آقاﷺکاآخری پیغام
سمیع اللہ ملک
ہرعقل وشعوراورسمجھ بوجھ رکھنے والایہ بات جانتاہے کہ کسی بھی مکان یاجگہ کوفضیلت،مقام،مرتبہ اورعظمت وبلندی اس کے مکین کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔اسی لئے یہ مثال مشہورہے کہ’’شرف المکانِ بِالمکِینِ‘‘یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے کی وجہ سے ہوتی ہے،پھرجب قرآن نے مکین کی عظمت پریہ مہرثبت کردی:
اگرانہوں نے یہ طریقہ اختیارکیاہوتاکہ جب یہ اپنے نفس پرظلم کربیٹھے تھے توتمہارے پاس آجاتے اوراللہ سے معافی مانگتے، اوررسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا، تو یقینااللہ کوبخشنے والااوررحم کرنے والاپاتے۔(النسا:64)
میرے آقاﷺکومعراج سے پہلے تمام انبیا کی امامت کاشرف بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جس مکان کے مکین ہیں تووہ مکان ان کے قدموں کی برکت پاکریقیناافضل واعلی ہو گیا اوروہ مقام ہے ہمارے پیارے نبیﷺکامبارک روضہ،کہ جس پرگنبدِخضری اپنی بہاریں لٹارہاہے۔یقیناگنبدِخضری کے مکینﷺکے وجودِمسعودنے اس مقام کوبھی افضل واعلیٰ بنادیا،اسی لئے اس کی زیارت کرنا، وہاں جاناافضل عبادات میں سے ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہماکے غلام حضرت نافع ؒنے حضرت عبداللہ ؓبن عمرکو100مرتبہ سے بھی زیادہ باردیکھاکہ آپ روضہ رسول پرسلام عرض کرنے کیلئے حاضری دیا کرتے ۔ حضرت محمد بن منکدؒرفرماتے ہیں:ایک بار میں نے حضرت جابربن عبداللہ ؓ کودیکھاکہ وہ رسول اللہﷺکی قبرِانورکے قریب روتے ہوئے عرض کر رہے تھے:یہی وہ مبارک جگہ ہے جہاں آنسوبہائے جاتے ہیں،میں نے رسول اللہﷺسے سناہے: میری قبراورمیرے منبرکے درمیان کاحصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
مؤذنِ رسول حضرت بلال ؓجن دنوں ملکِ شام میں رہاکرتے تھے،آپ کوایک دن خواب میں رسول اللہﷺکی زیارت ہوئی تورسول اللہﷺنیارشادفرمایا: اے بلال!یہ بے رخی کیسی؟تم ہم سے ملاقات کرنے نہیں آتے؟حضرت بلال ؓبیدارہوگئے۔آپ نے فورارختِ سفر باندھا اور اللہ پاک کے حبیب ﷺکی بارگاہ میں حاضری کے لئے روانہ ہو گئے۔ وفا الوفامیں ہے:حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے مزارِپرانوارپرحاضرہوکرروناشروع کیااوراپنا منہ آقاﷺ کی قبرپر ملتے تھے۔
روضہ مبارکہ میں نبی کریم،حضرت ابوبکرصدیق اورحضرت عمربن خطاب کی قبریں موجود ہیں۔روضہ مبارکہ جسے حجرہ نبویہ شریفہ کہاجاتاہے،اس میں نبی کریمﷺام المومنین عائشہؓ صدیقہ کے ہمراہ رہاکرتے تھے۔اس کادروازہ مسجد نبوی کے اس حصے کی طرف کھلاکرتاتھاجسے جنت کی کیاری ہونے کااعزازحاصل ہے۔ نبی کریم کاانتقال اسی حجرہ مبارکہ میں ہوا ۔ صحابہ کرام رضون اللہ اجمعین نے مشورہ کیاکہ پیغمبراسلام کوکہاں دفن کیاجائے، اس پرابوبکرؓصدیق نے رسول اللہ کی ایک حدیث کاحوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ نبی کامدفن وہی مقام ہوتاہے جہاں اس کی روح قبض کی جاتی ہے۔ارشادرسالت کی تعمیل میں رسول اللہ کی تدفین اسی حجرہ مبارکہ میں ہوئی جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔
