اور ان کی تخریج کا مہتم بالشان کام بھی انجام دیا ہے۔
مسلسل احادیث کی جمع وترتیب کے کام کا آغاز چوتھی صدی ہجری میںہوا، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ نے شیخ عبدالحی ابن عبدالکبیر الکتانیؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’فہرس الفہارس والاثبات‘‘ میں مسلسلات کے چھوٹے بڑے چالیس مجموعے شمار کئے ہیں، او ر ان کے مصنفین کا ذکر کیاہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں، مسلسلات عبدالمؤمن الدمیاطی، مسلسلات حافظ ابن الجوزی، مسلسلات الضِیاء المقدسی، مسلسلات حافظ شمس الدین السخاوی، المسلسلات الکبری وجیاد المسلسلات للحافظ جلال الدین السیوطی ،مسلسلات حسن بن علی بن محمد بن عمر العجیمی المکی الحنفی، مسلسلات شمس الدین محمد بن الطیب الشرقی، مسلسلات حافظ محمد احمد بن عقیلۃ المکی، مسلسلات حافظ محمد مرتضی الزبیدی الحنفی، مسلسلات الأمیر الکبیر ابی عبداللہ محمد بن احمد المالکی الازہری المصری، مسلسلات الحافظ محمد عابد السندی الحنفی، مسلسلات أبی المحا سن محمد بن خلیل الطرابلسی القاوقجی ،رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
احقر راقم السطور نے ایک عربی ویب سائٹ؛ ’’ملتقیٰ أمّی فلسطین‘‘ کے گوشۂ مضامین ’’مباحث فی الحدیث الشریف وعلومہ‘‘ میںایک مضمون دیکھا ہے، ’’تعریف الحدیث المسلسل وجہود العلماء فیہ‘‘ افسوس مضمون نگار کا نام نہیں لکھا گیا،لیکن مضمون کافی تحقیقی ہے ،اس میں زمانی ترتیب کے اعتبار سے مسلسلات کے مجموعوں اوران کے مصنفین کے اسمائے گرامی لکھے گئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ مسلسلات کی تدوین کا آغاز چوتھی صدی ہجری میں ہوا اور تا حال جاری ہے، جیسا کہ درج ذیل تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
(۱)مسلسلات أبی بکر بن شاذان:للمحدث المسند أبی بکر بن احمد بن إبراہیم بن الحسن بن شاذان البغدادی (۲۹۸- ۳۸۳ ھـ)
(۲)مسلسلات أبی نعیم إلاصبہانی: للإمام الحافظ المعمر أبی نعیم احمدبن عبداللّٰہ بن احمد بن إسحاق الاصبہانی (۳۳۶- ۴۳۰ ھـ)
(۳) مسلسلات الخطیب البغدادی: للمؤرخ أبی بکر احمد بن علی بن ثابت الخطیب البغدادی الشافعی (۳۹۲ – ۴۶۳ ھـ)
(۴)مسلسلات التنیمی: للإمام الحافظ أبی القاسم قوام السنۃ إسماعیل بن محمد بن الفضل القرشی (۴۵۷ – ۵۳۵ ھـ)
(۵) مسلسلات ابن عساکر: للإمام الکبیر المؤرخ الحافظ أبی القاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللّٰہ بن عساکر (۴۹۹ – ۵۷۱ ھـ)
(۶) مسلسلات إبن بشکوال: للحافظ أبی القاسم خلف بن عبدالملک بن بشکوال الأندلسی المالکی (۴۹۴ – ۵۷۸ ھـ)
(۷)المسلسلات: للإمام المؤرخ عبداللّٰہ بن عمر بن علی الجوینی الشافعی (۵۷۲ – ۶۴۲ ھـ)
(۸)الجواہر المفصلۃ فی الأحادیث المسلسلۃ: للحافظ القاسم بن محمد بن احمد الأنصاری القرطبی (۵۷۵ – ۶۴۲ ھـ)
(۹)مسلسلات الضیاء المقدسی: للإمام الحافظ ضیاء الدین محمد بن عبدالواحد المقدسی (۵۶۹ – ۶۴۳ ہـ)
(۱۰)مسلسلات إبن مسدی (مخطوط): للإمام الحافظ أبی بکر جمال الدین محمد بن یوسف بن موسی بن مسدی الأندلسی (۵۹۹ – ۶۶۳ ھـ)
