Baseerat Online News Portal

لوک سبھا کے انتخابات:سیکولرازم بنام ہندوراشٹر

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
آج ہندوستان کی سیاست سیکولرازم اورہندوراشٹرکے تصادم کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ دراصل جب سے نریندرمودی کی حکومت برسراقتدار ہوئی ہے تب سے بی جے پی نے آرایس ایس کے ہندو راشٹر کے ایجنڈا کو آہستہ آہستہ بہت سنجیدگی اورایمانداری سے نافذ کرنا شروع کردیاتھا۔ اس کیلئے بہت دوراندیشی سے اس سمت میں اقدام کئے گئے۔ 2014 میں بی جے پی نے بظاہر ڈیولپمنٹ (تعمیروترقی) کے مدعے پر چناؤ لڑا۔ یوپی اے حکومت میں چل رہی بدعنوانی کی تشہیر کرکے اَنّااورکجریوال کی تحریک میں تعاون کرکے بی جے پی نے عوام کو اپنے حق میں لام بند کیا۔ آرایس ایس کا رکنان نے گھرگھرجاکر مسلمانوں کاخوف دلاکر بی جے پی کی تشہیر کی۔ بی جے پی نے میڈیا (پرنٹنگ اورالیکٹرانک )میڈیا پر مکمل طور پر قبضہ کرکے اُسے گودی میڈیا بنادیا۔
میڈیا نے چوبیس گھنٹہ مسلمان اورایک مسلم پڑوسی ملک کے خلاف مباحثہ کراکر برادران وطن کے دماغ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھول دیا اور دونوں قوموں کے بیچ پہلے سے ہی جوتاریخی نفرت موجود تھی اُس کو مزید گہرا کردیا۔ نتیجتاً رائے دہندگان کی تقطیب میں وہ کامیاب ہوئے اوربھاری اکثریت سے فتحیاب ہوئے۔اُس دور میں نوٹ بندی اورجی ایس ٹی کے نفاذ سے عام عوام پریشان توہوئی لیکن پلوامہ میں ہمارے فوجیوں کی شہادت اورپاکستان کی سرزمین پر سرجیکل اسٹرائیک نے حالات کو بی جے پی کیلئے سازگار بنادیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ستیہ پال جیسے بی جے پی لیڈر نے اُن واقعات کی کچھ اورہی کہانی بتائی۔
بہرحال پولورائزیشن کا مقصد پورا ہوگیا اورجوبچی کھچی کمی رہ گئی تھی اسے ای وی ایم مشین نے پورا کردیا۔ بی جے پی 2019 میں مزید اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ اب 2024 کے عام انتخابات میں کامیابی کیلئے بی جے پی نے کوئی کثرنہیں چھوڑ رکھی ہے۔ ای ڈی اورسی بی آئی کی مدد سے ’انڈیااتحاد‘کے لیڈروں کو ڈرایادھمکایاجارہاہے۔ اگرحزب مخالف کے بدعنوان لیڈربی جے پی خیمہ میں چلے جاتے ہیں تو اُن کے خلاف کوئی جانچ نہیں ہوتی ، گویاکہ این ڈی اے میں شامل ہونے کے بعد ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔ دوسری مخالف جماعتوں کی ریاست میں حکومتوں کو غیرمستحکم کرنا اورایم ایل اے کی خریدوفروخت کرکے بی جے پی حکومت کی تشکیل کرنا بھی ان کی ایک حکمت عملی ہے۔ یہ کام اس نے کرناٹک ،گووا ،مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں میں کیاہے۔
رام مندر کے افتتاح کی تاریخ آنے والے لوک سبھا انتخابات کے پروگرام کے مدنظر طے کی گئی تھی۔ اگررام مندر کی ’پران پرتشٹھا‘ کانگریس کررہی ہوتی تو نہ صرف بی جے پی بلکہ عوام کی اکثریت کی تنقید کا وہ بری طرح نشانہ بنی ہوتی۔ مثال کے طور پر نامکمل مندر کی ’پران پرتشٹھا ‘کیسے ہوسکتی ہے، یہ کام شاستروں کے خلاف ہے ، شنکر آچاریوں کی غیرموجودگی میں یہ کام کیسے ہوگیا، ’پران پرتشٹھا‘ میں سرکاری عملہ کو کیوں لگایاگیا، اس پروگرام میں ملک کی صدر دروپدی مرمو کو کیوں نہیں دعوت دی گئی ، عام عوام کو اس پروگرام میں کیوںنہیں شامل کیاگیا، پروگرام میں مرکزی وزرا ء کو کیوں نہیں آنے دیاگیا، وزیراعظم کو تنہا کیوں نمایاں کیاگیا، جس انداز میں پروگرام منعقد ہواسیکولرازم کے اصولوں کے خلاف ہے، اس طرح کی تنقیدیں خوب چل رہی ہوتیں۔
مہاراشٹر،بنگال اوربہار ایسی ریاستیں ہیں جہاں پر بی جے پی کے حالات سازگار نہیں تھے ۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے بی جے پی کافی بے چین تھی کیونکہ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ بھارت جوڑو یاترا نے کانگریس کی مقبولیت میں کافی اضافہ کیاتھا۔ دوسری مخالف پارٹیوں نے کانگریس کی کامیابی سے حوصلہ پاکر انڈیا اتحاد کی تشکیل کی۔ یہ اتحاد بی جے پی کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا۔ چنانچہ بی جے پی نے اس میں درار پیدا کرنے کی کوشش کی اوراس میں کامیاب بھی رہی۔