یہ حجرہ ام المومنین عائشہؓ صدیقہ کاتھا۔وہ حجرہ مبارکہ کے شمالی حصے میں قیام پذیررہیں۔پھرجب ابوبکرؓ صدیق کاانتقال ہواتوعائشہؓ صدیقہ کی اجازت سے ان کی تدفین بھی حجرہ مبارکہ میں رسول اللہ کے پہلوہی میں کی گئی۔رسول کی قبراوران کی رہائش کے درمیان کوئی دیواریارکاوٹ نہیں تھی۔عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ حجرہ مبارکہ میں ایک طرف توان کے شوہراور دوسری جانب ان کیوالدتھے لہذاحجاب کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن جب عمرؓفاروق کاانتقال ہوااورانہیں حضرت ابوبکر ؓصدیق کے پہلومیں دفنایاگیاتوانہوں نے اپنی رہائش والے حصے اورقبروں کے درمیان پردے کاانتظام کرلیاکیونکہ عمرؓفاروق محرم نہیں تھے۔
آج اللہ کی عطاکردہ توفیق سے ایک مجرم کی حیثیت سے اپنے آقاﷺکے حضورسلام کیلئے حاضری کاجب موقع ملاتونجانے کیوں پسینہ سے شرابورگھبراہٹ اورخوف سے جہاں ساراجسم کانپ رہاتھاوہاں اپنے آقاﷺکے احسانات،رحمت العالمین کی اپنی امت سے محبت کے مناظرنے میرااحاطہ کیاہواتھاکہ اچانک مجھے اپنے آقاکی زندگی کے آخری لمحات یادآگئے کہ آپﷺاس وقت بھی اپنی امت کی بخشش کیلئے اپنے رب سے مناجات فرمارہے تھے۔
وفات سے3روزقبل حضوراکرم ﷺام المومنین حضرت میمونہ ؓکے گھرتشریف فرماتھے،آپﷺنے تمام ازواجِ مطہرات کوبلاکردریافت فرمایاکیاتم سب مجھے اجازت دیتی ہوکہ بیماری کے یہ ایام میں عائشہ ؓکے ہاں گزار لوں؟سب نے بیک زبان کہا:اے اللہ کے رسول آپ کواجازت ہے۔پھراٹھناچاہالیکن اٹھ نہ پائے توحضرت علیؓ اورحضرت فضلؓ بن عباس آگے بڑھے اورنبیﷺکوسہارے سے اٹھاکرسیدہ میمونہ ؓکے حجرے سے سیدہ عائشہ ؓکے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔اس وقت صحابہ کرام ؓنے حضوراکرم ﷺکواس (بیماری اورکمزوری کے)حال میں پہلی باردیکھاتوگھبراکرایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ رسول اللہﷺکوکیاہوا؟صحابہ کرام کی کثیرتعدادفوری طورپرمسجدمیں جمع ہوگئی۔آقا ﷺ کاپسنہ شدت سے بہہ رہاتھا۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کااتناپسینہ بہتے نہیں دیکھا۔میں رسول اللہﷺکے دست مبارک کوپکڑتی اوراسی کوچہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبیﷺکاہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اورپاکیزہ تھا۔حبیب خداﷺسے بس یہی وردسنائی دے رہاتھاکہ لالہ لااللہ،بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔
اسی اثنامیں مسجدکے اندرآنحضرتﷺکے باریمیں خوف کی وجہ سے لوگوں کاشوربڑھنے لگا۔نبیﷺنے دریافت فرمایایہ کیسی آوازیں ہیںعرض کیاگیاکہ اے اللہ کے رسول ﷺ!تمام اصحابہ آپ کی حالت سے خوفزدہ ہیں۔ارشادفرمایا:مجھے ان کے پاس لے چلو ۔ اٹھنے کاارادہ فرمایالیکن اٹھ نہ سکے توآپ ﷺپر7مشکیزے پانی کے بہائے گئے،تب کہیں جاکرکچھ افاقہ ہواتوسہارے سے اٹھاکر ممبرپرلایاگیا۔یہ میرے آقاﷺکا آخری خطبہ تھااورآپ کے آخری کلمات تھے:اے لوگو!شائدتمہیں میری موت کاخوف ہے۔ سب نے سرجھکائے کہاکہ:جی ہاں،اے اللہ کے رسول ﷺ۔
ارشادفرمایا:اے لوگو!تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیانہیں،تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض(کوثر)ہے،اللہ کی قسم گویاکہ میں یہیں سے اسے(حوض کوثر کو)دیکھ رہاہوں۔اے لوگو!مجھے تم پرتنگدستی کاخوف نہیں بلکہ مجھے تم پردنیا(کی فراوانی)کا خوف ہے،کہ تم اس(کے معاملے)میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤجیساکہ تم سے پہلے(پچھلی امتوں )والے لگ گئے، اوریہ(دنیا)تمہیں بھی ہلاک کردے جیساکہ انہیں ہلاک کردیا۔اے لوگو:نمازکے معاملے میں اللہ سے ڈرواوراس کوتین مرتبہ دہرایا ۔پھرفرمایا:اے لوگو ! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرویعنی عہدکروکہ میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔نمازکی پابندی کروگے،اوریہی بات بارباردہراتے رہے۔