(۱۱)مسلسلات العلائی (مخطوط): للإمام العلامۃ صلاح الدین خلیل بن کیکلدی العلائی الشافعی (۶۹۴ – ۷۶۱ ھـ )
(۱۲)مسلسلات إبن الجزری (مخطوط): للإمام الحافظ المقرئ شمس الدین أبی الخیر محمد بن محمد بن علی بن یوسف العمری (۷۵۱ – ۸۳۳ ھـ)
(۱۳)مسلسلات إبن ناصر الدین: للعلامۃ الإمام أبی عبداللہ محمد بن أبی بکر بن عبداللہ بن محمد بن احمد القیسی (۷۷۷ – ۸۴۲ ھـ)
(۱۴)الجواہر المکللۃ فی الأخبار المسلسلۃ (مخطوط): للحافظ محمدبن عبدالرحمن السخاوی المصری (۸۳۱ – ۹۰۲ ھـ)
(۱۵)مسلسلات إبن المبرد: للعلامۃ جمال الدین یوسف بن حسن بن احمد بن حسن بن عبدالہادی الصالحی (۸۴۰ – ۹۰۹ھـ)
(۱۶)المسلسلات الکبری، المسلسلات الوسطی، جیاد المسلسلات (مخطوط): جمیعہا للإمام الحافظ جلال الدین عبدالرحمن بن أبی بکر السیوطی (۸۴۹ – ۹۱۱ھـ)
(۱۷)الیواقیت المکللۃ فی الأحادیث المسلسلۃ: لأبی حفص زین الدین عمر بن احمد الشماع الحلبی الشافعی (۸۸۰ – ۹۳۶ ھـ)
(۱۸)المسلسلات الکبری، المسلسلات الوسطی، المسلسلات الصغری: کلہا للعلامۃ المؤرخ شمس الدین محمد بن علی بن طولون الدمشقی الصالحی (۸۸۰ – ۹۵۳ ھـ)
(۱۹)مسلسلات إبراہیم الکورانی: للعلامۃ المحدث إبراہیم بن حسن الکورانی (۱۰۲۵ – ۱۱۰۱ھـ)
(۲۰)الدرر البہیۃ فی المسلسلات النبویۃ: للعلامۃ المحدث الحبیب عبداللّٰہ بن احمد بن عبدالرحمن الفقہی العلوی الحسینی (ت ۱۱۱۲ھـ)
(۲۱)المواہب الجزیلۃ فی مسلسلات إبن عقیلۃ (مخطوط): للمسند محمد بن احمد بن عقیلۃ المکی الحنفی (ت ۱۱۵۰ھـ)
(۲۲)الموارد السلسلۃ فی الأحادیث المسلسلۃ: للإمام العلامۃ المسند محمد بن محمد بن موسی بن الطیب الشرقی الفاسی (۱۱۱۰- ۱۱۷۰ھـ)
(۲۳)الفضل المبین فی المسلسلات من حدیث النبی الأمین: وہو مطبوع: للعلامۃ المحدث الشیخ ولی اللّٰہ احمد بن عبدالرحیم الدہلوی (۱۱۱۴ – ۱۱۷۶ھـ)
(۲۴)التعلیقۃ الجلیلۃ علی مسلسلات إبن عقیلۃ (مخطوط): للإمام الحافظ السید محمد مرتضی الزبیدی (۱۱۴۵- ۱۲۰۵ھـ)
(۲۵)المسلسلات الرضویۃ: للمسند الشیخ محمد صالح البخاری الرضوی الحنفی (ت ۱۲۶۳ھـ)
(۲۶)مسلسلات إبن السنوسی: للإمام الکبیر أبی عبداللّٰہ محمد بن علی السنوسی الحسنی الخطابی الأثیر (۱۲۰۲ – ۱۲۷۶ھـ)
(۲۷)مسلسلات الباجوری (مخطوط): للعلامۃ الفقیہ شیخ الأزہر برہان الدین إبراہیم بن محمد بن احمد الباجوری (۱۱۹۸- ۱۲۷۷ھـ)
(۲۸)مسلسلات القاوقجی: للمحدث الفقیہ محمد بن خلیل القاوقجی الحنفی (۱۲۲۴ – ۱۳۰۵ھـ)
(۲۹)التحفۃ المدنیۃ فی المسلسلات الوتریۃ (مخطوط): للعلامۃ علی بن ظاہر الوتری ثم المدنی الحنفی (۱۲۶۱- ۱۳۲۲ھـ)
(۳۰)مسلسلات الوالد: للإمام المحدث عبدالکبیر بن محمد بن عبدالکبیر الحسنی إالادریسی الکتانی
تخریج ابنہ الحافظ محمد بن عبدالحی الکتانی رحمہ اللّٰہ تعالی۔ (۱۲۶۸- ۱۳۳۳ھـ)
(۳۱)إتحاف السادۃ المحدثین بمسلسلات الحدیث الأربعین: للعلامۃ المحدث أبی الإسعاد محمد مختار بن عطارد البوغری البتاوی (۱۲۷۸- ۱۳۴۹ھـ)
(۳۲)المناہل السلسلۃ فی الأحادیث المسلسلۃ: وہو مطبوع: للعلامۃ المسند عبدالباقی بن علی الأیوبی (۱۲۸۶- ۱۳۶۴ھـ)
(۳۳)الآیات البینات فی شرح وتخریج المسلسلات: وہو مطبوع: للقاضی عبدالحفیظ بن محمد بن الطاہر الفہری الفاسی (۱۲۹۶- ۱۳۸۳ھـ)