جس طرح بی جے پی نے مہاراشٹرکی ’مہا وکاس اگھاڑی حکومت‘کو غیر مستحکم کیا اور شیوسینا اوراین سی پی میں درار پیداکرکے اورایم ایل اے کی خریدوفروخت کرکے اپنی حکومت بنائی ایسی مثال کہیں ملنی مشکل ہے۔ بی جے پی نے کہناشروع کیاتھا کہ مہاراشٹر کی مہا وکاس اگھاڑی حکومت بدعنوان ہے۔ جن لوگوں پر بدعنوانی کا الزام تھا جیسے شندے ، اجیت پوار ،بی جے پی کے پالے میں جاکر ان کے سارے گناہ دھل گئے۔ نہ ای ڈی اُن سے پوچھ گچھ کررہی ہے اورنہ ہی سی بی آئی یاانکم ٹیکس اُن کو کوئی نوٹس دے رہاہے۔ اِن واقعات کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے اپنی حمایت یافتہ حکومت بنانے کیلئے دیوندر فرڈنویس جو کہ ریاست کے وزیراعلیٰ تھے اُن کونائب وزیراعلیٰ کے عہدے پر تنزلی دی اوروزیراعلیٰ منقسم شیوسینا کے لیڈر شندے کو بنایا۔
بنگال میں کانگریس اورترنمول کانگریس کی نشستوں کی تقسیم کے معاملے میں تنازعہ اس قدر بڑھا کہ ممتابنرجی نے اعلان کردیاکہ ترنمول کانگریس تنہا لوک سبھا چناؤ لڑے گی۔ اگردونوں جماعتوں میں مفاہمت کے بعد اس طرح کا فیصلہ ہواہوتاتو کوئی حرج نہیں تھالیکن اتحاد کی پارٹیوں کامتصادم ہونا کوئی اچھی خبرنہیں ہے۔ یہ سبھی چیزیں این ڈی اے کو الیکشن میں فتحیاب ہونے کیلئے قوت بخش رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاست میں دوستی یادشمنی کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا اس لئے ممتابنرجی کے اعلان کے باوجود کانگریس کے ساتھ نشستوں پر قرار ہوسکتاہے ۔ ویسے بھی کانگریس نے اس معاملے میں نرم رویہ اختیار کیاہے لیکن ممتاکے اس اعلان سے کانگریس فکرمند ہے۔ راہل گاندھی نے ممتاکو اپنا قریبی بتاتے ہوئے انہیں بنگال کا ایک قدآور لیڈر قرار دیا ہے۔ دراصل ایودھیا اوررام مندر کے اثر کی بھی ممتا کو زیادہ فکر نہیںہے کیونکہ مغربی بنگال شروع سے ہی دیگر ریاستوں کے مقابلے کافی حدتک سیکولر رہاہے۔ دراصل یہاں مذہب کی بنیاد پر پولورائزیشن کا سلسلہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں شروع ہوا اوراس کا فائدہ بی جے پی کو ہندی زبان بولنے والوں کے علاقوں میں ضرور ہوا۔ ایودھیا مندر کے ’پران پرتشٹھا ‘کااثربھی بنگال کے ان ہی علاقوں میں دیکھنے کو ملا اوراس سے لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کی کچھ نہ کچھ نشستیں ضرور بڑھیں گی۔
اِدھر چند دنوں سے بہار کی سیاست ابال پر ہے۔ راتوں رات نتیش کمار بہار کے مہاگٹھ بندھن اور’انڈیا اتحاد ‘چھوڑ کر این ڈی اے میں شامل ہوگئے ا ورانہوں نے این ڈی اے کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف لے لیاہے۔ ان کا مہاگٹھ بندھن چھوڑنے کا سبب پریوار واد تبصرے پر اور نتیش کمار کے بدلتے نظریات پرجے ڈی یو اورآر ایل ڈی کے بیچ تنازعہ تھا۔ علاوہ ازیں انڈیا اتحاد میں سیٹ تقسیم پر بھی جے ڈی یو اورکانگریس میں اتفاق نہیں پیدا ہوپارہاتھا۔ نتیش کمار دراصل اپنے کو وزیراعظم کے عہدے کے طو رپر پیش کئے جانے کے حق میںتھے جس کا انہوں نے کھل کر اظہار نہیں کیاتھا۔ بہرحال ان واقعات نے انڈیا اتحاد کو مزید کمزور کیاہے۔ مرکزی حکومت کی ریاست کی کانگریس حکومتوں کو غیرمستحکم کرنے اوراُسے گرانے کی مہم جاری ہے۔ای ڈی کی مدد سے وزیراعلیٰ جھارکھنڈ ہیمت سورین مستعفی ہوکر گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ اب اگلا نشانہ دہلی کے وزیراعلیٰ کجریوال ہیں۔ ایک اچھی خبریہ ہے کہ یوپی میں سماجوادی پارٹی ، جس کاانڈین نیشنل لوک دل سے سمجھوتہ ہوچکاہے ، نشستوں کی تقسیم سے متعلق کانگریس سے بھی قرار ہوجانے کی پوری توقع ہے۔ ایودھیا کے ’پران پرتشٹھا‘کے پروگرام کا بائیکاٹ کرکے کانگریس نے اپنے سیکولر رخ کو واضح کردیاہے اورعوام کو یہ سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے کہ آئین اورجمہوریت کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

Comments are closed.