مزیدفرمایا:اے لوگو!ایک بندے کواللہ نے اختیاردیاکہ دنیاکوچن لے یااسے چن لے جواللہ کے پاس ہے،تواس نے اسے پسندکیا جو اللہ کے پاس ہے۔اس جملے سے حضورﷺکا مقصد کوئی نہ سمجھاحالانکہ ان کی اپنی ذات مرادتھی جبکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ وہ تنہاشخص تھے جو اس جملے کوسمجھے اورزاروقطاررونے لگے اوربلندآوازسے گریہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اورنبی اکرمﷺکی بات قطع کرکے پکارنے لگے:ہمارے ماں باپ،داداآپ پرقربان،ہمارے بچے آپ پرقربان،ہمارے مال ودولت آپ پرقربان،روتے ہوئے بار بار یہی دہراتے رہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم(ناگواری سے)حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکی بات کیسے قطع کردی؟اس پرنبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کادفاع ان الفاظ میں فرمایا:اے لوگو!ابوبکرکوچھوڑدوکہ تم میں سے ایساکوئی نہیں کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بھلائی کی ہواورمیں نے اس کا بدلہ نہ دے دیاہو، سوائے ابوبکرکے کہ اس کابدلہ میں نہیں دے سکا،اس کابدلہ میں نے اللہ جل شانہ پرچھوڑدیا۔مسجد(نبوی)میں کھلنے والے تمام دروازے بندکردیے جائیں،سوائے ابوبکرؓکے دروازے کے کہ جوکبھی بندنہ ہوگا۔آخرمیں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کیلئے آخری دعاکے طورپرارشادفرمایا:اللہ تمہیں ٹھکانہ دے،تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔اورآخری بات جومنبرسے اترنے سے پہلے امت کومخاطب کرکے ارشادفرمائی:اے لوگو!قیامت تک آنے والے میرے ہرایک امتی کومیراسلام پہنچادینا، پھر آنحضرتﷺکودوبارہ سہارے سے اٹھاکرگھرلے جایاگیا۔
اسی اثنامیں حضرت عبدالرحمن ؓبن ابی بکر خدمت اقدس میں حاضرہوئے اوران کے ہاتھ میں مسواک تھی،نبی اکرم ﷺمسواک کودیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے چنانچہ سیدہ عائشہ ؓ حضوراکرمﷺ کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اورانہوں نے حضرت عبدالرحمنؓ سے مسواک لے کرنبی کریمﷺکے دہن مبارک میں رکھ دی،لیکن حضورﷺ اسے استعمال نہ کرپائے توسیدہ عائشہؓنے حضوراکرمﷺسے مسواک لے کراپنے منہ سے نرم کی اورپھرحضورنبی کریمﷺکولوٹادی تاکہ دہن مبارک اس سے تررہے۔فرماتی ہیں: آخری چیزجونبی اکرمﷺکے پیٹ میں گئی وہ میرالعاب تھا،اوریہ اللہ تبارک وتعالی کامجھ پرفضل ہی تھاکہ اس نے وصال سے قبل میرااور نبی کریم ْ کالعاب دہن یکجاکردیا۔