(۳۴)العجالۃ فی الأحادیث المسلسلۃ: وہو مطبوع: للعلامۃ المسند محمد یاسین بن محمد الفادانی المکی الشافعی (۱۳۳۵- ۱۴۱۰ھـ)
یہ کل چونتیس مجموعے ہیں، ان میں بعض وہ ہیں جن کا ذکر پہلے بھی کیا جاچکا ہے، اور کچھ نئے ہیں، اس میں مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے مجموعۂ مسلسلات کا ذکربھی موجود ہے، جس کا نام ’’الفضل المبین فی المسلسلات من حدیث النبی الامین صلی اللّٰہ علیہوسلم‘‘ ہے،یہ مجموعہ مسلسلات مطبوع ہے اور بر صغیر کے مدارس میں یہی مجموعہ پڑھا جاتاہے، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے، گزشتہ ڈھائی صدیوں سے ہمارے دیار میں قرآن وحدیث کے علوم کا جو چرچا ہے وہ سب حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ہی کی دین اور ان ہی کا فیض ہے، حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ کے تلمیذ رشید مفتی عنایت احمد کاکورویؒ فرماتے ہیں کہ’’ حضرت شاہ ولی اللہؒ شجرۂ طوبیٰ کی طرح ہیں کہ اس کی جڑ خود ان کے گھر میں ہے اور اس کی شاخیں تمام مسلمانوں کے گھروں تک پھیلی ہوئی ہیں، مسلمانوں کا کوئی گھر اورکوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس میں اس شجرۂ طوبیٰ کی کوئی شاخ نہ ہو، اکثر لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اس درخت کی جڑ جس سے ہم فیض اٹھارہے ہیں کہاں ہے‘‘،(بہ حوالہ مقدمۃ الفضل المبین) حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے علم حدیث مدینہ منورہ کے شیخ ابوطاہر محمد بن ابراہیم کردیؒ سے حاصل کیا، حرمین شریفین میں آپ کا قیام دوسال رہا، صاحب الیانع الجنی نے لکھا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے استاذ حضرت ابو طاہر کردیؒ فرمایا کرتے تھے کہ آپ مجھ سے الفاظ روایت کی سند لیتے ہیں اور میں آپ سے روایت کے معنی سمجھتا ہوں، حرمین شریفین سے واپسی کے بعد آپ نے دہلی میں علوم نبوت کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا، آپ کے صاحبزادوں اور شاگردوں کے ذریعے اِن کے علوم کا غلغلہ ہوا، آج جو کچھ دیار ہند میں بہارِ علم ہے وہ اسی شجرۂ طوبیٰ کے لطیف اور خنک جھونکوں کے اثر سے ہے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ہندوستان کے ان تمام حلقوں کو جو علم حدیث کی اشاعت میں مشغول ہیں لکھاکہ وہ اپنی اپنی سندیں ارسال کریں، ان کے جواب سے یہ منکشف ہوا کہ اہل ہند کی کوئی سند ایسی نہیں ہے جس میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا اسم گرامی مذکور نہ ہو۔ ( بہ حوالہ سابق)
حضرت محدث دہلویؒ کا یہ مجموعۂ مسلسلات تین کتابوں پر مشتمل ہے، ایک ’’الفضل المبین من حدیث النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ اس رسالے میں اکثر وہ مسلسل احادیث ہیں جو علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب المسلسلات الصغری میں ذکر کی ہیں یہ کتاب جیاد المسلسلات کے نام سے بھی مشہور ہے، دوسرا رسالہ ہے ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ اس میں حضرت شاہ صاحبؒ کے کشفی اور منامی مبشرات ہیں، اس رسالے میں چالیس روایات مذکور ہیں، تیسرا رسالہ ہے ’’النوادر من احادیث سید الاوائل والاواخر صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ اس رسالے میں وہ روایات ہیں جن کے راوی جنات ہیں، یاوہ روایات ہیں جن میں کسی نہ کسی حیثیت سے حضرت خضر علیہ السلام کا تذکرہ ہے، نیز وہ روایات بھی ہیں جن میں عمر رسیدہ شیوخ سے مصافحے کا ذکر ہے، اس طرح یہ تین رسالوںکا مجموعہ ہے جس کی ہمارے مدارس میں خواندگی ہوتی ہے اور شیخ وقت اپنے تلامذہ کو اس مجموعۂ مسلسلات کی اجازت عطا کرتا ہے۔
’’الفضل المبین‘‘ میں بانوے روایات مکمل اسناد کے ساتھ مذکور ہیں، ہم نے راوی اور روایت کی صفت اور حالت کے حوالے سے مسلسل حدیث کی جو قسمیں اور صورتیں ذکر کی ہیں ان بانوے روایات میں ان تمام قسموں اور صورتوں کی متعددمثالیں ملتی ہیں، بلکہ بعض دوسری صورتوں کی مثالیں بھی موجود ہیں مثلاً پہلی روایت جو حضرت شاہ ولی
اللہ محدث دہلویؒ نے الفضل المبین میںذکر فرمائی ہے وہ الحدیث المسلسل بالاولیۃ کے عنوان سے مشہور ہے، یعنی اس میں مسلسل سند کے ساتھ وہ حدیث ذکر کی گئی ہے جو کسی شاگرد نے اپنے استاذ سے سب سے پہلے سماعت کی ہے، وہ حدیث یہ ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’الراحمون یرحمہم الرحمن تبارک وتعالی ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء‘‘ (رحم کرنے والوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ رحم فرماتے ہیں، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا)یہ روایت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عبداللہ ابن عمر وابن العاص ؓنے روایت کی ہے، ان سے ابو قابوسؒ ( جو حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاصؓ کے آزاد کردہ غلام ہیں) نے اور ان سے عمر وبن دینارؒ نے اور ان سے سفیان بن عیینہ ؓ نے پہلی مرتبہ یہ حدیث سماعت کی، ان سے ان کے شاگرد نے اسی طرح حضرت محدث دہلویؓ نے سب سے پہلے یہ حدیث اپنے استاذ السیدعمر سے سماعت کی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین حدیث کی سماعت، نقل اور روایت کرنے میں کس قدر اہتمام کرتے تھے، انھیں یہ تک یاد رہتا تھا کہ انھوں نے کونسی حدیث سب سے پہلے اپنے استاذ سے سنی ہے، بہ ہر حال پوری کتاب میں اس طرح کی دل چسپ اور حیرت انگیز اسناد حدیث مذکور ہیں، ایک حدیث مسلسل ایسی ہے جس میں تمام شیوخ اپنے تلامذہ سے حدیث بیان کرنے سے قبل یہ لفظ ذکر کرتے ہیں ’’إنی احبک‘‘ (میں تجھ سے محبت کرتا ہوں) پھر روایت حدیث کرتے ہیں، ایک حدیثِ مسلسل کی سند میں تمام شیوخ حفاظِ حدیث ہیں، ایک حدیث ِمسلسل کی سند میں تمام شیوخ فقہائے احناف ہیں، ایک دوسری حدیثِ مسلسل کے تمام شیوخ فقہائے مالکیہ ہیں، ایک میں فقہائے شافعیہ ہیں، ایک میں اکثر شیوخ فقہائے حنابلہ ہیں، ایسی ہی کئی مسلسل سندوں کے تمام راوی صوفیائے کرام ہیں، ایسی روایات بھی ہیں جن کے تمام راوی مکہ مکرمہ کے باشندے ہیں، یا دوسرے شہروں کے رہنے والے ہیں، ایسی مسلسل احادیث بھی ہیں جن کے تمام راویوں نے وہ روایتیں اپنے