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ عمزیدارشادفرماتی ہیں:پھرآﷺکی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تشریف لائیں اورآتے ہی روپڑیں کہ نبی کریم ﷺاٹھ نہ سکے،کیونکہ نبی کریم ﷺکامعمول تھاکہ جب بھی فاطمہ ؓتشریف لاتیں،حضوراکرم ﷺان کے ماتھے پربوسہ دیتے تھے۔حضورﷺنے فرمایا:اے فاطمہ!قریب آجاؤ۔۔۔۔۔۔۔پھرحضورﷺنے ان کے کان میں کوئی بات کہی توحضرت فاطمہؓ اورزیادہ رونے لگیں،انہیں اس طرح روتادیکھ کرحضورﷺنے پھرفرمایا:اے فاطمہ! قریب آؤ۔۔۔۔دوبارہ ان کے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تووہ خوش ہوگئیں۔حضور اکرم ﷺکے وصال کے بعدمیں نے سیدہ فاطمہ ؓسے پوچھاکہ وہ کیابات تھی جس پرآپ روئیں اورپھرخوشی کااظہارکیاتھا؟سیدہ فاطمہؓ کہنے لگیں کہ پہلی بار(جب میں قریب ہوئی)توفرمایا:فاطمہ!میں آج رات(اس دنیاسے)کوچ کرنے والاہوں جس پرمیں رودی۔جب انہوں نے مجھے بے تحاشاروتے دیکھاتوفرمانے لگے ، فاطمہؓ!میرے اہل خانہ میں سب سے پہلے تم مجھے آملوگی،جس پرمیں خوش ہوگئی۔سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں پھرآنحضرت ﷺنے سب کوگھرسے باہرجانے کاحکم دیکرمجھے فرمایا: عائشہ!میرے قریب آجاؤ۔آنحضرت ﷺنے اپنی زوج مطہرہ کے سینے پرٹیک لگائی اورہاتھ آسمان کی طرف بلند کرکے فرمانے لگے:مجھے وہ اعلی وعمدہ رفاقت پسندہے۔(میں اللہ کی،انبیا،صدیقین،شہدااورصالحین کی رفاقت کواختیارکرتاہوں)۔صدیقہ عائشہ ؓفرماتی ہیںمیں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کوچن لیاہے۔
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضرہوکرگویاہوئے:یارسول اللہ!ملک الموت دروازے پرکھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔آپﷺنے فرمایا:جبریل!اسے آنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک الموت نبی کریمﷺکے گھرمیں داخل ہوئے اورکہا:السلام علیک یارسول اللہ!مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئے بھیجاہے کہ آپ دنیامیں ہی رہناچاہتے ہیں یااللہ سبحانہ وتعالی کے پاس جاناپسندکرتے ہیں؟نبی اکرمﷺنے جواب میں فرمایاکہ مجھے اعلیٰ وعمدہ رفاقت پسندہے
اور دوبارہ اپنی اس خواہش کودہرایا:ملک الموت آنحضرت ﷺکے سرہانے کھڑے ہوئے اورکہنے لگے:اے پاکیزہ روح!اے محمدبن عبداللہ۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی رضاوخوشنودی کی طرف روانہ ہو،راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جوغضبناک نہیں!
سیدہ عائشہ ؓفرماتی ہیں:پھرنبی کریم ﷺ کاہاتھ نیچے آن رہا،اورسرمبارک میرے سینے پربھاری ہونے لگا،میں سمجھ گئی کہ آنحضرتﷺکاوصال ہوگیا۔مجھے اورتوکچھ سمجھ نہیں آیا، سو میں اپنے حجرے سے نکلی اورمسجدکی طرف کا دروازہ کھول کراندرسے کہا۔۔۔۔رسول اللہ کاوصال ہوگیا۔۔۔۔۔رسول اللہ کاوصال ہوگیا!مسجد آہوں اورنالوں سے گونجنے لگی۔ ادھرعلیؓ کرم اللہ وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ادھرعثمان بن عفان ؓمعصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے اورسیدناعمرؓتلواربلندکرکے کہنے لگے:خبردار! جو کسی نے کہاکہ رسول اللہﷺوفات پاگئے ہیں،میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا،میرے آقاتواللہ تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے،وہ لوٹ آئیں گے،بہت جلدلوٹ آئیں گے!اب جووفات کی خبراڑائے گا،میں اسے قتل کرڈالوں گا۔اس موقع پر سب زیادہ ضبط،برداشت اورصبرکرنے والی شخصیت سیدناابوبکرصدیق ؓ کی تھی۔آپ حجر نبوی میں داخل ہوئے رحمت دوعالم ﷺکے سینے مبارک پرسررکھ کررودیئے اورساتھ ہی کہہ رہے تھے: وآآآخلیلاہ،وآآآصفیاہ،وآآآحبیباہ،وآآآنبیاہ۔۔۔۔ہائے میرے پیارے دوست،ہائے میرے مخلص ساتھی،ہائے میرے محبوب،ہائے میرے نبی ،پھرآنحضرتﷺ کے ماتھے پربوسہ دیااورکہا:یا رسول اللہ!