والد سے روایت کی ہیں، دو اثر ایسے بھی ہیں جن کی سندوںکے مسلسل نو راویوں میں ابوت وبنوت کا رشتہ ہے، یعنی ہر راوی نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، اس طرح یہ تسلسل نوتک پہنچتا ہے، اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز وہ چہل حدیث ہے جس کی سند کی ایک ترتیب میں سات اور دوسری میں چودہ راوی ایسے ہیں جنھوں نے بہ تسلسل اپنے والد سے وہ حدیث سماعت کی ہے،گویا اس خاندان میں روایتِ حدیث کا سلسلہ بلا انقطاع چودہ پشتوں تک رہا، ایک حدیثِ مسلسل کے تمام راویوں کا نام محمد ہے، یا ان کی کنیت ابو محمد ہے ، ایک روایت کی سند میں تمام راویوں کا نام یاتو حَسَن ہے یا ان کی کنیت میں حَسَن موجود ہے، ایک مسلسل حدیث کی سند ایسی بھی مذکور ہے جس کے تمام راوی کسی نہ کسی عظیم صفت کے حامل ہیں، مثلاً کوئی حافظ حدیث ہے، کوئی مجتہدِ عصر ہے، کوئی محدث ہے، کوئی مفسر ہے، کوئی متکلم ہے، کوئی صوفی ہے، کوئی واعظ ہے ،ایک حدیث ِمسلسل کے تمام راوی شاعر ہیں، اس طرح یہ بانوے احادیثِ مسلسلہ ہیں جن کی سندمیں کوئی نہ کوئی حیرت انگیز چیز ملتی ہے، اور ان حیرت انگیز سندوں کا یہ تنوع در اصل محدثینِ عظام کے اس عشق ووارفتگی اور شیفتگی کا آئینہ دار ہے جو ان حضرات کو سید الکائنات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے تھی اور یہ بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ایک ادنیٰ مظہر ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی یہ روایات بہ طور تبرک ان سندوں کے ساتھ ہماری درس گاہوں میں پڑھی اورسنی جاتی ہیں اور اساتذہ وشیوخ اپنے شاگردوں کو ان کی اجازت دیتے ہیں۔
تین بڑے مدارس میں مسلسلات کا ختم بڑی پابندی کے ساتھ ہوتاہے، دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند، اور مظاہر علوم سہارنپورمیں، حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمیؒ دارالعلوم وقف میں، حضرت مولانا شیخ عبدالحق اعظمیؒ دارالعلوم دیوبندمیںاور حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ مظاہر علوم سہارنپور میںبرسہا برس تک مسلسلات ختم کراتے رہے ہیں۔ ان تینوں حضرات کی سندِ مسلسلات ایک واسطے سے حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری (صاحب بذل المجہود) سے ملتی ہے، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی نے اپنے والد محترم حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند سے اجازت حاصل کی ہے، احقر کے زمانۂ طالب علمی میں حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قدس سرہ ہی مسلسلات ختم کرایا کرتے تھے، احقرکو بھی حضرت ہی سے اجازت کا شرف حاصل ہے، دوسرے دونوں حضرات کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے اجازت ملی ہے، حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ کومسلسلات کی اجازت شاہ عبدالقیوم بڈھانویؒ سے حاصل ہے، ان کو حضرت شاہ اسحاق دہلویؒسے اجازت حاصل ہے، اسی طرح دوسری اجازت انھیں حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلویؒ سے حاصل ہے، حضرت شاہ عبدالقیوم بڈھانوی سے حضرت مولانا خلیل احمدؒ کو مسلسلات کے ان تینوں مجموعوں کے علاوہ الحدیث المسلسل بالضیافۃ بالتمر والماء کی اجازت بھی حاصل ہے،یہ حدیث حضرت شاہ ولی اللہ کے مجموعۂ مسلسلات میں شامل نہیں ہے، حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلویؒ سے الحدیث المسلسل باجابۃ الدعاء فی الملتزم کی اجازت بھی حاصل ہے، یہ حدیث بھی حضرت شاہ ولی اللہ کے مجموعۂ مسلسلات میں شامل نہیں ہے۔
اب کچھ وضاحت ان دو روایتوں کے سلسلے میں، اللہ تعالیٰ حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری ثم المدنیؒ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی ان تینوں کتابوں کو مطبوع اور مخطوط نسخوں سے ملاکر ایک مکمل اور منقح نسخہ تیار کردیا تھا، جو ۱۴۰۹ھ میں پہلی مرتبہ سہارن پور سے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلویؒ کے خلف الرشید حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب سہارن پوری نے اپنے مکتبے سے شائع کیا، بعد میں دوسرے اداروں سے بھی چھپا، اب اسی نسخے کی خواندگی ہوتی ہے، حضرت مولانا بلند شہری نے اس نسخے کی روایات کے تمام رواۃ پر کلام بھی کیا ہے، جس سے اس نسخے کی قدر وقیمت اور افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے، اس نسخے میں یہ دو روایتیں شامل نہیں ہیں، مگر ختمِ مسلسلات میں یہ دونوں روایات پڑھی جاتی ہیں اور ان کی اجازت دی جاتی ہے۔
پہلی روایت ہے الحدیث المسلسل بالضیافۃ بالأسودین یعنی اسودین سے ضیافت کرنے کی حدیث ِمسلسل، اسودین سے مراد یہاں کھجور اور پانی ہے، یہ ایک طویل حدیث ہے، جس کے راوی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور پانی سے ہماری ضیافت فرمائی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے لے کر دس آدمیوں تک کی ضیافت کرنے کا اجر وثواب بیان فرمایا، یہ حدیث بھی ہمارے دور کے محدثین تک مسلسل چلی آرہی ہے، اس حدیث کی خواندگی کے موقع پر شیوخ حدیث اپنے اپنے تلامذہ کی کھجور اور پانی سے ضیافت کرتے ہیں، الحمد للہ احقر کو بھی حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی مجلس درس میں اس ضیافت کا شرف حاصل ہوا ہے، یہ سلسلہ شیوخ وقت کے یہاں آج بھی جاری ہے، جب کہ اب تلامذہ کی تعداد بعض مدارس میں ہزار سے بھی تجاوز کرجاتی ہے، شرکاء کی کثرت کا سلسلہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کے زمانے سے شروع ہوا، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری نے بھی ۱۳۶۳ھ میں اس درس میں شرکت فرمائی، انھوں نے لکھا ہے: ’’کان یوم ہذا الدرس یوما مشہودا فی کل سنۃ یحضرہ المحدثون والمدرسون وطلبۃ علوم الحدیث وقد بلغ عدد الحاضرین فی السنین المتأخرۃ إلی مئات من الافاضل والأماثل‘‘ ہر سال جس دن یہ درس ہوتا تھا کافی بھیڑ ہوا کرتی تھی، اس درس میں محدثین اساتذہ اور طلبۂ حدیث شرکت کیا کرتے تھے، آخری سالوں میں تو فضلائے کرام اورعلمائے عظام کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی تھی‘‘۔