آپ پاکیزہ جئے اورپاکیزہ ہی دنیاسے رخصت ہوگئے۔سیدنا ابوبکرؓباہرآئے اورخطبہ دیا:جوشخص محمدﷺکی عبادت کرتاہے سن رکھے کہ آنحضرتﷺکاوصال ہوگیا اور جواللہ کی عبادت کرتاہے وہ جان لے کہ اللہ تعالی شانہ کی ذات ہمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔یہ سنتے ہی سیدناعمر ؓ کے ہاتھ سے تلوارگرگئی، عمرؓ فرماتے ہیں:پھرمیں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگاجہاں اکیلابیٹھ کرروں۔ آنحضرت ﷺکی تدفین کردی گئی۔
سیدہ فاطمہ ؓفرماتی ہیں:تم نے کیسے گواراکرلیا کہ نبی اکرمﷺکے چہرہ انورپرمٹی ڈالو؟پھرفرمانے لگیں: یابتاہ، جاب ربادعاہ،یا بتاہ، جن الفردوس مواہ، یا بتاہ،ال جبریل ننعاہ۔۔۔۔۔۔ہائے میرے پیارے بابا جان!کہ اپنے رب کے بلاوے پرچل دیے ،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کوپہنچ گئے،ہائے میرے پیارے باباجان،کہ ہم جبریل کوان کے آنے کی خبردیتے ہیں۔اللھم صل علی محمدکماتحب وترضا۔
امت کیلئے اصل اوربہترین پیغام تویہ ہے کہ ہم اپنے آقاﷺ کی زندگی،ان کی تعلیمات اوررحمتوں کویادکریں۔اس موقع پران کی سنتوں اورمعاشرتی اقوال کواپنی زندگیوں کا اوڑھنا بچھونابنانے کاعہدکریں کہ ہم ان کے انعامات اوررہنمااصولوں کواپناکراپنی باقی ماندہ زندگی گزاریں گے۔ہم سب یہ عزم کریں کہ ہم سیرت النبی کی روشنی سے اس دنیاکی ظلمتوں کودورکریں گے۔ہم دنیا بھرمیں اپنے کردارسے امن،اخوت اورمحبت کااستعارہ بن کریہ پیغام دیں کہ ہمارے آقاﷺنے اپنے آخری سانسوں میں بھی دنیاکی فلاح، عورتوں کی بھلائی اورحفاظت کاحکم دیاہے،ظلم وجبرکے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارکاسبق دیاہے تاکہ دنیامیں سب کوجینے کاحق مل سکے اورانسانیت بلاجبروکراہ کے آشتی ومحبت کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق اداکریں۔
روضہ رسول پرحاضری کی سعادت حاصل کرتے ہوئے اوربطورامتی پیغامبرِاسلامﷺکے احسانات کویادکرنے اوران کی شان وشوکت کویادکرنے کاعظیم طریقہ تویہ ہے کہ ہم ان کی عالمی اخلاقی اورانسانی حقوق کواپنے زندگیوں میں منتقل کریں،ہم ان کے پیغام کودنیاکے ہرکونے تک پہنچانے کاعملی ثبوت دیں تاکہ دنیاسیرت النبی کی روشنی اوررحمت کوچھو سکے ۔اس موقع پرہمیں اپنی زندگیوں کودوسروں کی مدداورخدمت کیلئے وقف کرنے کاعزم کرناچاہئے۔ہمیں اپنے گھروں،اجتماعات میں امن،اخوت اورمحبت کوفروغ دینے کیلئے پہلے خوداپنی زندگی کوتبدیل کرنے کی محنت کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنے آقاﷺکے پیغامات کوعملی شکل دے کردوسروں کوبتاسکیں جوپیغامبرِاسلام نے ہمیں دیے ہیں۔
ہمارے آقاﷺکاسب سے بڑامعجزہ توقرآن مجید ہے جس کے من وعن حفاظت کی ذمہ داری خودرب کریم نے روزِقیامت تک کیلئے اپنے ذمے لے رکھی ہے،اس کے بعد ہمارے آقاکی زندگی کی سیرت کے تمام لمحات بھی ہمارے پاس محفوظ ہیں۔قرآن میں ہمیں آیت الکرسی جیسی عظیم آیت رب کریم کی طاقت اورکمال کی تعریف سے آشناکرتی ہے اورایک پیغام دیتی ہے کہ اللہ کی ذات میں کمال اورقدرت ہے جوکہ عالمی امن کی اہمیت کوبنیاداوراہمیت کوظاہرکیاگیاہے اوراسی پیغام کومیرے آقانے اپنے امتیوں کیلئے چھوڑا ہے ۔
بروزمنگل۲۵رجب المرجب۱۴۴۵ھ۶فروری۲۰۲۴ء
مدینہ منورہ سعودی عرب
Comments are closed.