دوسری حدیث جس کا ذکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مجموعۂ مسلسلات میں نہیں ہے، ’’الحدیث المسلسل باجابۃ الدعاء فی الملتزم‘‘ کے عنوان سے معروف ہے، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے اس حدیث کی اجازت حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلویؒ سے حاصل کی ہے، اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عباسؓ ہیں، فرماتے ہیں: ’’ سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: الملتزم موضع یستجاب فیہ الدعاء، مادعا اللّٰہ فیہ عبد إلاَّ استجابہا قال ابن عباس: فواللّٰہ ما دعوت اللّٰہ عزوجل فیہ إلا استجاب لی منذ سمعت ہذا من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ (میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ملتزم دعا قبول ہونے کی جگہ ہے، جو بندہ بھی اس جگہ اللہ سے دعا کرتا ہے اللہ اس کی دعا قبول فرماتا ہے، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم جب سے میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے، میں نے جب بھی ملتزم پر دعا مانگی اللہ نے میری دعا قبول فرمائی) یہ روایت حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے ہوتی ہوئی حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ دہلوی تک پہنچی، اور ان سے ہمارے زمانے کے شیوخ تک پہنچی،تمام حضراتِ شیوخ اس حدیث کی روایت کرتے ہوئے یہی الفاظ دہراتے ہیں، یہی الفاظ حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ نے بھی حضرت مولانا خلیل احمد صاحبؒ کے سامنے ادا فرمائے، وأنا واللّٰہ دعوت اللّٰہ عزوجل فاستجاب لی (اور میں نے بھی خدا کی قسم اللہ عزوجل سے( ملتزم پر)دعا کی اور اللہ نے میری دعا کوبھی قبولیت عطا فرمائی)
رہا یہ سوال کہ ختمِ مسلسلات کے اس سلسلے سے، اور اس کے لیے اس قدر اہتمام سے کیا فائدہ ہے، اس سلسلے میں علماء نے لکھا ہے کہ اس سلسلے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ اس سے امت کے اس ذوق کا پتہ چلتاہے کہ وہ اپنے آقا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنے لیے دین ودنیا کی سعادت سمجھتی ہے، مسلسلات میں سلسلۂ سند آج کے طالبانِ حدیث کا متعدد واسطوں سے بلا انقطاع سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے جاملتا ہے، سلسلۂ سند بھی اس امت کی خصوصیات میں سے ہے، او رہم اپنے اس عمل کے ذریعے اس خصوصیت کو دوام اور بقاء دینا چاہتے ہیں، اس سے بڑھ کر سعادت کیا ہوسکتی ہے، سند کے اتصال سے تدلیس اور انقطاع کی گنجائش نہیں رہتی جو سند کے بڑے عیوب شمار کئے جاتے ہیں، خاص طورپر ان روایات میں جن میں اخبرنی، حدثنی، وغیرہ جیسے الفاظ ہوتے ہیںان میںتدلیس وانقطاع جیسے عیوب کی گنجائش بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے، پھر اس میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کا موقع بھی ملتا ہے، خاص طورپر اس وقت جب شیخ وہی کلمات دوہراتا ہے جو اس نے اپنے شیخ سے سنے، اور انھوں نے اپنے شیخ سے، اوریہ سلسلہ کسی نہ کسی صحابی کے واسطے سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تک منتہی ہوتاہے، اس طرح شیخ وہ عمل بھی کرتا ہے جو اس نے روایت کے وقت اپنے شیخ کو کرتے ہوئے دیکھا، اور شیخ نے اپنے شیخ کو، یہاں تک کہ صحابیؓ نے جو اس سلسلے کے آخری راوی ہوتے ہیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عمل کرتے ہوئے دیکھا، ختمِ مسلسلات کا یہ فائدہ بھی کچھ کم نہیں کہ اس کے ذریعے طلبہ کو علماء کی مجالسِ درس میں شرکت کرنے اوران سے علمی فائدہ اٹھانے کا موقع حاصل ہوتاہے۔
جہاں تک احادیثِ مسلسلہ کی صحت اور ضعف کا معاملہ ہے، اس سلسلے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ حدیث مسلسل بقرأۃ سورۃ الصف، حدیث مسلسل بالحفاظ، اور حدیث ِمسلسل باوّلیۃ السماع مسلسلات کی صحیح ترین حدیثیں ہیں، حافظ سخاویؒ نے سورۂ صف کی حدیث ِمسلسل کو صحت میں پہلے درجے پر اور اوّل سِماع کی حدیث ِمسلسل کو دوسرے درجے پر رکھا ہے، حافظ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ مسلسلات کی زیادہ تر حدیثیں ناقابل اعتبار ہیں، کیوں کہ ان کے رواۃ میں کذب پایا جاتا ہے، البتہ سورۂ صف کی حدیث مسلسل، اسی طرح دمشقیوں، مصریوں اور محمد نام کے رواۃ کی احادیثِ مسلسلہ باعتبار سند مضبوط ہیں، حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری نے ان احادیثِ مسلسلہ کی سندوں کے ایک ایک راوی پر کلام کیا ہے، اوراگر کسی راوی میں کوئی عیب ہے تو اس کی نشان دہی بھی کی ہے، اس سلسلے میں مزید تفصیلات کے لیے حافظ سخاوی کی فتح المغیث، اور علامہ سیوطیؒ کی تدریب الراوی دیکھی جاسکتی ہے، حافظ ابن صلاح نے اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں، امام نووی نے ’’الارشاد‘‘ میں، حافظ ابن الملقن نے ’’المقنع‘‘ میں خاصی بحث کی ہے، الباحث الحثیث فی اختصار علوم الحدیث کامبحث ’’الحدیث المسلسل‘‘ بھی قابل مطالعہ ہے۔
اس سلسلے میں فیصلہ کن بات وہی ہے جو حافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے ہمارے زمانے کے محدث، مفسر اور مصنف حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہریؒ نے لکھی ہے، الفضل المبین کے مقدمے میں ارشاد فرماتے ہیں، کہ بعض اوقات مسلسل حدیثیں ضعیف بھی ہوتی ہیں بلکہ موضوع بھی ہوتی ہیں، اس کے باوجود ان کی روایت کی جاتی ہے ، کیوں کہ ضعیف احادیث کی روایت ضعف کی نشان دہی کے بعد جائز ہے، بلکہ ترغیب وترہیب، وعظ وتلقین، قصص اور فضائل واعمال اور مناقب میں تو ضعف کی نشان دہی بھی ضروری نہیں ہے، موضوع حدیث کی روایت بھی جائز ہے اگر یہ بتلادیا جائے کہ یہ حدیث موضوع ہے، البتہ اس طرح کی موضوع روایات سے استدلال کرنا کسی بھی طورجائز نہیں ہے۔ (الفضل المبین ص: ۲۶) یہاں حافظ ابن صلاح کا یہ ارشاد بھی اہمیت کا حامل ہے کہ کسی روایت میں ضعف کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اصل متن میں ضعف ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضعف جہت تسلسل میں موجود ہے، اس طرح کی روایات فی الجملۃ صحیح بھی ہوسکتی ہیں، اورکبھی کوئی روایت باعتبار متن کے بھی ضعیف ہوتی ہے۔ (مقدمہ ابن الصلاح ص: ۲۷۷)
[email protected]
Comments are closed.